۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
21 : ۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه اَنَّ رَجُلًا عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ اسْمُه عَبْدَ اﷲِ، وَکَانَ يُلَقَّبُ حِمَارًا، وَکَانَ يُضْحِکُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ جَلَدَه فِي الشَّرَابِ، فَاُتِيَ بِه يَوْمًا، فَاَمَرَ بِه، فَجُلِدَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : اَللّٰهُمَّ، الْعَنْهُ مَا اَکْثَرَ مَا يُؤْتٰی بِه، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَلْعَنُوْهُ، فَوَاﷲِ، مَا عَلِمْتُ إِنَّه يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه. وفي روارواية : لَا تَلْعَنْهُ فَإِنَّه يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَبُوْ يَعْلٰی، وَإِسْنَادُه حَسَنٌ.
21 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الحدود، باب ما يکره من لعن شارب الخمر وإنه ليس بخارج من الملة، 6 / 2489، الرقم : 6398، وعبد الرزاق في المصنف، 7 / 381، الرقم : 13552، وابو يعلی في المسند، 1 / 161، الرقم : 176، وأبو نعيم في حلرواية الأولياء، 3 / 228، والبزار في المسند، 1 / 393، الرقم : 269.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک شخص تھاجس کا نام عبد اﷲ اور لقب حمار تھا، اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا۔ (ایک بار وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حالت نشہ میں لایا گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر شُرْبِ خمر کی حد جاری فرمائی۔ ایک روز اسے (پھر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حالتِ نشہ میں لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اسے (دوبارہ) کوڑے لگائے گئے۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا : اے اﷲ! اس پر لعنت فرما، یہ کتنی دفعہ (اس جرم میں) لایا گیا ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس پر لعنت نہ بھیجو، میں جانتا ہوں کہ یہ اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس پر لعنت نہ بھیجو کیوں کہ یہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، عبد الرزاق اور ابو یعلی نے اِسنادِ حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : جَائَ أَعْرَابِيٌّ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم شَيْخٌ کَبِيْرٌ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ فَقَالَ : لَا، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ، مَا أَعْدَدْتُ لَهَا مِنْ کَبِيْرِ صَلَاةٍ وَلَا صِيَامٍ، إِلَّا إِنِّي أُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه. قَالَ : فَأَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ : فَوَثَبَ الشَّيْخُ، فَبَالَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعُوْهُ، فَعَسٰی أَنْ يَکُوْنَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَصَبَّ عَلٰی بَوْلِه مَائً.
رَوَاهُ الْبَزَّارُ وَأَبُوْ يَعْلٰی وَنَحْوَهُ الدَّارَ قُطْنِيُّ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
22 : أخرجه البزار في المسند، 5 / 161، الرقم : 1753، والدار قطني في السنن، 1 / 131، الرقم : 2.3، وأبو يعلی في المسند، 6 / 310، الرقم : 3626، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 / 286، 10 / 280.
’’حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان فرمایا کہ ایک نہایت بوڑھا دیہاتی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہوا، اس نے عرض کیا : یا محمد! قیامت کب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ تو اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کچھ نہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو مبعوث فرمایا! میں نے قیامت کے لیے نہ بہت زیادہ نمازیں اور نہ روزے تیار کر رکھے ہیں سوائے اس کے (کوئی زادِ آخرت نہیں) کہ بے شک میں اﷲ ل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سو تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت رکھتے ہو۔ راوی نے بیان کیا کہ وہ بوڑھا دیہاتی اسی وقت (پیشاب کی شدید حاجت کی بناء پر) تیزی سے اُٹھا اور مسجد میں پیشاب کر دیا۔ (صحابہ کرام ث اس کو روکنے کے لیے بڑھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو، عنقریب وہ اہل جنت میں سے ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے پیشاب پر پانی بہا دیا۔‘‘
اسے امام بزار، ابویعلی اور اسی طرح دارقطنینے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
23. عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ وَمَرْوَانَ رضي اﷲ عنهما قَالَا : إِنَّ عُرْوَةَ جَعَلَ يَرْمُقُ اَصْحَابَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِعَيْنَيْهِ قَالَ : فَوَاﷲِ، مَا تَنَخَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم نُخَامَةً إِلَّا وَقَعَتْ فِي کَفِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ، فَدَلَکَ بِهَا وَجْهَه وَجِلْدَه، وَإِذَا اَمَرَهُم ابْتَدَرُوْا اَمْرَه، وَإِذَا تَوَضَّاَ کَادُوْا يَقْتَتِلُوْنَ عَلٰی وُضُوْئِه، وَإِذَا تَکَلَّمَ خَفَضُوْا اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَه، وَمَا يُحِدُّوْنَ إِلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيْمًا لَه. فَرَجَعَ عُرْوَةُ إِلٰی اَصْحَابِه فَقَالَ : اَي قَوْمِ، وَاﷲِ، لَقَدْ وَفَدْتُ عَلَی الْمُلُوْکِ، وَفَدْتُ عَلٰی قَيْصَرَ وَکِسْرٰی وَالنَّجَاشِيِّ، وَاﷲِ، إِنْ رَاَيْتُ مَلِکًا قَطُّ يُعَظِّمُه اَصْحَابُه مَا يُعَظِّمُ اَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم مُحَمَّدًا..... الحديث. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
23 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الشروط، باب الشروط في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وکتابة الشروط، 2 / 974، الرقم : 2581، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 329، وابن حبان في الصحيح، 11 / 216، الرقم : 4872.
