Sunday, 14 December 2014

وہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جنھیں غیروں نے بھی مانا

وہ امام احمد رضا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جنھیں غیروں نے بھی مانا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چودہویں صدی کے مجدد، امام عشق و محبت، اعلٰی حضرت امام اہلسنت مولانا الشاہ احمد رضا خاں صاحب محدث بریلوی علیہ الرحمہ کی ذات بے شمار خوبیوں کی مالک ہے، آپ نے ہر میدان میں فتوحات کے جھنڈے گاڑے، یہی وجہ تھی کہ آپ علیہ الرحمہ کی ذات سے اغیار بھی متاثر تھے جس کی بناء پر وہ آپ کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔
ایک مرتبہ مجھے کسی ساتھی نے بتایا کہ حیدر آباد شہر میں ایک بزرگ مفتی سید محمد علی رضوی صاحب مدظلہ العالی جلوہ افروز ہیں جن کو اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ہے۔ لٰہذا فقیر دل میں یہ آرزو لئے کہ اعلٰی حضرت کا دیدار تو نہ کیا مگر جس نے اعلٰی حضرت کو دیکھا ہے ان کی آنکھوں کا ہی دیدار ہو جائے، فقیر حیدر آبادر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔
فقیر نے مفتی سید محمد علی رضوی صاحب سے عرض کی جس وقت اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کا وصال ہوا اس وقت کی کوئی یادگار بات ارشاد فرمائیں، آپ نے فرمایا جس وقت اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کا وصال ہوا اس وقت میں لاہور میں تھا عین اس وقت دیوبندی اکابر مولوی اشرف علی تھانوی کسی جلسے سے خطاب کر رہا تھا اس وقت مولوی اشرف علی تھانوی کو یہ اطلاع دی گئی کہ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ بریلی شریف میں وصال فرما گئے ہیں تو اس وقت اس نے اپنی تقریر روک کر سامعین سے کہا کہ “اے لوگو ! آج سے عاشق رسول چلا گیا۔“ جسے اس وقت کے تمام اخبارات نے شائع کیا، یہ میری زندگی کی یادگار بات ہے جسے میں آج تک نہیں بھلا پایا۔

اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ ساری زندگی دشمنان اسلام کے لئے شمشیر بے نیام بن کر رہے مگر اس کے باوجود باطل نظریات رکھنے والی کئی جماعتوں کے اکابرین نے اعلٰی حضرت کے متعلق تعریفی کلمات تحریر کئے، فقیر یہ سمجھتا ہے کہ یہ اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کی کرامت ہے کہ آپ کی قابلیت کو دیکھ کر مخالفین بھی تعریف لکھنے پر مجبور ہو گئے، زیر نظر کتاب بھی اسی عنوان پر ہے، جس میں مؤلف نے مخالفین کے اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ کے متعلق کم و بیش ستر تاثرات جمع کے ہیں، جن میں دیوبندی، غیر مقلدین اور جماعت اسلامی (مودودی گروپ) کے قائدین ادیب، علماء، شعراء اور ایڈیٹر حضرات نے اعلٰی حضرت کے حوالے سے اپنے خیالات اور تاثرات پیش کئے ہیں، اس کتاب کی اشاعت کا اہتمام سلسلہ اشاعت نمبر 154 میں جمعیت اشاعت اہلسنت نے کیا ہے۔
جمعیت اشاعت اہلسنت گزشتہ کئی سالوں سے یہ خدمت انجام دے رہی ہے تاکہ اکابر علماء کی کتابوں کو مفت شائع کرکے عوام اہلسنت کے گھروں تک پہنچایا جائے۔
اللہ تعالٰی اس کتاب کو عوام اہلسنت کے لئے نافع بنائے اور جمعیت اشاعت اہلسنت کو ترقیوں سے ہم کنار فرمائے، آمین ثم آمین
فقط والسلام
الفقیر محمد شہزاد قادری ترابی

تاثرات حضرت علامہ مولانا محمد بخش صاحب مدظلہ العالی
مفتی جامعہ رضویہ مظہر اسلام، فیصل آباد

مجاہد ملت مناظر اسلام فاضل ذیشان حضرت مولانا محمد کاشف اقبال مدنی شاہکوٹی کے متعلق جہاں تک فقیر کی معلومات کا تعلق ہے نہایت صحیح العقیدہ متعلب سنی حنفی بریلوی ہیں۔ مرکزی دارلعلوم جامعہ رضویہ مظہر اسلام گلستان محدث اعظم پاکستان فیصل آباد کے فارغ التحصیل ہیں مسلک حق اہلسنت و جماعت کے بے باک مبلغ ہیں۔ اعلٰی حضرت عظیم البرکت مجدد ماتہ حاضرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نظریات کے زبردست حامی اور ان پر سختی کے ساتھ کاربند ہیں اور امام احمد رضا بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی عنہ کے نظریات سے سر موانحراف کرنے والوں پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ وہابیہ دہابنہ کے سخت مخالف ہیں کئی مناظروں میں علمائے وہابیہ اور دہابنہ کو شکست فاش دے چکے ہیں۔ وہابیہ کے خلاف کئی کتابیں مثلاً
(1) مسائل قربانی اور غیر مقلدین
(2) مسائل رمضان اور بیس تراویح
(3) وہابیہ کے بطلان کا انکشاف
(4) خطرہ کی لال جھنڈی وغیرہ
تصنیف فرما چکے ہیں۔ بلاوجہ شرعی و بلا ثبوت ان کی ذات کو مشکوک جاننا امانت و دیانت کے خلاف ہے حق تو یہ ہے کہ ایسے نڈر بے باک خطیب و مبلغ کی حوصلہ افزائی ہونی چاہئیے نہ کہ ان کی کردار کشی کی جائے اور ان کا حوصلہ پست کیا جائے۔ مولٰی تعالٰی سے دعا ہے کہ یااللہ کریم ! اس فاضل نوجوان کو استقامت فی الدین عطا فرما اور مسلک حق اہلسنت و جماعت کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما۔
الداعی فقیر ابو الصالح محمد بخش
خادم دارالافتاء جامعہ رضویہ مظہر اسلام فیصل آباد

