۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:اول تو یہ کہ 12 ربیع الاول کو نبی کریم ﷺکے یوم وفات ہونے کے بارے میں جملہ روایات ضعیف ہیں اور پھر علم تقویم کی رو سے بھی 12 ربیع الاول کو رسول پاک ﷺ کا یوم وفات ممکن نہیں،کیونکہ اَحادیث صحیحہ سے دو باتیں ثابت ہیں:
1: 10هجري میں حجۃ الوَداع میں یوم عرفہ یعنی 9ذوالحجہ جمعۃ المبارک کا دن تھا۔
2: رسول الله ﷺکا وصال سوموار کے روز ماہ ربیع الاول میں ہوا۔
اب 9ذوالحجہ10هجري اور ماہ ربیع الاول کے درمیان محرم اور صفر دو ہی مہینے آتے ہیں، لہذا ذوالحجہ، محرم اور صفر تینوں مہینوں کو جس طرح بھی شمار کریں، یعنی چاہیں تو تینوں ماہ تیس دن کے، دو ماہ تیس دن کے، ایک ماہ اُنتیس دن کاایک ماہ تیس دن کا ، دو ماہ انتیس کےیا پھر تینوں ماہ انتیس دن کے، کسی بھی صورت میں 12ربیع الاول سوموار کے دن نہیں بن سکتی۔ بلکہ 12ربیع الاول 11ہجری میں بالترتیب اتوار، ہفتہ، جمعہ یا جمعرات میں سے کسی ایک دن بنے گی، لہذا شارح بخاری حافظ ابن حَجر عسقلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے 12ربیع الاول يوم وفات والي روايت كو عقل و نقل کے خلاف قرار دیا ہےاور 2ربیع الاول والی روایت کو ترجیح دی ہے۔
جب 12ربیع الاول کے دن نبی پاک ﷺ کی وفات ثابت نہیں تو اعتراض سرے سے ختم ہو جاتا ہے۔اور اگر بالفرض مان بھی لیا جائے کہ 12ربیع الاول حضور ﷺکا یوم وصال ہے تو بھی اس دن عید میلاد منانے میں کوئی امر مانع نہیں،کیونکہ حدیث پاک میں ہے : "ہمیں شوہر کے سوا کسی وفات پانے والے پر تین دن کے بعد سوگ (غم)منانے سے منع کیا گیا"۔(صحيح البخاري، کتاب الحيض، باب الطيب للمرأة عند غسلها من المحيض)
اس حديث پاک سے ثابت ہوا کہ وفات کے بعد سوگ منانا شرعاً صرف تین دن تک جائز ہے، لہذا ہر سال نبی کریم ﷺکے وصال کے دن سوگ منانا شرعاً ناجائز ہے جبکہ حضورﷺکی تشریف آوری کے دن خوشی منانے کی شرعاً کوئی حد نہیں، ہر سال جائز ہے۔
مزيد يه كه حدیث پاک میں جمعہ کی فضیلت کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بیان ہوا کہ اس دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن آپ کی وفات ہوئی،(سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة، باب في فضل الجمعة) ليكن شريعت ميں جمعہ کے دن سوگ منانے کا حکم نہیں بلکہ جمعہ کو يوم عید قرار ديا گیا، جیسا حدیث نبوی میں ہے:"إِنَّ هَذَا يَوْمُ عِيدٍ جَعَلَهُ اللَّهُ لِلْمُسْلِمِينَ، یعنی بے شک یہ جمعہ عید کا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کے لیے یوم عید بنایاہے"۔(سنن ابن ماجه، كتاب إقامة الصلاة والسنة، باب ما جاء في الزينة يوم الجمعة)
اب بتائیے کہ جس دن آدم علیہ السلام فوت ہوئے کیا اس دن کو عید کہنا درست ہے؟ اور اس دن خوشی منانی چاہیےیا غم کرنا چاہیے؟ اور کیا بیوہ کے علاوہ کسی کو تین دن سے زیادہ سوگ جائز ہے ؟
مزید یہ کہ اَنبیاء کرام علیہم السلام ہم جیسے نہیں بلکہ ان کا تووصال بھی امت کے لیے باعث رحمت ہوتا ہےجیسا کہ اَحادیث مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے ، چنانچہ:
نبی کریم ﷺنے فرمایا:"اللہ عزوجل جس امت پر رحمت کا ارادہ فرماتا ہے تو ان کے نبی کو ان کی ہلاکت سے پہلے وصال عطا فرماتا ہے اور اسے امت کے لیے شفیع بناتا ہے، اور جب کسی امت کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہےتو انہیں ان کے نبی کے سامنے عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور اس کی آنکھوں کو ان کی ہلاکت کے سبب قرار بخشتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اس کا کہنا نہ مانا"۔(صحيح مسلم، کتاب الفضائل، باب إذا أراد الله رحمة أمة۔۔۔)
ایک دوسری حدیث پاک میں نبی کریم ﷺنے فرمایا: "میری ظاہری حیات تمہارے لیے سراپا خیر ہے تمہیں کوئی معاملہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے حکم آجاتا ہے اور میرا وصال بھی تمہارے لیے سراپا خیر ہے (کیونکہ)تمہارے اعمال میری بارگاہ میں پیش کئے جاتے رہیں گے، جب اچھے کام دیکھوں گا تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کروں گا اور جب بُرے اعمال دیکھوں گا تو تمہارے لیے اللہ سے مغفرت وبخشش مانگوں گا"۔(مسند البزّار، مسند عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنه)
تو اگر 12 ربیع الاول کو نبی کریم ﷺکا یوم وصال مان بھی لیں تب بھی اس دن خوشی ماننے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ خود حدیث پاک میں آپ ﷺکی حیات و ظاہری وفات دونوں ہمارے لیےباعث خیر فرمایا گیا۔
No comments:
Post a Comment