’’حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے، عروہ بن مسعود (جب بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کفار کا وکیل بن کر آیا تو) صحابہ کرام ث کو بغور دیکھتا رہا کہ جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا لعاب دہن پھینکتے ہیں تو کوئی نہ کوئی صحابی اسے اپنے ہاتھ پر لے لیتا ہے اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس کی فوراً تعمیل کی جاتی ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کو حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گفتگو فرماتے ہیں تو صحابہ اپنی آوازوں کو پست کر لیتے ہیں اور انتہائی تعظیم کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نظر جما کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس کے بعد عروہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹ گیا اور ان سے کہنے لگا : اے قوم! اﷲ کی قسم! میں (عظیم الشان) بادشاہوں کے درباروں میں وفد لے کر گیا ہوں، میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں لیکن خدا کی قسم! میں نے کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ اس کے درباری اس کی اس طرح تعظیم کرتے ہوں جیسے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ان کی تعظیم کرتے ہیں۔‘‘ اسے امام بخاری، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
وفي روارواية : عَنْ مِسْوَرِ بْنِ مَخَْرَمَةَ وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ (في حديث صلح الحديبرواية) أَنَّ عُرْوَةَ قَامَ مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَدْ رَأٰی مَا يَصْنَعُ بِه أَصْحَابُه لَا يَتَوَضَّأُ وُضُوْئً ا إِلاَّ ابْتَدَرُوْهُ وَلاَ يَبْصُقُ بُصَاقًا إِلاَّ ابْتَدَرُوْهُ وَلَا يَسْقُطُ مِنْ شَعَرِه شَيئٌ إِلاَّ أَخَذُوْهُ، فَرَجَعَ إِلٰی قُرَيْشٍ فَقَالَ : يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنِّي جِئْتُ کِسْرٰی فِي مُلْکِه وَجِئْتُ قَيْصَرَ وَالنَّجَاشِيَّ فِي مُلْکِهِمَا، وَاﷲِ، مَا رَأَيْتُ مَلِکًا قَطُّ مِثْلَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَصْحَابِه وَلَقَدْ رَأَيْتُ قَوْمًا لَا يُسْلِمُوْنَه لِشَيئٍ أَبْدًا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ.
اخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 323-324، الرقم : 18930، والشوکاني في نيل الأوطار، 1 / 69.
’’ایک روایت میں ہے حضرت مسور بن مخرمہ اور مروان بن حکم سے (صلح حدیبیہ والی طویل روایت میں) مروی ہے کہ (مشرکین کا قاصد) عروہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے واپسی کے لیے اٹھا تو اس نے صحابہ کرام کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و عقیدت کے واقعات دیکھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام ث اس وضو کے پانی کی طرف لپکتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لعاب مبارک پھینکتے تو یہ اس کی طرف بھاگتے ہیں تاکہ وہ زمین پر نہ گرنے پائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو موئے مبارک بھی گرتا ہے اسے اٹھا لیتے ہیں۔ وہ قریش کی طرف واپس گیا اور کہا : اے قومِ قریش! میں کسریٰ کے ملک میں اس کے پاس اور قیصر اور نجاشی کے پاس ان کے ملکوں میں گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کا ایسا مقام نہیں دیکھا جیسے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام میں ہیں اور میں نے (جانثار عاشقوں کی) ایسی قوم دیکھی ہے کہ وہ انہیں کسی بھی صورت تمہارے حوالے نہیں کریں گے۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
24. عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ سِيْرِيْنَ عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا حَلَقَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَاْسَه بِمِنًی اَخَذَ شِقَّ رَاْسِهِ الْاَيْمَنَ بِيَدِه فَلَمَّا فَرَغَ نَاوَلَنِي فَقَالَ : يَا اَنَسُ، انْطَلِقْ بِهٰذَا إِلٰی اُمِّ سُلَيْمٍ، فَلَمَّا رَاَی النَّاسُ مَا خَصَّهَا بِه مِنْ ذَالِکَ تَنَافَسُوْا فِي الشِّقِّ الْآخَرِ، هٰذَا يَاْخُذُ الشَّيئَ وَهٰذَا يَاْخُذُ الشَّيئَ، قَالَ مُحَمَّدٌ : فَحَدَّثْتُه عُبَيْدَةَ السَّلْمَانِيَّ فَقَالَ : لَاَنْ يَکُوْنَ عِنْدِي مِنْهُ شَعْرَةٌ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ صَفْرَائَ وَبَيْضَائَ اَصْبَحَتْ عَلٰی وَجْهِ الْاَرْضِ وَفِي بَطْنِهَا.
