Wednesday 31 December 2014

( حصّہ اوّل ) عالم ارواح میں جلسہ میلاد النبی ﷺ

0 comments
( حصّہ اوّل ) عالم ارواح میں جلسہ میلاد النبی ﷺ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ عہد تعظیم رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، اتباعِ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آقا علیہ السلام پر ایمان لانے اور حضور علیہ السلام کے مشن کی نصرت کرنے کا لیا جا رہا ہے۔ اور نہ صرف اپنی ذات کی حد تک بلکہ ان سے یہ بھی عہد لیا جا رہا ہے کہ میرے محبوبِ آخر الزماں علیہ السلام کی بعثت کا ڈنکا بھی تم اپنے اپنے زمانے میں اپنی اپنی اُمت کے سامنے بجاتے جاؤ گے۔ ہر نبی کی ذمہ داری ہوگی کہ اپنی امت کو اپنی نبوت رسالت کے ذریعے میری توحید کا پیغام پہنچائے اور اپنی تعلیمات پہنچائے جو میں نے دی ہیں، مگر اصل آنے والا جس کی خاطر پوری بزمِ کائنات سجائی گئی ہے، اور تمہارے سروں پر نبوت و رسالت کا تاج رکھا گیا ہے، نعمت نبوت سے سرفراز کیا گیا اور تمہارے اعزازِ رسالت سے بہرہ یاب کیا گیا ہے، آنے والا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعد میں آ رہا ہے۔ اگر کسی کو وہ زمانہ مل جائے تو ہر ایک کا فرض ہے کہ اس پر ایمان لائیں۔ ارشاد فرمایا :

وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ لَمَا آتَيْتُكُم مِّن كِتَابٍ وَحِكْمَةٍ ثُمَّ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ وَلَتَنصُرُنَّهُ قَالَ أَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَى ذَلِكُمْ إِصْرِي قَالُواْ أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْهَدُواْ وَأَنَاْ مَعَكُم مِّنَ الشَّاهِدِينَ.

آل عمران، 3 : 81

’’اور (اے محبوب! وہ وقت یاد کریں) جب اﷲ نے انبیاء سے پختہ عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کر دوں، پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی تو ضرور بالضرور ان پر ایمان لاؤ گے اور ضرور بالضرور ان کی مدد کرو گے، فرمایا : کیا تم نے اِقرار کیا اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا؟ سب نے عرض کیا : ہم نے اِقرار کر لیا، فرمایا کہ تم گواہ ہو جاؤ اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوںo

آیت مبارکہ کے الفاظ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِ کے ذریعے اﷲ تبارک و تعاليٰ نے انبیاء کرام علیھم السلام کی نبوتوں کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان کے ساتھ مشروط کر دیا اور ان کی رسالتوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی خدمت کے ساتھ مشروط کر دیا کہ تم سب اس نبی پر ایمان لاؤ گے اور ان کی نصرت ومدد کرو گے۔ یہاں تک مضمونِ میثاق کا بیان تھا۔ اب وہ بحث آگے آ رہی ہے جس کی خاطر تقابل مقصود ہے۔ یعنی ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ (پھر تمہارے پاس وہ (سب پر عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تشریف لائے جو ان کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو جو تمہارے ساتھ ہوں گی)۔ اس سے ایک ختم نبوت کی بات بھی صراحتًا ثابت ہوگئی اور یہ بھی کہ نبی وہی حق تھے جو آقا علیہ السلام سے پہلے آچکے۔ چونکہ آقا علیہ السلام کے لئے اﷲ تعاليٰ نے ثُمَّ جَآءَ کُمْ فرمایا۔ جب آقا علیہ السلام کی بعثت ہوگئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام انبیاء و رسل علیھم السلام جو پہلے آ چکے تھے سب کی تصدیق فرما دی تو اس کے بعد کوئی گنجائش کسی کے لئے نہیں ہے۔ پھر جو بھی آئے گا وہ جھوٹا مدعی ہوگا۔ تمہارے بعد وہ آئے گا اور تمہاری نبوتوں اور رسالتوں کی تصدیق فرما دے گا۔ اب تم اس بات کا عہد اور وعدہ کرو کہ اس پر ایمان بھی لاؤ گے اور اس کی مدد بھی کرو گے۔
میثاقِ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اِقرار کا تقابلی فرق