تقریظ

شرف اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری مدظلہ العالی

بسم الرحمٰن الرحیم
حامدا و مصلیا و مسلما

عزیز محترم مولانا محمد کاشف اقبال مدنی حفظہ اللہ تعالٰی بحمدہ تعالٰی و تقدس راسخ العقیدہ سنی ہیں، پہلی ملاقات میں انہوں نے ایک مقالہ دکھایا جس کا عنوان تھا “عقائد اہل سنت قرآن و حدیث کی روشنی میں“ اسے میں نے سرسری نظر سے دیکھا تو اس میں قرآن و حدیث کے حوالے بکثرت دکھائی دئیے۔ علمائے اہلسنت، علمائے دیوبند اور اہلحدیث کے بے شمار حوالے دکھائی دئیے، ایک طرف یہ مقالہ دیکھتا اور دوسری طرف اپنے سامنے ایک نو عمر بچے کو دیکھتا تو مجھے یقین نہ آتا کہ یہ اسی نے لکھا ہے، چند سوالوں کے بعد مجھے اطمینان ہو گیا کہ یہ مقالہ اسی ہونہار بچے نے لکھا ہے، ان کا مطالبہ تھا کہ اس پر تقریظ لکھ دیں، مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ میں نے اسی وقت تقریظ لکھ دی، اس کے بعد بھی ان سے ملاقاتیں رہیں، انہیں ہمیشہ مسلک اہل سنت کے تحفظ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پایا، مخالفین کی کتابوں کا انہوں نے پوری بصیرت کے ساتھ وسیع مطالعہ کیا ہے۔ اللہ تعالٰی انہیں سلامت رکھے۔ اہل سنت کے بہت سے نوجوانوں کو یہ جذبہ اور سپرٹ عطا کرے۔
محمد عبدالحکیم شرف قادری
18، ربیع الاول 1425ھ

تقریظ

حضرت علامہ مولانا مفتی محمد جمیل رضوی صاحب
صدر مدرس جامعہ انوار مدینہ سانگلہ ہل
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الصلوٰۃ و السلام علیک یاسیدی یارسول اللہ
وعلٰی اٰلک واصحابک یاسیدی یاحبیب اللہ
اللھم یامن لک الحمد والصلوٰۃ والسلام علی نبیک محمد وعلی الک نبیک المکرم وعلی اصحابنیک المکرم اما بعد حتی یمیز الخبیث من الطیب

مولانا کاشف اقبال مدنی قادری رضوی صاحب نے امام اہلسنت مجدد دین و ملت امام عاشقاں اعلٰی حضرت عظیم البرکت امام شاہ محمد احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تعلب و نفحم نظریات پر بد مذاہب کے تاثرات اور تحسین امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پر دیانبہ و وہابیہ خبیثہ پلیدہ ملحدہ زندیقہ کے عقائد باطلہ اور اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے متعلق روافض و قیادنہ کے رد میں بھی بد مذاہب کی تائیدات مندرج فرمائی ہیں۔ امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کے متعلق نوادر روایات بد مذاہب کی تکفیر و تذلیل پر خود ان کی زبانی نقل فرمائی ہیں۔
اگر وہابیہ و دیابنہ و دیگر بد عقیدہ لوگ تعصب کی عینک اتار کر مطالعہ کریں تو مشعل راہ ہوگی۔ مدنی قادری رضوی صاحب کا نظریہ عقیدت اہلسنت کے لئے تحفہء نایاب ہے۔ اللہ تعالٰی اس تحریر سے اہلسنت کو مستفیض و مستیز فرمائے۔
احقر العباد (ابو محمد جیلانی رضوی)
محمد جمیل رضوی
خطیب جامع مسجد مدنی فیصل آباد
و صدر مدرس جامعہ انوار مدینہ سانگلہ ہل
23، ربیع الاول 1425ھ

مناظر اہلسنت ابو الحقائق علامہ مولانا غلام مرتضٰی ساقی مجددی

حق اور باطل ہمیشہ سے برسر پیکار ہیں، جس دور میں بھی باطل نے اپنا سر اٹھایا تو اہل حق نے اپنی ایمانی اور روحانی قوت سے اس سے پنجہ آزمائی کی اور اسے دُم دبا کر بھاگ نکلنے کے لئے مجبور کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندوستان میں باطل جب وہابیت و دیوبندیت کی مکروہ شکل میں نمودار ہوا تو اس کی سرکوبی کے لئے دیگر اکابرین اہل سنت کے علاوہ امام اہل سنت، اعلٰی حضرت عظیم البرکت الشاہ امام محمد احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمۃ نے نمایاں کردار ادا کیا۔ آپ نے اپنے زور قلم سے باطل کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کر ڈالا، اور منکرین کو اعلٰی حضرت علیہ الرحمۃ کے مقابلہ کی جراءت نہ ہو سکی۔۔۔۔۔۔ آپ خود فرماتے ہیں۔