رَوَاهُ اَحْمَدُ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ.
وَقَالَ الذَّهَبِيُّ فِي السِّيَرِ : قُلْتُ (اَي الذَّهَبِيُّ) : هٰذَا الْقَوْلُ مِنْ عُبَيْدَةَ رضی الله عنه هُوَ مِعْيَارُ کَمَالِ الْحُبِّ وَهُوَ اَنْ يُؤْثَرَ شَعَرَةٌ نَبَوِيَةٌ عَلٰی کُلِّ ذَهَبٍ وَفِضَّةٍ بِاَيْدِي النَّاسِ وَمِثْلُ هٰذَا يَقُوْلُه هٰذَا الإِمَامُ بَعْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِخَمْسِيْنَ سَنَةً، فَمَا الَّذِي نَقُوْلُه نَحْنُ فِي وَقْتِنَا لَوْ وَجَدْنَا بَعْضَ شَعَرِه بِإِسْنَادٍ ثَابِتٍ اَوْ شَسِعٍ نَعْلٌکَانَ لَه، اَوْ قُلَامَةُ ظُفْرٍ اَوْ شَقَفَةٌ مِنْ إِنَائٍ شَرِبَ فِيْهِ، فَلَوْ بَذَلَ الْغَنِيُّ مُعْظَمَ اَمْوَالِه فِي تَحْصِيْلِ شَيئٍ مِنْ ذَالِکَ عِنْدَه اَکُنْتَ تَعُدُّه مُبَذِّرًا اَوْ سَفِيْها، کَلَّا فَابْذُلْ مَالَکَ فِي زَوْرَةِ مَسْجِدِهِ الَّذِي بَنٰی فِيْهِ بِيَدِه وَالسَّلَامِ عَلَيْهِ عِنْدَ حُجْرَتِه فِي بَلَدِه إِلٰی اُحَدِه وَاَحَبِّه فَقَدَ کَانَ نَبِيُکَ صلی الله عليه وآله وسلم اُحِبُّه وَتَمْلَاُ بِالْحُلُوْلِ فِي رَوْضَتِه وَمَقْعَدِه فَلَنْ تَکُوْنَ مُؤْمِنًا حَتّٰی يَکُوْنَ هٰذَا السَّيّدُ اَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ وَوَلَدِکَ وَاَمْوَالِکَ وَالنَّاسِ کُلِّهِمْ وَقَبِّلْ حَجَرًا مُکَرَّمًا نَزَلَ مِنَ الْجَنَّةِ وَضَعْ فَمَکَ لَاثِمًا مَکَانًا قَبَّلَه سَيّدُ الْبَشَرِ بِيَقِيْنٍ، فَهَنَّاکَ اﷲُ بِمَا اَعْطَاکَ فَمَا فَوْقَ ذَالِکَ مَفْخَرٌ. وَلَوْ ظَفَرْنَا بِالْمِحْجَنِ الَّذِي اَشَارَ بِهِ الرَّسُوْلُ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْحَجَرِ، ثُمَّ قَبَّلَ مِحْجَنَه لَحَقٌّ لَنَا اَنْ نَزْدَحِمَ عَلٰی ذًالِکَ الْمِحْجَنِ بِالتَّقْبِيْلِ وَالتَّبْجِيْلِ، وَنَحْنُ نَدْرِي بِالضَّرُوْرَةِ اَنَّ تَقْبِيْلَ الْحَجَرِ اَرْفَعُ وَاَفْضَلُ مِنْ تَقْبِيْلِ مِحْجَنِه وَنَعْلِه، وَقَدْ کَانَ ثَابِتُ الْبُنَانِيُّ إِذَا رَاٰی اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ رضی الله عنه اَخَذَ يَدَه، فَقَبَّلَهَا وَيَقُوْلُ : يَدٌ مَسَّتْ يَدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَنَقُوْلُ : نَحْنُ إِذْ فَاتَنَا ذَالِکَ حَجَرٌ مُعَظَّمٌ بِمَنْزِلَةِ يَمِيْنِ اﷲِ فِي الْاَرْضِ مَسَّتْهُ شَفَتَا نَبِيّنَا صلی الله عليه وآله وسلم لَاثِمًا لَه، فَإِذَا فَاتَکَ الْحَجُّ وَتًلَقَّيْتَ الْوَفَدَ فَالْتَزِمِ الْحَاجَّ وَقَبِّلَ فَمَه. وَقُلْ : فَمٌ مَسَّ بِالتَّقْبِيْلِ حَجَرًا قَبَّلَه خَلِيْلِي صلی الله عليه وآله وسلم.
