Sunday, 14 December 2014

مسئلہ حاضر و ناظر قراں و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں

مسئلہ حاضر و ناظر قراں و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاضر کے لغوی معنی ہیں سامنے موجود ہونا یعنی غائب نہ ہونا۔ المصباح المنیر میں ہے۔ حاضر حضرۃ مجلس القاضی وحضر الغالب حضور اقدم من غیبتہ۔ منتی الارب میں ہے حاضر حاضر شومذہ۔

ناظر کے چند معنے ہیں۔ دیکھنے والا، آنکھ کا تل، نظر، ناک کی رگ، آنکھ کا پانی۔

المصباح المنیر میں ہے۔ والناظر السواد الا صغر من العین الذی یبصربہ الانسان شخصہ۔

قاموس الغات میں ہے۔ والناظر السواد فی العین اوالبصر بنفسہ و عرق فی الانف وفیہ ماء البصر۔

مختار الصحاح میں ابن ابی بکر رازی کہتے ہیں۔ الناظر فی المقلتہ السواد لا صغر الذی فیہ الماء العین۔

جہاں تک ہماری نظر کام کرے وہاں تک ہم ناظر ہیں اور جس جگہ تک ہماری دسترس ہو کہ تصرف کر لیں وہاں تک حاضر ہیں۔ آسمان تک نظر کام کرتی ہے وہاں تک ہم ناظر، یعنی دیکھنے والے ہیں مگر وہاں ہم حاضر نہیں۔ کیونکہ وہاں دسترس نہیں۔ اور جس حجرے یا گھر میں ہم موجود ہیں وہاں حاضر ہیں کہ اس جگہ ہماری پہنچ ہے۔ عالم میں حاضر و ناظر کے شرعی معنی یہ ہیں کہ قوت قدسیہ والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں سنے یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرے اور صدہا کوس پر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے۔ یہ رفتار خواہ صرف روحانی ہو یا جسم مثالی کے ساتھ ہو یا اسی جسم سے ہو تو قبر میں مدفون یا کسی جگہ موجود ہے ان سب معنی کا ثبوت بزرگان دین کے لئے قرآن و حدیث و اقوال علماء سے ہے۔

حاضر و ناظر کی تین صورتیں ہیں ایک جگہ رہ کر سارے عالم کو دیکھنا۔ آن کی آن میں سارے عالم کی سیر کر لینا۔ ایک وقت میں چند جگہ ہونا۔ ان آیات میں فرمایا گیا کہ آپ بایں جسم پاک وہاں موجود نہ تھے ان میں یہ کہاں ہے کہ آپ ان واقعات کو ملاحظہ بھی نہیں فرما رہے تھے اس جسد عصری سے وہاں نہ ہونا اور ہے اور ان واقعات کو مشاہدہ فرمانا کچھ اور بلکہ جناب کی پیشکردہ آیات کا مطلب ہی یہ ہے کہ اے محبوب علیہ السلام آپ وہاں بہ ایں جسم موجود نہ تھے لیکن پھر بھی آپ کو ان واقعات کا علم اور مشاہدہ ہے جس سے معلوم ہوا کہ آپ سچے نبی ہیں یہ آیات تو حضورﷺ کا حاضر و ناظر ہونا ثبوت کر رہی ہیں۔

اور اگر اب بھی کوئی باضد ہے تو پھر ان آیات کا جواب دیں۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ۔(سورۃ الفجر آیت 6)۔
کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے ربّ نے عاد کے ساتھ کیسا کیا۔

وَثَمُودَ ٱلَّذِينَ جَابُواْ ٱلصَّخْرَ بِٱلْوَادِ۔ (سورۃ الفجر آیت 9)۔
اور ثمود جنہوں نے وادی میں پتھر کی چٹانیں کاٹیں۔

وَفِرْعَوْنَ ذِى ٱلأَوْتَادِ۔(سورۃ الفجر آیت 10)۔
اور فرعون جو میخا کرتا۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحَابِ ٱلْفِيلِ(سورۃ الفیل آیت 1)۔
کیا تم نے نہیں دیکھا تمہارے ربّ نے ہاتھی والوں کا کیا حال کیا۔

اور یہ بھی بھولیئے کہ یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ "کیا تم نے نہیں پڑھا" یا "کیا تمہیں نہیں بتایا گیا"۔ بلکہ اللہ عزوجل یہی فرماتا ہے کہ کیا تم نے نہیں دیکھا۔