کلک رضا ہے خبجر خونخوار برق بار
اعداء سے کہہ دو خیر منائیں نہ شر کریں

آپ نے قلیل وقت میں رد وہابیت پر اس قدر خدمات دیں ہیں کہ اتنی مدت میں ایک ادارہ اور ایک تنظیم بھی سر انجام دینے سے قاصر ہیں۔
آپ کی تحریک سے ہی مسلمانان اہلسنت، وہابی، دیوبندی عقائد سے باخبر ہو کر ان سے نفرت و بیزاری کا اظہار کرنے لگے۔ علماء و مشائخ اہل سنت نے مختلف انداز میں عوام الناس کو ان کے عقائد باطلہ اور افکار فاسدہ سے متعارف کرایا۔ اور اپنے متعلقین و منسلکین کو ان سے اعراض ولا تعلقی کا حکم فرمایا۔
دور حاضرہ میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے علماء و مشائخ ان لوگوں کے خیالات فاسدہ کی تغلیظ و تردید میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ اس دور کا بہت ہی خطرناک فتنہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے ان کے افکار و نظریات کی تردید کی جتنی زیادہ ضرورت ہے ہمارے علماء و مشائخ اتنی ہی زیادہ سستی اور عدم توجہ سے کام لے رہے ہیں۔ اس عمل میں کونسا راز پنہاں ہے اسے وہ حضرات بخوبی سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ بایں ہمہ دور حاضر میں ایسے مجاہدین اسلام بھی موجود ہیں جو سردھڑکی بازی لگا کر بھی حق و صداقت کے مبارک علم کو لہرانا چاہتے ہیں۔ انہی خوش نصیب افراد میں ہمارے نڈر محقق، معتدد کتب کے مصنف، مناظر اہل سنت، فاتح دیوبندیت حضرت مولانا محمد کاشف اقبال خان مدنی کا بھی شمار ہوتا ہے۔ آپ نے اپنی پیش نظر کتاب “امام احمد رضا، مخالفین کی نظر میں“ وقیع دلائل اور صریح حوالہ جات سے اس حقیقت کو ثابت کر دکھایا ہے کہ اعلٰی حضرت علیہ الرحمۃ حق و صداقت اور علم و حکمت کا وہ کوہ گراں تھے کہ جن کی تعریف میں اپنے تو ایک طرف بیگانے بھی رطب اللسان ہیں اور آپ نے جو اکابرین دیوبند کی تکفیر کی ہے وہ ریت پر اٹھائے گئے محل کی طرح بے بنیاد نہیں ہے بلکہ یہ ایسا مضبوط قلعہ ہے کہ جس کی بنیادیں کبھی لرزہ براندم نہیں ہو سکتیں اور اس کا اعتراف دیوبندی علماء کو بھی تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارگاہ رب العزت میں دعا ہے کہ مولٰی تعالٰی حضرت مصنف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اس تصنیف کو اہل حق کے لئے باعث تقویت اور اہل باطل کے لئے ذریعہ ہدایت بنائے۔ آمین
العبد الفقیر ابو الحقائق
غلام مرتضٰی ساقی مجددی
10 مئی 2004ء

ِنحمدہ و نصلی ونسلم علی رسولہ الکریم

اما بعد ! امام اہل سنت مجدد دین و ملت کشتہء عشق رسالت شیخ الاسلام و المسلمین امام عاشقان حضرت امام محمد احمد رضا خان محدث بریلوی علیہ الرحمہ علم و دانش کے سمندر تھے۔ ان کے علم کی ایک جھلک دیکھ کر علمائے عرب و عجم حیران رہ گئے۔ محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے تقریباً تمام علوم و فنون پر اپنی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔
وہ جامع علوم و فنون شخصیت کے مالک تھے۔ محدث بریلوی ایک عقبری شخصیت تھے۔ آپ نے پوری شدت و قوت کے ساتھ بدعات کا رد کیا اور احیاء سنت کا اہم فریضہ ادا کیا۔ علماء عرب و عجم نے آپ کو چودہویں صدی کا مجدد قرار دیا۔
محبت و عشق رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم محدث بریلوی علیہ الرحمۃ کا طرہء امتیاز تھا یہی ان کی زندگی اور یہی ان کی پہچان، وہ خود فرماتے ہیں کہ میرے دل کے دو ٹکڑے کئے جائیں تو ایک پر لاالہ الا اللہ اور دوسرے پر محمد رسول اللہ (صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) لکھا ہوگا آپ کا لکھا ہوا سلام
مصطفٰے جان رحمت پہ لاکھوں سلام
پوری دنیا میں پڑھا جاتا ہے۔
آپ کی کتب کی ایک ایک سطر سے عشق رسول کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ آپ کے عشق رسول کا اپنے ہی نہیں بیگانے بھی موافق ہی نہیں مخالف بھی دل و جان سے اقرار کرتے ہیں۔ آپ نے رسول کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بے ادب گستاخ فرقوں کا پوری قوت سے قلع قمع کرنے کے لئے جہاد فرمایا۔ دیوبندی کوثر نیازی مولوی کے بقول بھی “جسے لوگ امام احمد رضا بریلوی کا تشدد کہتے ہیں وہ بارگاہ رسالت میں ان کے ادب و احتیاط کی روش کا نتیجہ ہے۔ آپ کو ہر فن میں کامل دسترس حاصل تھی۔ بلکہ بعض علوم میں آپ کی مہارت حد ایجاد تک پہنچی ہوئی تھی۔“
آپ کے رسالہ مبارک الروض البمیج فی آداب التخریج کے متعلق لکھتے ہیں۔ کہ اگر پیش ازیں کتابے وریں فن نیافتہ شودپش مصنف راموجد تصنیف ہذامی تواں تفت (تذکرہ علمائے ہند فارسی صفحہ 17)
ترجمہ :۔ اگر (فن تخریج حدیث میں) اور کوئی کتاب نہ ہو، تو مصنف کو اس تصنیف کا موجد کہا جا سکتا ہے۔
علم توقیت میں اس قدر کمال حاصل تھا کہ دن کو سورج اور رات کو ستارے دیکھ کر گھڑی ملا لیا کرتے تھے وقت بالکل صحیح ہوتا اور ایک منٹ کا بھی فرق نہ ہوتا۔
علم ریاضی میں بھی آپ کو حد سے زیادہ اعلٰی درجہ کی مہارت حاصل تھی کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ریاضی کے ماہر ڈاکٹر سر ضیاء الدین آپ کی ریاضی میں مہارت کی ایک جھلک دیکھ کر انگشت بدندان رہ گئے۔
علم جفر میں بھی محدث بریلوی علیہ الرحمۃ یگانہء روزگار تھے۔
الغرض اعلٰی حضرت محدث بریلوی تمام علوم و فنون پر کامل دسترس رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ دینی اور ہر قسم کے علوم و فنون کے ماہر تھے۔
اعلٰی حضرت فاضل بریلوی پاک و ہند کے نابغہء روزگار فقہیہ، محدث، مفسر اور جامع علوم و فنون تھے۔ مگر افسوس کہ ساتھ یہ کہنا پڑتا ہے کہ حضور سیدنا مجدد اعظم محدث بریلوی جتنی عظیم المرتبت شخصیت تھے آپ اتنے ہی زیادہ مظلوم ہیں اور اس ظلم میں حامی و مخالف سبھی شامل ہیں جو آپ سے محبت کا دعوٰی کرتے ہیں مگر انہوں نے آپ کی شخصیت کا عوام کے سامنے اجاگر نہیں کیا۔ آپ کی عظمت پر بہت معمولی کام کیا۔ بلکہ کئی مکار لوگوں نے آپ کا نام لیکر آپ کو ناحق بدنام کیا۔ جتنا اعلٰی حضرت فاضل بریلوی نے گمراہی اور بدعات کا قلع قمع کیا، اتنا ہی بدعات کو رواج دے کر حضور اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کو بدنام کیا جا رہا ہے۔
دوسری طرف آپ کے مخالفین نے اس علمی شخصیت کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ آپ پر بے بنیاد الزامات کے انبار لگا دئیے گویا اعلٰی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا فاضل بریلوی علیہ الرحمہ کی عظیم عبقری شخصیت اپنوں کی سرد مہری اور مخالفین کے حسد اور بغض و عداوت کا شکار ہو کر رہ گئی اور یہی ایک بہت بڑا المیہ ہے مگر یہ تو واضح ہے کہ حقیقت کو بدلا نہیں جا سکتا۔ اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کے علمی رعب و دبدبہ کا یہ حال تھا کہ آپ کے کسی مخالف کو آپ سے مناظرے کی جراءت نہ ہو سکی۔ جوں جوں تحقیق ہوئی۔ اعلٰی حضرت محدث بریلوی کی شخصیت اپنی اصلی حالت میں نمایاں ہوئی اور ان کے علم و فضل کا چرچا از سر نو شروع ہو گیا اور صرف اپنے ہی نہیں بیگانے بھی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ آج بھی لوگ آپ کے متعلق عوام کو غلط تاثر دیتے ہیں۔
ہم دیوبندی وہابی مذہب کے اکابرین کے تاثرات اس رسالے میں جمع کر رہے ہیں تاکہ عوام کو معلوم ہو جائے کہ دیوبندی وہابی جو محدث بریلوی کے متعلق ہرزرہ سرائی کرتے ہیں غلط ہے۔ مطالعہ بریلویت وغیرہ کتابیں لکھ کر طوفان بدتمیزی برپا کرنے والے لوگ صرف بہتان ترازی اور بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں۔ حقیقت سے ان کا کچھ تعلق نہیں۔ ان لوگوں کو کم از کم اپنے ان اکابرین کو ان اقوال کو پیش نظر رکھنا چاہئیے۔ مولٰی تعالٰی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ جلیلہ سے مذہب حق اہل سنت و جماعت (بریلوی) پر استقامت اسی پر زندگی اور اسی پر موت عطا فرمائے۔ (آمین)

بانی دیوبندی مذہب محمد قاسم نانوتوی

1۔ دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم صاحب (نانوتوی) دہلی شریف رکھتے تھے۔ اور ان کے ساتھ مولانا احمد حسن امروہوی اور امیر شاہ خان صاحب بھی تھے شب کو جب سونے کے لئے لیٹے تو ان دونوں نے اپنی چارپائی ذرا الگ کو بچھالی، اور باتیں کرنے لگے۔ امیر شاہ خان صاحب نے مولوی صاحب سے کہا کہ صبح کی نماز ایک برج والی مسجد میں چل کر پڑھیں گے، سنا ہے کہ وہاں کے امام قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں۔ مولوی صاحب نے کہا کہ ارے پٹھان جاہل (آپ میں بے تکلفی بہت تھی) ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے وہ تو ہمارے مولانا (نانوتوی) کی تکفیر کرتا ہے۔ مولانا (نانوتوی) نے سن لیا اور زور سے فرمایا۔ احمد حسین میں تو سمجھا تھا تو لکھ پڑھ گیا ہے مگر جاہل ہی رہا۔ پھر دوسروں کو جاہل کہتا ہے۔ ارے کیا قاسم کی تکفیر سے وہ قابل امامت نہیں رہا میں تو اس سے اُس کی دینداری کی معتقد ہوگیا۔ اس نے میری کوئی ایسی ہی بات سنی ہوگی جس کی وجہ سے میری تکفیر واجب تھی۔ گو روایت غلط پہنچی ہو، تو یہ راوی پر الزام ہے۔ تو اس کا سبب دین ہی ہے اب میں خود اس کے پیچھے نماز پڑھوں گا۔ غرضیکہ صبح کی نماز مولانا (نانوتوی) نے اس کے پیچھے پڑھی۔ (افاضت الیومیہ ج 4 / 394 طبع ملتان)

نانوتوی صاحب کے نزدیک جاہل تو وہی ہے جو نانوتوی کی تکفیر کرنے والے کو برا کہتا ہے۔ تو بتائیے کہ سیدی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ پر کیا وجہ اعتراض ہے۔