’’امام محمد بن سیرین، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیںکہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منیٰ میں اپنے سرمبارک کے بال اُتروائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سر انور کی دائیں جانب (کے موئے مبارک) کو اپنے ہاتھ سے پکڑا پس جب (اُتروا کر) فارغ ہوئے تو مجھے (وہ موئے مبارک) عطا فرمائے اور فرمایا : اے انس! یہ اُمِّ سلیم کے پاس لے جاؤ۔ جب صحابہ کرام نے اس عطیہ کے معاملہ میں اُم سلیم پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خصوصی عنایت دیکھی تو وہ دوسری جانب (کے موئے مبارک کے حصول کے لیے آپس) میں مقابلہ کرنے لگے۔ کچھ موئے مبارک ایک صحابی لے رہا ہے تو کچھ دوسرا۔ امام محمد بن سیرین کہتے ہیں : میں نے یہ بات حضرت عبیدہ سلمانی رضی اللہ عنہ سے بیان کی تو انہوں نے فرمایا : (کاش) میرے پاس ان موئے مبارک میں سے اگر ایک بھی ہوتا تو وہ میرے نزدیک سونے چاندی سے بھی، جو اس زمین کے اوپر موجود ہیں یا اس کے اندر پوشیدہ ہیں، سے زیادہ محبوب ہوتا۔ (یعنی وہ موئے مبارک میرے لیے کائنات کے تمام ظاہر اور پوشیدہ خزانوں سے بڑھ کر ہوتا)۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، بیہقی اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
’’امام ذہبی اپنی کتاب سیر اعلام النبلاء میں فرماتے ہیں : میں کہتا ہوں حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ کا یہ قول کمالِ محبت کا انتہائی اعلیٰ معیار ہے اور وہ یہ کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک موئے مبارک کو ساری دنیا کے لوگوں کے پاس موجود سونے چاندی کے خزانوں پر بھی ترجیح دی جائے اور یہ قول اس امام کا ہے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صرف پچاس سال بعد ہوئے ہیں۔ پھر ہم اپنے اس زمانے میں کیا کہیں گے جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض موئے مبارک کو صحیح سند کے ساتھ پالیں۔ یا کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت والی چیز خواہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک ہوں یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ناخن مبارک کا تراشہ، یا اس برتن کا ٹکڑا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نوش فرمایا ہو۔ پس اگر کوئی امیر آدمی ان چیزوں کے حصول میں اپنا بہت زیادہ مال صرف کر دے تو کیا تم اسے فضول خرچ یا بے وقوف خیال کروگے؟ ہرگز نہیں۔ بس تم بھی اپنا مال (اس مقصد کی خاطر) خرچ کرو (اور اگر اور کچھ نہیں) تو اس مسجد کی زیارت ہی کر لو جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے تعمیر کیا۔ (اسی طرح تم اپنا مال) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک کے قریب، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر میں اور وہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محبوب پہاڑ اُحد تک، سلام عرض کرنے کے لیے خرچ کرو۔ پس حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے (اُحد پہاڑ سے) محبت فرماتے تھے، اور (اے زائر!) تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ اطہر اور مسند شریف کی جگہ حاضری کی سعادت حاصل کر اور تم ہرگز مومن نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ یہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں تمہاری ذات، تمہاری اولاد اور تمہارے اموال اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہوجائیں۔ اور تُو اس بزرگی والے پتھر (یعنی حجر اسود) کو بھی چوم لے جو جنت سے نازل ہوا۔ اور اپنے منہ سے اس جگہ کا بوسہ لینے کی سعادت حاصل کر جس جگہ سے یقینی طور پر سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوسہ لیا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ تیرے لیے اس امرکو باعث مسرت بنائے رکھے جو اس نے تجھے عطا کیا ہے اور جو اس سے زیادہ ہے وہ قابل فخر ہے۔ اور اگر ہم حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عصا مبارک کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں جس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجر اسود کی طرف اشارہ فرمایا اور پھر اسے چوما، تو ہمارے لیے یہ واجب ہے کہ ہم اس عصا مبارک کے گرد (با ادب ہوکر) ہجوم بنا لیں اور اسے چومیں اور اس کی (بے پناہ) تعظیم بجا لائیں، اور ہم بالضرور جانتے ہیں کہ بے شک حجرِ اسود کا چومنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عصا مبارک اور نعل مقدس کے چومنے سے ارفع و افضل ہے۔ اور حضرت ثابت بنانی رضی اللہ عنہ جب حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھتے تو ان کے ہاتھ چومتے اور فرماتے یہ وہ ہاتھ ہے جس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس) کو مس کیا تھا۔ پس ہم کہتے ہیں جبکہ ہم اُس (دستِ اقدس کے بوسہ کی) نعمت سے محروم ہیں تو ہمارے پاس وہ عظیم الشان حجرِ اسود موجود ہے جو اس زمین میں اﷲتعالیٰ کا دایاں دستِ قدرت ہے اور جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے چومتے ہوئے چھوا تھا۔ اور (اگر) تمہیں خود حج کی سعادت نصیب نہ ہو سکے اور تو کسی ایسے وفد سے مل لو جو حج (اور روضئہ اقدس کی حاضری) کی سعادت حاصل کرکے لوٹا ہو۔ تو تم (اس وفد میں سے) کسی حاجی کے ہی منہ کو بوسہ دے لو یہ سوچ کر کہ یہ وہ لب ہیں جنہوں نے اس حجرِ اسود کا بوسہ لینے کی سعادت حاصل کی ہے جسے میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لبوں نے بوسہ دیا تھا۔‘‘
25. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : اَصَابَ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَصَاصَةٌ فَبَلَغَ ذَالِکَ عَلِيّا، فَخَرَجَ يَلْتَمِسُ عَمَلًا يُصِيْبُ فِيْهِ شَيْئًا لِيُقِيْتَ بِه رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَاَتٰی بُسْتَانًا لِرَجُلٍ مِنَ الْيَهُوْدِ، فَاسْتَسْقٰی لَه سَبْعَةَ عَشَرَ دَلْوًا کُلُّ دَلْوٍ بِتَمْرَةٍ، فَخَيَرَهُ الْيَهُوْدِيُّ مِنْ تَمْرِه سَبْعَ عَشَرَةَ عَجْوَةً، فَجَائَ بِهَا إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه.
