اب آپ یہ تحریر پڑھیں : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عقیدہ حیات الانبیاء قرآن حکیم میں
قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر حیات الانبیاء کا ثبوت ( اشارة النص، دلالة النص اور اقتضا النص) ملتا ہے۔ ان تمام آیات کا احصاءمشکل بھی ہے اور موجب طول بھی۔ اس لئے اختصار کی غرض سے چند آیات کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۱۔ واسل من ارسلنا من قبلک من رسلنا اجعلنا من دون الرحمن الھة یعبدون (پارہ25۔ آیت45 الزخرف)
ترجمہ: اور آپ ان پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھيجا ہے پوچھ لیجئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا دوسرے معبود ٹھہرا دئیے تھے کہ ان کی عبادت کرو۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیت میں انبیا ءعلہیم الصلوة والسلام کی حیات پر استدلال کیا گیا ہے۔ چنانچہ محدث العصر حضرت مولانا سید انور شاہصاحب فرماتے ہیں ۔ یستدل به علی حیات الانبیاء (مشکلات قرآن ص 234) وھذا فی دار المنشور (جلد ۲ ص۱۶)، روح المعانی جلد 5ص89، جمل جلد 4ص88، شیخ زادہ جلد7ص298، حقاجی جلد7ص444، تفسیرمظہری جلد8ص353، تفسیر جلالین ص408،تفسیر بغوی جلد4ص141،
۲۔ ولقد اتنیا موسی الکتب فلا تکن فی مریة من لقائہ (پارہ21، آیت 43 الم سجدہ)
ترجمہ: اور دی ہم نے موسی کو کتاب اس کے ملنے میں شک میں نہ رہنا ۔
حضرت شاہ عبد القادر صاحب ؒ نے اس تفسیر میں فرمایا ہے کہ معراج میں ان سے ملے تھے۔ موضح القرآن، تفسیر ابن عباس، تفسیر جلالین ص350،تفسیر خازن جلد 3ص479، اور ملاقات بغیر حیات ممکن نہیں۔ لہٰذا اقتضاء النص سے حیات الا نبیاءکو ثبوت ملتا ہے۔ یہاں اصول فقہ کا یہ مسلمہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ جو حکم اقتضا النص سے ثابت ہوتا ہے وہ بحالت انفراد وقوت استدال میں عبارة النص کے مثل ہوتا ہے۔
۳۔ ولا تقولو لمن یقتل فی سبیل اﷲ اموات بل احیاء ولکن لا تشعرون (پارہ۲۔ آیت 154البقرہ)
ترجمہ: اور مت کہو تم ان لوگوں کے بارے میں جو مارے جائیں اللہ کی راہ میں، کہ وہ مردہ ہیں، (کہ ایسے لوگ حقیقت میں مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم لوگ (ان کی اس زندگی کا) شعور نہیں رکھتے.[البقرہ:١٥٤]
وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ . فَرِحينَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَيَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم أَلّا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ . يَستَبشِرونَ بِنِعمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُؤمِنينَ. [آل عمران:١٦٩-١٧١]
ترجمہ: اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے اللہ کی راہ میں مردے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے. خوشی کرتے ہیں اس پر جو دیا ان کو اللہ نے اپنے فضل سے اور خوش وقت ہوتے ہیں انکی طرف سے جو ابھی تک نہیں پہنچے ان کے پاس ان کے پیچھے سے اس واسطے کہ نہ ڈر ہے ان پر اور نہ انکو غم. خوش وقت ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل سے اور اس بات سے کہ اللہ ضائع نہیں کرتا مزدوری ایمان والوں کی.
عَنْ عَبدِ اللَّهِ ، قَالَ : لَأَنْ أَحْلِفَ تِسْعًا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قُتِلَ قَتْلًا ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَةً أَنَّهُ لَمْ يُقْتَلْ ، . وَذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ نَبِيًّا ، وَاتَّخَذَهُ شَهِيدًا "
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ عبد الله بن مسعود رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى ...رقم الحديث: 3742 ؛ المستدرك على الصحيحين: 3/57، 4332 ؛ دلائل النبوة للبيهقي:3102]
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله انہ سے روایت ہے کہ : مجھے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے قتل پر نو (٩) قسمیں کھانا اس سے زیادہ پسند ہے کہ ان کے قتل نہ ہونے پر ایک (١) قسم کھاؤں، اس لئے کہ الله نے آپ کو نبی بھی بنایا اور شہید بھی.[مسند أحمد: 3742؛ المستدرك الحاکم: 3/57، 4332 ؛ دلائل النبوة للبيهقي:3102]
أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الأَشْقَرُ ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْمَرْوَزِيُّ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، ثنا عَنْبَسَةُ ، ثنا يُونُسُ ، عَنِابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : قَالَ عُرْوَةُ : كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ : " يَا عَائِشَةُ ، إِنِّي أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُهُ بِخَيْبَرَ ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ، وَقَدْ أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ ، فَقَالَ : وَقَالَ يُونُسُ .[المستدرك على الصحيحين: 3/56، 4331 ؛ السنن الكبرى للبيهقي: 10/9، 18146 ؛ دلائل النبوة للبيهقي: 3101]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ جس بیماری میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اس میں آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس کھانے کا زہر جو میں نے خیبر میں کھایا تھا برابر محسوس ہوتا رہا یہاں تک کہ اب وہ وقت قریب آگیا ہے کہ اس زہر سے میری شہہ رگ کٹ جاۓ.[المستدرك على الصحيحين: 3/56، 4331 ؛ السنن الكبرى للبيهقي: 10/9، 18146 ؛ دلائل النبوة للبيهقي: 3101]
600 کے قریب کتب کے مصنف علامہ جلال الدین سیوطیؒ الشافعی (۸۴۹–۹۱۱ ھہ) فرماتے ہیں : قال البيهقي في كتاب الاعتقاد : الأنبياء بعدما قبضوا ردت إليهم أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء ، وقال القرطبي في التذكرة في حديث الصعقة نقلا عن شيخه : الموت ليس بعدم محض ، وإنما هو انتقال من حال إلى حال ، ويدل على ذلك أن الشهداء بعد قتلهم وموتهم أحياء يرزقون فرحين مستبشرين وهذه صفة الأحياء في الدنيا ، وإذا كان هذا في الشهداء فالأنبياء أحق بذلك وأولى، وقد صح أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء ، وأنه صلى الله عليه وسلم اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء ، ورأى موسى قائما يصلي في قبره وأخبر صلى الله عليه وسلم بأنه يرد السلام على كل من يسلم عليه ، إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أن غيبوا عنا بحيث لا ندركهم وإن كانوا موجودين أحياء ، وذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء ولا يراهم أحد من نوعنا إلا من خصه الله بكرامته من أوليائه ، انتهى [أنباء الأذكياء في حياة الانبياء، الحاوي للفتاوي للسيوطي]
ترجمہ: امام بیہقی نے "کتاب الاعتقاد" میں بیان کیا ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی روحیں وفات کے بعد پھر ان کی اجسام میں واپس کردی گئیں چنانچہ وہ اپنے رب کے پاس شہیدوں کی طرح زندہ ہیں. امام قرطبی نے "تذکرہ" میں حدیث صعقه کے متعلق اپنے شیخ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ "موت عدم محض کو نہیں کہتے بلکہ وہ خاص ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہید لوگ اپنے قتل وموت کے بعد زندہ رہتے ہیں، روزی دیے جاتے ہیں ، ہشاش بشاش رہتے ہیں اور یہ صفت دنیا میں زندوں کی ہے اور جب یہ حال شہداء کا ہے تو انبیاء علیہ السلام بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں. یہ بات بھی پایۂ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ زمین انبیاء کرامؑ کے اجسام کو نہیں کھاتی، نیز آنحضرتؐ نے شب معراج میں انبیاءؑ سے بیت المقدس اور آسمان پر ملاقات کی اور حضرت موسیٰؑ کو دیکھا کہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور خود آپؐ نے فرمایا کہ"جو شخص مجھ پر سلام بھیجے گا ، میں اس کو اس کے سلام کا جواب دوں گا". اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں. ((ان سب کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاءؑ کی موت کا مآل صرف یہ ہے کہ وہ ہم سے اس طرح غائب ہیں کہ ہم ان کو نہیں پاسکتے گو زندہ وموجود ہیں اور ان کا حال فرشتوں کے جیسا ہے کہ وہ زندہ وموجود ہیں ہم میں سے کوئی ان کو نہیں دیکھتا بجز ان اولیاء کرامؒ کے جن کو الله تعالیٰ نے اپنی کرامات کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے)).
آپ یہ بھی فرماتے ہیں :
حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت [به] الأخبار ، وقد ألف البيهقي جزءا في حياة الأنبياء في قبورهم ، فمن الأخبار الدالة على ذلك
[الحاوي للفتاوي » الفتاوى الحديثية » كتاب البعث » مبحث النبوات » تزيين الآرائك في إرسال النبي صلى الله عليه وسلم إلى الملائك» أنباء الأذكياء بحياة الأنبياء ... ٢/١٣٩]
ترجمہ: نبی اقدس (صلی الله علیہ وسلم) کی اور دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کی قبر میں حیات ہونا ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے، اس لئے کہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں.
