Sunday 14 December 2014

( حصّہ سوم آخری حصّہ )“بریلوی ” دور حاضر میں اہلسنت کا علامتی نشان ھے ۔

0 comments

( حصّہ سوم آخری حصّہ )“بریلوی ” دور حاضر میں اہلسنت کا علامتی نشان ھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تیسراشعبہ

اکابر دیوبند کی بعض وہ عبارتیں جن میں انہوں نے رسول پاکﷺ کی شان مبارک میں صریح گستاخیاں کی تھیں اور ضروریات دین کا انکار کرکے دین سے خود اپنا رشتہ منقطع کرلیاتھا، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے ان توہین انگیز عبارتوں پر ان کا مواخذہ فرمایا اور ان سے توبہ کا مطالبہ کیا، آگے چل کر اس مطالبہ میں سادات حرمین طیبین اور بلاد عرب کے مشاہیر علماء و مشائخ بھی شریک ہوگئے اور اس طرح یہ کل عالم اسلام کا مطالبہ بن گیا… لیکن حق کے آگے جھکنے میں ان حضرات نے عار محسوس کیا اور نمائش دنیا کو فلاح آخرت پر ترجیح دی، نہ ان اہانت آمیز عبارتوں کو اپنی کتابوں سے حذف کیا اور نہ ہی ان سے رجوع فرمایا۔ بلکہ آج تک وہ ان اہانت آمیز عبارتوں کی اشاعت کرکے اہل اسلام کے جذبات کو مجروح کررہے ہیں۔

اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل عبارتیں بطور مثال پیش کی جاسکتی ہیں۔

(1) دیوبندی مذہب کے پیشوا… مولانا اشرف علی صاحب تھانوی نے اپنی کتاب حفظ الایمان میں حضور نبی پاکﷺ کے علم شریف کو زوائل اور حیوانات وبہائم سے تشبیہ دے کر شان رسالت میں صریح توہین کا ارتکاب کیا۔

(2) براہین قاطعہ مصنفہ مولانا خلیل احمد صاحب انبیٹھوی و مصدقہ مولانا عبدالرشید صاحب گنگوہی میں ایک توہین آمیز عبارت لکھی گئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ روئے زمین کی بابت حضورﷺ کا علم شریف شیطان و ملک الموت کے علم سے کم ہے بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ شیطان و ملک الموت کے علم کی وسعت نص (قرآن و حدیث) سے ثابت ہے۔ حضور پاکﷺ کی وسعت علمی پر کوئی دلیل نہیں۔ پس شیطان کے مقابلے میں جو حضورﷺ کی وسعت علمی کا عقیدہ رکھتا ہے وہ مشرک ہے۔

(3) بانی دارالعلوم دیوبند… مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں اس امر کی صراحت فرمائی کہ آیت قرآنی میں لفظ ’’خاتم النبیین‘‘ سے حضورﷺ کو آخری نبی سمجھنا یہ عوام کالتعام کا، شیوہ ہے امت کے قابل اعتماد طبقے کا یہ عقیدہ نہیں ہے۔ دوسری جگہ لکھا کہ حضورﷺ کے بعد بالفرض کوئی نیا نبی پیدا ہو جب بھی حضورﷺ کی خاتمیت میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔

(4) دیوبندی مذہب کے پیشوا مولوی اشرف علی تھانوی کے ایک مرید نے عین حالت بیداری میں بہ سلامتی ہوش و حواس انہیں نبی کہہ کر انہیں بایں الفاظ میں درود بھیجا اللھم صلی علی سیدنا ونبینا اشرف علی اور ایسا کئی بار کیا اور عذر لنگ یہ تراشا کہ مجبور ہوں، بے اختیار ہوں، زبان اپنے قابو میں نہیں اور واقعہ کی یہ تفصیل اپنے پیر تھانوی صاحب کو لکھ بھیجی۔ بجائے اس کے کہ پیر صاحب اسے تنبیہ کرتے اسے توبہ کراتے اس کی حوصلہ افزائی فرمائی اور اسے تسلی دی (رسالہ الامداد بابت ماہ صفر 1336ھ)

