یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اتحاد واتفاق باعث خیروبرکت اور اجتماعی عروج و
ارتقاء کا موثر ترین ذریعہ ہے۔ جبکہ افتراق و انتشار‘ تباہی و بربادی‘ غربت
و افلاس کا پیش خیمہ ہے۔ تاریخ عالم کے مطالعے سے یہ بات پوری طرح عیاں
ہوجاتی ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے میں وہی قومیں اپنی عظمت و سطوت کے پرچم
لہراتی ہیں جنہوں نے آپسی بغض و عناد اور اختلاف و انتشار سے دور رہ کر
اپنی پوری توانائی ملکی‘ ملی‘ سماجی اور سیاسی اصلاح میں صرف کی۔ اس کے
برعکس وہ قومیں جو خانہ جنگی کا شکار ہوکر الگ الگ ٹولیوں میں بٹ گئیں
انہیں زندگی کے ہر شعبے میں شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑا اور زندگی کے ہر
شعبے میں انہیں ناکامی و نامرادی ہی ہاتھ آئی۔
عالمی منظر نامے میں مسلمانوں کی موجودہ صورتحال کسی بھی صاحب نظر سے
پوشیدہ نہیں۔ مسلمان معاشیات‘ اقتصادیات‘ سیاسیات بلکہ زندگی کے تمام اہم
شعبوں میں تشویش ناک حد تک بچھڑتے جارہے ہیں۔ عالمی تجارتی منڈیوں میں ان
کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہوتی جارہی ہے۔ آپس کے اختلاف و انتشار نے
انہیں پوری طرح کھوکھلا کر ڈالا ہے۔ تمام تر معدنی ذخائر پر قبضہ ہونے کے
باوجود زندگی کے تمام شعبوں میں دوسروں کے دست نگر بنے ہوئے ہیں۔ مغربی
ممالک کی چاپلوسی کا جذبہ اس قدر غالب ہوچکا ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین
اسلامی ممالک کی تباہی و بربادی کا تماشا نہایت خاموشی کے ساتھ دیکھ کر
مغربی ممالک کے ساتھ اپنی وفاداری کا ثبوت پیش کررہے ہیں۔ سقوط بغداد اور
افغانستان کی تباہی اس کی واضح مثالیں ہیں۔ آخر تمام اسلامی حکومتیں اپنے
سیاسی و مذہبی حریفوں کے خلاف کیوں متحد نہیں ہوجاتیں؟ انما المومنون اخوۃ
کے اسلامی درس کو کیوں فراموش کردیا گیا؟ آخر یہ رشتہ اخوت کب کام آئے گا؟
مخالفین اس وقت اپنی پوری توانائی اس مقصد کے لئے صرف کررہے ہیں کہ
مسلمانوں میں آپسی اتحاد و اتفاق کے ہرممکن طریقے کو روکا جائے اور انہیں
مسلکی و مشربی مسائل میں اس قدر الجھا دیا جائے کہ سیاسی‘ سماجی اور معاشی و
اقتصادی استحکام کا موقع ہی نہ مل سکے۔اپنے اس مقصد کے حصول کے لئے وہ
وقتا فوقتا نئے نئے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں۔ ہمارے سیاسی قائدین مخالفین کی
اس پالیسی کو ناکام بنانے کے لئے موثر لائحہ عمل تیار کرنے کے بجائے دانستہ
یا نادانستہ اس سے صرف نظر کررہے ہیں۔ بلاشبہ یہ غفلت مستقبل میں ہمارے
لئے مزید مسائل پیدا کرسکتی ہے۔ ہاں 4 جون 2008ء کو مکہ المکرمہ میں منعقد
ہونے والے سہ روزہ بین المذاہب مکالمہ کانفرنس کو اس ضمن میں ایک اہم پیش
رفت کہا جاسکتا ہے جس میں عالم اسلام کے پانچ سو سے زائد علمائ‘ فقہا‘
مفکرین و مبصرین اور تقریبا چودہ سو دوسرے سیاسی قائدین نے شرکت کی۔ جس کا
مقصد اسلامی ممالک کے درمیان اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرنا اور مسلمانوں
کے مشترکہ مسائل کے حل کے لئے اجتماعی طور پر غوروفکر کرنا تھا۔ خدا کرے اس
کانفرنس کے مثبت نتائج برآمد ہوں اور عالم اسلام کی شیرازہ بندی کا دیرینہ
خواب شرمندہ تعبیر ہو۔
مسلمانوں کو آپسی اختلاف و انتشار کی تشویش ناک صورتحال سے نمٹنے کے لئے
آپسی مذاکرات اور افہام و تفہیم کے ساتھ ساتھ قرآنی اور اسلامی اصولوں پر
عمل پیرا ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام نے ہر موڑ پر فرد پر جماعت کو ترجیح دی
ہے۔ انفرادیت کے بجائے اجتماعیت کو باعث فتح و نصرت قرار دیا ہے۔ فرمان
رسالت ہے۔
یداﷲ علی الجماعۃ (مشکوٰۃ) اﷲ تعالیٰ کی حمایت جماعت کے ساتھ ہے
اتبعوا السواد الاعظم ‘ وارکعوا مع الراکعین