اس آیت کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ نے فرمایا
و اذا ثبت انہم احیاءمن حیث النقل فانہ یقولہ من حیث النظر کون الشہداء احیاء بنص القرآن والانبیاء افضل من الشھداء (فتح الباری جلد 6ص379)
٤. وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ، (النساء :64)
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عن علی رضی اللہ عنہ قال قدم علینا اعرابی بعد مادفنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بثلاثۃ ایام فرمی بنفسہ علی قبر رسول ،وحثا علی راسہ من ترابہ فقال قلت یارسول اللہ: فسمعنا قولک ووعیت عن اللہ فوعیناعنک وکان فیہا انزل اللہ علیک وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ وقد ظلمت نفسی وجئتک تستغفرلی، فنودی من القبر انہ قد غفر لک (الجامع الاحکام القرآن ج5ص255)
یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دفن کرنے کے 3دن بعد ایک دیہاتی آیا اور قبر پر گر کر سر پر مٹی ڈال کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ،ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی سے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محفوظ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر "وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ" نازل ہوئی اور یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لیے استغفار کریں تو قبر مبارک سے آواز آئی کہ تیری بخشش کردی گئی۔ حضرت علی فرماتے ہیں کہ روضہ منورہ سے آنے والی آواز وہاں پر موجود سب لوگوں نے سنی۔ حضرت علی کی یہ روایت علامہ ابو حسان اندلسی، البحرالمحیط جلد 1ص283 ، علامہ سمہودی نے وفا الوفا میں خلاصتہ الوفا ص51، او علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر جلد1ص265، میں نقل فرماتے ہیں۔ اس کے علاوہ تفسیر معارف القرآن، تفسیر ابن کثیر جلد3ص142، تفسیر مدارک جلد1ص265، میں بھی درج ہے۔ حضرت قاسم نانوتوی نے اس آیت شریفا کی تفسیر میں جاوک (یعنی اگر گناہگار آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوں) کو عام رکھا ہے۔فرماتے ہیں ولو انہم اذ ظلمو انفسہم جاوک ........ الخ کیونکہ اس میں کسی کی تخصیص ہو تو کیونکر ہو۔ آپ ﷺ کا وجود باجود ترتیب تمام امت کے لئے یکساں رحمت ہے۔ کہ پچھلے امتیوں کا آپ کی خدمت میں آنا اور استغفار کرنا اور کرانا جب ہی متصور ہے کہ آپﷺ قبر میں زندہ ہوں۔ (آب حیات ص40)
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہوسکتی تھی ،اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اسی حکم میں ہے…… اس کے بعد حضرت نے درج بالا واقعہ بحوالہ تفسیر بحر محیط ذکر فرمایا ہے۔ (معارف القرآن ج2ص459،460)
اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علامہ عتبی رحمہ اللہ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا توخواب میں علامہ عتبی رحمہ اللہ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔ (تفسیر ابن کثیر ج2ص315)
۵۔ وَاسْئَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُسُلِنَا (الزخرف:45)
کے تحت حضرت مولانا علامہ سید انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : یستدل بہ علی حیوۃ الانبیاء (مشکلات القرآن ص234)
یعنی اس سے حیات الانبیاء پر دلیل پکڑی گئی ہے۔
وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا (الاحزاب :53)
کی تفسیر میں علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قلت وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليہ وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان. (تفسیر مظہری ج7ص408)
یعنی میں [مفسر علام رحمہ اللہ]کہتا ہوں کہ ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہونے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بیوہ نہیں ہوتیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود عرض کرے گا میں اسے بنفس نفیس سنوں گااور جو دور سے پڑھے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائیگا۔اس حدیث کو امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔
اسی طرح اسی آیت کی تفسیر کے تحت حضرت اقدس مولانامفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہے۔ (اس کی دو جہیں ہیں۔ از ناقل)وہ بنص قرآن مومنوں کی مائیں ہیں ……اور دوسری وجہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ ایسا ہے جیسے کوئی زندہ شوہر گھر سے غائب ہو۔(تفسیر معارف القرآن ج7ص203)
