(12) کیا میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلّ بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم
ملا علی قاری کل بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم واضح کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :
أی کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلاة والسلام : من سنّ فی الإسلام سنّة حسنة فله أجرها وأجرمن عمل بها‘‘ وجمع أبوبکر وعمر القرآن وکتبه زيد فی المصحف وجدد فی عهد عثمان رضی الله عنهم.
1. ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216
2. شبير احمد ديوبندی، فتح الملهم بشرح صحيح مسلم، 2 : 406
’’یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے : ’’جس نے اِسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اُسے اُس عمل کا اور اُس پر عمل کرنے والے کا اَجر ملے گا۔‘‘ اور یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم جمع کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اِسے صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اِس کی تجدید کی گئی۔‘‘
2۔ ابن حجر مکی بدعت کی اَقسام بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وفی الحديث : کل بدعة ضلالة، وکل ضلالة فی النار. وهو محمول علی المحرّمة لا غير.
ابن حجر هيتمی، الفتاوی الحديثية : 203
’’اور جو حدیث میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی‘‘ اس حدیث کو بدعتِ محرّمہ پر محمول کیا گیا ہے، اِس کے علاوہ اور کسی پر نہیں۔‘‘
بدعت کی اس تقسیم کے بعد معلوم ہوا کہ اگر بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آجائے تو وہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر مستقبحات کے تحت آجائے (یعنی مخالف دلیل ہو) تو بدعتِ سیئہ ہے اور اگر ان دونوں میں نہ آئے تو وہ بدعت مباحہ ہے۔
تقسیمِ بدعت
مذکورہ بالا تعریفاتِ بدعت کی روشنی میں ہم ذیل میں خلاصتاً محدثین و اَئمہ کی بیان کردہ بدعت کی تقسیم بیان کریں گے۔ بنیادی طور پر بدعت کی دو اَقسام ہیں :
بدعتِ حسنہ
بدعتِ سیئہ
ان میں سے ہر ایک کی پھر مزید اقسام ہیں جن کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
1۔ بدعتِ حسنہ کی اَقسام
بدعتِ حسنہ کی مزید تین اَقسام ہیں :
بدعتِ واجبہ
بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ)
بدعتِ مباحہ
بدعتِ واجبہ
وہ کام جو اپنی ہیئت میں توبدعت ہو لیکن اِس کا وجود واجب کی طرح دین کی ضرورت بن جائے اور اِسے ترک کرنے سے دین میں حرج واقع ہو۔ جیسے قرآنی آیات پر اعراب، فہمِ دین کے لیے صرف و نحو کی درس و تدریس، اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام، دینی مدارس کا قیام، درسِ نظامی کے نصابات اور ان کی اِصطلاحات سب ’’بدعتِ واجبہ‘‘ ہیں۔
(2) بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ)
جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع ہو نہ واجب کی طرح ضروری ہو بلکہ عام مسلمان اسے مستحسن اَمر سمجھتے ہوئے ثواب کی نیت سے کریں تو اس کے نہ کرنے والا گناہ گار بھی نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے، جیسے مسافر خانوں اور مدارس کی تعمیر وغیرہ۔ ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا بھی بدعتِ مستحبہ ہے، جیسے نمازِ تراویح کی جماعت، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان، محافلِ میلاد، محافلِ عرس وغیرہ جنہیںعام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اور ان میں شرکت نہ کرے والا گناہ گار نہیں ہوتا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنھما نے فرمایا :
فما رآه المؤمن حسناً فهو عند اﷲ حسن، وما رآه المؤمنون قبيحاً فهو عند اﷲ قبيح.