اور ان جیسے دوسرے احکام سے ہمیں اجتماعیت کاو اضح درس ملتا ہے۔
اسلامی سماج و معاشرے میں اتحاد و اتفاق کی فضا اسی وقت قائم ہوسکتی ہے جب
ہمارا مطمع نظر مادیت کے بجائے روحانیت اور حصول دنیا کے بجائے دین کی
ترویج و اشاعت ہو۔ آپسی بغض و عناد اور بے جا مسلکی و مشربی تعصبات سے
بالاتر ہوکر ہم ایمانی رشتہ اخوت کے بندھن میں بندھ جائیں اور ایک دوسرے کے
تعلق سے اپنے دل میں دردمندانہ جذبہ پیدا کریں۔
لیکن آج حالات نہایت ناگفتہ بہ ہوچکے ہیں۔ خلوص و للہیت بہت حد تک رخصت
ہوچکی ہے۔ آج ذاتی مفادات کے حصول کے لئے جماعت کا بڑے سے بڑا نقصان بھی
بڑی خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرلیا جاتا ہے۔ بعض جاہ پرست افراد دنیا
طلبی کی خاطر ہمیشہ مشربی اختلافات کو ہوا دیتے رہتے ہیں۔ انہیں جماعت کا
اتحاد و اتفاق ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ اختلاف و انتشار کی آگ بھڑکانے کے لئے
اپنی ذہنی و فکری توانائیاں صرف کررہے ہیں۔ ہمیں ایسے افراد کو نگاہ میں
رکھ کر کیفر کردار تک پہنچانا ہوگا تاکہ ہماری جماعت مزید تباہی و بربادی
سے محفوظ رہ سکے۔
اتحاد و اتفاق کی قوت کا اندازہ چند برسوں پہلے رونما ہونے والے ڈنمارک کے
حادثے سے لگایا جاسکتا ہے۔ جب وہاں کے ایک گستاخ کارٹونسٹ نے رسول اکرمﷺ کا
اہانت آمیزکارٹون بنا کر اخبارات میں شائع کیا تھا۔ پھر عالم اسلام سے پے
درپے شدید احتجاجات کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور متفقہ طور پر ڈنمارک کی
مصنوعات کا بائیکاٹ کردیا گیا تھا۔ نتیجتاً ڈنمارک کی معیشت تباہ و برباد
ہونے لگی تھی۔ آخرکار ڈنمارک حکومت کو لاچار و مجبور ہوکر عالم اسلام سے
معافی طلب کرنی پڑی تھی اور اعلانیہ طور پر اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑا
تھا۔ یقینا یہ اعتراف مسلمانوں کے آپسی اتحاد ہی کا نتیجہ تھا۔ آج بھی اگر
قوم مسلم آپس میں اتحاد و اتفاق کی فضا قائم کرکے ایک دوسرے کے دست و بازو
بن جائیں تو اپنی عظمت رفتہ کی بازیابی میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
٭٭٭
اختلاف کو ہوا دینے والے شرپسندوں کی گوشمالی کرنی چاہئے
از: محمد حسین مصباحی‘ الجامعۃ الاشرفیہ‘ مبارک پور
انگریزی کا ایک مشہور مقولہ ہے Unity is Strength یعنی اتحاد ایک عظیم قوت
ہے۔ اس کی تعبیر حافظ ملت علامہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی نے اس طرح کی
’’اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت‘‘ یہ حقیقت ہے کہ جو قوم متحد ہے وہ زندہ
ہے اور جو اختلاف کا شکار ہے وہ مردہ ہے یاقریب المرگ ہے۔
عالم اسلام پر اگر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو مسلمان اتحاد سے کوسوں دور
نظر آتے ہیں۔ اختلاف کی جتنی بھی قسمیں ہوسکتی ہیں ان میں سے اکثر مسلمانوں
میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جبکہ مخالفین اور معاندین متحد ہوکر ہمارے خلاف
محاذ آرائی کررہے ہیں اور مسلمان ہیں کہ اختلاف کے شکنجے میں جکڑتے جارہے
ہیں۔ اتحاد کے فقدان کے باعث ہم روزبہ روز کمزور ہوتے جارہے ہیں اور
معاندین‘ خانگی اختلافات کے باوجود قومی اتحاد قائم رکھ کر مضبوط و توانا
ہورہے ہیں۔ حالانکہ مسلمان جس مذہب مہذب کے پیروکار ہیں‘ وہ مذہب (اسلام)
جس قدر اتحاد کا درس دیتا ہے‘ اور اس پر تاکید کرتا ہے‘ دیگر ادیان و مذاہب
میں وہ بات نہیں دکھائی دیتی۔ اسلام کے ارکان واحکام میں بھی اتحاد کا درس
ملتا ہے۔ شرعی احکام و دینی معمولات میں غور کریں تو آپ کو بخوبی اندازہ
ہوجائے گا کہ اسلام نے کس طرح اتحاد کا درس دیا ہے۔ آپ نماز ہی کو لے
لیجئے۔ شریعت نے فرض نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کا حکم دیا ہے اور جماعت