اسی طرح اسی آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن حضرت مولانا علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس مسئلہ کی نہایت بحث حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی قدس سرہ کی کتاب آب حیات میں ہے۔انتہی کلامہ اور آب حیات کس مسئلہ پر لکھی گئی اہل مطالعہ پر یہ مخفی نہیں۔
٦. مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ (الاحزاب:40)
اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ ،علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا یہ قول بلا نکیر نقل فرماتے ہیں: فحصل من مجموع ھذاالکلام النقول والاحادیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حی بجسدہ وروحہ (روح المعانی ج22ص36)
یعنی اس تمام کلام سے یہ بات حاصل ہوئی کہ نقول واحادیث کے مطابق نبی علیہ السلام اپنے جسد اور روح کے ساتھ زندہ ہیں۔پھر آگے مزید لکھتے ہیں:
والمرئی اماروحہ علیہ الصلاۃ والسلام التی ہی اکمل الارواح تجردا وتقدسابان تکون قد تطورت وظہرت بصورۃ مرئیۃ بتلک الرویۃ مع بقاء تعلقہا بجسدہ الشریف الحی فی القبر السامی المنیف (ایضاًج22ص37)
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نظر آنے والی یا تو روح مقدس ہوگی جو کہ تمام روحوں سے مقدس ہے۔ لیکن اس کاتعلق قبر شریف میں جسد مبارک سے ہوگا جو کہ زندہ ہے۔مزید ارقام فرماتے ہیں:
وقد الف البیہقی جزء فی حیاتہم فی قبورھم واوردہ فیہ عدۃ اخبار ( ایضاًج22ص 38)
یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ لکھا ہے اور اس میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں۔مزید لکھتے ہیں :
ثم ان کانت تلک الحیوۃ فی القبر وان کانت یترتب علیہا بعض مایترتب علی الحیوۃ فی الدنیا المعروفۃ لنا من الصلاۃ والاذان والاقامۃ ورد السلام المسموع۔ ( ایضاًج22ص 38)
جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر کی اس زندگی پر دنیا والے کچھ احکام لگتے ہیں جیسے نماز، اذان ،اقامت اور سنے ہوئے سلام کا جواب دینا۔
٧. فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا (الکہف :11)
کی تفسیر میں امام رازی رحمہ اللہ نے کرامت کی بحث چھیڑ دی اور اسی میں یہ بھی درج کیا:
اما ابوبکرفمن کراماتہ انہ لما حملت جنازتہ الی باب قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ونودی: السلام علیک یارسول اللہ ھذا ابوبکر بالباب فاذا الباب قد انفتح واذا بہاتف یہتف من القبر :''ادخلوا الحبیب الی الحبیب''
(مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر ج7ص433)
یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے یہ ہے کہ جب ان کا جنازہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اٹھاکر لایا گیا اور "السلام علیک یارسول اللہ" عرض کرکے کہاگیا کہ یہ ابوبکر دروازے پر حاضر ہیں تو دروازہ کھل گیا اور قبر مبارک سے آوازدینے والے کی آواز آئی کہ دوست کو دوست کے پاس داخل کردو۔
٨. یا ایھا الذین امنو لا ترفعو اصواتکم فق صوت النبی........ الخ (پارہ26 ۔الحجرة)
اکابرین اہل سنت اور جمہور مفسرین کا اجماع ہے کہ دور وفات کے بعد بھی حکم قرآنی روضہ اطہر کے پاس قابل ادب و احترام ملحوظ رکھنے کا متقاضی ہے ۔ حضرت ابوبکر ؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے سامنے بلند آواز کرنا ناجائز نہیں۔ نہ وفات سے پہلے اور نہ ہی وفات کے بعد۔ لا یسنبغی رفع الصوت علی النبی اور حضرت عائشہ صدیقہ جب کبھی ان گھروں میں جو مسجد نبوی سے متصل تھے ۔ کسی میخ لگنے یا کیل لگانے کی آواز سنتی تھیں تو یہ حکم بھیجتیں کہے خبردار لاتو ذو رسول اﷲﷺ اور حضور اکرم ﷺ کو اس آواز سے اذیت نہ دو۔ اور حضرت علی نے اسی سے بچنے کےلئے اپنے گھر کے کواڑ باہر جا کربنوائے تھے۔ یا کہ ان کے بننے کا شور حضور اکرم ﷺ کو اذیت نہ دے۔ وہذا مما یذل علی انہم کانو یرون انہ حی۔ ان تمام روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کو اپنے روضہ انور میں زندہ یقین کرتے تھے ۔ ( شفاءالسقام ص173)
امام ابن کثیرؒ (700-774هـ) اور حیات النبیؐ و الشہداءؒ:
مسند احمد میں ہے سب سے افضل دن جمعہ کا دن ہے، اسی میں حضرت آدم پیدا کئے گئے، اسی میں قبض کئے گئے، اسی میں نفحہ ہے، اسی میں بیہوشی ہے۔ پس تم اس دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو ۔ تمہارے درود مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ صحابہ نے پوچھا آپ تو زمین میں دفنا دیئے گئے ہوں گے پھر ہمارے درود آپ پر کیس پیش کئے جائیں گے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نبیوں کے جسموں کا کھانا زمین پر حرام کر دیا۔ ابو داؤد نسائی وغیرہ میں بھی یہ حدیث ہے۔ ابن ماجہ میں ہے جمعہ کے دن بکثرت درود پڑھو اس دن فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ جب کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ فارغ ہو پوچھا گیا موت کے بعد بھی؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کا گلانا سڑانا حرام کر دیا ہے نبی اللہ زندہ ہیں روزی دیئے جاتے ہیں ۔ [تفسیر ابن کثیر، الاحزاب:٥٦]
