Saturday, 20 December 2014

میرے آقا ﷺ کے دستِ اقدس کی برکتیں

میرے آقا ﷺ کے دستِ اقدس کی برکتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترتیب و پیشکش : ۔ ڈاکٹر فیض احمد چشتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کو باردوعالم کی پروا نہیں ایسے بازو کی قوت پہ لاکھوں سلام

کعبہ دین و ایمان کے دونوں ستوں ساعدین رسالت پہ لاکھوں سلام

ہاتھ جس سمت اٹھ گیا غنی کر دیا موج بحر سماحت پہ لاکھوں سلام

جس کے ہر خط میں ہے موج نور کرم اس کف بحر ہمت پہ لاکھوں سلام

نور کے چشمے لہرائیں دریا بہیں انگلیوں کی کرامت پہ لاکھوں سلام

عید مشکلکسشائی کے چمکے ھلال ناخنوں کی بشارت پہ لاکھوں سلام

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اُس کی حالت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر وبرکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اُسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کر دیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اُس دستِ اقدس کی برکت اُتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو اُن ہاتھوں نے مَس کیا تو اُس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اُس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ :
ہاتھ جس سمت اُٹھایا غنی کر دیا
اُن ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست بے نوا گدا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی اُن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے، اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں :

(1) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ دوسروں کو فیض یاب کرتے رہے
حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا :
فقال : ادن يا غلام، فدنا منه فوضع يده علي رأسه، وقال : بارک اﷲ فيک!
''آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹا! میرے پاس آؤ، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سر پر رکھا اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔''
حضرت ذیال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فرأيتُ حنظلة يؤتي بالرجل الوارم وجهه وبالشاة الوارم ضرعها فيتفل في کفه، ثم يضعها علي صُلعته، ثم يقول : بسم اﷲ علي أثر يد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، ثم يمسح الورم فيذهب.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 7 : 72
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 68
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 6، رقم : 3477
طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 191، رقم : 2896
هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 211
بخاري التاريخ الکبير، 3 : 37، رقم : 152
ابن حجر، الاصابه، 2 : 133
ميں نے دیکھا کہ جب کسی شخص کے چہرے پر یا بکری کے تھنوں پر ورم ہو جاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعابِ دہن ڈال کر اپنے سر پر ملتے اور فرماتے بسم اﷲ علی اثرید رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے تو ورم فوراً اُتر جاتا۔''

--

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کا یمن تبلیغ کیلئے انتخاب کیا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے تو اس کام کو دشوار سمجھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سینہ پر دست مبارک رکھ کر دعا فرمائی کہ” اے اللہ! اس کی زبان کو راست گو بنا اور اس کے دل کو ہدایت کے نور سے منور کردے۔“ اس کے بعد ان کے سر پر عمامہ باندھا اور سیاہ علم دے کر یمن کی طرف روانہ کیا‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے حسن تدبیر اور حسن سلوک سے وہاں کا رنگ کچھ ایسا بدل دیا کہ ہمدان کا پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا۔ ( خلفائے راشدین)
خارجی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف برابر سازش کرتے رہے‘ وہ مجوسیوں‘ مرتدوں‘ نومسلموں اور ذمیوں کو بغاوت پر آمادہ کرتے رہتے مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان بغاوتوں کو بڑے صبرو تحمل سے فروکیا اور جب وہ زیر ہوگئے تو ان سے لطف و ترحم کا برتائو کیا‘ ایرانی باغی ان کے فیاضانہ سلوک سے یہ کہہ اٹھے تھے کہ امیرالمومنین علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے طریق جہاں بانی نے تو نوشیروانی طرز حکومت کی یاد بھلادی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ذمیوں کے ساتھ ہمیشہ شفقت و محبت کا برتائو رکھا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے جتنے معاہدے کیے تھے ان کو برقرار رکھا‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حجاز کے عیسائیوں کو نجران یمن سے جلاوطن کرکے نجران عراق میں آباد کرادیا تھا کیونکہ انہوں نے مسلمانوں کے خلاف گھوڑے اور اسلحہ جمع کرنا شروع کردئیے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ واپس آنا چاہتے تھے اور جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس کیلئے درخواست کی تو انہوں نے منظور کرنے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے بہت موزوں ہوتے تھے پھر بھی ان کیلئے یہ تحریر لکھ دی کہ تم لوگ میرے پاس اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک تحریر لیکر آئے ہو جس میں تمہارے لیے تمہاری جان‘ تمہارے مال کے سلسلے میں شرط لکھی ہے تمہارے لیے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ میں نے پورا کردیا۔ لہٰذا اب جو مسلمان ان کے یہاں جائے اسے ان وعدوں کو پورا کرنا چاہیے جو ان کے ساتھ کیے گئے ہیں نہ انکو دبایا جائے نہ ان کیساتھ ظلم کیا جائے نہ انکے حقوق میں سے کسی قسم کی کمی کی جائے۔
...................................................................
آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس اِنتہائی نرم اور ملائم تھے، شبنم کے قطروں سے بھی نازک، پھولوں کا گداز بھی اس کے آگے پانی پانی ہو جائے، دستِ اقدس سے ہمہ وقت خوشبوئیں لپٹی رہتیں، مصافحہ کرنے والا ٹھنڈک محسوس کرتا، اَنگشت مبارک قدرے لمبی تھیں، چاند کی طرف اُٹھتیں تو وہ بھی دولخت ہو جاتا۔
6ھ میں حدیبیہ کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں، کفار و مشرکینِ مکہ آمادۂ فتنہ و شر ہیں۔ سفراء کا تبادلہ جاری ہے اور حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سفیرِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہو تے ہیں۔ دوسری طرف بیعتِ رضوان کا موقع آتا تو اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیتا ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَى بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًاO
القرآن، الفتح، 48 : 10
’’(اے رسول!) بلاشبہ جو لوگ آپ سے (آپ کے ہاتھ پر) بیعت کرتے ہیں فی الحقیقت وہ اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، (گویا) اللہ کا ہاتھ اُن کے ہاتھوں پر ہے، پھر جو کوئی عہد کو توڑے تو عہد کے توڑنے کا نقصان اُسی کو ہو گا اور جو اللہ سے اپنا اِقرار پورا کرے (اور مرتے دم تک قائم رہے) تو اللہ تعالیٰ عنقریب اُسے بڑا اجر دے گا (اپنے دیدار سے سرفراز فرمائے گا )o‘‘
ایک دوسرے مقام پر ارشادِ خُداوندی ہے :
وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـكِنَّ اللّهَ رَمٰی.
’’اور (اے حبیبِ محتشم) جب آپ نے (اُن پر سنگریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ تعالیٰ نے مارے تھے۔‘‘
القرآن، الانفال، 8 : 17
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس نہایت نرم و گداز تھے۔ حضرت مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ اپنے والدِ گرامی کے حوالے سے فرماتے ہیں :
أتيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فأخذتُ بيده فإذا هي ألين من الحرير وأبرد من الثلج.
’’میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ تھام لیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس ریشم سے زیادہ نرم و گداز اور برف سے زیادہ ٹھنڈے تھے۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 7 : 272، رقم : 7110
2. طبراني، المعجم الاوسط، 9 : 97، رقم : 9237
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 282
4. ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 3 : 323، رقم : 3859
5. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد، 2 : 74
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
مَا مَسسْتُ حريراً و لا ديباجاً ألين من کف النبي صلي الله عليه وآله وسلم.
’’میں نے کسی ایسے ریشم یا دیباج کو نہیں چھوا جو نرمی میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک سے بڑھ کر ہو۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1306، کتاب المناقب، رقم : 3368
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1815، کتاب الفضائل، رقم : 2330
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 4 : 368، ابواب البروالصلة، رقم : 2015
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 211، رقم : 6303
5. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 315، رقم : 31718
6. احمد بن جنبل، المسند، 3 : 200، رقم؛ 13096
7. ابو يعلي، المسند، 6 : 405، رقم : 3762
8. عبد بن حميد، المسند، 1 : 402، رقم : 13163
9. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 413
10. مقريزي، امتاع الاسماع، 2 : 170
خوشبوئے دستِ اقدس
1۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس ہاتھوں سے ہر وقت بھینی بھینی خوشبو پھوٹتی تھی۔ حضرت جابر بن سُمرہ رضی اللہ عنہ اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد سے باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے باری باری سب بچوں کے رُخساروں پر ہاتھ پھیرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے رُخسار پر بھی ہاتھ پھیرا۔
فوجدتُ ليده برداً أو ريحاً کأنما أخرجها من جؤنة عطّار.
’’پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خوشبو یوں محسوس کی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے ابھی عطار کی ڈبیہ سے نکالا ہو۔‘‘
1. مسلم، الصحيح، 4 : 1814، کتاب الفضائل، رقم : 2329
2. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 323، رقم : 31765
3. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 228، رقم : 1944
4. ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 6 : 573
2۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس ہمیشہ معطر رہتے، جو لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مصافحہ کرتے وہ کئی کئی دن دستِ اقدس کی خوشبو کی سرشاری کو مشامِ جان میں محسوس کرتے رہتے :
وکأن کفه کف عطار طيب مسها بطيب أو لا مسها، فإذا صافحه المصافح يظل يومه يجد ريحاً و يضعها علي رأس الصبي فيعرف من بين الصبيان من ريحها علي رأسه.
’’اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ عطار کے ہاتھوں کی طرح معطر رہتے، خواہ خوشبو لگائیں یا نہ لگائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مصافحہ کرنے والا شخص سارا دن اپنے ہاتھوں پر خوشبو پاتا اور جب کسی بچے کے سر پر دستِ شفقت پھیر دیتے تو وہ (بچہ) خوشبوئے دستِ اقدس کے باعث دوسرے بچوں سے ممتاز ٹھہرتا۔‘‘
1. ابنِ عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 337
2. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 305
دستِ مبارک کی ٹھنڈک
1۔ خوشبو کے علاوہ سردارِ دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں کا لمس انتہائی خوشگوار ٹھنڈک کا کیف انگیز احساس بخشتا تھا۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا فرمائی، اس کے بعد :
و قام الناس، فجعلوا يأخذون يديه فيمسحون بهما وجوههم، قال : فأخذت بيده فوضعُتها علي وجهي، فإذا هي أبرد من الثلج، و أطيب رائحة من المسک.
