۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: مسجد حرام کے اردگرد رہنے والے مکۃ المکرمہ کے علماء و مشائخ ہر سال جشن عید میلاد النبیﷺ کے موقع پر محافل اور چراغاں کا اہتمام کرتے تھے۔
دلیل: امام قطب الدین الحنفی علیہ الرحمہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’الاعلام باعلام بیت اﷲ الحرام‘‘ کے صفحہ نمبر 196 پر تحریر کرتے ہیں کہ بارہ ربیع الاول کی رات ہر سال باقاعدہ مسجد حرام میں اجتماع کا اعلان ہوجاتا ہے، تمام علاقوں کے علماء، فقہاء، گورنر اور چاروں مسالک کے قاضی نماز مغرب کے بعد مسجد حرام میں اکھٹے ہوجاتے ہیں، ادائیگی نماز کے بعد سوق اللیل سے گزرتے ہوئے مولد النبیﷺ (ولادت گاہ رسول اﷲﷺ) کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھوں میں کثیر تعداد میں شمعیں، فانوس اور مشعلیں تھامے ہوتے ہیں۔
دلیل: امام محمد بن جار اﷲ ابن ظہیر علیہ الرحمہ اپنی معرکۃ الآراء کتاب ’’الجامع اللطیف‘‘ کے صفحہ نمبر 201 پر لکھتے ہیں کہ ہر سال مکہ شریف میں بارہ ربیع الاول کی رات کو اہل مکہ کا یہ معمول ہے کہ قاضی مکہ جوکہ شافعی ہیں، مغرب کی نماز کے بعد لوگوں کے ایک جم غفیر کے ساتھ مولد شریف (جاء ولادت گاہ) کی زیارت کے لئے جاتے ہیں۔ان لوگوں میں دیگر تینوں مذاہب فقہ کے ائمہ، اکثر فقہاء، فضلاء اور اہل شہر ہوتے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں فانوس اور بڑی بڑی شمعیں ہوتی ہیں۔
اگر تعظیم اسلام اور دشمنوں پر رعب و دبدبہ کے لئے کعبہ کی آرائش و زیبائش کی جاسکتی ہے، سونے اور چاندی کی قنادیل، شمعیں اور لائٹس کے ساتھ بیت اﷲ کو سجایا جاسکتا ہے، بہترین ریشم کو کعبہ کی زینت بنایا جاسکتا ہے، تو پھر جان کائنات حضور پرنورﷺ کی ولادت باسعادت پر محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اور والہانہ عقیدت کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلی، محلوں، بازاروں اور مسجدوں کو کیوں نہیں سجایا جاسکتا؟ حالانکہ حضور اکرم نور مجسمﷺ کی ذات کائنات کی جان ہے۔ اگر یہ جان جلوہ گر نہ ہوتی تو نہ عرش و فرش ہوتے اور نہ کعبۃ اﷲ۔ آپﷺ کے صدقے سے ہی کعبۃ اﷲ ملا، اگر کعبۃ اﷲ کو سجایا جاسکتا ہے تو سید عالمﷺ کے میلاد پر چراغاں کیوں نہیں ہوسکتا؟
لہذا معلوم ہوا کہ تاجدار کائناتﷺ کے میلاد پر آرائش و زیبائش کا اہتمام کرنا بدرجہ اتم مستحسن عمل ہے۔
No comments:
Post a Comment