۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نباتات میں معرفتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مظاہر
یہ جانوروں کی محبت تھی۔ پھر محبت کا یہی عالم درختوں کا تھا، اور کیا محبت تھی اُس درخت کی جو کھجور کا خشک تنا تھا۔ یہ حدیث متعدد مقامات پر امام بخاری نے بطور حدیث صحیح روایت کی ہے۔ اس کو امام ترمذی، امام ابن ماجہ، امام ابو یعليٰ، امام ابن حبان، امام طبرانی اور امام دارمی نے روایت کیا ہے۔ صحاح ستہ کے علاوہ لا تعداد ائمہ سے مروی ہے۔ کیا معرفت ہے! وہ تو جانور تھے جانور کو پھر بھی کہیں کہ چلو اس کو کامل شعور نہیں ہے تو جانور ہے، بہر صورت اُسے اپنے حساب سے کچھ سوجھ بوجھ تو ہے۔
1۔ بخاری شریف میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :
کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَخْطُبُ إِلَی جِذْعٍ، فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ تَحَوَّلَ إِلَيْهِ فَحَنَّ الْجِذْعُ. فَأَتَاهُ فَمَسَحَ يَدَهُ عَلَيْهِ.
بخاری، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 : 1313، رقم : 3390
ابن حبان، الصحيح، 14 : 435، رقم : 6506
لالکائي، اعتقاد أهل السنة، 4 : 797، الرقم : 1469
’’حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر خطاب فرمایا کرتے تھے۔ جب منبر بنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر جلوہ افروز ہوئے تو لکڑی کا وہ ستون (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہجر و فراق میں )گریہ و زاری کرنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے او راس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا (تو وہ پرسکون ہو گیا)۔‘‘
2۔ امام ترمذی کی روایت میں ہے :
فَحَنَّ الْجِذْعُ حَنِيْنَ النَّاقَةِ. فَنَزَلَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَّهُ فَسَکَنَ.
ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب فيآيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اﷲ به، 5 : 594، الرقم : 3627
’’پس وہ تنا اس طرح رونے لگا جس طرح اُونٹنی اپنے بچے کی خاطر روتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لائے اور اس پر ہاتھ پھیرا تو وہ خاموش ہوگیا۔‘‘
3۔ سنن ابن ماجہ کی روایت میں ہے :
فَحَنَّ الْجِذْعُ فَأَتَاهُ فَاحْتَضَنَهُ فَسَکَنَ. فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ لَحَنَّ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 : 454، رقم : 1415
بخاری، التاريخ الکبير، 7 : 26، رقم : 108
أبو يعلی، المسند، 6 : 114، رقم : 3384
عبد بن حميد، المسند، 1 : 396، رقم : 1336
مقدسي، الأحاديث المختارة، 5 : 37، رقم : 1643
’’پس وہ ستون (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جدائی کی وجہ سے) رونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اسے سینہ سے لگایا تو وہ پر سکون ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر میں اسے سینہ سے نہ لگاتا تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
4۔ حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
حَتَّی سَمِعَهُ أَهْلُ الْمَسْجِدِ حَتَّی أَتَاهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَسَحَهُ فَسَکَنَ. فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَوْ لَمْ يَأْتِهِ، لَحَنَّ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في بدء شأن المنبر، 1 : 454، رقم : 1415
’’(ستون کے رونے کی) آواز تمام اہلِ مسجد نے سنی۔ (اس کا رونا سن کر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور اس پر اپنا دستِ شفقت پھیرا تو وہ پرسکون ہو گیا۔ بعض صحابہ کہنے لگے : اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس تشریف نہ لاتے تو یہ قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
5۔ ایک روایت میں ہے جو مبارک بن فضالہ کے طریق سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آقا علیہ السلام نے جب اسے سینے سے لگایا تو جس طرح معصوم بچہ زور سے رو رہا ہو اور ماں اس کو سینے سے لگا لے تو وہ چپ ہو جاتا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کا رونا سنا اور سسکیوں کے ساتھ ماں کے سینے سے لگتے ہوئے بچہ جس طرح چپ کرتا ہے اُسی ڈھنگ میں اس کا چپ کرنا دیکھا ہے۔
ابن حبان، الصحيح، 14 : 436، 437، رقم : 6507
طبراني، المعجم الأوسط، 2 : 108، 109، رقم : 1409
ابن الجعد، المسند : 466، رقم : 3219
أبو يعلی، المسند، 5 : 142، رقم : 2756
6. اور جب وہ چپ کروایا گیا تو امام دارمی نے روایت کیا ہے کہ آقا علیہ السلام نے اُس سے پوچھا : (یہ معرفت بتا رہا ہوں کہ کس کس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمتِ نبوت رسالت کی معرفت تھی۔ ) تو کیا چاہتا ہے۔ اگر تو چاہتا ہے تو تجھے دوبارہ اِسی دنیا میں تر و تازہ کر دوں اور تو پھلوں سے لد جائے۔ اور اگر تو چاہے تو تجھے جنت میں لگا دوں اور وہاں تجھ پہ پھل لگیں۔ اور حدیث کے لفظ ہیں، امام دارمی نے روایت کیا کہ جنت میں اولیاء تیرے پھل کھائیں گے۔ تو اُن دو باتوں میں سے کیا چاہتا ہے؟ اُس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے جنت میں لگا دیں۔ تو آقا علیہ السلام نے حکم دیا کہ اس کو یہیں میرے منبر کے نیچے دفن کر دیا جائے۔
دارمی، السنن، 1 : 29، رقم : 32
No comments:
Post a Comment