2۔ تحذیرالناس پر جب مولانا (نانوتوی) پر فتوے لگے، تو جواب نہیں دیا: یہ فرمایا کہ کافر سے مسلمان ہونے کا طریقہ بڑوں سے یہ سنا ہے۔
کہ بندہ کلمہ پڑھنے سے مسلمان ہو جاتا ہے تو میں کلمہ پڑھتا ہوں۔
لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ
( افاضات الیومیہ، ج4 صفحہ 395 طبع ملتان، ج8 صفحہ 238 )

الفضل ماشھدت بہ الاعداء
اب آپ ہی بتائیے کہ حضور اعلٰیحضرت فاضل بریلوی علیہ الرحمہ نے جو حکم شرعی واضح کیا۔ اس میں آپ کا کیا قصور ہے ؟ ضمناً آپ کو یہ بھی عرض کروں، کہ بانی دیوند قاسم نانوتوی کی وجہ تکفیر کیا ہے۔ اس لئے کہ دیوبندی حضور اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کو نعوذ باللہ مکفرالمسلمین کہتے پھرتے ہیں۔ حالانکہ دیوبندی مذہب کی بنیادی کتب “تقویۃ الایمان، فتاوٰی رشیدیہ، بہشتی زیور“ وغیرہ سے واقف حضرات بخوبی جانتے ہیں کہ مکفرالمسلمین اعلٰی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ نہیں۔ بلکہ یہی دیوبندی اکابر ہیں۔ ان کے شرک و کفر کے فتوؤں سے کوئی بھی محفوظ نہیں، نہ ہی انبیاء و اولیاء اور نہ ہی کوئی اور، تو لیجئے سنئیے:۔ کہ نانوتوی صاحب کی وجہ تکفیر کیا ہے اور وہ وجہ یہ ہے کہ بانی دیوبند قاسم نانوتوی نے اہل اسلام کے اجتماعی عقیدہ ختم نبوت کا انکار کیا ہے اور خاتم النبیین کے معنی میں تحریف کی ہے۔ نانوتوی کی چند ایک عبارات ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں۔

بانی دیوبند قاسم نانوتوی لکھتے ہیں:
سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلعم کا خاتمہ ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں۔ مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تآخر زمانہ میں بالذات کچھ فضیلت نہیں، پھر مقام مدح میں ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین فرمانا اس صورت میں کیوں کر صحیح ہو سکتا ہے۔ (تحذیر الناس صفحہ3 طبع دیوبند)
اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ (تحذیرالناس صفحہ 28 طبع دیوبند)
آپ موصوف بوصف نبوت بالذات ہیں اور سو آپ کے اور نبی موصوف بوصف نبوت العرض۔ (تحذیرالناس صفحہ4 طبع دیوبند)
تمام اہل اسلام خاتم النبیین کا معنی آخری نبی کرتے ہیں اور کرتے رہے مگر نانوتوی نے اسے جاہل عوام کا خیال بتایا۔ یہ تحریف فی القرآن ہے۔ پھر حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبی پیدا ہونے کو خاتمیت محمدی، حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبی ہونے میں کوئی فرق نہ پڑنا بتایا جو کہ ختم نبوت کا انکار ہے۔ واضح طور پر خاتم النبیین کا ایسا معنی تجویز کیا گیا جس سے مرزا غلام احمد قادیانی کے دعوٰی نبوت کا رستہ ہموار ہو گیا اور مرزائی اپنی حمایت میں آج بھی تحذیرالناس پیش کرتے ہیں تو دیوبندی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتے ہیں۔ قادیانیوں نے اس پر مستقل رسالہ بھی لکھ کر شائع کیا ہے۔ “افادات قاسمیہ“ نبوت کی تقسیم بالذات بالعرض نانوتوی کی ایجاد ہے۔
تحذیرالناس کی تمام کفریہ عبارات کی تردید مدلل و مفصل کے لئے غزالی زماں حضرت مولانا احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ کی کتاب “التبشیر برد التحذیر“ ، شیخ القرآن مولانا غلام علی اوکاڑوی علیہ الرحمۃ کی کتاب “التنویر“ اور ماہنامہ کنزالایمان کا ختم نبوت نمبر اور راقم الحروف فقیر کی کتاب “عبارات تحذیرالناس پر ایک نظر“ اور “مسئلہ تکفیر“ میں ملاحظہ کیجئے اختصار مانع ہے صرف ایک حوالہ دیوبندی مذہب کا ہی حاضر خدمت ہے۔ دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
جب مولانا محمد قاسم صاحب۔۔۔۔۔۔۔ نے کتاب تحذیرالناس لکھی تو سب نے مولانا محمد قاسم صاحب کی مخالفت کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب نے۔ (قصص الاکابر صفحہ 159 طبع جامعہ اشرفیہ لاہور)
جس وقت مولانا نے تحذیرالناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھی میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبدالحئی صاحب کے۔ (افاضات الیومیہ ج5 صفحہ 296 طبع ملتان)

دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی

(1) دیوبندی خواجہ عزیزالحسن مجذوب لکھتے ہیں:
مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی کی بھی جن کی سخت ترین مخالفت اہل حق سے عموماً اور حضرت والا (تھانوی اشرف علی) سے خصوصاً شہرہ آفاق ہے ان کے بھی ُبرا بھلا کہنے والوں کے جواب میں دیر دیر تک حمایت فرمایا کرتے ہیں اور شد و مد کے ساتھ رد فرمایا کرتے ہیں کہ ممکن ہے کہ ان کی مخالفت کا سبب واقعی حب رسول ہی ہو اور وہ غلط فہمی سے ہم لوگوں کو نعوذ باللہ حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخ ہی سمجھتے ہوں۔ (اشرف السوانح ج1 ص132، طبع ملتان: اسوہ اکابر صفحہ14 طبع لاہور)