نوٹ: اس سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا رد اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا ہے کہ آپ کو فرشتے درود پہنچاتے ہیں..
اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے علامہ عتبی رحمہ اللہ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا تو خواب میں علامہ عتبی رحمہ اللہ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔(تفسیر ابن کثیر ج2ص315)
______________________________
قیامت سے پہلے شہادت کے بعد کی زندگی :
حضرت ابو ہریرہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ قران کی آیت میں جو فرمایا گیا ہے ففذع من فی السموات و من فی الارض الا من شاء اللہ یعنی زمین و آسمان کے سب لوگ گھبرا اٹھیں گے لیکن جنہیں اللہ چاہے اس سے مراد کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا یہ شہید لوگ ہیں کہ وہ اللہ کے ہاں زندہ ہیں روزیاں پاتے ہیں اور سب زندہ لوگ گھبراہٹ میں ہوں گے لیکن اللہ تعلای انہیں پریشانی سے محفوظ رکھے گا یہ تو عذاب ہے جو وہ اپنی بدترین مخلوق پر بھیجے گا[تفسیر ابن کثیر، الانعام:٧١]
آیت قرآن ( وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَاۗءَ اللّٰهُ ۭ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ 68) 39- الزمر:68) میں جن لوگوں کا استثنا کیا گیا ہے کہ وہ بیہوش نہ ہوں گے اس سے مراد شہید لوگ ہیں ۔ یہ گھبراہٹ زندوں پر ہوگی شہید اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں پاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس دن کے شر سے نجات دے گا اور انہیں پر امن رکھے گا ۔ یہ عذاب الٰہی صرف بدترین مخلوق کو ہوگا ۔[تفسیر ابن کثیر، الحج:١]
اللہ تعالیٰ قیامت کی گھبراہٹ اور بےچینی کو بیان فرما رہے ہیں ۔ صور میں حضرت اسرافیل علیہ السلام بحکم الہی پھونک ماریں گے۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ ہونگے۔ دیر تک نفخہ پھونکتے رہیں گے۔ جس سے سب پریشان حال ہوجائیں گے سوائے شہیدوں کے جو اللہ کے ہاں زندہ ہیں اور روزیاں دئیے جاتے ہیں ۔ [تفسیر ابن کثیر، النمل:٨٧]
==============================
عقیدہ حیات النبی اور حضرت عزیر علیہ السلام
مولانا ابو احمد نور محمد قادری تونسوی
عصرِ حاضر کے معتزلہ کے واعظین قرآنِ کریم میں بیان کردہ درج ذیل واقعہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر اور سماع عند القبور کا انکار کرتے ہیں‘ حالانکہ اس واقعہ میں قرآنِ کریم نے صاحب ِ واقعہ کا قطعاً تعین نہیں کیا‘ بلکہ مبہم انداز میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”او کالذی مر علی قریة وہی خاویة علی عروشہا قال انی یحی ہذہ اللہ بعد موتہا‘ فاماتہ اللہ مائة عام ثم بعثہ قال کم لبثت؟ قال لبثت یوما او بعض یوم‘ قال بل لبثت مائة عام فانظر الی طعامک وشرابک لم یتسنہ‘ وانظر الی حمارک ولنجعلک آیة للناس وانظر الی العظام کیف ننشزہا ثم نکسوہا لحما‘ فلما تبین لہ قال اعلم اللہ اللہ علی کل شئ قدیر“۔ (البقرہ:۲۵۹)
ترجمہ:․․․”اور کیا تم نے اس شخص کا حال نہ دیکھا جس کا ایک بستی پر گذر ہوا جو اپنی چھتوں سمیت زمین پر ڈھیر تھی تو وہ کہنے لگا: اس بستی کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ کس طرح اس کو زندگی دے گا؟ (آباد کرے گا)۔ بس اللہ تعالیٰ نے اس شخص پر (اسی جگہ) سوبرس تک موت طاری کردی اور پھر زندہ کردیا‘ اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا: تم یہاں کتنی مدت پڑے رہے؟ اس نے جواب دیا:ایک دن یا دن کا بعض حصہ۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: ایسا نہیں ہے‘ بلکہ تم سو برس تک اس حالت میں رہے‘ پس تم اپنے کھانے پینے (کی چیزوں) کو دیکھو کہ وہ بگڑی تک نہیں اور پھر اپنے گدھے کو دیکھو (کہ وہ گل سڑ کر ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گیاہے) اور (یہ سب کچھ اس لئے ہوا) تاکہ ہم تم کو لوگوں کے لئے ”نشان“ بنائیں‘ اور اب تم دیکھو کہ کس طرح ہم ہڈیوں کو ایک دوسرے پر چڑھاتے (اور آپس میں جوڑتے ہیں) اور پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں‘ پس جب اس کو ہماری قدرت کا مشاہدہ ہوگیا تو اس نے کہا: میں یقین کرتاہوں کہ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے“۔