1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 212، 213، رقم : 1816
2. طيالسی، المسند، 1 : 33، رقم : 246
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600
4. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3 : 83، رقم : 4465
5۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد و منبع الفوائد (1 : 177، 178)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال موثق (ورجالہ موثقون) ہیں۔
6۔ عجلونی نے ’’کشف الخفاء ومزیل الالباس (2 : 245، رقم : 2214)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ روایت موقوف حسن ہے۔
’’جس کو (بالعموم) مومن اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مومن برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔‘‘
اِس تعریف کی رُو سے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعتِ مستحسنہ ہے، جسے مومن ثواب کی نیت سے کرتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنھما کے قول کے مطابق یہ اﷲ تعاليٰ کے ہاں بھی مقبول ہے کیوں کہ اِسے جمہور مسلمان (سوادِ اَعظم) مناتے ہیں۔
(3) بدعتِ مباحہ
وہ نیا کام جو شریعت میںمنع نہ ہو اور جسے مسلمان صرف جائز سمجھ کر ثواب کی نیت کے بغیر اِختیار کرلیں۔ فقہاء نے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور عمدہ عمدہ جدید کھانے اور مشروبات کے استعمال کو ’’بدعتِ مباحہ‘‘ کہا ہے۔
2۔ بدعتِ سیئہ کی اقسام
بدعتِ سیئہ کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں :
1۔ بدعتِ محرّمہ
2۔ بدعتِ مکروہہ
بدعتِ محرّمہ
وہ نیا کام جس سے دین میں تضاد، اِختلاف اور اِنتشار واقع ہو مثلاً قدریہ، جبریہ، مرجئہ اور مرزائی و قادیانی وغیرہ جیسے نئے مذاہب کا وجود میں آنا۔ اِسے بدعتِ ضلالہ بھی کہتے ہیں۔ اِن مذاہبِ باطلہ کی مخالفت بدعتِ واجبہ کا درجہ رکھتی ہے۔
(2) بدعتِ مکروہہ
جس نئے کام سے سنت مؤکدہ یا غیر مؤکدہ چھوٹ جائے وہ بدعتِ مکروہہ ہے۔ اِس میں علماء متقدمین نے مساجد کی بلاضرورت فخریہ آرائش و تزئین وغیرہ کو شامل کیا ہے۔
تقسیمِ بدعت پر متنِ حدیث سے اِستشہاد
بدعت کے مذکورہ تصوّر اور تقسیم کی مزید وضاحت کے لیے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ نہایت اہم ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من سنّ فی الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده، من غير أن ينقص من أجورهم شیء. ومن سن فی الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده، من غير أن ينقص من أوزارهم شیء.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2 : 704، 705، رقم : 1017
2. مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلی هدی أوضلالة، 4 : 2059، رقم : 1017
3. نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقة، 5 : 76، رقم : 2554
4. ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، 75، رقم : 203، 206، 207
5. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359
’’جو شخص اِسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کے لئے اس کے اپنے اَعمال کا بھی ثواب ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا ثواب بھی ہے، بغیر اِس کے کہ اُن کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جس نے اِسلام میں کسی بری بات کی اِبتدا کی تو اُس پر اُس کے اپنے عمل کا بھی گناہ ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا بھی گناہ ہے، بغیر اِس کے کہ اُن کے گناہ میں کچھ کمی ہو۔‘‘
اس حدیث میں لفظ ’’سنّ‘‘ لغوی معنی کے اِعتبار سے ’’ابدع‘‘ کے ہم معنی ہے یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھی (نئی) راہ نکالی۔ یہاں سے ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کا تصور ابھرتا ہے۔ اِسی طرح
’’من سنّ فی الإسلام سنة سيئة‘‘
سے بدعتِ سیئہ کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف ’’سنت‘‘ ہی مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جا سکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذ اﷲ) اگر اس سے مراد صرف ’’سنت‘‘ ہی ہوتا تو کیا وہاں ’’حسنہ‘‘ کہنے کی ضرورت تھی؟ کیا کوئی سنت غیر حسنہ بھی ہوسکتی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے ’’مَنْ عَمِلَ‘‘ تو کہہ سکتے ہیں مگر ’’من سنَّ‘‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ایک اُمتی کیا ’’راہ‘‘ نکالے گا؟ وہ تو صرف عمل اور اِتباع کا پابند ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ’’سَنَّ‘‘ سے مراد معروف معنوں میں سنت نہیں ہے بلکہ یہاں لغوی معنی یعنی راستہ اور نئی راہ نکالنا مراد ہے۔
بدعت کی مندرجہ بالا اَقسام اور تفصیلات متعدد ائمہ حدیث اور فقہاء نے اپنے اپنے انداز میں اپنی کتب میں بیان کی ہیں۔ تفصیلات ہماری کتاب ’’کتاب البدعۃ‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
مندرجہ بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر عمل کو اِس ڈھب پر نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لیے عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضروریات اور تقاضوں پر۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا اس کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟ کیا بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے؟ یا پھر وہ کام اس لیے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب، سنت یا مستحب پر زَد پڑتی ہے۔
اگر کسی نئے عمل کی اصل قرآن حکیم یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بہ فرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع درست ہے۔ البتہ صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابلِ مذمت ٹھہرے گی جب وہ قرآن و سنت کی کسی نص یا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہو یا دین کے عمومی مزاج اور اُس کی روح کے منافی ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کلّ بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم
ملا علی قاری کل بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم واضح کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں :
أی کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلاة والسلام : من سنّ فی الإسلام سنّة حسنة فله أجرها وأجرمن عمل بها‘‘ وجمع أبوبکر وعمر القرآن وکتبه زيد فی المصحف وجدد فی عهد عثمان رضی الله عنهم.
1. ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216
2. شبير احمد ديوبندی، فتح الملهم بشرح صحيح مسلم، 2 : 406
’’یعنی ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے : ’’جس نے اِسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اُسے اُس عمل کا اور اُس پر عمل کرنے والے کا اَجر ملے گا۔‘‘ اور یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم جمع کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اِسے صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اِس کی تجدید کی گئی۔‘‘
2۔ ابن حجر مکی بدعت کی اَقسام بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
وفی الحديث : کل بدعة ضلالة، وکل ضلالة فی النار. وهو محمول علی المحرّمة لا غير.
ابن حجر هيتمی، الفتاوی الحديثية : 203
’’اور جو حدیث میں ہے کہ ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی‘‘ اس حدیث کو بدعتِ محرّمہ پر محمول کیا گیا ہے، اِس کے علاوہ اور کسی پر نہیں۔‘‘
بدعت کی اس تقسیم کے بعد معلوم ہوا کہ اگر بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آجائے تو وہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر مستقبحات کے تحت آجائے (یعنی مخالف دلیل ہو) تو بدعتِ سیئہ ہے اور اگر ان دونوں میں نہ آئے تو وہ بدعت مباحہ ہے۔
تقسیمِ بدعت
مذکورہ بالا تعریفاتِ بدعت کی روشنی میں ہم ذیل میں خلاصتاً محدثین و اَئمہ کی بیان کردہ بدعت کی تقسیم بیان کریں گے۔ بنیادی طور پر بدعت کی دو اَقسام ہیں :
بدعتِ حسنہ
بدعتِ سیئہ
ان میں سے ہر ایک کی پھر مزید اقسام ہیں جن کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے :
1۔ بدعتِ حسنہ کی اَقسام
بدعتِ حسنہ کی مزید تین اَقسام ہیں :
بدعتِ واجبہ
بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ)
بدعتِ مباحہ
بدعتِ واجبہ
وہ کام جو اپنی ہیئت میں توبدعت ہو لیکن اِس کا وجود واجب کی طرح دین کی ضرورت بن جائے اور اِسے ترک کرنے سے دین میں حرج واقع ہو۔ جیسے قرآنی آیات پر اعراب، فہمِ دین کے لیے صرف و نحو کی درس و تدریس، اُصولِ تفسیر، اُصولِ حدیث، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام، دینی مدارس کا قیام، درسِ نظامی کے نصابات اور ان کی اِصطلاحات سب ’’بدعتِ واجبہ‘‘ ہیں۔
(2) بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ)
جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع ہو نہ واجب کی طرح ضروری ہو بلکہ عام مسلمان اسے مستحسن اَمر سمجھتے ہوئے ثواب کی نیت سے کریں تو اس کے نہ کرنے والا گناہ گار بھی نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے، جیسے مسافر خانوں اور مدارس کی تعمیر وغیرہ۔ ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا بھی بدعتِ مستحبہ ہے، جیسے نمازِ تراویح کی جماعت، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان، محافلِ میلاد، محافلِ عرس وغیرہ جنہیںعام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اور ان میں شرکت نہ کرے والا گناہ گار نہیں ہوتا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنھما نے فرمایا :
فما رآه المؤمن حسناً فهو عند اﷲ حسن، وما رآه المؤمنون قبيحاً فهو عند اﷲ قبيح.