(2) دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی کے خلیفہ مفتی محمد حسن بیان کرتے ہیں: حضرت تھانوی نے فرمایا، اگر مجھے مولوی احمد رضا صاحب بریلوی کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقعہ ملتا، تو میں پڑھ لیتا۔ (حیات امداد صفحہ 38 طبع کراچی، انوار قاسمی صفحہ 389 )
(اسوہ اکابر صفحہ15 طبع لاہور، ہفتہ روزہ چٹان لاہور، 10 فروری 1962ء)

(3) دیوبندی حکیم الامت اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں:
میں علماء کے وجود کو دین کی بقاء کے لئے اس درجہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر سارے علماء ایسے مسلک کے بھی ہو جائیں جو مجھ کو کافر کہتے ہیں (یعنی بریلوی صاحبان) تو میں پھر بھی ان کی بقاء کے لئے دعائیں مانگتا رہوں کیونکہ گو وہ بعض مسائل میں غلو کریں اور مجھ کو ُبرا کہیں، لیکن وہ تعلیم تو قرآن و حدیث ہی کی کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے دین تو قائم ہے۔ (اشرف السوانح ج1 صفحہ 192، حیات امداد صفحہ38، اسوہء اکابر صفحہ 15)

(4) مذید فرماتے ہیں:
وہ (بریلوی) نماز پڑھاتے ہیں ہم پڑھ لیتے ہیں، ہم پڑھاتے ہیں۔ وہ نہیں پڑھتے تو ان کو آمادہ کرو۔ (افاضات الیومیہ ج7 صفحہ 56 طبع ملتان)

(5) وہ ہم کو کافر کہتا ہے ہم اس کو کافر نہیں کہتے۔ (افاضات الیومیہ ج7 صفحہ 26)

(6) ایک صاحب نے حضرت (تھانوی) کی خدمت میں ایک مولوی صاحب کا ذکر کیا کہ انہوں نے تو جناب کی ہمیشہ بڑی مخالفت کی، تو بجائے ان کی شکایت کے یہ فرمایا کہ میں تو اب بھی یہی کہتا ہوں، کہ “شاید ان کی مخالفت کا منشا ُحب رسول ہو۔“ (افاضات الیومیہ ج10 صفحہ 245)

(7) تھانوی صاحب مذید لکھتے ہیں:
احمد رضا خان (بریلوی) کے جواب میں کبھی (میں نے) ایک سطر بھی نہیں لکھی، کافر خبیث ملعون سب کچھ سنتا رہا۔ (حکیم الامت صفحہ 188 طبع لاہور)

( 8 ) ایک معروف و مشہور اہل بدعت عالم (احمد رضا بریلوی) جو اکابر دیوبند کی تکفیر کرتے تھے اور ان کے خلاف بہت سے رسائل میں نہایت سخت الفاظ استعمال کرتے تھے۔ ان کا ذکر آ گیا تو فرمایا میں سچ عرض کرتا ہوں کہ مجھے ان کے متعلق تعذیب ہونے کا گمان نہیں کیونکہ ان کی نیت ان سب چیزوں سے ممکن ہے کہ تعظیم رسول ہی کی ہو۔ (مجالس حکیم الامت صفحہ 125 طبع کراچی)

(9) ایک شخص نے پوچھا کہ ہم بریلوی والوں کے پیچھے نماز پڑھیں تو نماز ہو جائے گی یا نہیں فرمایا حضرت حکیم الامت (تھانوی) ۔۔۔۔۔۔ نے ہاں (ہو جائے گی) ہم ان کو کافر نہیں کہتے اگرچہ وہ ہمیں کہتے ہیں۔ (قصص الاکابر صفحہ 252 طبع لاہور)

(10) حضرت مولانا احمد رضا خان مرحوم و مغفور کے وصال کی اطلاع حضرت تھانوی کو ملی، تو حضرت نے اناللہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر فرمایا:
فاضل بریلوی نے ہمارے بعض بزرگوں یا ناچیز کے بارے میں جو فتوے دئیے ہیں وہ ُحب رسول صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے جذبے سے مغلوب و محجوب ہو کر دئیے ہیں۔ اس لئے انشاءاللہ تعالٰی عنداللہ معذور اور مرحوم و مغفور ہوں گے، میں اختلاف کی وجہ سے خدانخواستہ ان کے متعلق تعذیب کی بدگمانی نہیں کرتا۔ (مسلک اعتدال صفحہ 87 طبع کراچی)

(11) دیوبندی عالم کوثر نیازی لکھتے ہیں:
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی سے میں نے سنا، فرمایا: جب حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ کی وفات ہوئی تو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کو کسی نے آکر اطلاع کی مولانا تھانوی نے بے اختیار دعاء کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے جب وہ دعاء کر چکے۔ تو حاضرین مجلس میں سے کسی نے پوچھا وہ تو عمر بھر آپ کو کافر کہتے رہے اور آپ ان کے لئے دعائے مغفرت کر رہے ہیں۔ فرمایا اور یہی بات سمجھنے کی ہے مولانا احمد رضا خان نے ہم پر کفر کے فتوے اس لئے لگائے کہ انہیں یقین تھا کہ ہم نے توہین رسول کی ہے اگر وہ یہ یقین رکھتے ہوئے بھی ہم پر کفر کا فتوٰی نہ لگاتے تو خود کافر ہو جاتے۔ (اعلٰی حضرت فاضل بریلوی ایک ہمہ جہت شخصیت صفحہ7 طبع نارووال)
(روزنامہ جنگ لاہور3، اکتوبر 1990ء) (روزنامہ جنگ راولپنڈی 10 نومبر 1981ء)

(12) مولانا اشرف علی تھانوی کا قول ہے کہ کسی بریلوی کو کافر نہ کہو اور نہ آپ نے کسی بریلوی کو کافر کہا۔۔۔۔۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت تھانوی ایک بڑے جلسے میں خطاب فرما رہے تھے۔ کہ اطلاع ملی، مولوی احمد رضا بریلوی انتقال کر گئے ہیں۔ آپ نے تقریر کو ختم کر دیا اور اسی وقت خود اور اہل جلسہ نے آپ کے ساتھ مولوی احمد رضا کے لئے دعائے مغفرت فرمائی۔ (ہفت روزہ چٹان لاہور 15 دسمبر 1962ء)