’’لوگ کھڑے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے، میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ انور اپنے چہرے پر پھیرا تو وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 3 : 1304، کتاب المناقب، رقم : 3360
2. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 309
3. ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 67، رقم : 1638
4. دارمي، السنن، 1 : 366، رقم : 1367
5. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 115، رقم : 294
2۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محبت سے میرے سر اور سینے پر اپنا دستِ اقدس پھیرا۔ اس سے یہ کیفیت پیدا ہوئی :
فما زلتُ أجد برده علي کبدي فما يخال إلي حتي الساعة.
’’میں ہمیشہ اپنے جگر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی ٹھنڈک اور خنکی پاتا رہا، مجھے خیال ہے کہ اس (موجودہ) گھڑی تک وہ ٹھنڈک پاتا ہوں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 5 : 2142، کتاب المرضيٰ، رقم : 5335
2. نسائي، السنن الکبريٰ؛ 4 : 67، رقم : 6318
3. احمد بن حنبل، المسند، 1 : 171
4. بخاري، الادب المفرد، 1 : 176، رقم : 499
5. مقدسي، الأحاديث المختاره، 3 : 212، رقم : 1013
22۔ دستِ اقدس کی برکتیں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ ہزاروں باطنی اور روحانی فیوض و برکات کے حامل تھے۔ جس کسی کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ سے مَس کیا اُس کی حالت ہی بدل گئی۔ وہ ہاتھ کسی بیمار کو لگا تو نہ صرف یہ کہ وہ تندرست و شفایاب ہوگیا بلکہ اس خیر و برکت کی تاثیر تادمِ آخر وہ اپنے قلب و روح میں محسوس کرتا رہا۔ کسی کے سینے کو یہ ہاتھ لگا تو اُسے علم و حکمت کے خزانوں سے مالا مال کردیا۔ بکری کے خشک تھنوں میں اُس دستِ اقدس کی برکت اُتری تو وہ عمر بھر دودھ دیتی رہی۔ توشہ دان میں موجود گنتی کی چند کھجوروں کو اُن ہاتھوں نے مَس کیا تو اُس سے سالوں تک منوں کے حساب سے کھانے والوں نے کھجوریں کھائیں مگر پھر بھی اُس ذخیرہ میں کمی نہ آئی۔ بقول اعلیٰ حضرت رحمۃ اللّٰہ علیہ :
ہاتھ جس سمت اُٹھایا غنی کر دیا
اُن ہاتھوں کی فیض رسانی سے تہی دست بے نوا گدا، دوجہاں کی نعمتوں سے مالا مال ہوگئے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے اپنی زندگیوں میں بارہا ان مبارک ہاتھوں کی خیر و برکت کا مشاہدہ کیا۔ وہ خود بھی اُن سے فیض حاصل کرتے رہے اور دوسروں کو بھی فیض یاب کرتے رہے، اس حوالے سے متعدد روایات مروی ہیں :
(1) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ دوسروں کو فیض یاب کرتے رہے
حضرت ذیال بن عبید رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ان کے والد نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کے حق میں دعائے خیر کے لئے عرض کیا :
فقال : ادن يا غلام، فدنا منه فوضع يده علي رأسه، وقال : بارک اﷲ فيک!
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بیٹا! میرے پاس آؤ، حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب آ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سر پر رکھا اور فرمایا، اللہ تعالیٰ تجھے برکت عطا فرمائے۔‘‘
حضرت ذیال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
فرأيتُ حنظلة يؤتي بالرجل الوارم وجهه وبالشاة الوارم ضرعها فيتفل في کفه، ثم يضعها علي صُلعته، ثم يقول : بسم اﷲ علي أثر يد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، ثم يمسح الورم فيذهب.
میں نے دیکھا کہ جب کسی شخص کے چہرے پر یا بکری کے تھنوں پر ورم ہو جاتا تو لوگ اسے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ کے پاس لے آتے اور وہ اپنے ہاتھ پر اپنا لعابِ دہن ڈال کر اپنے سر پر ملتے اور فرماتے بسم اﷲ علی اثرید رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور پھر وہ ہاتھ ورم کی جگہ پر مل دیتے تو ورم فوراً اُتر جاتا۔‘‘
1. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 7 : 72
2. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 68
3. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 6، رقم : 3477
4. طبراني، المعجم الاوسط، 3 : 191، رقم : 2896
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 4 : 211
6. بخاري التاريخ الکبير، 3 : 37، رقم : 152
7. ابن حجر، الاصابه، 2 : 133
(2) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے بال عمر بھر سیاہ رہے
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو زید انصاری رضی اللہ عنہ کے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ اقدس پھیرا تو اُس کی برکت سے 100 سال سے زائد عمر پانے کے باوجود اُن کے سر اور داڑھی کا ایک بال بھی سفید نہ ہوا۔ اس آپ بیتی کے وہ خود راوی ہیں:
قال لي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : ادن مني، قال : فمسح بيده علي رأسه ولحيته، قال، ثم قال : اللهم جمله و ادم جماله، قال : فلقد بلغ بضعا ومائة سنة، وما في رأسه ولحيته بياض الانبذ يسير، ولقد کان منبسط الوجه ولم ينقبض وجهه حتي مات.