اب سورۃ آل عمران کی اِسی آیت نمبر 81 کے اگلے الفاظ قَالَ ءَ اَقْرَرْتُمْ سے اقرار کا فرق بتایا جار ہا ہے۔ اب غور کریں کہ اُسلوب کتنا بدل گیا ہے۔ پہلے اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی کے ذریعے اپنی توحید اور قطع شرک کا اقرار کروایا ہے۔ وہاں ایک جملے کا مضمون تھا۔ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا : ہاں! ہمارا رب ہے؛ اور اس پر فرشتوں کو کہا کہ تم گواہی دو، خود نہیں گواہ بنا۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ خود گواہ نہیں بنا۔ فرشتے گواہ ہوگئے، انبیاء علیھم السلام کی باری آئی تو فقط ان سے نبوت کا میثاق لیا اور فقط اتنا کہا کہ ان کی اُمت کے اولیاء و صادقین قیامت کے دن اُن کے گواہ ہوں گے۔ بس اتنا مختصر مضمون تھا میثاقِ توحید اور میثاقِ نبوت کا۔

اب انبیاء اور رسل عظام علیھم السلام سے میثاقِ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب وقت آیا تو ان سے جو اقرار کروانا تھا کروا لیا۔ فرمایا : ءَ اَقْرَرْتُمْ (کیا تم نے اِقرار کیا)؟ کیا یہ بات اپنی توحید کے میثاق کے وقت پوچھی تھی؟ نہیں، انہوں نے کہا تھا : بَلٰی (جی ہاں)۔ اس پر فرشتے گواہ ہوگئے۔ لیکن کیا ان سے تکرار کے ساتھ پوچھا تھا کہ کیا تم اقرار کرتے ہو؟ اِسی بَلٰی کو اقرار سمجھ لیا گیا۔ انبیاء علیھم السلام سے جب میثاقِ نبوت لیا گیا تو کیا ان سے دوبارہ کوئی بات پوچھی تھی؟ نہیں! ان کے میثاق پر کہا : ان کی امت کے اہل صدق قیامت کے دن گواہ ہوں گے۔ لیکن جب میثاقِ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات آئی تو چونکہ اس میں آقا علیہ السلام کی آمد، بعثت، میلاد اوردنیا میں تشریف آوری کی بات ہو رہی تھی تو فرمایا : ’’ءَ اَقْرَرْتُمْ : کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو کہ میرے محبوب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت پر ایمان بھی لاؤ گے اور ان کی رسالت کے مشن کی مدد بھی کرو گے؟‘‘ مزید پوچھا : وَاَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ إِصْرِی (اور اس (شرط) پر میرا بھاری عہد مضبوطی سے تھام لیا) کہ اس پر قائم رہو گے؟) اب بتایئے کیا کسی کے پھر جانے کا ڈر تھا؟ یہ عہد تو انبیاء علیھم السلام سے لیا جا رہا ہے کوئی عام نسل بنی آدم سے نہیں۔ پھر اس نے اپنی توحید کا اقرار لے کر اور انبیاء سے ان کی نبوتوں کا میثاق لے کر تکرار کے طور پر ان سے کوئی ایسی بات نہیں کہی۔ مگر جب میثاق رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری آئی ہے تو پوچھا : کیا، اقرار کرتے ہو؟ پہلا اقرار تو اس میثاق کے اندر آ ہی گیا تھا۔ دوسری بار پوچھا۔ کیا اس بات کا اعلان اور اقرار کرتے ہو؟ جواب دیا : جی ہاں! اقرار کرتے ہیں۔ پھر تیسری بار یہی پوچھا : کیا اس بات کا کہ میرے محبوب پر ایمان لاؤ گے اور ان کے پیغمبرانہ مشن کی مدد کرو گے اور ان کی نبوت و رسالت کی اتباع کرو گے اور اپنی امتوں میں ان کی آمد کے ڈنکے بجاؤ گے، کیا اس کا میرے ساتھ پختہ وعدہ کرتے ہو؟ انہوں نے کہا : باری تعاليٰ ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں، اعلان کرتے ہیں، تیری ذات کے ساتھ پختہ وعدہ کرتے ہیں۔ پھر فرمایا : تم خود گواہ ہو جاؤ۔ آپ غور فرمائیں کتنے غیر معمولی اقدام کیے جا رہے ہیں۔ کتنی شرائط عائد کی جا رہی ہیں اور اس کو کتنا پختہ بنایا جا رہا ہے۔ پھر فرمایا : فَاشْهَدُوْا اگر میرے ساتھ اقرار کرتے ہو اور اس بات کا اعلان کر کے پختہ وعدہ کرتے ہو تو پھر گواہ ہو جاؤ۔ سب نے کہا : باری تعاليٰ! ہم تیرے حضور اپنے قول اور اپنے اقرار پر خود گواہ ہو گئے۔ اور پھر اس نے کہا : وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰهِدِيْنَ، اب تمہاری گواہی پر میں خود گواہ بنتا ہوں۔ جب میثاق توحید اور انبیاء علیھم السلام سے میثاق نبوت کا وقت تھا تو رب ذوالجلال خود گواہ نہیں بنے مگر جب رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد و میثاق کا وقت آیا تو ربِ کائنات نے سب نبیوں کو بھی گواہ بنایا اور پھر ان پر خود اپنی ذات کو اس میثاقِ نبوتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر گواہ بنایا۔ اور پھر اگلی آیت میں پوری نسلِ آدم کے لیے تنبیہاً فرمایا :

