۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِسلامی حکومت کے قیام کا مسئلہ
شریعت نے ضروری قرار دیا کہ مسلمانوں کی نمائندہ حکومت ہو، لیکن اِس کا انتخاب کس طرح ہو، حکومت کی تشکیل کس نظام کے تحت کی جائے، اس کے ادارے کس طرح وجود میں آئیں اور پھر ان میں اِختیارات کی تقسیم کس اُسلوب پر ہو؟ ان تفصیلات کے متعلق شریعت میں صریح اَحکامات نہیں ملتے۔ ہر مسلمان ریاست نے اپنی صواب دید کے مطابق جو نظام ضروری سمجھا اپنا لیا۔
2۔ تعمیرِ مساجد کا مسئلہ
اَوائلِ اسلام میں پختہ مکانات بنانا ناپسند خیال کیا جاتا تھا، لہٰذا مسجد کو بھی اَز رُوئے شرع پختہ بنانا ناجائز تصور کیا جاتا رہا۔ پھر ایک وقت آیا جب اسلامی سلطنت کی حدیں شرق تا غرب تک پھیل گئیں، تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کے طریقوں میں تبدیلیاں آگئیں، لوگوں نے اپنی رہائش کے لیے بڑے بڑے کشادہ اور پختہ مکانات بنانا شروع کر دیے۔ بنو اُمیہ اور بنو عباس کے دورِ حکومت اور مابعد اِسلامی مملکت کے جاہ و جلال کے دور میں مسلمانوں نے عالی شان محلات تعمیر کیے تو علماء نے وقت کے تقاضوں کے مطابق مساجد کی تعمیر کو بھی اسی طرح نہ صرف جائز کہا بلکہ عظمتِ اسلام کے پیش نظر ضروری قرار دیا۔
اگر مساجد کی تعمیر میں تبدیلی پر غور کیا جائے تو اس کی مصلحت اب سمجھ میں آتی ہے کہ اس وقت لوگوں کے اپنے گھر کچے ہوتے تھے لہٰذا اﷲ کے گھر کا کچا ہونا باعثِ ننگ و عار نہ تھا۔ لیکن جب لوگوں کے اپنے مکانات پختہ محلات میں بدل گئے تو خانہ خدا کی وجاہت اور ظاہری رعب و دبدبہ کے پیشِ نظر پختہ اور خوبصورت مساجد کی تعمیر کے جواز کا فتويٰ دے دیا گیا۔ اِس سے واضح ہوتا ہے کہ دین کو اگر ظاہری لفظوں سے سمجھنے کی کوشش کی جائے تو اس سے (الا ما شاء اﷲ) گمراہی کے سوا کچھ نہیں ملتا لیکن اگر دین کی اصل روح اور اس میں کار فرما حکمتوں پر غور کر کے اس کے اَحکام کو پرکھا جائے تو دین کا صحیح فہم پیدا ہوتا ہے۔
3۔ قرآن حکیم کا ترجمہ و تفسیر
قرآن حکیم کی تعلیمات لوگوں تک پہنچانے کے لیے ضروری تھا کہ اس کے تراجم اور تفاسیر بھی مختلف ممالک کے لوگوں کی زبان اور فہم کے مطابق ہوں لیکن دین کے بارے میں ظاہری الفاظ پر نظر رکھنے والا ناپختہ اور انتہا پسند جامد ذہن ہر دور میں ہونے والے نئے کام کی مزاحمت میں پیش پیش رہا ہے۔ چنانچہ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی نے ہندوستان میں جب پہلی مرتبہ اسی ضرورت کے پیشِ نظر قرآن حکیم کا ترجمہ فارسی زبان میں کیا تو یہاں کے ظاہر بیں علماء نے بہت واویلا کیا، کفر و بدعت کے فتاويٰ صادر کیے کہ قرآن کو عربی زبان سے فارسی میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ لیکن آنے والے وقت نے ثابت کر دیا کہ یہ بدعت مصلحتِ وقت اور عین تقاضائے تبلیغِ دین تھی، جب کہ فتويٰ لگانے والے اُس وقت اس دینی مصلحت سے ناآشنا تھے۔
اَئمہ و محدثین کی بیان کردہ اَقسامِ بدعت
دین کے متذکرہ پہلوؤں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہی اَئمہ و محدثین نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :
1۔ اِمام شافعی (150۔204ھ)
شافعی فقہ کے بانی امام شافعی بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں کرتے ہیں :
المحدثات من الأمور ضربان : ما أحدث يخالف کتاباً أو سنة أو أثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، وما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا، فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضی الله عنه فی قيام رمضان : نعمت البدعة هذه.