’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا کہ میرے قریب ہو جاؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر اور داڑھی پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور دعا کی : الٰہی! اسے زینت بخش اور ان کے حسن و جمال کو گندم گوں کر دے۔ راوی کہتے ہیں کہ.اُنہوں نے 100 سال سے زیادہ عمرپائی، لیکن ان کے سر اور داڑھی کے بال سفید نہیں ہوئے، سیاہ رہے، ان کا چہرہ صاف اور روشن رہا اور تادم آخر ایک ذرہ بھر شکن بھی چہرہ پر نمودار نہ ہوئی۔‘‘
1. احمد بن حنبل، المسند، 5 : 77
2. عسقلاني، الاصابه، 4 : 599، رقم : 5763
3. مزي، تهذيب الکمال، 21 : 542، رقم : 4326
(3) دستِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی برکت سے خشک تھنوں میں دودھ اُتر آیا
سفرِ ہجرت کے دوران جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اُم معبد رضی اللّٰہ عنہا کے ہاں پہنچے اور اُن سے کھانے کے لئے گوشت یا کچھ کھجوریں خریدنا چاہیں تو ان کے پاس یہ دونوں چیزیں نہ تھیں۔ حضور علیہ السلام کی نگاہ اُن کے خیمے میں کھڑی ایک کمزور دُبلی سوکھی ہوئی بکری پر پڑی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ بکری یہاں کیوں ہے؟ حضرت اُمِ معبدنے جواب دیا : لاغر اور کمزور ہونے کی وجہ سے یہ ریوڑ سے پیچھے رہ گئی ہے اور یہ چل پھر بھی نہیں سکتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : کیا یہ دودھ دیتی ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا : نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اگر اجازت ہو تو دودھ دوہ لوں؟ عرض کیا : دودھ تو یہ دیتی نہیں، اگر آپ دوہ سکتے ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے دوھا، آگے روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
فدعا بها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فمسح بيده ضرعها و سمي اﷲ تعالٰي ودعا لها في شاتها، فتفاجت عليه ودرّت فاجتبرت، فدعا بإنائِ يربض الرهط فحلب فيه ثجاً حتي علاه البهاء، ثم سقاها حتيّٰ رويت وسقٰي أصحابه حتي رووا و شرب آخرهم حتي أراضوا ثم حلب فيه الثانية علي هدة حتيّٰ ملأ الإناء، ثم غادره عندها ثم بايعها و ارتحلوا عنها.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے منگوا کر بسم اﷲ کہ کر اُس کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک پھیرا اور اُم معبد کے لئے ان کی بکریوں میں برکت کی دعا دی۔ اس بکری نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اپنی دونوں ٹانگیں پھیلا دیں، کثرت سے دودھ دیا اور تابع فرمان ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا برتن طلب فرمایا جو سب لوگوں کو سیراب کر دے اور اُس میں دودھ دوہ کر بھر دیا، یہاں تک کہ اُس میں جھاگ آگئی۔ پھر اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کو پلایا، وہ سیر ہوگئیں تو اپنے ساتھیوں کو پلایا یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے۔ سب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا، پھر دوسری بار دودھ دوہا۔ یہاں تک کہ وہی برتن پھر بھردیا اور اُسے بطورِ نشان اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کے پاس چھوڑا اور اُسے اِسلام میں بیعت کیا، پھر سب وہاں سے چل دیئے۔‘‘
1. حاکم، المستدرک، 3 : 10، رقم : 4274
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 56
3. شيباني، الآحاد و المثاني، 6 : 252، رقم : 3485
4. طبراني، المعجم الکبير، 4 : 49، رقم : 3605
5. هبة اﷲ، اعتقاد اهل السنة، 4 : 778
6. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1959
7. عسقلاني، الاصابه، 8 : 306
8. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 230
9. ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 60
10. طبري، الرياض النضره، 1 : 471
تھوڑی دیر بعد حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا کا خاوند آیا، اُس نے دودھ دیکھا تو حیران ہوکر کہنے لگا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا ہے؟ حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا نے جواباً آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ شریف اور سارا واقعہ بیان کیا، جس کا ذکر ہم متعلقہ مقام پر کر آئے ہیں۔ وہ بولا وہی تو قریش کے سردار ہیں جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ میں نے بھی قصد کرلیا ہے کہ اُن کی صحبت میں رہوں چنانچہ وہ دونوں میاںبیوی مدینہ منورہ پہنچ کر مسلمان ہوگئے۔
حضرت اُمِ معبد رضی اللّٰہ عنہا قسم کھا کر بیان کرتی ہیں کہ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیاتِ مبارکہ کے دس برس گزارے، پھر اڑھائی سالہ خلافتِ ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دور گزرا اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا۔ ان کے دورِ خلافت کے اواخر میں شدید قحط پڑا، یہاں تک کہ جانوروں کے لئے گھاس پھوس کا ایک تنکا بھی میسر نہ آتا۔ وہ فرماتی ہیں کہ خدا کی قسم! آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے میری بکری اُس قحط سالی کے زمانے میں بھی صبح و شام اُسی طرح دودھ دیتی رہی۔
(4) دستِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لمس سے لکڑی تلوار بن گئی
غزوۂ بدر میں جب حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کی تلوار ٹوٹ گئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں ایک سوکھی لکڑی عطا کی جو اُن کے ہاتھوں میں آ کر شمشیرِ آبدار بن گئی۔
فعاد سيفا في يده طويل القامة، شديد المتن أبيض الحديدة فقاتل به حتي فتح اﷲ تعالٰي علي المسلمين وکان ذلک السيف يُسمّی العون.