25 : اخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الأحکام، باب الرجل يستسقي کل دلو بتمرة، 2 / 818، الرقم : 2446، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 119، الرقم : 11429.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فاقہ سے تھے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی تو وہ مزدوری کرنے نکلے تاکہ اُس کے معاوضہ سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کر سکیں چنانچہ وہ ایک یہودی کے باغ میں پہنچے تو اس کے لیے ہر ڈول کے عوض ایک کھجور کے معاوضہ پر سترہ ڈول پانی کھینچا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ وہ سترہ عجوہ کھجوریں لے کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو گئے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
والبيهقي ايضًا إِلاَّ قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مِنْ اَيْنَ هٰذَا يَا اَبَا الْحَسَنِ؟ قَالَ : بَلَغَنِي مَا بِکَ مِنَ الْخَصَاصَةِ يَا نَبِيَّ اﷲِ، فَخَرَجْتُ أَلْتَمِسُ عَمَلًا لِاُصِيْبَ لَکَ طَعَامًا. قَالَ : فَحَمَلَکَ عَلٰی هٰذَا حُبُّ اﷲِ وَرَسُوْلِه؟ قَالَ عَلِيٌّ : نَعَمْ، يَا نَبِيَّ اﷲِ، فَقَالَ نَبِيٌّ صلی الله عليه وآله وسلم : وَاﷲِ، مَا مِنْ عَبْدٍ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه إِلَّا الْفَقْرُ اَسْرَعُ إِلَيْهِ مِنْ جَرْيَةِ السَّيْلِ عَلٰی وَجْهِه، مَنْ اَحَبَّ اﷲَ وَرَسُوْلَه فَلْيُعِدَّ تِجْفَافًا وَإِنَّمَا يَعْنِي الصَّبْرَ.
’’امام بیہقی نے مزید بیان کیا کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا : اے ابو الحسن! یہ کھجوریں کہاں سے آئیں؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا نبی اﷲ! مجھے آپ کے فاقہ کی خبر پہنچی تو میں مزدوری کی تلاش میں نکل پڑا تاکہ آپ کی خدمت میں کچھ کھانے کو پیش کر سکوں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تجھے اﷲ ل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت نے اس کام پر ابھارا تھا؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : جی ہاں، یا نبی اﷲ! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خدا کی قسم! کوئی بندہ ایسا نہیں کہ وہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو اور فقر و فاقہ اس کے چہرے کی طرف سیلاب کی سی تیزی سے نہ بڑھیں لہٰذا جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہو تو اسے (ان آزمائشوں پر) صبر کے لیے تیار رہنا چاہیے۔‘‘
26. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْرُجُ عَلٰی أَصْحَابِه مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ، وَهُمْ جُلُوْسٌ، فِيْهِمْ أَبُوْ بَکْرٍ وَعَُمَرُ، فَلَا يَرْفَعُ إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَصَرَه إِلاَّ أَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، فَإِنَّهُمَا کَانَا يَنْظُرَانِ إِلَيْهِ وَيَنْظُرُ إِلَيْهِمَا وَيَتَبَسَّمَانِ إِلَيْهِ وَيَتَبَسَّمُ إِلَيْهِمَا.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَأَحْمَدُ فِي الْفَضَائِلِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
26 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب في مناقب أبي بکر وعمر کليهما، 5 / 612، الرقم : 3668، والحاکم في المستدرک، 1 / 209، الرقم : 417، والطيالسي في المسند، 1 / 275، الرقم : 2064، وأحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 212، الرقم : 339.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مہاجر اور انصار صحابہ کرام کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہوتے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنھما بھی ان میں ہوتے تو کوئی صحابی بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتا، البتہ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنھما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ انور کو مسلسل تکتے رہتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں دیکھتے، یہ دونوں حضرات رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر مسکراتے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کو دیکھ کر تبسم فرماتے۔‘‘
اسے امام ترمذی، حاکم اور احمد نے فضائل الصحابہ میں روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
27. عَنِ ابْنِ شِمَاسَةَ الْمَهْرِيِّ قَالَ : حَضَرْنَا عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ رضی الله عنه وَهُوَ فِي سِيَاقَةِ الْمَوْتِ، فَبَکٰی طَوِيْلًا وَقَالَ : وَمَا کَانَ اَحَدٌ اَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَلَا اَجَلَّ فِي عَيْنِي مِنْهُ، وَمَا کُنْتُ اُطِيْقُ اَنْ اَمْلَاَ عَيْنَيَّ مِنْهُ إِجْلَالًا لَه، وَلَوْ سُئِلْتُ اَنْ اَصِفَه مَا اَطَقْتُ لِاَنِّي لَمْ اَکُنْ اَمْلَاُ عَيْنَيَّ مِنْه ... الحديث.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ مَنْدَه.