قارئین کرام! منکرینِ حیات الانبیاء علیہم السلام کا اس قرآنی واقعہ سے استدلال کرنا سراسر باطل اور دھوکہ‘ بلکہ ایک قسم کی تلبیس ہے‘ اور اس تلبیس کا پردہ چاک کرنے کے لئے چند دلائل آپ کی خدمت میں عرض ہیں‘ جن میں غور کرنے سے ہر ذی شعور پر ان کے استدلال کا بطلان اور احقاقِ حق روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ نے صاحب ِ واقعہ کا نام تک نہیں لیا
سب سے پہلی گذارش یہ ہے کہ جس شخص کو یہ واقعہ پیش آیا‘ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کا نام متعین نہیں فرمایا‘ بلکہ مبہم انداز میں فرمایا کہ ایک شخص کا ویران اور تباہ شدہ بستی پر گذر ہوا ۔
لہذا مفسرین کرام کے متفقہ اصول کے مطابق ”ابہموا ما ابہمہ اللہ“ اس صاحبِ واقعہ کو مبہم رکھنا ہی مناسب ہے اور بلادلیل از خودکسی شخصیت کا تعین کرنا نامناسب ہے‘ کیونکہ کتاب وسنت میں کہیں یہ نہیں بتایاگیا کہ صاحب ِ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ البتہ مفسرین کرام نے اپنی اپنی تفاسیر میں فرمایا ہے کہ: بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حضرت ارمیاہ علیہ السلام کا ہے‘ بعض دوسرے حضرات نے فرمایا کہ: یہ شخص حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ شخص ایک کافر بادشاہ تھا جو ”بعث بعد الموت“ کا منکر تھا۔
صاحبِ واقعہ کی شخصیت کے تعین کی بنیاد اسرائیلی روایات ہیں
محترم قارئین! یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صاحبِ واقعہ کا تعین نہ تو قرآن پاک میں کیاگیاہے اور نہ ہی حدیث نبوی ا میں۔ جب قرآن کریم اورحدیث نبوی میں اس شخص کو متعین نہیں کیا گیا کہ وہ کون تھا تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ تعین کرنے والوں نے اسے کیسے متعین کیا ؟ جواب واضح ہے کہ اس تعین کی بنیاد صرف اسرائیلی روایات ہیں‘ چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن صاحب سیوہاروی لکھتے ہیں:
”قرآن کریم نے اس بستی کا نام ذکر نہیں کیا‘ اور نبی معصوم اسے بھی اس سلسلہ میں کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے‘ اور صحابہ وتابعین سے جو آثار منقول ہیں ان کا ماخذ بھی وہ روایات واقوال ہیں جوحضرت وہب بن منبہ ‘ حضرت کعب احبار اور حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہم تک پہنچتی ہیں اور انہوں نے ان کو اسرائیلی واقعات سے نقل کرکے بیان کیا ہے تو اب واقعہ سے متعلق شخصیت کی تحقیق کے لئے صرف ایک یہی راہ باقی رہ جاتی ہے کہ توراة اور تاریخی مصادر سے اس کو حل کیا جائے “۔ (قصص القرآن:ص:۲۳۹‘ج:۲)مولانا حفظ الرحمن صاحب کے مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ صاحبِ واقعہ کا تعین نہ تو قرآن کریم میں ہے اور نہ حدیث رسول اللہ میں‘ بلکہ اس کی بنیاد صرف اسرائیلی روایات ہیں۔
غلط بیانی کی انتہا
جب صورتِ حال یہ ہے کہ قرآن کریم میں یہ نہیں بتایاگیا کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کو پیش آیا اور حضور اکرم ا نے بھی کہیں یہ نہیں فرمایا کہ یہ قصہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے‘ مفسرین کرام بھی یہی فرماتے ہیں کہ: جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا اسے مبہم ہی رکھنا چاہئے‘ اب جبکہ یہ یقینی طور پر معلوم ہی نہیں کہ یہ شخص کون تھا تو اسرائیلی روایات کو بنیاد بناکر عوام الناس کو یہ تأثر دینا کہ قرآن کریم نے حضرت عزیر علیہ السلام کا واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ سوسال تک سوئے رہے اور انہیں وقت کا پتہ بھی نہ چلا‘ یہ غلط بیانی کی انتہاء نہیں‘ تواور کیا ہے‘ بلکہ اس واقعہ کو اس رنگ میں پیش کرنا کہ سننے والے یہی سمجھیں کہ قرآن کریم نے حضرت عزیر علیہ السلام کا نام لے کر یہ واقعہ بیان فرمایا ہے‘یقیناً کتاب اللہ پر اضافہ اور اللہ پر افتراء ہے۔
اسرائیلی روایات: کبھی قرآن کے درجہ میں اور کبھی انکار کی زد میں
عصر ہذا کے معتزلہ کا عجیب مزاج ہے‘ اس واقعہ میں تو ان لوگوں نے اسرائیلی روایات کو قرآن کریم کا درجہ دے رکھا ہے اور جب حضرت یوسف علیہ السلام اور عزیز مصر کی گھر والی کے نکاح کا مسئلہ چلتاہے تو یہ حضرات یہ کہہ کرنکاح کا انکار کردیتے ہیں کہ:” حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا کا نکاح نہ قرآن کریم سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے‘ بلکہ اسرائیلی روایات سے ثابت ہے جن پر اعتبار نہیں ہے“۔ اب یہاں تو یہ حضرات اسرائیلی روایات کو ٹھکرا رہے ہیں اور وہاں اسرائیلی روایات کو قرآن کریم کا درجہ دے رہے ہیں۔ کوئی ان شرفاء سے پوچھے آخر کیا وجہ ہے؟ ایک ہی چیز کو کبھی قرآن بناتے ہو‘ کبھی قرآن کے مخالف ٹھہراتے ہو۔ کسی دانا نے کیا خوب کہا ہے: میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑواکڑوا تھو تھو
