Sunday 14 December 2014

صحابہ کرام رضی اللہ عنیھم کا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم

0 comments
صحابہ کرام رضی اللہ عنیھم کا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم : فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی اہل اسلام کی خدمت میں عرض گذار ہے : الحمد للہ ہم مسلمانان اہلسنت و جماعت کے وہی عقائد و نظریات ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے تھے اللہ تعالیٰ ہمیں بد مذھبوں ، بد عقیدہ لوگوں کے شر و فتنہ سے بچائے آمین بجاہ نبی الکریم الامین صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم ۔

حضرت ابوبکرصدیق کا فرمان ہے۔ بابی انت وامی طبت حیا ومیتا الذی نفسی بیدہ لا یذیقک الله الموتتین ابدا (بخاری شریف جلد1ص517) ترجمہ: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم پر قربان ۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم حیات اور موت دونوں کیفیتوں میں جیسے پاکیزہ ہیں ۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔ یااﷲ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو دو موتوں کا ذائقہ کبھی نہ چکھائے گا ۔ امام الموتة التی کتب اﷲ علیک فقد متھا ۔ ( بخاری شریف کتاب الجنائز ص146)
ترجمہ : جو موت اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کےلئے لکھی تھی وہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم پر وراد ہو چکی ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی مردا اس کلمہ سے لا یذیقک اﷲ الموتترین ابدا سے یہ تھی کہ دوسرے لوگوں کی طرح آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم پر قبر میں دوسری موت کا ذائقہ بالکل نہ چکھیں گے ۔ دوسر ے عام لوگوں کو قبر میں سوال وجواب کےلئے زندہ کیا جاتا ہے۔ اور پھر ان پر دوبارہ وردو موت ہوتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم پر یہ دوسری موت کبھی نہیں آئے گی ۔ اس ارشاد عالی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ارشاد مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم ہی کی طرف تھا (مدارج النبوة جلد 2ص890)
اسی طرح شیخ الاسلام علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے عینی شرح بخاری میں جلد 2ص600
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے (فتح الباری جلد7ص42میں)،( تسیر القاری شرح صحیح البخاری جلد3ص445)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جب کسی مہم سے واپس مدینہ منورہ آتے تو سب سے پہلے جو کام آپ رضی اللہ عنہ کرتے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے حضور میں سلام عرض کرنا ہوتا تھا اور اس کی آپ رضی اللہ عنہ دوسروں کو تلقین فرماتے ۔ (جذب القلوب ص200)
حضرت معاويہ نے جب شام واپسی کا ارادہ فرمایا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے انہیں الوداع کیا تو انہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے تجویز رکھی کہ آپ رضی اللہ عنہ بھی ان کے ساتھ شام چلے آئیں ۔ وہاں کے لوگ اپنے امراء کے بہت تابع فرمان ہیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا لا اختار بجوار رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم سواہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے جوار (ہمسائیگی) پر اور کسی چیز کو ترجیح نہیں دیتا۔ (البدايہ و لنہایہ جلد7ص149،تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ نمبر 1040)
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : من ذار رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کان فی جوار رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے روضہ اطہر کے پاس حاضر ہو وہ اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی ہمسائیگی میں ہوتا ہے۔ زرقانی جلد 8 صفحہ نمبر 304، جذب القلوب ص180)
اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی روح اقدس آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کے جسد اطہر سے مفارق اور بے تعلق ہوتی تو سیدنا علی ؓ اس خصوصیت کے ساتھ قرب روضہ مطہرہ کو ہمسائیگی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم ہرگز قرار نہ دیتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ بھی حضرت عثمان کی طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کو اپنے روضہ اطہر میں زندہ یقین کرتے تھے ۔ علما ء اکرام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس عمل علت اس حقیقت کو قرار دیا۔ اذہو حی فی قبر يصلی فیہ ( زرقانی جلد 8صفحہ نمبر 304، شفا السقام صفحہ نمبر 173)
أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، قَالَ : " لَمَّا كَانَ أَيَّامُ الْحَرَّةِ لَمْ يُؤَذَّنْ فِي مَسْجِدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثًا ، وَلَمْ يُقَمْ وَلَمْ يَبْرَحْ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ الْمَسْجِدِ ، وَكَانَ لَا يَعْرِفُ وَقْتَ الصَّلَاةِ إِلَّا بِهَمْهَمَةٍ يَسْمَعُهَا مِنْ قَبْرِ النَّبِيِّ " ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ . (سنن الدارمي » بَاب مَا أَكْرَمَ اللَّهُ تَعَالَى نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَوْتِهِ، رقم الحديث: ٩٣)
ترجمہ: سعید بن عبدالعزیز (رحمہ الله) بیان کرتے ہیں کہ جب واقعہ "حرہ" کا زمانہ تھا تو نبی صلے الله علیہ وسلم کی مسجد میں تین دن تک نہ اذان کہی گئی اور نہ اقامت ہوئی اور سعید بن مسیب (رضی الله عنہ) مسجد میں ہی رہے اور نماز کے وقت ایک گنگناہٹ سے پہچانتے تھے جو نبی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ وسلّم کی قبر سے سنائی دیتی تھی . (خصائص كبرىٰ ج نمبر 2 صفحہ نمبر 281 )(الحاوي للفتاوى جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 148) ۔ (طاسلب دعا ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