’’جب وہ لکڑی اُن کے ہاتھ میں گئی تو وہ نہایت شاندار لمبی، چمکدار مضبوط تلوار بن گئی، تو اُنہوں نے اُسی کے ساتھ جہاد کیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرمائی اور وہ تلوار عون (یعنی مددگار) کے نام سے موسوم ہوئی۔‘‘
1. ابن هشام، السيرة النبويه، 3 : 185
2. بيهقي، الاعتقاد، 1 : 295
3. عسقلاني، فتح الباري، 11 : 411
4. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 1 : 308
5. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 1080، رقم : 1837
6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 188
7. نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 310، رقم : 418
جنگِ اُحد میں حضرت عبداللہ بن جحش کی تلوار ٹوٹ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی۔
فرجع في يد عبداﷲ سيفاً.
’’جب وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں گئی تو وہ (نہایت عمدہ) تلوار بن گئی۔‘‘
1. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 359
2. أزدي، الجامع، 11 : 279
3. ابن حجر، الاصابه، 4 : 36، رقم : 4586
5۔ دستِ اقدس کے لمسِ سے کھجور کی شاخ روشن ہو گئی
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کے لمس کی برکت سے کھجور کی شاخ میں روشنی آگئی جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : حضرت قتادہ بن نعمان رضی اللہ عنہ ایک اندھیری رات میں طوفانِ باد و باراں کے دوران دیر تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے رہے۔ جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں کھجور کی ایک شاخ عطا فرمائی اور فرمایا :
إنطلق به فإنه سيضئ لک مِن بين يديک عشرا، و مِن خلفک عشراً، فإذا دخلت بيتک فستري سواداً فأضربه حتي يخرج، فإنه الشيطان.
’’اسے لے جاؤ! یہ تمہارے لئے دس ہاتھ تمہارے آگے اور دس ہاتھ تمہارے پیچھے روشنی کرے گی اور جب تم اپنے گھر میں داخل ہوگے تو تمہیں ایک سیاہ چیز نظر آئے گی پس تم اُسے اتنا مارنا کہ وہ نکل جائے کیونکہ وہ شیطان ہے۔‘‘
1. قاضي عياض، الشفا بتعريف حقوق المصطفيٰ، 1 : 219
2. احمد بن حنبل، المسند، 3 : 65، رقم : 11642
3. ابن خزيمه، صحيح، 3 : 81، رقم : 1660
4. طبراني، المعجم الکبير، 19 : 13، رقم : 19
5. هيثمي، مجمع الزوائد، 2 : 167
6. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 29
7. مناوي، فيض القدير، 5 : 73
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ وہاں سے چلے تو وہ شاخ ان کے لئے روشن ہو گئی یہاں تک کہ وہ اپنے گھر میں داخل ہوگئے اور اندر جاتے ہی اُنہوں نے اُس سیاہ چیز کو پالیا اور اتنا مارا کہ وہ نکل گئی۔
(6) توشہ دان میں کھجوروں کا ذخیرہ
بيہقی، ابو نعیم، ابن سعد، ابن عساکر اور زرقانی نے یہ واقعہ ابو منصور سے بطریق حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کیاہے کہ ایک جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم موجود تھے جن کے کھانے کے لئے کچھ نہ تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس موقع پر میرے ہاتھ ایک توشہ دان (ڈبہ) لگا، جس میں کچھ کھجوریں تھیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استفسار پر میں نے عرض کیا کہ میرے پاس کچھ کھجوریں ہیں۔ فرمایا : لے آؤ۔ میں وہ توشہ دان لے کر حاضر خدمت ہوگیا اور کھجوریں گنیں تو وہ کل اکیس نکلیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ اقدس اُس توشہ دان پر رکھا اور پھر فرمایا :
أدع عشرة، فدعوت عشرة فأکلوا حتٰي شبعوا ثم کذالک حتٰي أکل الجيش کله و بقي من التمر معي في المزود. قال : يا أباهريرة! إذا أردت أن تأخذ منه شيئًا فادخل يدک فيه ولا تکفه. فأکلتُ منه حياة النبي صلي الله عليه وآله وسلم وأکلت منه حياة أبي بکر کلها و أکلت منه حياة عمر کلها و أکلت منه حياة عثمان کلها، فلما قُتل عثمان إنتهب ما في يدي وانتهب المزود. ألا أخبرکم کم أکلتُ منه؟ أکثر من مأتي وسق.