ان عبارتوں پر شرعی مواخذات کی تفصیل

ان حفظ الایمان کی عبارت پر اعلیٰ حضرت نے یہ مواخذہ فرمایا کہ اس میں لفظ ایسا کے ذریعے حضور ﷺ کے علم پاک کو زوائل اور حیوانات وبہائم کے علم کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور یہ امر مابین عقلا و اہل لسان مسلم ہے کہ زوائل کے ساتھ تشبیہ میں توہین کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا اس عبارت میں علم نبوت کی صریح توہین ہے اور توہین شان نبوت چونکہ کفر ہے اس لئے قائل کو توبہ صحیحہ شرعیہ تجدید اسلام کرنا چاہئے۔

(2) براہین قاطعہ کی عبارت پر اعلیٰ حضرت نے تین الزامات قائم فرمائے۔ پہلا الزام تو یہ ہے کہ اس میں شیطان و ملک الموت کے مقابلے میں حضورﷺ کے علم پاک کی تنقیص کی گئی ہے اور نبی کے علم کی تنقیص ازروئے کتاب و سنت و باتفاق مشاہیر اسلام کفر ہے۔

دوسرا الزام یہ ہے کہ اس عبارت میں شیطان و ملک الموت کی وسعت علمی کو نص سے (قرآن و حدیث) سے ثابت مانا گیا اور حضورﷺ کی وسعت علمی کے لئے دلیل کا کلیۃ انکار کردیا گیا جو خلاف واقعہ ہونے کے علاوہ شیطان اور ملک الموت کے مقابلے میں نبیﷺ کی تنقیص کا موجب بھی ہے۔ تیسرا الزام یہ قائم فرمایا کہ اس عبارت میں نبی کی وسعت علم کے اعتقاد کو شرک قرار دیا گیا لیکن شیطان و ملک الموت کے حق میں یہی وسعت علم کا اعتقاد عین اسلام بن گیا۔ اب حقیقت کا فیصلہ دو حال سے خالی نہیں یا تو یہ کہا جائے کہ کتاب کے مصنفین نے شرک کا حکم غلط لگایا ہے اور اگر صحیح لگایا ہے تو یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ لوگ شیطان و ملک الموت کو خدا کا شریک سمجھتے ہیں۔

(3) تحذیر الناس کی عبارت پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا الزام یہ ہے کہ اس میں لفظ خاتم النبیین سے حضورﷺ کو آخری نبی سمجھنا عوام کا خیال بتایا گیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حقیقت امر اور قرآن و حدیث کے مفاد کے اعتباد سے حضور آخری نبی نہیں ہیں کیونکہ مصنف کے نزدیک حقیقت امر اور قرآن و حدیث کی رو سے بھی اگر حضورﷺ آخری نبی ہوتے تو یہ ہرگز نہ کہا جاتا کہ حضورﷺ کو آخری نبی سمجھنا عوام کاخیال ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضور کے آخری نبی ہونے کا انکار اسلام میں صریح کفر ہے۔

اور دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ حضورﷺ کے بعد بھی بالفرض کوئی نبی پیدا ہو تو حضورﷺ کی خاتمیت میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ اس بات کو ہم پہلی بات کا لازمی نتیجہ کہہ سکتے ہیں یعنی جب ان کے نزدیک حضورﷺ آخری نبی نہیں ہیں تو ظاہر ہے کہ بغیر کسی قباحت شرعی کے حضورﷺ کے بعد دوسرا نبی آسکتا ہے کیونکہ مانع حضورﷺ کا ’’آخر‘‘ ہونا تھا اور جب اسی کا انکار کردیا گیا تو مانع کہاں رہا…

لہذا جس نئے نبی کو بالفرض کی صورت میں تسلیم کیا گیا تھا جب وہ مفروضہ نبی، غلام احمد کی صورت میں واقع ہوگیا تو اب عقیدہ ختم نبوت کی بنیاد پر اہل دیوبند اس کا کیونکر انکار کرسکتے ہیں؟