ذهبی، سير أعلام النبلائ، 10 : 70
سيوطی، الحاوی للفتاوی : 202
سيوطی، حسن المقصد فی عمل المولد : 52، 53
’’محدثات میں دو قسم کے اُمور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے اُمور ہیں جو قرآن و سنت، آثارِ صحابہ یا اِجماعِ اُمت کے خلاف ہوں۔ پس یہ بدعتِ ضلالہ ہیں۔ اور دوسری قسم میں وہ نئے اُمور ہیں جن کو بھلائی کے لیے اَنجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ پس یہ نئے اُمور ناپسندیدہ نہیں ہیں۔ اِسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا : یہ کتنی اچھی بدعت ہے۔‘‘
2۔ شیخ عز الدین بن عبد السلام (577۔660ھ)
شیخ عز الدین بن عبد السلام سلمی اپنی کتاب ’’قواعدالاحکام فی مصالح الانام‘‘ میں فرماتے ہیں :
البدعة فعل ما لم يعهد فی عهد النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، وتنقسم إلی خمسة أحکام يعنی الوجوب والندب … الخ. وطريق معرفة ذلک أن تعرض البدعة علی قواعد الشرع فأی حکم دخلت فيه فهی منه، فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذی يفهم به القرآن والسنة، ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية، ومن البدع المندوبة إحداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح، ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة، ومن البدع المکروهة زَخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب.
ابن حجر هيتمي، الفتاوی الحديثية : 203
’’بدعت ایسا فعل ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا اور بدعت کو پانچ اَحکام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی واجب اور ندب وغیرہ۔ اور اس کی پہچان کا طریقہ کار یہ ہے کہ بدعت کو قواعدِ شرعیہ پر پرکھا جائے گا۔ پس وہ جو حکم شرعی پر پورا اترے گا اسی قسم میں سے ہوگا۔ پس نحو کا علم سیکھنا جس سے قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بدعتِ واجبہ میں سے ہے۔ اور قدریہ جیسے نئے مذہب بنانا بدعتِ محرمہ میں سے ہے۔ اور مدارس بنانا اور نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا بدعتِ مندوبہ میں سے ہے۔ اور نماز کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ میں سے ہے۔ اور سونا اِستعمال کیے بغیر مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ میں سے ہے۔‘‘
3۔ ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ)
ملا علی قاری حنفی ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کی شرح ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں لکھتے ہیں :
قال الشيخ عز الدين بن عبد السلام فی آخر کتاب القواعد : البدعة : أما واجبة کتعلم النحو لفهم کلام اﷲ ورسوله وکتدوين أصول الفقه والکلام فی الجرح والتعديل. وأما محرمة کمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة. والرد علی هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض کفاية. وأما مندوبة کإحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد فی الصدر الأول وکالتراويح أی بالجماعة العامة والکلام فی دقائق الصوفية. وأما مکروهة کزخرفة المساجد وتزوين المصاحف يعنی عند الشافعية، وأما عند الحنفية فمباح. وأما مباحة کالمصافحة عقيب الصبح والعصر أی عند الشافعية أيضًا وإلا فعند الحنفية مکروه، والتوسّع فی لذائذ المأکل والمشارب والمساکن وتوسيع الأکمام.
ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216
’’شیخ عز الدین بن عبد السلام ’’القواعد‘‘ کے آخر میں بدعت کے بارے میں فرماتے ہیں : اﷲ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو سمجھنے کے لیے نحو کا سیکھنا، اُصولِ فقہ کی تدوین کرنا اور علم جرح و تعدیل کا حاصل کرنا بدعتِ واجبہ ہے، جب کہ بدعتِ محرمہ میں نئے مذاہب کا وجود ہے جیسے جبریہ، قدریہ، مرجئہ اور مجسمہ اور ان تمام کا ردّ بدعتِ واجبہ سے کیا جائے گا کیوں کہ اِسی بدعت سے شریعت کی حفاظت کرنا فرضِ کفایہ ہے۔ جب کہ سرائیں اور مدارس کا قیام اور ہر قسم کی نیکی کے فروغ کے کام جو اِسلام کے اِبتدائی دور میں نہ تھے جیسے باجماعت نمازِ تراویح اور تصوف کے پیچیدہ نکات و رموز پر گفتگو کرنا بدعتِ مندوبہ میں شامل ہیں۔ شوافع کے ہاں مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ ہے، جب کہ اَحناف کے ہاں یہ اَمر مباح ہیں۔ اور شوافع کے ہاں فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ ہے، جب کہ اَحناف کے نزدیک یہ اَمر مکروہ ہیں؛ اور اِسی طرح لذیذ کھانے، پینے اور گھروں کو و سیع کرنا (جیسے اُمور بھی بدعتِ مباحہ میں شامل) ہیں۔‘‘
No comments:
Post a Comment