کیا یہی اشاعت التوحید والسنة ہے کہ جو چیز خواہشِ نفس کے مطابق ہے‘ اسے لیا جارہاہے اور جو چیز خواہشِ نفس کے خلاف ہے‘ اسے ٹھکرایاجارہاہے۔ بندہ عاجز کی دانست کے مطابق اتباعِ قرآن کے نام پر درحقیقت اتباعِ خواہش ہورہی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ
قارئین کرام! جب یہ ثابت ہوگیا کہ اس آیت میں صاحبِ واقعہ متعین نہیں ہے‘ بلکہ مبہم ہے تو اس سے حضرات انبیاء کرام علیہ الصلاة والسلام کی حیات وسماع کی نفی کرنا خود بخود باطل ہے۔
بے ڈھنگی چال
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ منکرین حیات انبیاء کرام علیہم السلام نے جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کیا ہے کہ وہ حضرت عزیر علیہ السلام تھے‘ انہیں روایات میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی نہ تھے‘ بلکہ ایک نیک صالح مرد تھے‘ لیکن ستم ظریفی دیکھئے! ان لوگوں نے تعین کی حد تک ان روایات کو قبول کیا‘ بلکہ ان کو قرآن کریم کا درجہ دیا اور ان روایات کے برعکس‘ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی قرار دے دیا۔ چنانچہ حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی لکھتے ہیں:
”مگر یہ واضح رہے کہ جن روایات میں حضرت عزیر علیہ السلام کو آیات مسطورہٴ بالا کا مصداق قرار دیا گیا ہے‘ ان میں یہ بھی تصریح ہے کہ عزیر علیہ السلام نبی نہیں تھے‘ بلکہ مرد صالح تھے“ ۔ (قصص القرآن ص:۲۴۷‘ج:۲)
اگر ان لوگوں میں انصاف کی رتی ہوتی تو یہ حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا نبی نہ کہتے‘ کیونکہ انہی کی اپنی پسندیدہ روایات میں یہی لکھا ہے کہ وہ نبی نہیں بلکہ نیک صالح مرد تھا‘ لیکن ان کی بے ڈھنگی چال ملاحظہ فرمایئے کہ جن اسرائیلی روایات کی بنیاد پر صاحبِ واقعہ کا تعین کرتے ہیں‘ انہیں روایات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: حضرت عزیر علیہ السلام اللہ کے نبی تھے۔
برسبیل تنزل
اگر یہ بات تسلیم کرلی جائے کہ یہ واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے اور وہ نبی اللہ تھے تو پھر بھی ان لوگوں کا اس واقعہ سے حضرات انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر کا انکار اور ان کے سماع عند القبور کا انکار ثابت نہیں ہوتا‘ کیونکہ اللہ جل شانہ نے اپنے پیغمبر حضرت عزیر علیہ السلام کو عارضی وفات کے بعد لوگوں کی نظروں سے ایسے مستور رکھا کہ پورے سوسال کے عرصہ میں اس دور کا کوئی آدمی ان کے پاس سے نہیں گذرا اگر گذرا‘ تو اس نے حضرت عزیر علیہ السلام کو دیکھا نہیں‘ ورنہ یہ نا ممکن ہے کہ لوگ مردہ شخص کی نعش کو دیکھیں اوراس کو تدفین کا انتظام کئے بغیر‘ ویسے ہی چھوڑ کر چلے جائیں‘ جبکہ تدفینِ میت کا مسئلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اکرم ا تک ہرنبی کی شریعت میں برابر چلا آرہاہے تو معلوم ہوا کہ حضرت عزیر علیہ السلام کے پاس سے کوئی گذرا ہی نہیں‘ اگر گذرا ہے تو اسے دیکھا نہیں‘ جب اللہ کے نبی کو دیکھنا ثابت ہی نہیں تو کس نے جاکر اللہ کے نبی کے جسد اطہر کو سلام کیا ہوگا؟ جب کسی نے سلام ہی نہیں کیا تو عدم سماع کیسے ثابت ہوا؟ لہذا نہ وہاں سلام کیا گیا اور نہ عدم سماع ثابت ہوا۔ نیز اس واقعہ سے الحیاة بعد الوفات کی نفی بھی نہیں ہوتی‘ کیونکہ قرآن پاک کی پچاس سے زائد آیات اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے حیاتِ قبر ہر مردہ کے لئے ثابت ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ کو رنج وراحت‘ دکھ سکھ اور ثواب وعقاب کا احساس ہوتاہے‘ لہذا اس واقعہ کو بنیاد بناکر کتاب وسنت سے ثابت شدہ عقیدہٴ حیات قبر کی تردید کرنا کسی دانش مند کو زیب نہیں دیتا۔
اگر حضرت عزیر علیہ السلام اس عالم میں زندہ تھے تو وقت کا احساس کیوں نہ ہو سکا؟
منکرینِ حیات قبر کے واعظین کا یہ کہنا کہ اگر حضرت عزیر علیہ السلام زندہ تھے تو انہیں وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟
جواباً عرض ہے کہ وقت کے صحیح معلوم نہ ہونے کی وجہ سے عدم حیات پر استدلال بالکل باطل ہے‘ حضرت عزیر علیہ السلام تو اس وقت موت کی وجہ سے عالم قبر وبرزخ میں تھے اور اس عالم کی حیات ان کو حاصل تھی‘ لیکن بعض اوقات عالمِ دنیا میں زندہ رہنے والے انسانوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکتا۔
دیکھئے! اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”قال کم لبثتم فی الارض عدد سنین‘ قالوا لبثنا یوماً او بعض یوم فسئل العادین‘ قال ان لبثتم الا قلیلاً“۔ (مومنون:۱۱۲‘۱۱۳)