1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 5 : 212، 213، رقم : 1816
2. طيالسی، المسند، 1 : 33، رقم : 246
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600
4. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3 : 83، رقم : 4465
5۔ ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد و منبع الفوائد (1 : 177، 178)‘‘ میں کہا ہے کہ اِسے احمد، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال موثق (ورجالہ موثقون) ہیں۔
6۔ عجلونی نے ’’کشف الخفاء ومزیل الالباس (2 : 245، رقم : 2214)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ روایت موقوف حسن ہے۔
’’جس کو (بالعموم) مومن اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مومن برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے۔‘‘
اِس تعریف کی رُو سے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعتِ مستحسنہ ہے، جسے مومن ثواب کی نیت سے کرتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنھما کے قول کے مطابق یہ اﷲ تعاليٰ کے ہاں بھی مقبول ہے کیوں کہ اِسے جمہور مسلمان (سوادِ اَعظم) مناتے ہیں۔
(3) بدعتِ مباحہ
وہ نیا کام جو شریعت میںمنع نہ ہو اور جسے مسلمان صرف جائز سمجھ کر ثواب کی نیت کے بغیر اِختیار کرلیں۔ فقہاء نے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور عمدہ عمدہ جدید کھانے اور مشروبات کے استعمال کو ’’بدعتِ مباحہ‘‘ کہا ہے۔
2۔ بدعتِ سیئہ کی اقسام
بدعتِ سیئہ کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں :
1۔ بدعتِ محرّمہ
2۔ بدعتِ مکروہہ
بدعتِ محرّمہ
وہ نیا کام جس سے دین میں تضاد، اِختلاف اور اِنتشار واقع ہو مثلاً قدریہ، جبریہ، مرجئہ اور مرزائی و قادیانی وغیرہ جیسے نئے مذاہب کا وجود میں آنا۔ اِسے بدعتِ ضلالہ بھی کہتے ہیں۔ اِن مذاہبِ باطلہ کی مخالفت بدعتِ واجبہ کا درجہ رکھتی ہے۔
(2) بدعتِ مکروہہ
جس نئے کام سے سنت مؤکدہ یا غیر مؤکدہ چھوٹ جائے وہ بدعتِ مکروہہ ہے۔ اِس میں علماء متقدمین نے مساجد کی بلاضرورت فخریہ آرائش و تزئین وغیرہ کو شامل کیا ہے۔
تقسیمِ بدعت پر متنِ حدیث سے اِستشہاد
بدعت کے مذکورہ تصوّر اور تقسیم کی مزید وضاحت کے لیے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ نہایت اہم ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
من سنّ فی الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده، من غير أن ينقص من أجورهم شیء. ومن سن فی الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده، من غير أن ينقص من أوزارهم شیء.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2 : 704، 705، رقم : 1017
2. مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلی هدی أوضلالة، 4 : 2059، رقم : 1017
3. نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقة، 5 : 76، رقم : 2554
4. ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، 75، رقم : 203، 206، 207
5. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359
’’جو شخص اِسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کے لئے اس کے اپنے اَعمال کا بھی ثواب ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا ثواب بھی ہے، بغیر اِس کے کہ اُن کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جس نے اِسلام میں کسی بری بات کی اِبتدا کی تو اُس پر اُس کے اپنے عمل کا بھی گناہ ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا بھی گناہ ہے، بغیر اِس کے کہ اُن کے گناہ میں کچھ کمی ہو۔‘‘
اس حدیث میں لفظ ’’سنّ‘‘ لغوی معنی کے اِعتبار سے ’’ابدع‘‘ کے ہم معنی ہے یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھی (نئی) راہ نکالی۔ یہاں سے ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کا تصور ابھرتا ہے۔ اِسی طرح
’’من سنّ فی الإسلام سنة سيئة‘‘
سے بدعتِ سیئہ کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف ’’سنت‘‘ ہی مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جا سکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذ اﷲ) اگر اس سے مراد صرف ’’سنت‘‘ ہی ہوتا تو کیا وہاں ’’حسنہ‘‘ کہنے کی ضرورت تھی؟ کیا کوئی سنت غیر حسنہ بھی ہوسکتی ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے ’’مَنْ عَمِلَ‘‘ تو کہہ سکتے ہیں مگر ’’من سنَّ‘‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ایک اُمتی کیا ’’راہ‘‘ نکالے گا؟ وہ تو صرف عمل اور اِتباع کا پابند ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ’’سَنَّ‘‘ سے مراد معروف معنوں میں سنت نہیں ہے بلکہ یہاں لغوی معنی یعنی راستہ اور نئی راہ نکالنا مراد ہے۔
بدعت کی مندرجہ بالا اَقسام اور تفصیلات متعدد ائمہ حدیث اور فقہاء نے اپنے اپنے انداز میں اپنی کتب میں بیان کی ہیں۔ تفصیلات ہماری کتاب ’’کتاب البدعۃ‘‘ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
مندرجہ بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر عمل کو اِس ڈھب پر نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کے لیے عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضروریات اور تقاضوں پر۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا اس کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں؟ کیا بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے؟ یا پھر وہ کام اس لیے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب، سنت یا مستحب پر زَد پڑتی ہے۔
اگر کسی نئے عمل کی اصل قرآن حکیم یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بہ فرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع درست ہے۔ البتہ صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابلِ مذمت ٹھہرے گی جب وہ قرآن و سنت کی کسی نص یا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہو یا دین کے عمومی مزاج اور اُس کی روح کے منافی ہو۔
516 people reached
No comments:
Post a Comment