Wednesday, 31 December 2014

( حصّہ چہارم ) عالم ارواح میں جلسہ میلاد النبی ﷺ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیوانات میں معرفتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مظاہر

اندازہ کیجئے کہ تمام انبیاء اور رُسل علیہم السلام حضور علیہ السلام کی آمد کا ذکر کرتے اور اپنی اپنی اُمت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ادب اور تعظیم و تکریم کرنے کی ترغیب اور تعلیم دیتے رہے۔ انبیاء اور رُسل علیہم السلام کو تو پہچان تھی اور انہوں نے آقا علیہ السلام کی عظمت اور نبوت اور رسالت کی پہچان اپنی کُل امتوں کو کروا دی تھی۔ لیکن اللہ رب العزت نے اپنی مخلوقات میں خواہ کوئی بھی جاندار تھا، انسان تھا، حیوان تھا، درخت تھے، شجر تھے، حجر تھے، پتھر تھے، کائنات کے تمام حیوانات، نباتات، شجر و حجر کو تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی پہچان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے بھی پہلے کروا دی تھی۔

کائنات کی کوئی شے، کوئی ذرہ ایسا نہ تھا جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہچان نہ تھی۔

1۔ امام احمد بن حنبل نے اپنی ’’مسند‘‘ میں، دارمی نے اپنی ’’سنن‘‘ میں اور امام طبرانی نے سند حسن اور سند صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے کہ کس کس کو پہچان تھی۔‘‘صحیح مسلم‘‘ میں اور ’’جامع ترمذی‘‘ میں حدیث ہے۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنِّي لَأَعْرِفُ حَجَرًا بِمَکَّةَ کَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ قَبْلَ أَنْ أبْعَثَ، إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ.
مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، بَابُ فَضْلِ نَسَبِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَتَسْلِيمِ الْحَجَرِ عَلَيْهِ قَبْلَ النُّبُوَّةِ، 4 : 1782، رقم : 2277
ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اﷲ، 5 : 592، رقم : 3624
دارمي، السنن، 1 : 24، رقم : 20
أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 89، 95، رقم : 2277
ابن حبان، الصحيح، 14 : 402، رقم : 6482
ابن أبي شيبة، المصنف، 6 : 313، رقم : 31705
طبراني، المعجم الأوسط، 2 : 291، رقم : 2012
ديلمي، مسند الفردوس، 1 : 58، رقم : 161

’’میں مکہ کے اُس پتھر کو پہچانتا ہوں، جو اِعلانِ نبوت سے قبل بھی مجھے سلام کیا کرتا تھا، یقینا میں اس پتھر کو اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘

2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ. فَخَرَجَ فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا فَمَا اسْتَقْبَلَهُ شَجَرٌ وَلَا جَبَلٌ إِلَّا قَالَ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ.
ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب (6)، 5 : 593، رقم : 3626
حاکم، المستدرک، 2 : 677، الرقم : 4238

’’ہم مکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے گرد و نواح میں گئے تو راستے میں جو پتھر اور درخت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آتا تو وہ کہتا : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ، يَا رَسُولَ اﷲِ (یا رسول اللہ! آپ پر سلام ہو)۔‘‘

انسان تو انسان تھے، شجر و حجر اور جمادات، نباتات و حیوانات اور کائنات کی تمام مخلوقات اور ہر شے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معرفت رکھتی تھی۔ بدقسمت ہیں وہ لوگ جو امتی ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی معرفت سے محروم ہیں۔