ترجمہ:․․․”ارشاد ہوگا کہ تم برسوں کے حساب سے کس قدر مدت زمین پر رہے ہوں گے وہ جواب دیں گے کہ ایک دن یا ایک دن سے بھی کم رہے ہوں گے‘ سو گننے والوں سے پوچھ لیجئے۔ ارشاد ہوگا کہ تم تھوڑی ہی مدت رہے“۔ (ترجمہ حضرت تھانوی)
دیکھئے! اہلِ دنیا اپنی اپنی عمریں پوری کرکے دنیا سے رخصت ہوئے ‘کوئی ایک سال رہا‘ کوئی پچاس سال رہا‘ کوئی سو سال یا اس سے کم وبیش رہا۔ اب دنیا میں رہنے والوں سے اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں کہ تم دنیا میں کتنا عرصہ رہے؟ تو وہ جواب دیتے ہیں: ایک دن یا بعض دن۔ ظاہر ہے ان کا یہ جواب ان کے غلط اندازے پر مبنی ہے وہ وقت کی صحیح مقدار نہیں بتارہے۔ کیا کوئی احمق اس سے یہ استدلال کرے گا کہ وہ دنیا میں زندہ تھے ہی نہیں‘ بلکہ مردہ تھے۔ یقیناً وہ زندہ تھے‘ البتہ بعض عوارض کی وجہ سے وقت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے۔ معلوم ہوا کہ زندہ بھی بعض اوقات وقت کا صحیح اندازہ نہیں کرسکتے۔اسی طرح حضرت عزیر علیہ السلام اپنے عالم قبر وبرزخ میں زندہ تھے مگر وقت کا صحیح اندازہ نہ کرسکے۔
دوسری دلیل
اصحابِ کہف غار میں مردہ نہیں تھے‘ بلکہ سوئے ہوئے تھے۔ قرآن کریم کے الفاظ ہیں : ”وتحسبہم ایقاظاً وہم رقود“ (کہف:۱۸) اور ان زندہ سونے والوں کو بھی وقت کا صحیح اندازہ نہ ہوسکا ‘جب ان سے پوچھا گیا توانہوں نے جواب دیا: ”یوماً او بعض یوم“”ایک دن یا دن کا کچھ حصہ“ تو ثابت ہوا کہ وقت کا صحیح اندازہ نہ لگاسکنے کی وجہ سے کسی کی عدمِ حیات پر استدلال کرنا سراسر باطل ‘بلکہ تلبیس ابلیس ہے۔
الزامی جواب
عصر ہذا کے معتزلہ کے نزدیک روح نہیں مرتی‘ بلکہ وہ زندہ رہتی ہے۔ جب کسی کی روح نہیں مرتی تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح بھی نہیں مری ہوگی؟ظاہر ہے کہ اس وقت روح ان کے جسد میں آچکی تھی‘ اب ہمیں بتایا جائے کہ روح تو زندہ رہی اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ فرماکر پوچھا کہ تو کتنا ٹھہرا؟تو اسے وقت کا صحیح اندازہ کیوں نہ ہوسکا؟ اگر ان لوگوں کے استدلال کو درست تسلیم لیا جائے کہ وقت کا پتہ نہ ہونے کی وجہ سے حیات کی نفی ہوجاتی ہے تو حضرت عزیر علیہ السلام کی روح کی حیات کی بھی نفی ہوجائے گی‘ جبکہ یہ لوگ روح کو تو زندہ ہی مانتے ہیں اور اس کی موت کے قائل ہی نہیں۔
بندہٴ عاجز کا مطالبہ
عصر ہذا کے معتزلہ چودھویں صدی کے آواخر کی پیداوار ہیں‘ اور قرآن کریم کے نزول کو چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے‘ اس پورے عرصہ میں کسی مفسر ‘ کسی محدث‘ کسی فقیہ‘ کسی متکلم اور کسی عالمِ دین نے اس واقعہ سے حضراتِ انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیاتِ قبر کی نفی پر استدلال نہیں کیا‘ اگر کسی نے کیا ہے تو ہمیں اس کا نام بتایا جائے (دیدہٴ باید) ظاہر ہے کہ چودہ سوسال کے عرصہ میں کسی عالم دین کواس آیت سے انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیات کی نفی معلوم نہیں ہوئی اور اب صرف انہی کو معلوم ہوئی ہے ۔
ان کے استدلال کے بطلان کی ایک اور دلیل
بندہ ٴ عاجز نے اکابر علما ئے اسلام کی کتب کی روشنی میں پچاس سے زائد آیاتِ قرآنیہ اور سو سے زائد احادیثِ صحیحہ متواترہ سے ثابت کیا ہے کہ مرنے کے بعد ہرمردے کو درجہ بدرجہ اور حسبِ حیثیت قبر وبرزخ میں ایک قسم کی حیات حاصل ہوتی ہے‘ جس کی وجہ سے مردہ انسان عذاب یا ثواب کو محسوس کرتا ہے۔ البتہ یہ حیات اللہ تعالیٰ نے ہماری نظروں سے مستور کررکھی ہے۔ تفصیل کے لئے بندہ عاجز کی کتاب قبر کی زندگی کا مطالعہ کیجئے‘ اگر ان لوگوں کے کشید کردہ مطلب کو درست مان لیا جائے تو ان کا یہ مطلب قرآنِ کریم کی ان پچاس سے زائد آیات کے خلاف ہوگا جن میں حیات کا ثبوت ہے‘ جبکہ مفسرین کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ قرآن کریم کی کسی آیت کا ایسا مطلب لینا جو دوسری آیات سے متصادم ہو خود باطل اور غلط ہے ۔
اس واقعہ سے کیا ثابت ہوتا ہے؟
قارئین کرام! مذکورہ بالا واقعہ سے درحقیقت یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ حضراتِ انبیائے کرام ہوں یا اولیائے عظام وہ عالم الغیب نہیں ہوتے‘ کیونکہ علمِ غیب اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے ‘ اس میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضرت عزیر علیہ السلام اور تمام انبیائے کرام علیہم السلام اسی طرح اصحابِ کہف اور تمام اولیائے عظام عالم الغیب نہ تھے‘ اسی لئے انہیں وقت کا اندازہ نہ ہوسکا اور یہی عقیدہ قرآنِ مجید میں کئی جگہ بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ موجود ہے‘ پس ثابت ہوا کہ اس واقعہ سے عدم حیاتِ قبر ثابت نہیں‘ بلکہ عدم علمِ غیب ثابت ہے۔
No comments:
Post a Comment