(4) الامداد کی عبارت پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا الزام یہ ہے کہ غیر نبی کو نبی کہنا کفر ہے اور کفر کی حوصلہ افزائی اور اپنی خوشنودی کا اظہار بھی کفر ہے لہذا قائل بالکفر اور راضی بالکفر دونوں ایک ہی الزام کی زد میں ہیں۔ باقی رہے گا زبان کے بے قابو ہونے کا عذر تو کفر اور ناروا کلمات منہ سے نکالنے کے لئے شریعت اس طرح کا عذر لنگ ہرگز تسلیم نہیں کرتی۔

اختصار کے ساتھ مذکورہ بالا عبارتوں پر اعلیٰ حضرت کے شرعی الزامات کی جو میں نے تشریح کی ہے اس کی روشنی میں اہل علم حضرات غور فرمائیں کہ اعلیٰ حضرت نے ان لوگوں سے توبہ ورجوع کرنے کا جو فیصلہ فرمایا تھا وہ معقول بنیاد پرمبنی تھا یا بے بنیاد تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوتھا شعبہ

اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی علمی خدمات کا چوتھا شعبہ وہ مذہبی اور اخلاقی اصلاحات ہیں جو مسلم معاشرہ میں پھیلی ہوئی غلط رسموں اور برائیوں کے خلاف اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے انجام دیئے اور ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر نئے مسائل پر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی وہ بلند پایہ تحقیقات اور فکری نوادرات ہیں جنہیں دیکھ کر علمائے عرب نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی فقہی بصیرتوں اور علمی عظمتوں کا لوہا مان لیا۔

معاملات و عبادات میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جن اغلاط و مفاسد کی اصلاح فرمائی، وہ ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے اعلیٰ حضرت کے فتاوے میں جگہ جگہ بکھری ہوئی ہیں۔ اگر انہیں منتخب کرکے ایک جگہ جمع کردیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے خاص طور پر فتاویٰ رضویہ کے وہ مباحث جو محافل میلاد، اعراس، زیارت قبور، مراسم محرم اور خوشی و غمی میں غلط رسم و رواج اور غیر اسلامی امور کی اصلاحات پر مشتمل ہیں وہ ان لوگوں کے منہ پر بھرپور طمانچہ ہیں جو اعلیٰ حضرت کو بدعت نواز کہتے ہیں۔

اس مقالے کی آخری سطریں لکھتے ہوئے اپنے عنوان کے متعلق وہ لفظ کہنا چاہتا ہوں، یہ بات اب محتاج بحث نہیں کہ پاک وہند میں اپنے آپ کو حنفی کہنے والے دو بڑے مکاتب فکر میں منقسم ہوگئے ہیں۔ بریلوی مکتبہ فکراور دیوبند مکتبہ فکر۔ میرا یہ مقالہ دونوں مکتبہ فکر کے تقابلی مطالعہ پر مشتمل ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا آپ ہی کے ذمے ہے کہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے اہل دیوبند کے مقابلے میں جن عقائد و اعمال کی حمایت کی ہے اگر وہی اہلسنت کا مذہب ہے تو لازما یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ بریلوی مکتبہ فکر ہی مذہب اہلسنت کا صحیح ترجمان ہے۔

پس دعا کیجئے کہ مولائے کریم اس امام اہلسنت کے مرقد پر صبح و شام اپنی رحمتوں کے پھول برسائے جس کا نام احمد رضا علیہ الرحمہ ہے اور جس نے اپنے ناموس کو خطرے میں ڈال کر اپنے آقا کے ناموس کا تحفظ کیا اور پھر جس نے اپنے محبوب کی خوشنودی کے آگے کسی کی خوشنودی کی پرواہ نہیں کی۔ اپنے سلطان کا ایک مستغنی گدا جس نے ارباب سیر وکلاہ کی طرف کبھی نگاہ نہیں اٹھائی، حق کا ایک بے لوث علمبردار جسے زمانہ کسی قیمت پربھی خرید نہیں سکا۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