’’دس آدمیوں کو بلاؤ! میں نے بلایا۔ وہ آئے اور خوب سیر ہو کرچلے گئے۔ اسی طرح دس دس آدمی آتے اور سیرہو کر اٹھ جاتے یہاں تک کہ تمام لشکر نے کھجوریں کھائیں اور کچھ کھجوریں میرے پاس توشہ دان میں باقی رہ گئیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابوہریرہ! جب تم اس توشہ دان سے کھجوریں نکالنا چاہو ہاتھ ڈال کر ان میں سے نکال لیا کرو، لیکن توشہ دان نہ انڈیلنا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اس سے کھجوریں کھاتا رہا اور پھر حضرت ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عثمان غنی رضی اللہ عنھم کے پورے عہد خلافت تک اس میں سے کھجوریں کھاتا رہا اور خرچ کرتا رہا۔ اور جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے تو جو کچھ میرے پاس تھا وہ چوری ہو گیا اور وہ توشہ دان بھی میرے گھر سے چوری ہوگیا۔ کیا تمہیں بتاؤں کہ میں نے اس میں سے کنتی کھجوریں کھائیں ہوں گی؟ تخمیناً دو سو وسق سے زیادہ میں نے کھائیں۔‘‘
1. ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة) 6 : 117
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 685، ابواب المناقب، رقم : 3839
3. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 352
4. ابن حبان، الصحيح، 14 : 467، رقم : 6532
5. اسحاق بن راهويه، المسند، 1 : 75، رقم : 3
6. بيهقي، الخصاص الکبريٰ، 2 : 85
7. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 2 : 631
یہ سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی برکتوں کا نتیجہ تھا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اُس توشہ دان سے منوں کے حساب سے کھجوریں نکالیں مگر پھر بھی تادمِ آخر وہ ختم نہ ہوئیں۔
(7) دستِ شفا سے ٹوٹی ہوئی پنڈلی جڑ گئی
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عتیک دشمنِ رسول ابو رافع یہودی کو جہنم رسید کر کے واپس آرہے تھے کہ اُس کے مکان کے زینے سے گر گئے اور اُن کی پنڈلی ٹوٹ گئی۔ وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی ٹانگ کھولو۔ وہ بیان کرتے ہیں :
فبسطتُ رجلي، فمسحها، فکأنّما لم أشتکها قط.
’’میں نے اپنا پاؤں پھیلا دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا دستِ شفا پھیرا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ کرم کے پھیرتے ہی میرے پنڈلی ایسی درست ہوگئی کہ گویا کبھی وہ ٹوٹی ہی نہ تھی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح 4 : 1483، کتاب المغازي، رقم : 3813
2. بيهقي، السنن الکبريٰ، 9 : 80
3. طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 56
4. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 3 : 946
5. ابو نعيم، دلائل النبوه، 1 : 125، رقم : 134
6. ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 139
7. ابن تيميه، الصارم المسلول، 2 : 294
(8) دستِ اقدس کی فیض رسانی
حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کا گورنر تعینات کیا تو انہوں نے عرض کیا کہ مقدمات کے فیصلے میں میری ناتجربہ کاری آڑے آئے گی۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنا دستِ مبارک اُن کے سینے پر پھیرا جس کی برکت سے انہیں کبھی کوئی فیصلہ کرنے میں دشواری نہ ہوئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی فیض رسانی کا حال آپ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں :
فضرب بيده في صدري، و قال : اللهم اهد قلبه و ثبت لسانه. قال فما شککتُ في قضاء بين اثنين.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ کرم میرے سینے پر مارا اور دعا کی : اے اللہ! اس کے دل کو ہدایت پر قائم رکھ اور اس کی زبان کو حق پر ثابت رکھ۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ (خدا کی قسم) اُس کے بعد کبھی بھی دو آدمیوں کے درمیان فیصلے کرنے میں ذرہ بھر غلطی کا شائبہ بھی مجھے نہیں ہوا۔‘‘
1. ابن ماجه، السنن، 2 : 774، کتاب الاحکام، رقم : 2310
2. عبد بن حميد، المسند، 1 : 61، رقم : 94
3. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 337
4. احمد بن ابي بکر، مصباح الزجاجه، 3 : 42، رقم : 818
5. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 2 : 122
(9) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی قوت حافظہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
قلتُ : يا رسول اﷲ، إني أسمع منک حديثاً کثيراً فأنساه؟ قال : أبسط، رداء ک، فبسطتُه، قال : فغرف بيديه فيه، ثم قال : ضمه فضممته، فما نسيتُ شيئاً بعده.