27 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب کون الإسلام يهدم ما قبله وکذا الهجرة والحج، 1 / 112، الرقم : 121، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 131، الرقم : 2515، وابن منده في الإيمان، 1 / 420، الرقم : 270، وابو عوانة في المسند، 1 / 70، الرقم : 200، وابن أبي عاصم في الأحاد والمثاني، 2 / 101، الرقم : 801.
’’حضرت ابن شِماسہ مہری بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ مرض موت میں مبتلا تھے ہم ان کی عیادت کے لیے گئے۔ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کافی دیر تک روتے رہے اور فرمانے لگے : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ مجھے (اس کائنات میں) کوئی ہستی محبوب نہ تھی، اور نہ میری نظر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر کوئی بزرگ و معزز تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت و جلالت کے پیش نظر میںکبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکا۔ اگر مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرنے کو کہا جائے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان نہیں کر سکتا کیوں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی آنکھ بھر کر دیکھ ہی نہیں سکا۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابن خزیمہ، اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔
28. عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ وَاَبِي سَعِيْدٍ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلَانِ : خَطَبَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَومًا قَالَ : وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه. ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. ثُمَّ اَکَبَّ، فَاَکَبَّ کُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَبْکِي لَا نَدْرِي عَلٰی مَاذَا حَلَفَ ثُمَّ رَفَعَ رَاْسَه، فِي وَجْهِهِ الْبُشْرٰی فَکَانَتْ اَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، ثُمَّ قَالَ : مَا مِنْ عَبْدٍ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ وَيَصُوْمُ رَمَضَانَ وَيُخْرِجُ الزَّکَاةَ وَيَجْتَنِبُ الْکَبَائِرَ السَّبْعَ إِلَّا فُتِّحَتْ لَه اَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَقِيْلَ لَهُ : ادْخُلْ بِسَلَامٍ. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ.
28 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب الزکاة، باب وجوب الزکاة، 5 / 8، الرقم : 2438، وأيضًا في السنن الکبری، 2 / 5، الرقم : 2218، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 299، الرقم : 1103، وابن رجب في جامع العلوم والحکم، 1 / 170.
’’حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اﷲ عنہما دونوں کا بیان ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا : اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! (اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اس ہستی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!) تین دفعہ فرمانے کے بعد چہرہ اقدس کے بل جا گرے(یعنی سجدہ ریز ہو گئے)، ہم سب بھی منہ کے بل گر کر رونے لگے۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلف کیوں اُٹھایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرِ انور اٹھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور پر رونق تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس پر خوشی کے آثار ہمیں سرخ اونٹوں سے بھی بڑھ کر پسند تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمانے لگے : جو شخص پانچ نمازیں پڑھے، رمضان المبارک کے روزے رکھے، زکوٰۃ ادا کرے اور سات کبیرہ گناہوں سے بچا رہے، اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے اور اسے کہا جائے گا کہ سلامتی سے داخل ہو جاؤ۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی نے روایت کیا ہے۔
29. عَنِ الْاَدْرَعِ السُّلَمِيِّ رضی الله عنه قَالَ : جِئْتُ لَيْلَةً اَحْرُسُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا رَجُلٌ قِرَائَ تُه عَالِيَةٌ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، هٰذَا مُرَائٍ (وفي روارواية قَالَ : فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، أَمُرَائٍ هٰذَا؟ قَالَ : مَعَاذَ اﷲِ، هٰذَا عَبْدُ اﷲِ ذُو الْبِجَادَيْنِ) قَالً : فَمَاتَ بِالْمَدِيْنَةِ، فَفَرَغُوْا مِنْ جِهَازِه، فَحَمَلُوْا نَعْشَه. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : ارْفُقُوْا بِه رَفَقَ اﷲُ بِه، إِنَّه کَانَ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه. قَالَ : وَحَفَرَ حُفْرَتَه. فَقَالَ : اَوْسِعُوْا لَه اَوْسَعَ اﷲُ عَلَيْهِ. فَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِه : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَقَدْ حَزِنْتَ عَلَيْهِ. فَقَالَ : اَجَلْ إِنَّه کَانَ يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْکِنَانِيُّ : وَلَه شَوَاهِدُ مِنْ حَدِيْثِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه رَوَاهُ أَصْحَابُ السُّنَنِ الْاَرْبَعَةِ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
29 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في حفر القبر، 1 / 497، الرقم : 1559، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 337، الرقم : 18992، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4 / 348، الرقم : 2382، وابن حبان في الثقات، 2 / 99، وأبو نعيم في حلرواية الاولياء، 1 / 122، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 52، الرقم : 9111، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 417، الرقم : 583، وابن عبد البر في الاستيعاب، 3 / 1003، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 43، 9 / 369.