میں امیر و غریب یا حاکم و رعایا کے مابین تفریق نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ سب
ساتھ میں ایک صف میں ہوں گے۔ ایسا نہیں کہ امرا و حکام کے لئے الگ صف ہو
اور غربا و رعایا کے لئے الگ صف۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
نماز باجماعت کے اس طرز عمل سے احترام انسانیت کے ساتھ اتحاد کابھی درس
ملتا ہے۔ لیکن آج کا مسلمان اتحاد سے آخر دور کیوں ہے؟ ہمیں اس کے اسباب و
عوامل پر غور کرنا ہے۔ میری نظر میں مسلمانوں میں اتحاد کے فقدان کی وجوہات
چند چیزیں ہیں۔ مثلا نظریاتی اختلاف‘ عصبیت و تنگ نظری‘ دین سے دوری‘ خوف
خدا کا فقدان‘ آپسی رسہ کشی ‘ احساس برتری وغیرہ۔
نظریاتی اختلاف
مسلمانوں میں نظریاتی اختلاف زوروں پر ہے۔ اختلاف نظریات کے بطن سے
مسلمانوں میں جدا جدا جماعتیں بن رہی ہیں اور ہر جماعت اپنے اپنے نظریہ پر
سختی سے عمل پیرا ہے اور خود کو برحق اور دیگر کو باطل گردانتی ہے۔ نظریوں
کا اختلاف اپنی جگہ‘ لیکن اس کے سبب قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا کہاں کی
دانش مندی ہے؟
عصبیت و تنگ نظری
آج عصبیت و تنگ نظری نے مسلمانوں پر اپنا سکہ جمالیا ہے۔ مسلمان اس درس کو
بھلا بیٹھے ہیں جو درس نبی آخر الزماںﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع کے موقع پر دیا
تھا کہ ’’تم سب آدم سے ہو اور آدم (علیہ السلام) مٹی سے بنائے گئے ہیں۔
کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں‘ بلکہ اﷲ کے
نزدیک شرافت و عظمت والا وہی ہے جو سب سے بڑا متقی ہے‘‘ لیکن آج مسلمان
عصبیت کے جال میں اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ اس سے نکلنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔
عصبیت اتحاد کی راہ میں سنگ گراں ہے۔
دین سے دوری
اتحاد کے فقدان کی ایک اہم وجہ دین سے دوری بھی ہے۔ دینی احکام سے بے رغبتی
عام ہوتی جارہی ہے۔ ماڈرن سوسائٹی میں دین و مذہب کی باتوں کو فقط رسم و
رواج کا درجہ دیا جاتا ہے۔ اس لئے اب مخصوص معاملات ہی میں دین کے احکام کی
بجا آوری ہوتی ہے۔ دینی تعلیمات سے آشنائی جب تک نہ ہو‘ قومی اتحاد کی
کوششیں بار آور نہیں ہوسکتیں۔ مسلمانوں میں اتحاد کی فضا قائم ہونے کے لئے
ضروری ہے کہ دینی تعلیمات عام ہوں‘ ناواقف لوگوں تک اسلام کا پیغام اتحاد
پہنچایا جائے۔
آپسی رسہ کشی
قائدین کے باہمی اور آپسی تنازعہ کو اتنا بڑھا دیا جاتا ہے کہ مسلمان باہم
ہی دست و گریبان رہتے ہیں۔ یہ صورت حال بھی اتحاد کے لئے سد راہ ہے۔
احساس برتری
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ آج کوئی چھوٹا اور حقیر شخص بھی خود کوقائداعظم‘
رہبر قوم و ملت یا علامہ وقت اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھتا ہے۔ ان کے اندر
یہ جذبہ کارفرما ہے کہ ہم کسی سے کم نہیں۔ ہمارے یہاں ایسے بھی افراد ہیں
جو شہرت و ناموری کے لئے اختلاف کو ہوا دیتے ہیں۔ شہرت کے نشے میں انہیں
بدنامی کی پرواہ ہی نہیں۔ ع
بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا
ظاہر ہے یہ باتیں اتحاد کی راہ میں سنگ گراں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ جب تک اس
صورتحال کا تدارک نہ ہو‘ مسلمانوں میں اتحاد کا فقدان ہی رہے گا۔ اہل علم
اور ذمے دار حضرات اگر اس پر خاص توجہ دیں اور دین و مذہب کا پاس و لحاظ
کرتے ہوئے اس جانب اقدام کریں تو کچھ بات بن سکتی ہے۔ ہمیں ایسے نزاع کو
قومی وحدت کی راہ میں حائل ہونے سے روکنا چاہئے اور اختلاف کو ہوا دینے
والے شرپسندوں کی گوشمالی کرنی چاہئے۔ جذبات کی رو میں بہہ کر شرپسند عناصر
کی چال بازی اور مکاری میں پھنسنے سے بچتے ہوئے قوم کو بھی اس سے بچانے کی
کوشش ہونی چاہئے۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment