۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آرائش و زیبائش ثقافت کا حصہ ہے
قرونِ اُوليٰ میں لوگوں کی طبیعت کے اندر نیکی اور خیر کے پہلو اتنے غالب ہوتے تھے کہ انہیں کسی اِہتمام کی ضرورت نہیں پڑتی تھی بلکہ حکم ہی کافی تھا۔ لیکن آج صورت حال بدل چکی ہے۔ حکم کے وہ اَثرات نہیں رہے اس لیے جامد طبیعتوں کو نیکی کی طرف راغب کرنے کے لیے مسجدیں خوبصورت بنانے کا رُحجان زور پکڑ گیاہے، جب کہ مساجد کی زیب و زینت کا قرآن و حدیث میں کہیں حکم نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے ہے کہ ظاہری اَسباب رغبت کا باعث بنتے ہیں۔ اسی لیے فرمایا :
يٰـبَنِيْ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ.
الاعراف، 7 : 31
’’اے اَولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو۔‘‘
اس پہلو کا تعلق اَحکامِ شریعت سے نہیں ثقافت سے ہے۔ داڑھی کے بال سنوارنا، سرمہ ڈالنا، سر میں تیل لگانا، اچھے کپڑے زیب تن کرنا اَعمالِ سنت ہیں، اور ظاہری رغبت دلانے والی چیزیں ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِن اَفعال کی ترغیب دلائی ہے۔ اِسی لیے فرمایا :
من أکل من هذه البقلة فلا يقربن مساجدنا، حتی يذهب ريحها يعنی الثوم.
1. مسلم، الصحيح، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب نهی من أکل ثوماً أو بصلاً أو کراثاً أو نحوهما، 1 : 394، رقم : 561
2. أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب فی أکل الثوم، 3 : 160، 161، رقم : 3824، 3825
’’جو شخص اِس ترکاری (یعنی لہسن، پیاز) کو کھائے وہ ہماری مساجد میں نہ آئے یہاں تک کہ اِس کی بو (اُس کے منہ سے) ختم ہو جائے۔‘‘
کیا لہسن، پیاز کھانے والا کسی قبیح جرم کامرتکب ہوگیاہے کہ اسے مسجد میں آنے سے روکا گیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظاہری اَسباب کی بناء پر ہی فرمایا کہ اگر کوئی لہسن، پیاز کھا کر مسجد میں آئے گا تو مسجد میں بیٹھے لوگوں کی طبیعت میں اِنقباض پیدا ہوگا۔ جسمانی آرائش و زینت سے متعلقہ یہ اور اِس موضوع کی حامل دیگر احادیث ثابت کرتی ہیں کہ اسلام میں ظاہری اَسباب پیداکیے جانے کو قرینِ حکمت اور قرینِ مصلحت سمجھا جاتا ہے۔
بدعت کی مبادیات اور جشنِ میلاد کے ثقافتی پہلؤوں کے بیان کے بعد اب ہم بدعت کا حقیقی تصور بیان کرتے ہیں :
No comments:
Post a Comment