’’حضرت ادرع سلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک رات میں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہرہ داری کے فرائض ادا کرنے آیا تو (کہیں سے) ایک شخص کی بلند آواز سے قرات کی آواز آرہی تھی۔ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لے آئے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! یہ آدمی ریاکار معلوم ہوتا ہے (ایک روایت میں بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یارسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا یہ شخص ریاکار ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : معاذ اﷲ! یہ تو عبد اﷲ ذو البجادین ہے۔) اس کے چند روز بعد اس آدمی کا انتقال ہوگیا۔ جب اس کا جنازہ تیار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا : اپنے بھائی کے ساتھ نرمی کرنا اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی کرے گاکیوں کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا تھا۔ لوگوں نے اس کی قبر کھودی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قبر کشادہ کرو، اللہ ل بھی اس پر کشادگی کرے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو اس کا بہت غم ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں یہ اللہ ل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت (جو) رکھتا تھا۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ، احمد اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام کنانی نے فرمایا : اس حدیث کے دیگر شواہد بھی موجود ہیں جو کہ حضرت ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں جو کہ چاروں اصحابِ سنن (ترمذی، ابو داود، نسائی اور ابن ماجہ) نے روایت کی ہیں۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
وفي روارواية : عَنْ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : وَاﷲِ، لَکَأَنِّي أَرٰی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوةِ تَبُوْکَ وَهُوَ فِي قَبْرِ عَبْدِ اﷲِ ذِي الْبِجَادَيْنِ وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ رضي اﷲ عنهما يَقُوْلُ : أَدْلِيَا مِنِّي أَخَاکُمْ وَأَخَذَه مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ حَتّٰی أَسْنَدَه فِي لَحْدِه، ثُمَّ خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَوَلاَّهُمَا الْعَمَلَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ دَفْنِهِ، اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ رَافِعًا يَدَيْهِ يَقُوْلُ : اَللّٰهُمَّ، إِنِّي أَمْسَيْتَ عَنْهُ رَاضِيا فَارْضِ عَنْهُ وَکَانَ ذَالِکَ لَيْلًا. فَوَاﷲِ، لَقَدْ رَأَيْتُنِي، وَلَوَدِدْتُ أَنِّي مَکَانَه وَلَقَدْ أَسْلَمْتُ قَبْلَه بِخَمْسَةَ عَشْرَ سَنَةً.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ.
’’ایک روایت میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اﷲ کی قسم! میں نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غزوہ تبوک کے موقع پر دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما کے ساتھ حضرت عبد اﷲ ذو البجادین رضی اللہ عنہ کی قبر میں اُترے ہوئے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنھما سے) فرما رہے ہیں : اپنے بھائی کو میرے قریب کرو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں قبلہ رُخ سے تھاما یہاں تک کہ انہیں ان کی لحد میں رکھ دیا، پھر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبر سے باہر تشریف لے آئے اور تدفین کا باقی کام حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما کو سونپ دیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی تدفین سے فارغ ہو گئے، تو قبلہ رخ ہو کر قیام فرما ہوئے اور اپنے دستِ مبارک بارگاہِ الٰہی میں دعا کے لیے اٹھا لیے اور عرض کیا : اے اﷲ! میں (اپنے اس غلام) سے راضی ہوں سو تو بھی اس سے راضی ہو جا۔‘‘ وہ رات کا وقت تھا۔ (حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں) پس اﷲ کی قسم! اس وقت میں نے (رشک کے باعث) شدید خواہش کی کہ کاش ان کی جگہ میں دفن ہوتا۔ جبکہ میں نے ان سے پندرہ سال پہلے اسلام قبول کیا تھا۔‘‘ اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