3۔ امام احمد بن حنبل، امام دارمی اور امام طبرانی سندِ حسن کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انصار صحابہ میں سے کسی انصاری کا اونٹ - جس کے ذریعے وہ کھیتی باڑی کرتے اور پانی بھر کے لاتے تھے - بے قابو ہو کر ان پر حملہ آور ہوگیا۔ کھیتی باڑی رک گئی اور ان کے سارے باغ اجڑ گئے۔ اونٹ نے کام کرنا چھوڑ دیا تو وہ پریشان ہو کر آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں آئے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا : چلو! اُس اونٹ کے پاس۔ سارے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس انصاری کے گھر تشریف لے گئے، اُس کے احاطے میں پہنچے تو اونٹ ایک کونے میں بندھا ہوا تھا۔ آقا علیہ السلام اُس کی طرف چل پڑے تو انصار نے کہا : یا رسول اللہ! اس اونٹ کے قریب نہ جائیں، یہ باولے کتے کی طرح کاٹتا ہے، ہمیں خوف ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور نہ ہو جائے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا نہیں، مجھ پر حملہ نہیں کرتا۔ اب حدیث کے لفظ ہیں :

فَلَمَّا نَظَرَ الْجَمَلُ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَقْبَلَ نَحْوَهُ حَتَّی خَرَّ سَاجِدًا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَأَخَذَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِنَاصِيَتِهِ أَذَلَّ مَا کَانَتْ قَطُّ حَتَّی أَدْخَلَهُ فِي الْعَمَلِ.
أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 158، رقم : 12635
دارمی، السنن، باب (4)، ما أکرم اﷲ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 : 22، رقم : 17
طبرانی، المعجم الأوسط، 9 : 81، رقم : 9189
عبد بن حميد، المسند، 1 : 320، رقم : 1053
مقدسی، الأحاديث المختارة، 5 : 265، رقم : 1895

’’اُونٹ نے جیسے ہی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھا یہاں تک (قریب آ کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے سجدہ میں گر پڑا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پیشانی سے پکڑا اور حسبِ سابق دوبارہ کام پر لگا دیا۔‘‘

اب حدیث کے اگلے الفاظ کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جب یہ منظر دیکھا کہ اونٹ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بول اٹھے : یا رسول اﷲ!

يَا رَسُوْلَ اﷲِ! هَذِهِ بَهِيْمَةٌ لَا تَعْقِلُ تَسْجُدُ لَکَ وَنَحْنُ نَعْقِلُ فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ؟

’’یا رسول اﷲ! یہ تو بے عقل جانور ہوتے ہوئے بھی آپ کو سجدہ کر رہا ہے اور ہم تو عقلمند ہیں۔ لہٰذا ہم اس سے زیادہ حقدار ہیں کہ آپ کو سجدہ کریں۔‘‘

ایک روایت میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :

يَا رَسُوْلَ اﷲِ! نَحْنُ أَحَقُّ بِالسُّجُوْدِ لَکَ مِنَ الْبَهَائِمِ.

’’یا رسول اﷲ! ہم جانوروں سے زیادہ آپ کو سجدہ کرنے کے حقدار ہیں۔‘‘

لیکن آقا علیہ السلام نے اِس سے منع فرما دیا۔ اِنسان، انسان کو سجدہ نہیں کر سکتا۔ اس سے منع کر دیا۔

بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ نبی کا کام تو صرف فرائض اور شریعت کے احکام انسانوں تک پہنچانا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اونٹوں کے ساتھ نبی کا کیا تعلق؟ اونٹوں کو تو کوئی شریعت نہیں پہنچانی، نہ اونٹ، گائے اور بکریاں مکلف ہیں نہ ان کو حلال و حرام سکھانا ہے۔ اگر آقا علیہ السلام کی نبوت و رسالت کو اسی ایک محدود معنی میں لے لیا تو پھر بقایا جو ساری مخلوق جو مکلف نہیں ہے ان کا آقا علیہ السلام کے ساتھ کیا رشتہ ہے؟ انہیں جو معرفت کرائی گئی وہ کس لیے کرائی گئی؟

4۔ اگلی حدیث جس کو امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے روایت کیا اور حافظ ابن کثیر نے بیان کیا کہ یہ حدیث بھی ابو داؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ کی اسناد کی ہے جو صحیح احادیث کی شرائط پوری کرتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ آقا علیہ السلام مہاجرین اور انصار کے گھروں میں ایک جماعت میں تشریف فرما تھے۔ ایک اونٹ آیا اور زمین پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں کے سامنے سجدہ ریز ہوگیا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :

يَا رَسُوْلَ اﷲِ! تَسْجُدُ لَکَ الْبَهَائِمُ وَالشَّجَرُ فَنَحْنُ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ.
أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 76، رقم : 24515
بيهقی، السنن الکبری، 7 : 291، رقم : 14482
مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 265، 266، رقم : 1895
منذری، الترغيب والترهيب، 3 : 35، رقم : 2977
ابن کثير، شمائل الرسول : 326
هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 310

’’یا رسول اللہ! آپ کو جانور اور درخت سجدہ کرتے ہیں جبکہ ہم آپ کو سجدہ کرنے کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، شریعت میں منع کر دیا گیا ہے۔

یہاں صرف حدیثیں مختلف حوالوں سے ذکر کی جا رہی ہیں۔ ورنہ اس قسم کے کتنے ہی دیگر مواقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کی معرفت بہائم نے دیکھی، شجر و حجر نے دیکھی تو صحابہ نے سوال کیا۔ اندازہ کریں کہ انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت کا کتنا ادراک تھا۔

5۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں جسے امام طبرانی نے بیان کیا ہے۔ فرمایا کہ ایک انصاری شخص کے پاس دو اونٹ تھے وہ دونوں سرکش ہو گئے۔ اس نے ان دونوں کو ایک باغ کے اندر قید کر دیا اور پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے لیے دعا فرمائیں۔ (وہ جب حاضر ہوا تو) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے ایک گروہ میں تشریف فرما تھے۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس ایک حاجت لے کر حاضر ہوا ہوں۔ میرے دو اُونٹ ہیں جو سرکش ہو گئے ہیں۔ میں نے انہیں باغ میں داخل کر کے دروازہ بند کر دیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ تعاليٰ انہیں میرا فرماں بردار بنا دے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا : اُٹھو، میرے ساتھ آو۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلے یہاں تک کہ اس باغ کے دروازے پر تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھولو۔ اس شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے خدشہ تھا (کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جانور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کر دیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : دروازہ کھولو۔ اس نے دروازہ کھول دیا۔ دونوں اُونٹوں میں سے ایک دروازہ کے قریب ہی کھڑا تھا۔ جب اس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو فوراً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سجدہ کیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے پاس کوئی چیز لاو جس کے ساتھ باندھ کر میں اسے تمہارے حوالے کر دوں۔ وہ صحابی ایک نکیل لے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے اس کو باندھ دیا اور اسے صحابی کے حوالے کر دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باغ کے دوسرے حصے کی طرف چلے جہاں دوسرا اُونٹ تھا۔ اس نے بھی جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے کہا : مجھے کوئی چیز لا دو جس سے میں اس کا سر باندھ دوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا سر باندھ کر اسے صحابی کے حوالے کر دیا اور فرمایا : جاو اب یہ تمہاری نافرمانی نہیں کریں گے۔ جب صحابہ کرام نے یہ سارا واقعہ دیکھا تو عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! یہ اونٹ جو کہ بے عقل ہیں آپ کو سجدہ کرتے ہیں تو کیا ہم بھی آپ کو سجدہ نہ کریں؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس بار بھی فرمایا : میں کسی انسان کو یہ حکم نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے۔
طبراني، المعجم الکبير، 11 : 356، رقم : 12003
هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 4

6۔ اسی طرح بکریوں کے بارے میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ امام مقدسی اور امام ابونعیم روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے آقا علیہ السلام کو سجدہ کیا۔ اُس وقت حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور چند دیگر انصار صحابہ رضی اللہ عنہم ہمراہ تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ان بکریوں سے زیادہ ہمارا حق بنتا ہے کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی انسان کے لئے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو سجدہ کرے۔
مقدسي، الأحاديث المختارة، 6 : 130، 131، رقم : 2129، 2130
أبو نعيم، دلائل النبوة، 2 : 379، رقم : 276

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...