۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: خوشی کے مواقع پر خوشی کا اظہار چراغاں کے ذریعے کرنا جائز ہے، ہر دور میں اس دور کے مطابق موجود سامان مسرت کے ذریعے خوشی کا اظہار کیاجاتا تھا۔ کسی دور میں چراغ روشن ہوتے تھے، کسی دور میں فانوس روشن کئے جاتے تھے، کسی دور میں قندیلیں روشن کی جاتی تھیں، کسی دور میں مشعلیں روشن کی جاتی تھیں، کسی دور میں شمعیں روشن کی جاتی تھیں اور موجودہ دور میں بجلی موجود ہے لہذا ہر مقام پر چراغاں کے ذریعہ خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے۔
لیلۃ القدر میں مساجد پر لائٹنگ کی جاتی ہے، ختم قرآن کی محافلوں میں بڑی بڑی لائٹیں لگائی جاتی ہیں، مذہبی، سیاسی اور سماجی اجتماعات کے مواقع پر لائٹیں لگائی جاتی ہیں، اولاد کی منگنی کے موقع پر گھر کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے، ختنہ اور عقیقہ کے مواقع پر خوب روشنی کی جاتی ہے۔ اولاد کی شادی کے موقع پر شادی ہال، شادی لانز اور گلیوں اور عمارتوں کو برقی قمقموں سے سجایا جاتا ہے اور یہ سب خوشی کے اظہار کے لئے کیاجاتا ہے۔
یاد رہے! یہ ساری خوشیاں جو اﷲ تعالیٰ کی نعمت ہیں اور اس نعمت کی آمد پر چراغاں کیاجاتا ہے تو پھر جو نعمت عظمیٰ و نعمت کبریٰ (سب سے بڑی نعمت) یعنی سرکار کائناتﷺ کی ذات ہیں، اس نعمت کبریٰ کی آمد کی خوشی اور یاد میں کس قدر چراغاں کرنا چاہئے۔
لیکن چوری کی بجلی استعمال نہ کی جائے کیونکہ بجلی چوری کرنا حرام ہے اور حرام کام کرنے سے بچنا چاہئے۔ الحمدﷲ! ثم الحمدﷲ! گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے بھائی میلاد النبیﷺ کے موقع پر ہونے والے چراغاں کا بل کے ای ایس سی/واپڈا کو ادا کرتے ہیں اور اس بل کی کاپی اسی مقام پر ہمارے بھائی چسپا کردیتے ہیں، ہر شہر، ہر علاقے میں پابندی کے ساتھ یہ کام ہونا چاہئے۔
میلاد منانے والے جہاں اپنی حلال طیب کمائی میں سے کرائے پر چراغاں کا سامان لیتے ہیں، وہاں بجلی کے بل کی ادائیگی کا بھی اہتمام کریں۔ کئی علاقوں میں تو ہوچکا ہے، ہر جگہ کرنا چاہئے۔ اس کے علاوہ اس بات پر بھی توجہ دیں کہ صبح ہوتے ہی لائٹیں بند کردیں تاکہ بجلی بھی ضائع نہ ہو اور کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع بھی نہ ملے۔
No comments:
Post a Comment