(13) مولانا احمد رضا خان بریلوی زندگی بھر انہیں (اشرف علی تھانوی کو) کافر کہتے رہے۔ لیکن مولانا تھانوی فرمایا کرتے تھے کہ میرے دل میں احمد رضا کے لئے بے حد احترام ہے۔ وہ ہمیں کافر کہتا ہے لیکن عشق رسول کی بناء پر کہتا ہے کسی اور غرض سے تو نہیں کہا۔ (ہفت روزہ چٹان لاہور 23، اپریل 1962ء)
آج کل دیوبندی مذہب کے لوگ اہل سنت کو بدعتی کہتے ہیں، اس کے متعلق بھی اپنے تھانوی صاحب کا فیصلہ سن لیں، تھانوی صاحب فرماتے ہیں:
یہ کیا ضروری ہے کہ جو آپ کے فتوے میں بدعت ہے وہ عنداللہ بھی بدعت ہو یہ تو علمی حدود کے اعتبار سے ہے۔ باقی عشاق کی تو شان ہی جدا ہوتی ہے ان کے اوپر اعتراض ہو ہی نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔ ایسے بدعتیوں کو آپ دیکھیں گے کہ وہ جنت میں پہلے داخل کئے جائیں گے اور لوگ پیچھے جائیں گے۔ (افاضات الیومیہ ج1 صفحہ 302)

بدعتی بے ادب نہیں ہوتے ان کو بزرگوں سے تعلق ہے۔ (افاضات الیومیہ ج6 صفحہ83 )

معلوم ہوا کہ اعلٰی حضرت محدث دہلوی بریلوی علیہ الرحمۃ کا عشق رسول حکیم دیوبند تھانوی کو بھی تسلیم ہے۔ الفضل ماشھدت بہ الاعداء

ضمناً اشرف علی تھانوی کی وجہ تکفیر بیان کرنا بھی ضروری ہے 1901ء میں تھانوی کی کتاب حفظ الایمان شائع ہوئی جس میں مذکور تھانوی نے رسول کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی اس میں یہ بیان کیا، کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو پاگلوں گدھوں جانوروں جیسا علم غیب حاصل ہے۔ نعوذ باللہ اصل عبارت یہ ہے۔
“آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول زید صحیح ہو تو دریافت طلب یہ امر ہے کہ اس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کُل غیب، اگر بعض علوم غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور کی ہی کیا تخصیص ہے۔ ایسا علم غیب تو زید و عمر بلکہ ہر صبی (بچہ) و مجنون (پاگل) بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے بھی حاصل ہے۔“ (حفظ الایمان صفحہ8 طبع دیوبند)

تھانوی صاحب سے اس عبارت پر توبہ کا مطالبہ کیا جاتا رہا مگر تھانوی صاحب اپنی اس عبارت پر اڑے رہے۔ اعلٰی حضرت محدث بریلوی نے خطوط لکھے کتابیں شائع کیں مناظرے کے چیلنج کئے، مگر تھانوی صاحب ٹس سے مِس نہ ہوئے بلکہ تھانوی کی زندگی میں اس کے وکیل منظور احمد نعمانی دیوبندی کے ساتھ آفتاب علم و حکمت منبع رشد و ہدایت محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا علامہ محمد سردار احمد صاحب علیہ الرحمہ کا اسی عبارت کے کفریہ ہونے کے دلائل پر مناظرہ ہوا۔ دیوبندیوں کو عبرتناک شکست ہوئی، مناظرہ بریلی کے نام سے روئیداد دستیاب ہے۔
حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمہ کے علمی عرب و دبدبہ کی وجہ سے دیوبندی منظور نعمانی نے مناظروں سے توبہ کرلی: جس کا ثبوت موجود ہے اس عبارت کے کفریہ ہونے کے دلائل ہماری کتاب “آخری فیصلہ“ میں ملاحظہ کیجئے، صرف ایک حوالہ حاضر خدمت ہے۔

تھانوی صاحب کے مریدین بھی یہ تسلیم کرتے ہیں اور تھانوی کو ایک خط میں لکھتے ہیں: “الفاظ جس میں مماثلت علمیت غیبیہ محمدیہ کو علوم مجانین و بہائم سے تشبیہہ دی گئی ہے جو بادی النظر میں سخت سوء ادبی ہے۔ کیوں ایسی عبارت سے رجوع نہ کر لیا جائے جس میں مخلصین حامئیین جناب والا (تھانوی) کو حق بجانب جواب دہی میں سخت دشواری ہوتی ہے۔ وہ عبارات آسمانی والہامی عبارت نہیں کہ جس کی مصدرہ صورت اور ہیت عبارت کا بحالہ و یا بالفاظہ باقی رکھنا ضروری ہے۔ (تغیرالعنوان حفظ الایمان صفحہ 29 طبع شاہکوٹ)

رشید احمد گنگوہی دیوبندی، محمود الحسن دیوبندی، خلیل احمد انبٹھیوی دیوبندی

دیوبندی قطب رشید احمد گنگوہی نے کئی مسائل میں اعلٰی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ کے فتاوٰی بعینیہ درج کئے ہیں اور آپ کے کئی فتاوٰی کی تصدیق کی ہے۔ ملاحظہ ہو فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 245 طبع کراچی
کتاب القول البدیع و اشتراط المصر للتجیع کے صفحہ 24 پر حضور سیدی اعلٰی حضرت فاضل بریلوی کا فتوٰی تفصیلی درج ہے اس کی بھی رشید احمد گنگوہی اور دیوبندی مولوی محمود الحسن نے تصدیق کی ہے۔ (ماخوذ اتحاد امت صفحہ 41 طبع راولپنڈی)