فَمَن تَوَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَـئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ.

آل عمران، 3 : 82

’’پھر جس نے اِس (اِقرار) کے بعد روگردانی کی پس وہی لوگ نافرمان ہوں گےo‘‘
نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء علیھم السلام کی نبوت کا واسطہ

اب اس سے جو چیز میری سمجھ میں آئی ہے اور جو معنی و مفہوم اور مراد میں نے اخذ کیا ہے اور وہ بغیر کسی شک و شبہ کے عین سیاق و سباقِ قرآنی کے عین مطابق ہے۔ وہ یہ کہ اس آخری حصے کا اشارہ اِس اَمر کی طرف تھا کہ سن لو! تم نے جو مجھ سے رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت کا وعدہ کیا ہے، یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایمان کے تصدق سے میں تمہیں نبی بنا رہا ہوں۔ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کے وسیلے سے تمہیں رسول بنا رہا ہوں۔ اگر تم میرے محبوب کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے کا وعدہ نہ کرو تو تم میں سے جو جو وعدہ نہیں کرے گا میں اُس کے سر پر نبوت کا تاج نہیں رکھوں گا۔ گویا سب انبیاء علیہم السلام کی نبوتیں نبوتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے ہیں۔ سب رسولوں کی رسالتیں رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے اور وسیلے سے ہیں۔ جو نظامِ رسالت بپا ہوا کائنات میں وہ بھی نبوت و رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ ہے۔ تو اگر واسطہ اور وسیلہ نبوتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نہ ہو تو نظامِ نبوت ہی بپا نہ ہوتا، نظامِ رسالت ہی بپا نہ ہوتا۔ تو اللہ تبارک و تعاليٰ نے اِس بات پر تاکید کے طور پر یہ کلمات ارشاد فرمائے۔ سیدنا مولی علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ دونوں سے یہ روایت مذکور ہے۔ فرمایا :

مَا بَعَثَ اﷲ نبيًّا مِنَ الأنبياءِ اِلَّا أخَذَ عَلَيْهِ الْمِيْثَاق، لئن بعث اﷲ محمدا وهو حي ليؤمنن به ولينصرنه، وأمره أن يأخذ الميثاق علی أمته، لئن بعث محمد وهم أحياء ليؤمنن به ولينصرنه.
ابن جوزی، زاد المسير، 1 : 416
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 378