وفي روارواية عنه : قَالَ : قُمْتُ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ وَأَنَا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ قَالَ : فَرَأَيْتُ شُعْلَةً مِنْ نَارٍ فِي نَاحِيَةِ الْعَسْکَرِ، قَالَ : فَاتَّبَعْتُهَا أَنْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِذَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ، وَإِذَا عَبْدُ اﷲِ ذُو الْبِجَادَيْنِ الْمُزَنِيُّ قَدْ مَاتَ فَإِذَا هُمْ قَدْ حَفَرُوْا لَه، وَرَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي حُفْرَتِه، وأَبُوْ بَکْرٍ وَعُمَرُ يُدْلِيَانِه وَهُوَ يَقُوْلُ : أَدْلِيَا لِي أَخَاکُمَا، فَدَلُّوْهُ إِلَيْهِ، فَلَمَّا هَيَأَهُ لِشِقِّه قَالَ : اَللّٰهُمَّ، إِنِّي قَدْ أَمْسَيْتُ عَنْه رَاضِيا فَارْضِ عَنْه، قَالَ : يَقُوْلُ عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ ص : لَيْتَنِي کُنْتُ صَاحِبَ الْحُفْرَةِ. وفي روارواية : فَقَالَ أَبُوْ بَکْرٍ : وَاﷲِ، لَوَدِدْتُ أَنِّي صَاحِبَ الْحُفْرَةِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ الْعَيْنِيُّ : قَالَ الذَّهَبِيُّ : حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی ایک روایت میں بیان فرماتے ہیں کہ آدھی رات کو میں اٹھ کھڑا ہوا، اور میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوہ تبوک میں تھا، میں نے لشکر کی جانب آگ کا ایک شعلہ دیکھا، میں اس شعلہ کو دیکھتے ہوئے (معلوم کرنے) اس جانب چلا گیا، پس دیکھا تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما موجود ہیں۔ اور حضرت عبد اﷲ ذو البجادین مزنی رضی اللہ عنہ فوت ہو چکے ہیں۔ اور وہ ان کے لیے قبر تیار کروا چکے تھے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی قبر میں اترے ہوئے تھے، اور حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنھما ان کے جسدِ اقدس کو قبر میں اتار رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : اپنے بھائی کو میرے قریب کرو، پس انہوں نے اسے قریب کیا، پس جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں لحد میں لٹا دیا تو بارگاہ الٰہی میں عرض کیا : ’’اے اﷲ! میں اس سے راضی ہو چکا ہوں، پس تو بھی اس سے راضی ہوجا۔‘‘ حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (میں نے رشک کے باعث اس وقت شدید خواہش کی کہ) کاش میں اس قبر میں ان کی جگہ دفن ہوتا (جس میں خود حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُترے ہوئے تھے)۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (بھی اس وقت رشک سے) فرمایا : میں نے چاہا کہ کاش اس صاحب قبر کی جگہ میں ہوتا!‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم، طبرانی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے، اور امام عینی نے بیان کیا کہ امام ذہبی نے فرمایا : یہ حدیث صحیح ہے۔
30. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ الْاَنْصَارِيِّ رضی الله عنه وَکَانَ تَبِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَخَدَمَه وَصَحِبَه اَنَّ اَبَا بَکْرٍ کَانَ يُصَلِّي لَهُمْ فِي وَجَعِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم الَّذِي تُوُفِّيَ فِيْهِ، حَتّٰی إِذَا کَانَ يَوْمُ الْاِثْنَيْنِ وَهُمْ صُفُوْفٌ فِي الصَّلَاةِ، فَکَشَفَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم سِتْرَ الْحُجْرَةِ، يَنْظُرُ إِلَيْنَا وَهُوَ قَائِمٌ، کَاَنَّ وَجْهَه وَرَقَةُ مُصْحَفٍِ، ثُمَّ تَبَسَّمَ يَضْحَکُ فَهَمَمْنَا اَنْ نَفْتَتِنَ مِنَ الْفَرَحِ بِرُؤْيَةِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَنَکَصَ اَبُوْ بَکْرٍ عَلٰی عَقِبَيْهِ لِيَصِلَ الصَّفَّ، وَظَنَّ اَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم خَارِجٌ إِلَی الصَّلَاةِ، فَاَشَارَ إِلَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم اَنْ اَتِمُّوْا صَلَاتَکُمْ وَاَرْخَی السِّتْرَ، فَتُوُفِّيَ مِنْ يَوْمِه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
30 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأذان، باب اهل العلم والفضل احقّ بالإمامة، 1 / 240، الرقم : 648، وأيضًا في کتاب الاذان، باب هل يلتفت لأمر ينزل به، 1 / 262، الرقم : 721، وأيضًا في کتاب المغازي، باب مرض النبي صلی الله عليه وآله وسلم ووفاته، 4 / 1616، الرقم : 4183، ومسلم في الصحيح، کتاب الصلاة، باب استخلاف الإمام إذا عرض له عذر من مرض وسفر وغيرهما من يصلي بالناس، 1 / 316، الرقم : 419.
’’حضرت انس بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی اور خادم خاص تھے فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرض وصال میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھاتے تھے، چنانچہ پیر کے روز لوگ صفیں بنائے نماز ادا کر رہے تھے کہ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھایا اور کھڑے ہمیں دیکھنے لگے۔ اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کے ورق کی طرح معلوم ہوتا تھا، پھر (جماعت کو دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار پرُانوار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم نماز توڑ دیتے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایڑیوں کے بل پیچھے ہٹ کر صف میں مل جانا چاہا، کیوں کہ اُنہیں خیال ہوا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے تشریف لا رہے ہیں لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں اشارہ سے فرمایا کہ تم لوگ نماز پوری کرو، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ گرا دیا اور اسی روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے
No comments:
Post a Comment