اسی لئے تفسیرِ صاوی میں سورۃ القصص کی آیت کے ماتحت ہے کہ؛
وھذا بالنظر الی العالم الجسمانی لا قامۃ الحجۃ علی الخصم واما بالنظر الی العالم الروحانی فھو حاضر رسالۃ کل رسول وما وقع من لدن ادم الی ان ظھر، بجسمہ الشریف
یعنی یہ فرمانا کہ موسٰی علیہ السلام کے اس واقعہ کی جگہ نہ تھے جسمانی لحاظ سے ہے عالم روحانی کی حیثیت سے حضور علیہ السلام پر رسول کی رسالت اور آدم علیہ السلام سے لے کر آپ کے جسمانی ظہور تک کے تمام واقعات پر حاضر ہیں۔

نیز ہجرت کے دن غار ثور میں صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کو لئے ہوئے جلوہ گر ہیں کہ کفّار مکہ دروازہ غار پر آ پہنچے حضرت صدیق پریشان ہوئے تو حضور نے فرمایا۔

لا تحزن ان اللہ معنا۔ (سورۃ التوبہ آیت 40)۔
غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ تو ہے مگر کفّار کے ساتھ نہیں لٰہذا نعوذبااللہ خدا ہر جگہ نہیں، کیونکہ کفّار بھی تو عالم ہی میں تھے۔ تو جس طرح اس کلام میں توجیہہ ہوگی کہ اس کلام سے مراد ہے کہ اللہ رحم و کرم سے ہمارے ساتھ ہے اور جبر و قہر سے کفار کے ساتھ اسی طرح ان آیات میں بھی کہا جائے گا کہ بطریق ظاہریہ جسدِ عنصری آپ اس وقت ان کے پاس نہ تھے۔

اب آئیے قرآنِ کریم سے اس کے اثبات میں کچھ آیت ملاحظہ کریں۔

يٰأَيُّهَا ٱلنَّبِيُّ إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ شَٰهِداً وَمُبَشِّراً وَنَذِيراً۔ (سورۃ الاحزاب آیت 46)۔
اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔

یہاں ترجمہ میں حاضر و ناظر پر اعتراض کیا جاتا ہے تو لفظ شاہد شہود سے مشتق ہے اور شہود حضور ہے۔ شاہد مشاہدہ سے ہے اور مشاہدہ رویت سے۔ تو بیشک شاہد ہیں، بیشک حاضر ہیں، بیشک ناظر ہیں۔ دعائے میت میں جو لفظ "شاھدنا" آتا ہے وہ اسی شہود سے مشتق ہے جس کے معنی حاضر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد پھر "غائبنا" کہا جاتا ہے۔ یا یہ شہادت سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گواہی دینا اس مادہ سے شاہد کے معنی گواہی دینے والا ہوا۔ بہرحال مراد شاہد، حاضر و ناظر اور گواہ تین معنوں کے درمیان ہی ہوئی اور ہر معنی سے نبی اکرمﷺ کا حاضر و ناظر ہونا ثابت ہو رہا ہے۔ شاہد کا معنی گواہ لینے کی صورت میں بھی ہمارا مقصود حاصل ہے، کیونکہ شریعت مطہرہ میں دیکھی ہوئی چیزوں ہی کی گواہی مقبول ہے، ان دیکھی کی مردود۔

وَيَكُونَ ٱلرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيداً (سورۃ البقرۃ آیت 143)۔
اور یہ رسول تمھارے نگہبان و گواہ۔

تفسیر روح البیان میں اس آیت کے تحت ہے؛
ومعنی شھادۃ الرسول علیھم الملاعۃ علی رتبۃ کل متدین بدینۃ وحقیقۃ التی ھو علیھا من دینہ وحجابہ الذی ھو بہ محجوب عن کمال دینہ فھو یعرف ذنوبھم وحقیقۃ ایمالھم واعمالھم وحسناتھم وسیاتھم واخلاصھم ونفاقھم وغیر ذلک بنورالحق۔
یعنی مسلمانوں پر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے یہ معنی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم ہر دین دار کے دین کے مرتبوں پر اور اپنے دین میں سے جس حقیقت پر وہ ہے اس پر اور وہ حجاب جس کے سبب دین کے کمال سے محجوب ہو گیا ہے سب پر مطلع اور خبردار ہیں تو وہ امت کے گناہوں، ان کے ایمان کی حقیقتوں، ان کے اعمال، ان کی نیکیوں، برائیوں اور ان کے اخلاص و نفاق سب کو نور حق کے ذریعہ جانتے پہچانتے ہیں۔

فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِن كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَىٰ هَـٰؤُلاۤءِ شَهِيداً۔(سورۃ النسا آیت 41)۔
تو کیسی ہوگی جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب تم کو ان سب پر گواہ و نگہبان بناکر لائیں۔

وَمَآ أَرْسَلْنَاكَ إِلاَّ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ۔(سورۃ الانبیا آیت 107)۔
اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کیلئے۔

اس آیت میں اللہ عزوجل نے تمام منکرین کا ردّ فرما دیا کہ منکرین بھی اللہ عزوجل کو رب العالمین تو مانتے ہیں۔ اور اس آیت میں رب العالمین اپنے محبوب ﷺ کو رحمۃ للعلمین قرار دے رہا ہے۔ یعنی جہاں جہاں ربّ کی ربّوبیت ہے وہاں وہاں مصطفیٰﷺ کی رحمت بھی ہے۔ تمام عالمین کے لئے رحمت ہونا بھی اس بات کی دلیل ہے گذرے ہوئے اور آنے والے تمام زمانوں میں کل عالمین میں رسول اللہﷺ کی رحمت موجود رہی اور رہے گی۔

وَهُوَ ٱلْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ وَيُرْسِلُ عَلَيْكُم حَفَظَةً حَتَّىٰ إِذَا جَآءَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَهُمْ لاَ يُفَرِّطُونَ۔(سورۃ الانعام آیت 61)۔
اور تم پر نگہبان مقرر کئے رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے فرشتے اس کی روح قبض کرلیتے ہیں اور وہ کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتے

روح البیان میں آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ؛
قال مجاهد قد جعلت الارض لملك الموت كالطشت يتناول من حيث يشاء
یعنی ملک الموت کے لئے ساری زمین طشت کی طرح کر دی گئی ہے کہ جہاں سے چاہیں لے لیں۔

لیس علی ملک الموت صعوبۃ قبض الارواح وان کثرت وکانت فی امکنۃ متعددۃ
ملک الموت پر روحیں قبض کرنے میں کوئی دشواری نہیں اگرچہ روحیں زیادہ ہوں اور مختلف جگہ میں ہوں۔

یہ تو سبھی کو تسلیم ہے کہ دنیا بھر میں ایک ہی آن میں کئیں اموات ہوتی ہیں اور ہر اس روح کو قبض کرنے ملک الموت موجود ہوتے ہیں۔ تو جب ملک الموت کے لئے ایک ہی وقت میں مختلف مقامات پر حاضر ہونا قبول ہے تو پھر رسول اللہﷺ کہ جن کا علم تمام مخلوقات سے برتر، تو پھر آپﷺ کے لئے یہ کمال ماننے میں کیا چیز مانع ہے؟

ٱلنَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِٱلْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ ۔(سورۃ الاحزاب آیت 6)۔
یہ نبی مسلمانوں کا انکی جان سے زیادہ مالک ہے۔

اس آیت کے متعلق بانیٗ دارالعلوم دیوبند قاسم نانوتوی لکھتے ہیں؛

النبی اولی بالؤمنین من انفسھم کو بعد لحاظ صلہ من انفسھم دیکھئے تو یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کو اپنی امت کے ساتھ وہ قرب حاصل ہے کہ ان کی جانوں کو بھی ان کے ساتھ حاصل نہیں کیوں کہ اولٰی بمعنی اقرب ہے اور اگر بمعنی ادب یا اولٰی بالتصرف ہو تب بھی یہی بات لازم آئے گی کیونکہ اجنیت و اولویت بالتصوف کے لئے اقربیت تو وجہ ہو سکتی ہے پر بالعکس نہیں ہو سکتا۔(تحذیرالناس، ص 14)۔

