Friday 26 December 2014

(17) کیا میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ھے

0 comments
(17) کیا میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اِمام ابو شامہ (599۔ 665ھ)

شارحِ صحیح مسلم اِمام نووی (631۔ 677ھ / 1233۔ 1278ء) کے شیخ امام ابو شامہ عبد الرحمان بن اسماعیل (1202۔ 1267ء) اپنی کتاب الباعث علی انکار البدع والحوادث میں لکھتے ہیں :

ومن أحسن ما ابتدع في زماننا من هذا القبيل ما کان يفعل بمدينة إربل، جبرها اﷲ تعالي، کل عام في اليوم الموافق ليوم مولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم من الصدقات والمعروف وإظهار الزينة والسرور، فإن ذالک مع ما فيه من الإحسان إلي الفقراء مُشعِر بمحبة النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، وتعظيمه وجلالته في قلب فاعله وشکر اﷲ تعالي علي ما مَنّ به من إيجاد رسوله الذي أرسله رحمةً للعالمين صلي الله عليه وآله وسلم وعلي جميع الأنبياء والمرسلين.

’’اور اِسی (بدعتِ حسنہ) کے قبیل پر ہمارے زمانے میں اچھی بدعت کا آغاز شہر ’’اِربل‘‘ خدا تعالیٰ اُسے حفظ و امان عطا کرے۔ میں کیا گیا۔ اس بابرکت شہر میں ہر سال میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر اِظہارِ فرحت و مسرت کے لیے صدقات و خیرات کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اس سے جہاں ایک طرف غرباء و مساکین کا بھلا ہوتا ہے وہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ محبت کا پہلو بھی نکلتا ہے اور پتہ چلتا ہے کہ اِظہارِ شادمانی کرنے والے کے دل میں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے حد تعظیم پائی جاتی ہے اور ان کی جلالت و عظمت کا تصور موجود ہے۔ گویا وہ اپنے رب کا شکر ادا کر رہا ہے کہ اس نے بے پایاں لطف و احسان فرمایا کہ اپنے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (ان کی طرف) بھیجا جو تمام جہانوں کے لیے رحمتِ مجسم ہیں اور جمیع انبیاء و رُسل پر فضیلت رکھتے ہیں۔‘‘

1. ابوشامه، الباعث علي إنکار البدع والحوادث : 23، 24
2. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365
3. حلبي، إنسان العيون في سيرة الأمين المامون، 1 : 84
4. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 53
5. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 233

شیخ ابو شامہ شاہِ اِربل مظفر ابو سعید کو کبری کی طرف سے بہت بڑے پیمانے پر میلاد شریف منائے جانے اور اس پر خطیر رقم خرچ کیے جانے کے بارے میں اُس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

مثل هذا الحسن يُندب إليه ويُشکر فاعله ويُثني عليه.

’’اِس نیک عمل کو مستحب گردانا جائے گا اور اِس کے کرنے والے کا شکریہ ادا کیا جائے اور اِس پر اُس کی تعریف کی جائے۔‘‘

صالحي، سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 363

7۔ امام صدر الدین موہوب بن عمر الجزری (م 665ھ)

قاضیء مصر صدر الدین موہوب بن عمر بن موہوب الجزری الشافعی فرماتے ہیں :

هذه بدعة لا بأس بها، ولا تُکره البِدع إلا إذا راغمت السُّنة، وأما إذا لم تراغمها فلا تُکره، ويُثاب الإنسان بحسب قصده في إظهار السرور والفرح بمولد النبي صلي الله عليه وآله وسلم .

وقال في موضع آخر : هذا بدعة، ولکنها بدعة لا بأس بها، ولکن لا يجوز له أن يسأل الناس بل إن کان يَعلمْ أو يغلب علي ظنه أن نفس المسؤول تَطِيب بما يعطيه فالسؤال لذلک مباح أرجو أن لا ينتهي إلي الکراهة.

’’یہ بدعت ہے لیکن اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور بدعتِ مکروہ وہ ہے جس میں سنت کی بے حرمتی ہو۔ اگر یہ پہلو نہ پایا جائے تو (بدعت) مکروہ نہیں اور انسان حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے میلاد کی حسبِ توفیق اور حسبِ اِرادہ مسرت و خوشی کے اظہار کے مطابق اجر و ثواب پاتا ہے۔

’’اور ایک دوسرے مقام پر کہتے ہیں : یہ بدعت ہے لیکن اس بدعت میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن اِس کے لیے لوگوں سے سوال کرنا جائز نہیں، اور اگر وہ یہ جانتا ہے یا اُسے غالب گمان ہے کہ اس کا سوال مسؤل کی طبیعت پر گراں نہیں گزرے گا اور وہ خوشی سے سوال کو پورا کرے گا تو ایسی صورت میں یہ سوال مباح ہوگا، اور میں امید کرتا ہوں کہ یہ عمل مبنی بر کراہت نہیں ہوگا۔‘‘

صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 365، 366

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