’’میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم سے بہت کچھ سنتا ہوں مگر بھول جاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی چادر پھیلا؟ میں نے پھیلا دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لپ بھر بھر کر اس میں ڈال دیئے اور فرمایا : اسے سینے سے لگا لے۔ میں نے ایسا ہی کیا، پس اس کے بعد میں کبھی کچھ نہیں بھولا۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 1 : 56، کتاب العلم، رقم : 119
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1940، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2491
3. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 684، ابواب المناقب، رقم : 3835
4. ابن حبان، الصحيح، 16 : 105، رقم : 7153
5. ابو يعلٰي، المسند، 11 : 88، رقم : 6219
6. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 2 : 329
7. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1771
8. عسقلاني، الاصابه، 7 : 436
9. ذهبي، تذکرة الحفاظ، 2 : 496
10. ذهبي، سير اعلام النبلاء، 12 : 174
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کی خیر و برکت کی تاثیر کے حوالے سے یہ چند واقعات ہم نے محض بطور نمونہ درج کئے ورنہ دستِ شفا کی معجز طرازیوں سے کتبِ احادیث و سیر بھری پڑی ہیں۔
23۔ انگشتانِ مبارک
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ مبارک کی انگلیاں خوبصورت، سیدھی اور دراز تھیں۔
1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
کان رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم . . . سائل الأطراف.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگشتانِ مبارک لمبی اور خوبصورت تھیں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 156، رقم : 414
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
2۔ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوبصورت انگلیوں کو چاندی کی ڈلیوں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :
کأن أصابعه قضبان فضة.
1. بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 305
2. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 40
3. مناوي، فيض القدير، 5 : 78
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انگلیاں مبارک چاندی کی ڈلیوں کی طرح تھیں۔‘‘
انہی مقدس انگلیوں کے اشارے پر چاند وجد میں آجایا کرتا تھا، شق القمر کا معجزہ انہی مقدس انگلیوں کے اُٹھ جانے سے ظہور میں آیا، انہی مقدس انگلیوں سے پانی کے چشمے رواں ہوگئے۔
3۔ حضرت میمونہ بنت کردم رضی اللّٰہ عنہا بیان کرتی ہیں :
خرجت في حجة حجها رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فرأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم وطول اصبعه التي تلي الابهام أطول علي سائر أصابعه، و قال : في موضع آخر روي عن أصابع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، أن المشيرة کانت أطول من الوسطي، ثم الوسطي أقصر منها، ثم البنصر من الوسطي.
’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے موقع پر باہر نکلی تو میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انگوٹھے کے ساتھ شہادت والی انگلی کی لمبائی کو دیکھا کہ وہ باقی سب انگلیوں سے دراز ہے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انگلیوں کے بارے میں دوسری جگہ روایت ہے کہ اشارے کرنے والی انگلی (شہادت والی انگلی) درمیانی انگلی سے لمبی تھی، درمیانی انگلی شہادت والی سے چھوٹی اور انگوٹھی والی انگلی درمیانی انگلی سے چھوٹی تھی۔
1. مناوي، فيض القدير، 5 : 195
2. حکيم ترمذي، نوادر الاصول في أحاديث الرسول، 1 : 167، 168
3. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 268، رقم : 471
4. قرطبي، الجامع الاحکام القرآن، 2 : 15
24۔ ہتھیلیاں مبارک
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس اور نورانی ہتھیلیاں کشادہ اور پرگوشت تھیں۔ اس بارے میں متعدد روایات ہیں :
1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . رحب الراحة.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیاں فراخ تھیں۔‘‘
1. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 156
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
4. ابن حبان، الثقات، 2 : 146
5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
6. مناوي، فيض القدير، 5 : 78
7. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 156
8. ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 422
9. نووي، تهذيب الاسماء، 1 : 52
2۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
وکان بسط الکفين.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلیاں کشادہ تھیں۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 5 : 2212، کتاب اللباس، رقم : 5567
2. عسقلاني، فتح الباري، 10 : 359
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ہتھیلیوں میں نرماہٹ، خنکی اور ٹھنڈک کا احساس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک منفرد وصف تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم قسم کھا کر بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک ہتھیلیوں سے بڑھ کر کوئی شے نرم اور ملائم نہ تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی سے مصافحہ فرماتے یا سر پر دستِ شفقت پھیرتے تو اُس سے ٹھنڈک اور سکون کا یوں اِحساس ہوتا جیسے برف جسم کو مَس کر رہی ہو۔
حضرت عبداللہ بن ہلال انصاری رضی اللہ عنہ کو جب اُن کے والدِ گرامی دعا کے لئے حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے کر گئے تو اُس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور اُن کے سر پردستِ شفقت پھیرا۔ وہ اپنے تاثرات یوں بیان کرتے ہیں :
فما أنسيٰ وضع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يده علي رأسي حتي وجدتُ بردها.
هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 399
’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دستِ شفقت کی ٹھنڈک اور حلاوت کو میں کبھی نہیں بھولا، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک میرے سر پر رکھا۔‘‘
25۔ بغل مبارک
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک بغلیں سفید، صاف و شفاف اور نہایت خوشبودار تھیں، جس کے بارے میں کتب احادیث و سیر میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے متعدد احادیث مروی ہیں :
1۔ ایک دفعہ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے وضو کا پانی پیش کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہو کر اُنہیں دُعا دی اور اپنے مبارک ہاتھوں کو بلند فرمایا۔ وہ اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ :
و رأيتُ بياض إبطيه.
’’میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں کی سفید ی دیکھی۔‘‘
1. بخاري، الصحيح، 5 : 2345، کتاب المناقب، رقم : 6020
2. مسلم، الصحيح، 4 : 1944، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 2498
3. نسائي، السنن الکبريٰ، 5 : 240، رقم : 8187
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 460
2۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک بغلوں کی خوشبودار ہونے کے حوالے سے بنی حریش کا ایک شخص اپنے بچپن کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں اپنے والدِ گرامی کے ساتھ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوا، اُس وقت حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو اُن کے اقرارِ جرم پر سنگسار کیا جارہا تھا۔ مجھ پر خوف سا طاری ہوگیا، ممکن تھا کہ میں بے ہوش ہو کر گرپڑتا :
فضمني إليه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، فسال عليّ مِن عرقِ إبطه مثل ريحِ المسکِ.
’’پس رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اپنے ساتھ لگالیا (گویا گرتے دیکھ کر مجھے تھام لیا) اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک بغلوں کا پسینہ مجھ پر گرا جو کستوری کی خوشبو کی مانند تھا۔‘‘
1. دارمي، السنن، 1 : 34، رقم : 64
2. سيوطي، الخصائص الکبريٰ، 1 : 116
3. زرقاني، شرح المواهب اللدنيه، 5 : 461
4. عسقلاني، الاصابه، 2 : 57
5. عسقلاني، لسان الميزان، 2 : 170
6. ذهبي، ميزان الاعتدال، 2 : 193
انسانی جسم کا وہ حصہ جس سے عموماً پسینہ کی وجہ سے ناپسندیدہ بو آتی ہے، حضور ختمی مرتب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اطہر کے حسن و جمال میں اضافے کا موجب بنا اور وہ خوش نصيب صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم جنہيں حضور نبي اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم کي مبارک و مقدس بغلوں کے پسينے کي خوشبو سے مشامِ جاں کو معطر کرنے کي سعادت حاصل ہوئي، وہ عمر بہر اُس سعادت پر نازاں رہے۔
26۔ سینۂ اقدس
آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس فراخ، کشادہ اور ہموار تھا۔ جسمِ اطہر کے دوسرے حصوں کی طرح حسنِ تناسب اور اعتدال و توازن کا نادر نمونہ تھا۔ سینۂ انور سے ناف مبارک تک بالوں کی ایک خوشنما لکیر تھی، اس کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاسینۂ اقدس بالوں سے خالی تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ انورقدرے ابھرا ہوا تھا، یہی وہ سینۂ انور تھا جسے بعض حکمتوں کے پیش نظر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ مقدسہ کے مختلف مرحلوں میں کئی بار چاک کر کے انوار و تجلیات کا خزینہ بنایا گیا اور اسے پاکیزگی اور لطافت و طہارت کاگہوارہ بنا دیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینہ فراخی، کشادگی، وسعت اور حسن تناسب میں اپنی مثال آپ تھا۔
1۔ حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ سینۂ اقدس کے فراخ اور کشادہ ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . . . عريض الصدر.
’’ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ انور فراخی (کشادگی) کا حامل تھا۔‘‘
1. ترمذي، الشمائل المحمديه : 2، باب في خلق رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم
2. بيهقي، شعب الايمان، 2 : 155، رقم : 1430
3. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 155، رقم : 414
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 273
5. سيوطي، الجامع الصغير، 1 : 35
6. ابن حبان، الثقات : 2 : 146
7. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 1 : 422
8. ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 156
2۔ اس حوالے سے امام بيہقی رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت ہے :
و کان عريض الصدر ممسوحه کأنه المرايا في شدتها و إستوائها، لا يعدو بعض لحمه بعضاً، علي بياض القمر ليلة البدر.
’’حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سینۂ اقدس فراخ اور کشادہ، آئینہ کی طرح سخت اور ہموار تھا، کوئی ایک حصہ بھی دوسرے سے بڑھا ہوا نہ تھا اور سفیدی اور آب و تاب میں چودھویں کے چاند کی طرح تھا۔‘‘
بيهقي، دلائل النبوه، 1 : 304
3۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے :
کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فسيح الصدر.
’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس سینے میں وسعت پائی جاتی تھی۔‘‘
ابن عساکر، السيرة النبويه، 1 : 330

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...