اب کچھ احادیث اور اقوالِ ائمہ ملاحظہ کیجیئے۔

مشکوٰۃ باب المعجزات میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے۔
نعی النبی علیہ السلام زیدا جعفر وابن رواحۃ للناس قبل ان یاتیھم خبرھم فقال اخذا الرایۃ زید فاصیب الی حتٰی اخذا الرایۃ سیوف اللہ یعنی خالد ابن الولید حتٰی فتح اللہ علیھم
حضور علیہ السلام نے زید اور جعفر اور ابن رواحہ کو ان کی خبر موت آنے سے پہلے لوگوں کو خبر موت دے دی۔ فرمایا کہ اب جھنڈا زید نے لے لیا اور وہ شہید ہو گئے۔ یہاں تک کہ جھنڈا اللہ کی تلوار خالد ابن ولید نے لیا تا آنکہ اللہ نے ان کو فتح دے دی۔

مشکوٰۃ جلد دوم باب الکرامات کے بعد باب وفاۃ النبی علیہ السلام میں ہے۔
وان موعدکم الحوض وانی لا نظر الیہ وانا فی مقامی
تمہاری ملاقات کی جگہ حوض کوثر ہے۔ میں اس کو اسی جگہ سے دیکھ رہا ہوں۔

مشکوٰۃ باب تسویۃً الصف میں ہے۔
اقیموا صفوفکم فانی ارکم من ورانی
اپنی صفیں سیدھی رکھو کیونکہ ہم تم کو اپنے پیچھے بھی دیکھتے ہیں۔

امام قسطلانی مواہب الدنیہ میں زیارۃ قبرہ الشریف میں فرماتے ہیں؛
وقد قال علماء نالا فرق بین موتہ وحیوتہ علیہ السلام فی مشاھدتہ لامتہ ومعرفتہ باحوالھم ونیاتھم وعزائمھم و خواطرھم وذالک جلی عندہ لا خفاء بہ
ہمارے علماء نے فرمایا کہ حضور علیہ السلام کی زندگی اور وفات میں کوئی فرق نہیں اپنی امت کو دیکھتے ہیں اور ان کے حالات و نیات اور ارادے اور دل کی باتوں کو جانتے ہیں یہ آپ کو بالکل ظاہر ہے۔ اس میں پوشیدگی نہیں۔

مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ملا علی قاری فرماتے ہیں۔
وقال الغزالی سلم علیہ اذا دخلت فے المسجد فانہ علیہ السلام یحضر فی المسجد
امام غزالی نے فرمایا کہ جب تم مسجد میں جاؤ تم حضور علیہ السلام کو سلام عرض کرو کیونکہ آپ مسجدوں میں موجود ہیں۔

احیاء العلوم جلد اول باب چہارم فصل سوم نماز کی باطنی شرطوں میں امام غزالی فرماتے ہیں۔
واحضرنی قلبک النبی علیہ السلام وشخصہ الکریم وقل السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اور اپنے دل میں نبی علیہ السلام کو اور آپ کی ذات پاک کو حاضر جانو اور کہو السلام علیک ایھا النبی ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

مصباح الہدایت ترجمہ عوارف المعارف مصنفہ شیخ شہاب الدین سہروردی میں ہے۔
بس باید کہ بندہ ہمچناں کہ حق سبحانہ را پیوستہ بر جمیع احوال خود ظاہراً و باطناً واقف و مطلع بیند رسول اللہ علیہ السلام رانیز ظاہر و باطن حاضر داند۔ تا مطالعہ صورت تعظیم دوقات اور ہموارہ بہ محافظت آداب حضرتش دلیل بوداز مخالفت دے سر ادا علاناً شرم داردو ہیچ دقیقہ از وقائق آداب صحبے اوفر نہ گزارو۔
پس چاہئیے کہ بندہ جس طرح حق تعالٰی کو ہر حال میں ظاہر و باطن طور پر واقف جانتا ہے۔ اسی طرح حضور علیہ السلام کو بھی ظاہر و باطن جانے تاکہ آپ کی صورت کا دیکھنا آپ کی ہمیشہ تعظیم وقار کرنے اور اس بارگاہ کے ادب کی دلیل ہو جاوے اور آپ کی ظاہر و باطن میں مخالفت سے شرف کرے اور حضور علیہ السلام کی صحبت پاک کے ادب کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑے۔