لگے ہاتھوں گنگوہی صاحب کے ساتھ دیوبندی محدث خلیل احمد سہارنپوری کی بھی سن لیجئے: لکھتے ہیں:
ہم تو ان بدعتیوں (بزعم دیوبندی) (بریلویوں) کو بھی جو اہل قبلہ ہی جب تک دین کے کسی ضروری حکم کا انکار نہ کریں کافر نہیں کہتے۔ (المہند صفحہ 47 طبع لاہور)

اب ان گنگوہی اور انبٹھیوی سہارنپوری کی ہفوات کی بھی ایک جھلک ملاحظہ کیجئے۔

اولاً: رشید احمد گنگوہی نے خدا تعالٰی کے لئے کذب کا وقوع مانا نعوذ باللہ اس کی تفصیلی بحث دیوبندی مذہب اور رد شہاب ثاقب میں ملاحظہ ہو۔

ثانیاً: حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے رحمۃ للعلمین ہونا صفت خاصہ ماننے سے انکار کیا۔ فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 218 مسئلہ امکان کذب خدا کے لئے بیان کیا۔ (فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 227) صحابہ کرام کی تکفیر کرنے والے کو اہل سنت و جماعت بتایا۔ (فتاوٰی رشیدیہ صفحہ 248 ) وغیرھم نعوذ باللہ من ھذہ الخرافات۔

خلیل احمد انبٹھیوی نے لکھا، کہ
الحاصل غور کرنا چاہئیے کہ شیطان و ملک الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے۔ شیطان و ملک الموت کی یہ وسعت نص سے ثابت ہوئی فخر عالم کی کون سی نص قطعی ہے۔ (براہین قاطعہ صفحہ 55 طبع کراچی)

یعنی حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا مبارک علم شیطان کے علم سے کم ہے اور حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کا مبارک علم قرآن و حدیث سے ثابت نہیں جبکہ شیطان و ملک الموت کا ثابت ہے نعوذ باللہ حالانکہ شیطان و ملک الموت کے علم محیط زمین کے لئے قرآن و حدیث میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی۔ اس کے ثبوت کا دعوٰی انکار قرآن و حدیث ہے اور دوسری طرف حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے وسعت علم کے لئے متعدد نصوص موجود ہیں دیکھئے دیوبند کے محدث کا مبلغ علم۔ دوسری بات یہ ہے کہ جو حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے لئے ماننا شرک ہے۔ وہ چیز شیطان کے لئے ماننا عین ایمان کیسے ہے۔ شرک بہرحال شرک ہوتا ہے مخلوق میں ایک کے لئے شرک ہو دوسرے کے لئے وہی عین ایمان ہو یہ دیوبند کے محدث کی نرالی رگ ہے۔ گویا شیطان کو نعوذ باللہ خدا کے مد مقابل کھڑا کر دیا ہے۔

قارئین کرام ! براہین قاطعہ تحذیرالناس، حفظ الایمان کی عبارات ہم نے بعینہ نقل کر دی ہیں، بتائیے ان عبارات میں رسول کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و شان میں ایسی ناپاک توہین و بے ادبی ہے کہ کسی علانیہ کافر نے بھی نہ کی ہو یہی توہین و بے ادبی دیوبندی مذہب میں ایمان ہے۔ یہ صرف میرا دعوٰی زبان ہی نہیں دیوبند کے حکیم اشرف علی تھانوی کی زبانی سن لیجئے لکھتے ہیں :
وہابی کا مطلب و معنی بے ادب با ایمان بدعتی کا مطلب با ادب بے ایمان افاضات الیومیہ ج4 صفحہ 89 الکلام الحسن ج1 صفحہ 57، اشرف اللطائف صفحہ 38، آپ انصاف کیجئے۔ اعلٰی حضرت محدث بریلوی علیہ الرحمہ نے اگر ان گستاخ بے ادب لوگوں کا رد کیا تکفیر کی رسول کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے محبت اور پیار کا یہی تقاضا تھا۔ اس میں تو اعلٰی حضرت فاضل بریلوی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے وکیل ہیں اور یہ دیوبندی وہابی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے گستاخ و مد مقابل ہیں صرف ہم ان لوگوں سے اتنا ہی کہتے ہیں :

نہ تم توہین یوں کرتے نہ ہم تکفیر یوں کرتے
نہ کھلتے راز تمہارے نہ یوں رسوائیاں ہوتیں

دیوبندی محدث انور شاہ کشمیری

(1) دیوبند کے محدث انور شاہ کشمیری لکھتے ہیں :۔
جب بندہ ترمذی شریف اور دیگر کتب احادیث کی شروح لکھ رہا تھا۔ تو حسب ضرورت احادیث کی جزئیات دیکھنے کی ضرورت درپیش آئی تو میں نے شیعہ حضرات و اہل حدیث حضرات و دیوبندی حضرات کی کتابیں دیکھیں مگر ذہن مطمئن نہ ہوا۔ بالآخر ایک دوست کے مشورے سے مولانا احمد رضا خان صاحب بریلوی کی کتابیں دیکھیں تو میرا دل مطمئن ہو گیا کہ اب بخوبی احادیث کی شروح بلاجھجک لکھ سکتا ہوں۔ تو واقعی بریلوی حضرات کے سرکردہ عالم مولانا احمد رضا خان صاحب کی تحریریں شستہ اور مضبوط ہیں جسے دیکھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مولوی احمد رضا خان صاحب ایک زبردست عالم دین اور فقہیہ ہیں۔ (رسالہ دیوبند صفحہ 21 جمادی الاول 1330ھ بحوالہ طمانچہ صفحہ 39، سفید ورسیاہ صفحہ 114)

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...