Friday 26 December 2014

(6) کیا میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ھے

0 comments
(6) کیا میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدعت کا حقیقی تصور

ذیل میں اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بدعت کا حقیقی مفہوم بیان کیا جا رہا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ ’’مضمونِ بدعت کی احادیث‘‘ کا حقیقی اِطلاق کن کن بدعات پر ہوتا ہے :

1۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ.

1. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب نقض الأحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718

2. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب تعظيم حديث رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 : 7، رقم : 14

3. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 270، رقم : 26372

’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

2۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس فيه فهو ردّ.

1. بخاری، الصحيح، کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علی صلح جور، 2 : 959، رقم : 2550

2. ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4606

’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں اَصلًا نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

3۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو ردٌّ.

1. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضيه، باب نقض الأحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718

2. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 180، 256، رقم : 25511، 26234

3. دارقطنی، السنن، 4 : 227، رقم : 81

’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی اَمر موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘
مغالطہ کا اِزالہ اور فَیُوَ رَدٌّ کا درست مفہوم

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں اَحْدَثَ، مَا لَيْسَ مِنْهُ اور مَا لَيْسَ فِيْهِ کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ عرف عام میں اَحْدَثَ کا معنی ’’دین میں کوئی چیز ایجاد کرنا‘‘ ہے، اور مَا لَيْسَ مِنْهُ

کے الفاظ اَحْدَث کا مفہوم واضح کر رہے ہیں کہ اس سے مراد وہ چیز ایجاد کرنا ہے جو دین میں نہ ہو۔ حدیث کے اس مفہوم سے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر اَحْدَث سے مراد ’’دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا‘‘ ہے تو پھر مَا لَيْسَ مِنْهُ (جو اس میں سے نہ ہو) یا مَا لَيْسَ فِيْهِ (جو اس میں اَصلًا نہ ہو) کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیوں کہ اگر وہ چیز دین میں سے تھی یعنی اس دین کا حصہ تھی تو اسے نئی نہیں کہا جاسکتا کہ محدثۃ (نئی چیز) تو کہتے ہی اسے ہیں جو پہلے دین میں موجود نہ ہو۔

اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث مذکورہ پر غور کرنے سے یہ معنی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیا کام مردود نہیں بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جو دین کا حصہ نہ ہو، جو نیا کام دین کے دائرے میں داخل ہو وہ مردود نہیں مقبول ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں ہوگی کہ من أحدث فی أمرنا هذا ما ليس منه فيه فهو ردّ ميں فهو ردّ کا اطلاق نہ صرف مَا لَيْسَ مِنْهُ پر ہوتا ہے اور نہ ہی فقط اَحْدَثَ پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت پر ہوگا جہاں دونوں چیزیں (اَحْدَثَ اور مَا لَيْسَ مِنْهُ فِيهِ) جمع ہو جائیں یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور نہ دین کی کسی جہت کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق ہو۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی محدثۃ کے بدعت و ضلالت قرار پانے کے لیے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے :
دین میں اس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔
یہ محدثۃ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور اَحکامِ سنت کو توڑے۔

مذکورہ بالا تیسری حدیث شریف میں لَيْسَ عَلَيْهِ اَمْرُنَا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام خواہ وہ نیک اور اَحسن ہی کیوں نہ ہو (مثلاً ایصالِ ثواب، میلاد اور دیگر سماجی، روحانی اور اَخلاقی اُمور) اگر اس پر قرآن و سنت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تو یہ بدعت اور مردود ہے۔ یہ مفہوم غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیوں کہ اگر یہ معنی مراد لے لیا جائے کہ جس کام کے کرنے پر قرآن و سنت کی نص نہ ہو وہ مردود اور حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ مباحات بھی قابلِ ردّ ہوجائیں گے۔

مذکورہ بالا اَحادیث پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر نیا کام مردود کے زمرہ نہیں آتا بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جس کی کوئی اَصل، مثال، ذکر، معرفت یا حوالہ - بالواسطہ یا بلا واسطہ - قرآن و سنت میں موجود نہ ہو اور اسے ضروریاتِ دین،واجباتِ اسلام اور اَساسی عقائدِ شریعت میں اِس طرح شمار کر لیا جائے کہ اسے ’’اَساسیاتِ دین میں اِضافہ‘‘ سمجھا جانے لگے یا اُس سے دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں اَصلًا کمی بیشی واقع ہو جائے۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم - کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَـلَالَۃٌ - سے بھی یہی بدعت مراد ہے، نہ کہ ہر نئے کام کو ’’ضلالۃ‘‘ کہا جائے گا۔ یہی اِحداث فی الدین، اسلام کی مخالفت اور دین میں فتنہ تصور ہوگا۔

ضروریاتِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں جن میں سے کسی ایک چیز کا انکار کرنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے۔

مذکورہ بالا بحث واضح کرتی ہے کہ جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز کوئی ایسا اَمر نہیں ہے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو بلکہ یہ ایک ایسا مبنی بر خیر اور مستحسن عمل ہے جو سرا سر شریعت کے منشاء و مقصود کے عین مطابق ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