ہزدم مسمٰی بہ سلوک اقرب السبل بالتوجہ سیدالرسل میں شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں۔
باچندیں اختلاف و کثرت مذاہب کہ در علماء امت ہست یک کس رادریں مسئلہ خلافی نیست کہ آنحضرت علیہ السلام بحقیقت حیات بے شائبہ مجاز تو ہم تاویل دائم و باقی است و بر اعمال امت حاضر و ناظر است و مرطالبان حقیقت راومتو جہان آنحضرت رامفیض و مربی (ادخال الساں)۔
اس اختلاف و مذاہب کے باوجود جو علمائے امت میں ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ حضور علیہ السلام حقیقی زندگی سے بغیر تاویل و مجاز کے احتمال کے باقی اور دائم ہیں اور امت کے اعمال پر حاضر و ناظر ہیں اور حقیقت کے طلبگار اور حاضرینِ بارگاہ کو فیض رساں اور مربّی۔

یہی شیخ عبدالحق دہلوی علیہ الرحمۃ مدارج النبوۃ میں فرماتے ہیں۔
ذکر کن اور ادرود بفرست بردے علیہ السلام وباش درحال ذکر گویا حاضر است پیش تو در حالت حیات دمی بینی توادر امتادب باجلال و تعظیم و ہیبت و حیا و ہدانکہ دے علیہ السلام می بیند وحی شنود کلام ترازیرا کہ دے علیہ السلام متصف است بصفات الہیہ دیکے از صفات الہی آں است کہ انا جلیس من ذکرنی
حضور علیہ السلام کو یاد کرو اور درود بھیجو اور حالت ذکر میں ایسے رہو کہ حضور حالتِ حیات میں تمہارے سامنے ہوں اور تم ان کو دیکھتے ہو ادب اور جلال اور تعظیم اور ہیبت و حیاء سے رہو اور جانو کہ حضور علیہ السلام دیکھتے اور سنتے ہیں تمہارے کلام کو کیونکہ حضور علیہ السلام صفات الٰہی سے موصوف ہیں اور اللہ کی ایک صفت یہ ہے کہ میں اپنے ذاکر کا ہم نشین ہوں۔

اسی مدارج النبوۃ میں ہے کہ؛
اگر بعد ازاں گوید کہ حق تعالٰی را حالتے وقدرتے بخشیدہ است کہ در ہر مکانے کۃ خواہد تشریف بخسند خواہ بعینیہ بمثال خواہ بر آسمان و خواہ بر زمین خواہ درقبر یا غیر دے صورتے دارد باوجود ثبوت نسبت خاص بقبر درہمہ حال۔
اس کے بعد اگر کہیں کہ رب تعالٰی نے حضور کے جسم پاک کو ایسی حالت و قدرت بخشی ہے کہ جس ماکن میں چاہیں تشریف لے جائیں خواہ بعینہ اس جسم سے خواہ جسم مثالی سے خواہ آسمان پر خواہ قبر میں تو درست ہے۔ قبر سے ہر حال میں خاص نسبت رہتی ہے

مثنوی شریف میں حارث ابن نعمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک قصے کو مولانا روم اس انداز میں نقل کرتے ہیں؛

ہشت جنت ہفت دوزخ پیش من
ہست پیدا ہم چوں بت ایں پیش ہن
یک بیک دامی شناسم خلق را
ہمچو گندم من زجو در آسپا
کہ بہشتی کہ وزیگانہ کی است
پیش من پیدا چو مورد ماہی است
من بگویم یا فرد بندم نفس
لب گزیدش مصطفٰی یعنی کہ بس

میرے سامنے 8 بہشت اور 7 دوزخ ایسے ظاہر ہیں
جیسے ہندو کے سامنے بت ہیں
ہر ایک مخلوق کو ایسا پہچانتا ہوں
جیسے چکی میں جو اور گیہوں
کہ جنتی کون ہے اور دوزخی کون
میرے سامنے یہ سب مچھلی اور چیونٹی کی طرح ہیں
چپ رہوں یا کچھ اور کہوں
حضور نے ان کا منہ پکڑ لیا کہ بس

جب اس آفتاب کے زرّوں کی نظر کا یہ حال کہ جنت و دوزخ، عرش و فرش، جنتی و دوزخی کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں تو اس آفتابِ عالی مقامﷺ کی نظر کا کیا پوچھنا ہے۔

صاحب عقل کو کافی ہے اشارے کی زباں
ورنہ سو بار دلائل بھی ہے بیکار و عبث

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...