’’اللہ تبارک و تعاليٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام میں سے جس بھی نبی کو دنیا میں مبعوث کیا، تو اُس کی بعثت سے پہلے اُس سے یہ عہد لیا کہ اگر تیری زندگی میں میرے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگئے تو تم ان پر ایمان لاو گے اور ان کے دین کی اتباع کرو گے۔ نیز ہر نبی کو یہ حکم دیا گیا کہ جب دنیا میں جائیں تو اپنی امت سے بھی یہ عہد لیں کہ اگر اُن کی زندگی میں نبی آخر الزماں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت ہو جائے تو اُن پر ایمان لے آئیں اور ان کے دین کی پیروی کریں۔‘‘

علامہ ابن تیمیہ بھی ’’دقائق التفسير (1 : 334)‘‘ میں روایت کرتے ہیں کہ ہر نبی اپنے اپنے زمانے میں اپنی امت سے یہ عہد لیتا رہا کہ اگر تم لوگ زندہ ہوئے اور تمہارے زمانے میں نبی آخر الزماں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آ گئے تو پھر میرے کلمے کے پیچھے نہ پڑے رہنا، پھر مصطفی ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کا امتی ہو جانا۔ اُن پر ایمان لے آنا کہ اُس میں ہماری نبوتوں کے سارے دھارے نبوت و رسالتِ محمدی کے سمندر میں ضم ہو جائیں گے۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ اس حدیث کے راوی ہیں، اور امام ابو یعلی نے اپنی مسند میں اِس حدیث کو روایت کیا ہے اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں روایت کیا اور امام دارمی نے اپنی سنن میں روایت کیا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا :

لَا تَسْئَلُوْا اَهْلَ الْکِتَابِ عَنْ شَيْئٍ فَإِنَّهُمْ لَنْ يَهْدُوْکُمْ وَقَدْ ضَلُّوْا وَإِنَّکُمْ إِمَّا أَنْ تَصَدَّقُوْا بِبَاطِلٍ وَإِمَّا أَنْ تُکَذِّبُوْا بِحَقٍّ.

احمد بن حنبل، المسند، 3 : 338

’’اہل کتاب سے کسی ِچیز سے متعلق استفسار نہ کرو کیونکہ وہ تمھیں ہر گز صحیح رہنمائی نہیں کریں گے، وہ تو گمراہ ہو چکے ہیں، اور اب تم پر ہے کہ چاہے باطل کی تصدیق کرو، چاہے حق کی تکذیب کر دو۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

فإنه واﷲ! لو کان موسی حيًّا بين أظهُرِکم ما حل له إلا أن يتبعني.
ابو يعلی، المسند، 4 : 102، رقم : 2135
ابن الجوزی، الوفا بأحوال المصطفیٰ صلی الله عليه وآله وسلم : 361

’’خدا کی عزت کی قسم! اگر آج (جب میں مبعوث ہوا ہوں) تمہارے معاشرے میں موسی علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو اُن کے پاس کوئی اور راستہ نہ ہوتا سوائے میری اتباع کرنے کے۔‘‘

یہ حدیث صحیح ہے جس کو امام ابو یعلی، امام احمد بن حنبل، امام دارمی اور دیگر سب ائمہ نے، سندِ صحیح اور حسن کے ساتھ روایت کیا۔ امام بزار نے بھی اِس کو روایت کیا۔ پھر بعض احادیث میں یہ بھی ہے کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا :

لَوْ کَانَ مُوْسَی وَ عَيْسَی حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِي.

ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 378

’’اگر حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہما السلام حیات ہوتے تو ان کے لئے میری اتباع کے سوا کوئی راستہ نہ ہوتا۔‘‘

اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ عالمِ ارواح میں انبیاء علیہم السلام کے مبعوث ہونے سے پہلے انہوں نے اِس اقرار اور میثاق کے ذریعے آقا علیہ السلام کی نبوت و رسالت پر ایمان کا اقرارکر لیا تھا اور اس کا گواہ خود رب کائنات ہو گیا تھا۔ لہٰذا تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امام الانبیاء ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے بھی نبی ہیں اور کائناتِ انسانی کی سب امتوں کے بھی نبی ہیں اور سب انبیاء اور رسولوں کے بھی نبی ہیں۔ آقا علیہ السلام کی رسالت کا سائبان کل کائناتِ رسالت کے اوپر سایہ فگن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعاليٰ نے فرمایا :

ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 100

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَـؤُلاَءِ شَهِيدًا.

النساء، 4 : 41

’’پھر اس دن کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور (اے حبیب!) ہم آپ کو ان سب پر گواہ لائیں گےo‘‘

آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام چونکہ سب انبیاء علیہم السلام کے گواہ و امام اور سب انبیاء علیہم السلام کے نبی ہیں، سب امتوں کے نبی ہیں، اس لیے اللہ تبارک و تعاليٰ نے اس منظر کو عملاً بھی دو مرتبہ بپا کر دیا تاکہ وہ جو حقیقت ہے اُس کا ظہور دنیا میں بھی ہو جائے اور آخرت میں بھی ہو جائے۔ کُل انبیاء کی کثرت مبعوث ہوئی تھی بیت المقدس اور بلادِ شام، اُردن، فلسطین اور ملحقہ علاقوں میں۔ اکثریت انبیاء کی وہاں مبعوث ہوئی تھی اور انبیاء علیہم السلام کے دو گروہ ہوگئے تھے۔ وہ دو گروہ کس طرح؟ ا ن کے سفر کے اعتبار سے، ہجرتوں کے اعتبار سے، ابراہیم علیہ السلام نے جب سر زمین مکہ میں کعبہ تعمیر کر لیا تو چونکہ ہر نبی کو یہ بات معلوم تھی کہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ اور ہر نبی اس بات کا عہد و پیماں کر چکا تھا۔ ہر نبی ان پر ایمان لانے کا اقرار کر چکا تھا۔ ہر نبی کے سامنے عظمتِ رسالتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُجاگر تھی اور بہت سے انبیاء علیہم السلام ایسے گزرے جو آقا علیہ السلام کی اُمت میں ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی آرزو کرتے رہے۔ جیسا کہ قرآن مجید نے کہا :

اَلَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهُ مَکْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰةِ وَ الْاِنْجِيْلِ.

الأعراف، 7 : 157

’’(یہ وہ لوگ ہیں) جو اس رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی پیروی کرتے ہیں جو امی (لقب) نبی ہیں (یعنی دنیا میں کسی شخص سے پڑھے بغیر منجانب اللہ لوگوں کو اخبارِ غیب اورمعاش و معاد کے علوم و معارف بتاتے ہیں) جن (کے اوصاف و کمالات) کو وہ لوگ اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔‘‘

یعنی آقا علیہ السلام کے تذکرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کا تذکرہ، ولادت کے شہر مکہ کا تذکرہ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کا تذکرہ، ہجرت کے شہر مدینہ کا تذکرہ، مدینہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کے ہونے کا تذکرہ، اور مکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوان ہونے کا تذکرہ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کمالات، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سُنتیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خصائل حمیدہ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخلاق، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طور طریقے ساری نعتیں، ساری صفتیں، سارے وصف، سارے تذکرے، تورات، انجیل سمیت ہر نبی کی کتاب میں موجود تھے۔ اور تمام انبیاء آقا علیہ السلام کے تذکرے پڑھ پڑھ کے اپنی اُمتوں کو بتاتے تھے۔ یہودیوں تک کو یاد تھے، وہ اپنے بچوں کو آقا علیہ السلام کی شان کے تذکرے یاد کراتے تھے۔ اور ان کا یہ خیال تھا کہ شاید حضور علیہ السلام بھی بنی اسرائیل سے آئیں گے چونکہ حضرت عیسيٰ علیہ السلام تک سب انبیاء بنی اسرائیل سے آ ر ہے تھے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