Wednesday 31 December 2014

صرف میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بدعت ہے آخر کیوں ؟

0 comments
صرف میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بدعت ہے آخر کیوں ؟ محترم قارئینِ کرام : آج ہر طرف بدعت بدعت کی پکار ہے صرف اور صرف میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف وہی کام خود کرتے ہیں مگر خود پر فتویٰ نہیں لگاتے صرف فریقِ مخالف پر ہی فتوے کیوں ؟ خیر یہ ایک سوال ہے چشتی کی طرف سے ۔ فقیر آپ کی خدمت میں بدعت کا صحیح تصوّر آئمہ محدّثین کرام علیہم الرحمہ اور کچھ فریقِ مخالف کے پیشواؤں سے بھی مستند حوالہ جات و دلائل کی روشنی میں پیش کر رہا ہے ان شاء اللہ جو بھی تعصّب کی عینک اتار کر پڑھے گا حق و سچ تک ضرور پہنچ جائے گا مگر تعصّب کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ قرآن و حدیث میں صاف صاف دو ٹوک الفاظ میں میلاد منانے یا نا منانے کا حکم نہیں بلکہ قرآن و حدیث اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل اور صحابہ کرام و اہل بیت رضی اللہ عنہم کے اقوال و عمل میں غور کیا تو واضح ہوا کہ : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے اچھے ، جائز طریقوں سے شکر ادا کرنا، ذکرِ نبی کرنا، صحیح طریقے سے خوشی کا اظھار کرنا میلاد کہلاتا ہے ۔ (حول الاحتفال صفحہ 13تا35)(حسن المقصد صفحہ 196) جلسے جلوس جھنڈے عمدہ لباس ، عبادت ذکر اذکار درود کی کثرت ، روزہ نوافل عبادت ذکر حمد نعت تحریر تقریر صدقہ خیرات وغیرہ اگر " نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے ہوں صحیح طریقے سے ہوں تو یہ سب میلاد میں شامل ہیں ۔ (ماخذ حول الاحتفال ص13تا35) سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میلاد منایا ۔ (حول الاحتفال صفحہ16) میلاد کی اصل سنت ہے ، مروجہ طریقے سے میلاد مستحب ہے جائز و ثواب ہے فرض واجب نہیں ، کسی ایک طریقے یا مختلف طریقوں سے میلاد منا سکتے ہیں تو اگر کوئی ایک طریقے سے میلاد مناے اور جلوس وغیرہ باقی طریقوں میں شرکت نا کرے مگر توہین اور بے ادبی بھی نا کرے تو اسے گستاخ یا گناہ گار یا محبت نا کرنے والا نہیں کہہ سکتے ۔ (حول الاحتفال صفحہ 63) علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : کثرت سے درود و سلام پڑھا جاے تو بھی کافی ہے ۔ (جواہر البحار 3/340) موجودہ قابض نجدی حکومت سے پہلے حرمینِ مقدسہ مدینہ میں میلاد نہیں منایا جاتا تھا ۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ جو علماءِ دیوبند کے مرشد ہیں فرماتے ہیں : تمامی حرمین کے لوگ میلاد مناتے ہیں ہمارے لیے یہی حجت کافی ہے ۔ (شمائم امدادیہ صفحہ 87) محدث کبیر علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یہ اچھا عمل (یعنی میلاد) ہمیشہ سے حرمین شریفین یعنی مکہ و مدینہ ، مصر ، یمن و شام تمام بلادِ عرب اور مشرق و مغرب کے رہنے والے مسلمانوں میں جاری ہے اور وہ میلاد النبی ﷺ کی محفلیں قائم کرتے اور لوگ جمع ہوتے ہیں ۔ (المیلاد النبوی ص 35-34) حضرت شاہ ولی ﷲ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے صاحبزادے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا معمول تھا کہ 12 ربیع الاول کو ان کے ہاں لوگ جمع ہوتے، آپ ذکر ولادت فرماتے پھر کھانا اور مٹھائی تقسیم کرتے ۔ (الدرالمنظم ص 89) میلاد ایک طریقے سے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منایا، صحابہ کرام تابعین اولیاء علماء اسلاف نے منایا ہے ، لہٰذا میلاد دور نبوی میں بھی تھا ، دور صحابہ میں بھی تھا ، دور تابعیں میں بھی تھا ، خلفاء راشدین کے دور مین تھا ، میلاد کی اصل قران احادیث سنت سے ثابت ہے اور میلاد کا کوئی ایک طریقہ مقرر نہیں اس لیے میلاد کے مروجہ نئے طریقے بھی جائز و ثواب کہلائیں گے ۔ حدیث پاک میں ہے کہ : وما سكت عنه فهو مما عفا عنه ۔ ترجمہ : جس چیز کے متعلق (قرآن و حدیث میں) خاموشی ہو (مطلب دوٹوک حلال یا دوٹوک حرام نہ کہا گیا ہو تو) وہ معاف ہے ، جائز ہے ۔ (سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 3368) ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابوداؤد وغیرہ بہت کتابوں میں ہے ۔ حدیث پاک میں ہے : من سن في الإسلام سنة حسنة، فعمل بها بعده، كتب له مثل أجر من عمل بها، ولا ينقص من أجورهم شٸ ۔ ترجمہ : جس نے اسلام میں اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کے بعد جو جو اس پر عمل کرے گا ان سب کا ثواب اسے ملے گا اور عمل کرنے والوں کے ثواب میں بھی کمی نا آے گی ۔ (صحیحمسلم حدیث نمبر1017) یہ حدیث سنن ابن ماجہ سنن نسائی وغیرہ بہت کتابوں میں بھی ہے ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ وہ عبادت وہ نیک کام جس کا کوئی ایک طریقہ مقرر نا ہو تو اس کے نئے طریقے بدعت نہیں بلکہ اس کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں ہاں جس کام جس عبادت کے طریقے اسلام نے متعین و مخصوص کر دیے ہیں ان مین نیا طریقہ نکالنا ٹھیک نہیں ۔ جیسے نماز روزے کے نئے طریقے نکالنا ٹھیک نہیں مگر صدقہ خیرات ذکر اذکار درود میلاد فاتحہ وغیرہ کے نئے پرانے سب طریقے جائز ہیں بشرطِ کہ اسلام کے کسی اصول کے خلاف نا ہوں ۔ دراصل بدعت کی تعریف واضح الفاظ میں کسی آیت کسی حدیث میں نہیں آئی ، جو لوگ یہ کہتے ہین کہ جو کام صحابہ کرام نے نہین کیا وہ بدعت ہے ہم انہیں چیلنج کرتے ہین کہ کسی حدیث میں یہ دکھا دیں کہ بدعت وہ ہے جو کام صحابہ نے نا کیا ہو ۔ چیلنج ۔ بعض لوگ کہتے ہیں جو سنت نہیں وہ بدعت ہے ، یہ بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اوپر احادیث کی زبانی بتایا جا چکا ہے کہ جو کام سنت نا ہو وہ جائز بھی کہلا سکتا ہے ، سنت کے بعد جائز بھی ایک قیمتی چیز ہے ، جائز بھی دین کی تعلیمات میں سے ہے ۔ سنت سنت کی رٹ لگانے کے ساتھ ساتھ جائز جائز کی رٹ لگانا بھی ضروری ہے ۔ آیات و احادیثِ مبارکہ میں غور کر کے بدعت کی تعریف اخذ کی گئ ہے جسے علماء کرام نے جامع انداز میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہ : المراد بھا ما احدث ولیس لہ اصل فی الشرع ،، ویسمی فی عرف الشرع بدعۃ ، وماکان لہ اصل یدل علیہ الشرع فلیس ببدعۃ فالبدعۃ فی عرف الشرع مذمومۃ بخلاف اللغۃ ۔ ترجمہ : بدعت اس نئی چیز کو کہتے ہیں جس کی شریعت میں کوئی اصل نا ہو ،، شریعت میں اسی کو بدعت کہا جاتا ہے اور جس نئے کام کی اصل ہو کہ اس پر شریعت رہنمائی کرے وہ تو بدعت نہیں ، بدعت شریعت میں مذموم ہی ہوتی ہے " با خلاف لغت کے ۔ (فتح الباری 13/253)(حاشیہ اصول الایمان ص126)(اصول الرشاد ص64)(مرعاۃ،عمدۃ القاری، مجمع بحار الانوار فتح المبین) ۔ دیگر بہت سی کتب میں بھی یہی تعریف ہےجن تین کتابوں کا مکمل حوالہ لکھا ہے وہ اس لیے کہ پہلی کتاب تمام کے ہاں معتبر ہے خاص کر غیرمقلد حضرات کےلیے اور دوسری کتاب وہابیوں کی ہے سعودی عرب کی حکومت نے چھاپی ہے اور تیسری کتاب امام احمد رضا کے والد علیہما الرحمہ کی کتاب ہے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فتویٰ : یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے ۔ (صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 707) ۔ یہ فتوی دیگر بہت کتابوں میں بھی ہے سنی وہابی نجدی شیعہ غیرمقلد وغیرہ تمام کی کتابوں میں "موضوع حدیث" لفظ بولا جاتا ہے جبکہ حقیقت میں کوئی "حدیث" موضوع نہیں ہوتی ۔ اس کو فقط ظاہر کے لحاظ سے اور لغت و معنی مجاز کے لحاظ سے "حدیث" کہا جاتا ہے اسی طرح "اچھی بدعت" حقیقت میں بدعت نہیں اسے فقط ظاہر کے لحاظ سے لغت و مجاز کے لحاظ سے بدعت کہا جاتا ہے ۔ اوپر صحابہ کرام کے فتوے میں جو اچھی بدعت فرمایا گیا وہ بھی حقیقت میں بدعت نہیں ۔ اسے ظاہر و لغت کے لحاظ سے بدعت فرمایا گیا ہے ۔ بدعت کی جو پانچ اقسام بتائی جاتی ہیں وہ بھی دراصل ظاہر و لغت کے لحاظ سے ہیں ورنہ بدعت حسنہ حقیقتاً بدعت ہی نہیں ، بدعت کی تعریف میں "بخلاف لغت کے" الفاظوں میں اسی چیز کو بیان کیا گیا ہے ۔ علماء کرام نے باقاعدہ میلاد پر کتابیں لکھی ہین اور قرآن و سنت سے کئی دلائل پیش کیے ہیں ، یہاں تمام دلائل کا احاطہ مقصود نہیں ۔ چند دلائل پیش ہیں تفصیل ہم لکھ چُکے ہیں ۔ ترجمہ : اپنے رب کی نعمت کا چرچا کرو ۔ (سورہ والضحی آیت نمبر 11) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی نعمت ہیں ۔ (بخاری2/41) میلاد میں اللہ عزوجل کی عظیم نعمت یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چرچہ ہی تو ہوتا ہے ۔ ترجمہ : کہہ دیجیے اللہ کے فضل و رحمت اور اسی پر خوشی کرنا چاہیے ۔ (سورہ یونس آیت نمبر 58) میلاد میں اللہ عزوجل کی عظیم رحمت اور اللہ عزوجل کی عظیم نعمت پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی بار ایک طریقے سے میلاد منایا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پیر کے دن روزہ رکھنے کی وجہ پوچھی گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ دن میری ولادت کا دن ہے ۔ (صحیح مسلم1/368) ۔ یہ حدیث دیگر کتب میں موجود ہے ۔ صحابہ کرام نے بھی روزہ رکھ کر میلاد منایا ہے ۔ (ابو داود 1/331) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت پر عقیقہ ہوا تھا اس کے باوجود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنا عقیقہ کیا جو کہ میلاد کی دلیل ہے ۔ (سنن کبری 9/300)(فتح الباری 9/595) صحابہ کرام ایک دن محفل سجائے بیٹھے تھے اللہ کا ذکر کر رہے تھے حمد کر رہے تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد و بعثت کا تذکرہ کر رہے تھے کہ اللہ یہ اللہ کا عظیم احسان ہے تو نبی پاک نے صحابہ کرام سے فرمایا : اللہ فرشتوں سے تم پر فخر کر رہا ہے ۔ (صحیح سنن نسائی حدیث نمبر 5426) ۔ مسند احمد طبرانی وغیرہ کتب مین بھی یہ واقعہ درج ہے اور بھی بہت دلائل علماء کرام نے کتابوں میں لکھے ہیں ، عربی اردو میں میلاد پر کتابیں لکھی گئی ہیں ، دو چار کتب تو ضرور پڑھنی چاہیے ۔ فقیر نے فیس بک پر ایک صاحب کی تحریر پڑھی ، خلاصہ یہ تھا کہ میلاد پر گلی گلی کوچہ کوچہ ہزاروں لاکھوں عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلتے ہیں مگر مسجدیں ویران ۔ یہ میلادی عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بدعتی ٹھگ ہیں ۔ جواب : ایک صحابی تھے جن کا لقب حمار رضی اللہ عنہ تھا ، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑی محبت و عقیدت رکھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ان سے بڑا پیار کرتے تھے وہ صحابی شراب مکمل چھوڑ نہ پائے ، ایک بار شراب پینے کے جرم و گناہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لائے گئے تو ایک صحابی کہنے لگے : اللَّهُمَّ العَنْهُ ، مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ ۔ ترجمہ : اے اللہ اس پر لعنت فرما ، کتنی بار یہ شراب پینے کے جرم مین لایا گیا ہے یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لاَ تَلْعَنُوهُ، فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۔ ترجمہ : تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لعنت مت کرو ، اللہ کی قسم میں تو یہی جانتا ہوں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ۔ (صحیح بخاری حدیث 6780) شراب نوشی کتنا بڑا جرم و گناہ ہے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ۔ ترجمہ : اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت اور قسمت معلوم کرنے کے تیر ناپاک شیطانی کام ہی ہیں تو ان سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ ۔ (سورہ مائدہ آیت نمبر 90) شراب کی مذمت میں بہت سی آیات و احادیث ہیں حتی کہ ترمذی کی ایک حدیث میں اسے لعنتی عمل تک کہا گیا حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شراب کے بارے میں دس شخصوں پر لعنت کی : (1) شراب بنانے والے پر۔ (2) شراب بنوانے والے پر۔ (3) شراب پینے والے پر۔ (4) شراب اٹھانے والے پر۔ (5) جس کے پاس شراب اٹھا کر لائی گئی اس پر۔ (6) شراب پلانے والے پر۔ (7) شراب بیچنے والے پر۔ (8) شراب کی قیمت کھانے والے پر۔ (9) شراب خریدنے والے پر۔ (10) جس کےلیے شراب خریدی گئی اس پر ۔ (سنن ترمذی کتاب البیوع باب النہی ان یتخذ الخمر خلاً ، ۳ / ۴۷ ، الحدیث : ۱۲۹۹) مگر یہی بدعمل برا عمل اگر ایسے شخص سے ہو جس میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار ہوں تو اسے لعنتی مردود کہنے کے بجائے محبِ رسول کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ انداز یقینا شراب نوشی کی حمایت میں نہین تھا بلکہ آپ نے اس عاشقِ رسول شراب پینے والے صحابی کو سزا بھی دی اور یقینا سمجھاتے بھی رہے، منع بھی کرتے رہے مگر عاشقِ رسول پھر بھی کہا جعلی عاشق ٹھگ منافق نہ کہا ۔ گناہ بدعملی کی وجہ سے عشقِ الہی اور عشقِ رسول کی نفی نہیں کی جاسکتی ، جعلی عاشق منافقت و ڈھونگ نہیں کہہ سکتے بلکہ محب رسول ہی کہا جائے گا اور عمل کرنے کے لیے سمجھایا جایا جائے گا کچھ میلاد منانے والے بے عمل ، بدعمل ہو سکتے ہیں بلکہ ہوتے ہیں مگر میلادی عاشقِ رسول ضرور ہیں ، بدعتی ٹھگ جعلی عاشقِ رسول نہیں ۔ ہرگز نہیں ۔ میلاد عشقِ نبی کی علامتوں میں سے ایک علامت ہے ، ایسے بدعمل عاشقِ رسول کو سمجھایا جاٸے مگر ان سے عشقِ رسول کی نفی نہیں کرسکتے ۔ ہرگز نہیں ۔ نوٹ : کسی صحابی کو شرابی گناہ گار نہیں کہہ سکتے کیونکہ صرف اور صرف دو چار صحابہ کرام سے اگر گناہ ہو بھی گئے تو انہوں نے توبہ کرلی ، مجتنب رہے ، اور جراٸم و گناہ پر حد و سزا پا کر پاک پاکیزہ ہو گئے ۔ توبہ و سزا سے پاک ہو جانے کے بعد انکا کوئی گناہ ثابت نہیں ۔ لہٰذا وہ توبہ و سزا پاکر پاک ہو گئے ۔ توبہ و سزا کے بعد انہیں گناہ گار فاسق نہیں کہہ سکتے بلکہ وہ ان فضائل کے بیان کے حقدار ہین کہ جو صحابہ کرام کے متعلق آئے ۔ صحابہ کرام کی تفسیق و مذمت جائز نہیں بلکہ تعریف و بیان تطہیر لازم و فرض ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسان کےلیے منبر (اسٹیج) رکھواتے اور وہ اس پر کھڑے ہوکر شانِ مصطفی بیان کرتے ، نعتِ نبی بیان کرتے ، کافروں مشرکوں کی مذمت بیان کرتے تھے ، نبی پاک کا دفاع بیان کرتے تھے ۔ (صحیح بخاری حدیث 3212،چشتی)(ترمذی حدیث2846) ترجمہ : مجھ (حضرت عیسی علیہ السلام) پر سلام ہو میری ولادت کے دن ۔ (سورہ مریم آیت33) جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لا رہے تھے تو اس وقت عظیم الشان جلوس کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استقبال کیا گیا ، طلع البدر علینا اور دیگر نعت پڑھی گئی ، جھنڈا نہیں تھا تو ایک صحابی نے اپنے عمامے کو اتار کر بڑا جھنڈا بنا لیا ، یا محمد یا رسول اللہ کے نعرے لگائے گئے ۔ (الوفا صفحہ 247)(بخاری 1/555)(مسلم2/419) میلاد کا لنگر عوام کی طرف پھینکنا بےادبی ، ضیاع کا خطرہ اس لیے منع و گناہ ہے ! ایسا نہ کریں لنگر سلیقے سے بانٹیں ۔ (احکام شریعت 1/88) عن علي قال : أتيت النبي - صلى الله عليه وسلم - وجعفر وزيد، قال: فقال لزيد: أنت مولاي، فحجل! قال: وقال لجعفر: أنت أشبهت خلقى وخلقي، قال: فحجل وراء زيد! قال لي: أنت مني وأنا منك، قال: فحجلت وراء جعفر ۔ ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اور حضرت جعفر اور حضرت زید رضی اللہ عنہم اجمعین تینوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زید کہا "انت مولائی" (یہ سن کر حضرت زید خوشی سے) ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر جھومنے لگے ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت جعفر سے فرمایا کہ تم میری صورت اور سیرت میں مجھ سے مشابہت رکھتے ہو (یہ سن کر حضرت جعفر خوشی سے) ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر حضرت زید کے پیچھے جھومنے لگے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ (حضرت علی) سے کہا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں (تو یہ سن کر خوشی سے) میں حضرت جعفر کے پیچھے ایک ٹانگ پر کھڑے ہوکر جھومنے لگا ۔ (مسند احمد حدیث نمبر 857،چشتی) امام بیہقی اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں فَالرَّقْصُ الَّذِي يَكُونُ عَلَى مِثَالِهِ يَكُونُ مِثْلَهُ فِي الْجَوَازِ ۔ ترجمہ : اس قسم سے ملتا جلتا (غیرِ فحش) رقص و جھومنا جائز ہے ۔ (سنن کبری بیھقی1/382) حمد و نعت ، نثر و بیان میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت و تذکرے میں اور خاص کر میلاد کے مواقع پر معتاد بلاترتیبِ رقاصِ مذموم محض جھومنا جائز و ثواب ہے مگر فرض واجب نہیں ، ایسا نہیں کہ جو نہ جھومے وہ محب نہیں ۔ ہرگز نہیں ، اور اسی طرح بلادلیل و شواہد جھومنے والوں پر دکھاوے جہالت و مذمت کے فتوے لگانا بھی ٹھیک نہیں ۔ ہم معتدل جھومنے کو جاٸز کہتے ہیں مگر ڈھول دھماکے ناچ گانے اور عورتوں مردوں کے اختلاط کو ہر گز جائز نہیں سمجھتے ۔ ہم اہلسنت و جماعت ہمیشہ لکھتے اور بیان کرتے رہتے ہیں ، کہتے رہتے ہیں کہ میلاد گناہوں خرافات سے پاکیزہ ہونا ضروری ہے ۔ کچھ جاہل لوگ یا سازشی لوگ میلاد پے ایسی خرافات کرتے ہیں تو ان خرافات کی مذمت کیجیے میلاد کی مزمت و تردید مت کیجیے بلکہ میلاد کو پاکیزہ رکھنے کی ہدایات و تلقین کیجیے ۔ مخالفین اور ہمارے معتبر عالمِ دیں ، عظیم شخصیت شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : اس موقعہ (میلاد ، جلوس محافل) پر جو "بری بدعتیں" پیدا کر لی گئی ہیں اور آلاتِ محرمہ کے ساتھ گانا باجا ہوتا ہے ان سے محفل خالی ہو ۔ (مدارج النبوۃ 2/19) آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مرحبا کے نعرے معراج کی رات آسمانوں پر آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پے انبیاء کرام علیہم السلام نے یہ کہتے ہوئے استقبال فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد مرحبا ۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 2968) اسی ادا کی یاد تازہ کرتے ہوئے ، انبیاء کرام علیہم السلام کی اتباع کرتے ہوئے آمدِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مہینے دن کی مناسبت سے آمد مصطفی مرحبا مرحبا کے نعرے جائز و ثواب ہیں ، بدعت نہیں ۔ ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ میلاد کی محفل و جلوس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے ہیں اس لیے امد پر مرحبا ایسا عقیدہ ہرگز نہیں ، بلکہ ہمارا عقیدہ حاضر ناظر یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب جانتے ہیں دیکھتے ہیں اور جب چاہیں جس جگہ چاہیں جا سکتے ہیں ۔ لہٰذا میلاد کی محفل و جلوس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ضروری نہیں مگر ممکن ضرور ہے البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جانتے دیکھتے ضرور ہیں ۔ جب بھی غیب کا سوال ہوتا یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوال فرماتے تو صحابہ کرام حضور کی بارگاہ میں جواب اس طرح عرض کرتے کہ " الله ورسوله اعلم ۔ ترجمہ : اللہ کو اور اسکے رسول کو علم ہے "اللہ اور رسول جانے" کہنا ایک دو دفعہ کا واقعہ نہیں بلکہ یہ تو صحابہ کرام تابعین عظام کی عادت مبارکہ تھی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ کہا کرتے تھے مگر کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان پر شرک و بدعت کا فتوی نہین دیا ، بخاری مسلم میں کم و بیش ساٹھ سے زائد مقامات پر اللہ ورسولہ اعلم جملہ آیا ہے ۔ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ تھا نظریہ تھا کہ اللہ کو علم ہے اور اللہ کے بتانے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی علم ہے ۔ (صحیح مسلم حدیث 159،چشتی)(بخاری حدیث3199) مجھ پر میری امت کے تمام اچھے برے اعمال پیش کیے گئے ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 1120 سند صحیح ہے) تمہارے تمام اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں ۔ (مجمع الزوائد جلد9 صفحہ 24 سند صحیح ہے) بے شک اللہ نے میرے لیے دنیا کو اس طرح مرتفع کر دیا کہ مین اسے اور اس مین ہونے والے تمام معاملات قیامت تک ایسے دیکھتا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں ۔ (مجمع الزوائد جلد 8 صفحہ 287) ۔ اس کی سند اگرچہ ضعیف ہے مگر اوپر والی احادیث کی تائید کی وجہ سے ضعیف ہونے سے فرق نہیں آئے گا ۔ ان تینوں احادیثِ مبارکہ میں صاف ظاہر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اعمال و افعال جانتے ہیں ، دنیا انکی نظر میں ایسے ہے جیسے جیسے دنیا ان کے ہاتھ کی ہتیھلی پر رکھی ہوئی ہو ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں : علماء میں کثرت اختلاف اور بہت سے مذاہب ہیں لیکن اس کے باوجود سب کا اس میں اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (وصال کے بعد) حقیقتاً بلا شک و شبہ بلا توھم و تاویل کے زندہ ہیں ،بدائم ، و باقی ہیں ۔ امت کے تمام اعمال پر حاضر و ناظر ہیں ، حقیقت کے طلبگاروں اور متوجہ ہونے والوں کو فیض پہنچاتے ہیں ۔ (مکتوبات علی ہامش اخبار الاخیار صفحہ 155،چشتی) منکرین کے معتمد عالم قاضی شوکانی لکھتے ہیں : ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حی بعد وفاتہ وانہ یسر بطاعات امتہ ۔ ترجمہ : بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وفات کے بعد زندہ ہیں اور وہ امت کی نیکیوں سے خوش ہوتے ہیں ۔ (نیل الاوطار جلد 4 صفحہ 183) اَئمہ و محدثین علیہم الرحمہ نے بدعت کی پانچ اقسام بیان کی ہیں ، جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے : ⬇ حضرت اِمام شافعی علیہ الرحمہ (150۔204ھ) بدعت کی تقسیم ان الفاظ میں کرتے ہیں : المحدثات من الأمور ضربان : ما أحدث يخالف کتاباً أو سنة أو أثرًا أو إجماعاً فهذه البدعة ضلالة، وما أحدث من الخير لا خلاف فيه لواحد من هذا، فهذه محدثة غير مذمومة، قد قال عمر رضی الله عنه فی قيام رمضان : نعمت البدعة هذه ۔ ترجمہ : محدثات میں دو قسم کے اُمور شامل ہیں : پہلی قسم میں تو وہ نئے اُمور ہیں جو قرآن و سنت، آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم یا اِجماعِ اُمت کے خلاف ہوں ۔ پس یہ بدعتِ ضلالہ ہیں ۔ اور دوسری قسم میں وہ نئے اُمور ہیں جن کو بھلائی کےلیے اَنجام دیا جائے اور کوئی ان میں سے کسی کی مخالفت نہ کرتا ہو۔ پس یہ نئے اُمور ناپسندیدہ نہیں ہیں ۔ اِسی لیے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے رمضان میں تراویح کے قیام کے موقع پر فرمایا تھا : یہ کتنی اچھی بدعت ہے ۔ (سير أعلام النبلائ، 10 : 70)(الحاوی للفتاوی : 202)(حسن المقصد فی عمل المولد : 52، 53) شیخ عز الدین بن عبدالسلام سلمی (577۔660ھ) اپنی کتاب ’’قواعدالاحکام فی مصالح الانام‘‘ میں فرماتے ہیں : البدعة فعل ما لم يعهد فی عهد النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، وتنقسم إلی خمسة أحکام يعنی الوجوب والندب … الخ. وطريق معرفة ذلک أن تعرض البدعة علی قواعد الشرع فأی حکم دخلت فيه فهی منه، فمن البدع الواجبة تعلم النحو الذی يفهم به القرآن والسنة، ومن البدع المحرمة مذهب نحو القدرية، ومن البدع المندوبة إحداث نحو المدارس والاجتماع لصلاة التراويح، ومن البدع المباحة المصافحة بعد الصلاة، ومن البدع المکروهة زَخرفة المساجد والمصاحف أي بغير الذهب ۔ ترجمہ : بدعت ایسا فعل ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں نہ تھا اور بدعت کو پانچ اَحکام میں تقسیم کیا جاتا ہے یعنی واجب اور ندب وغیرہ۔ اور اس کی پہچان کا طریقہ کار یہ ہے کہ بدعت کو قواعدِ شرعیہ پر پرکھا جائے گا۔ پس وہ جو حکم شرعی پر پورا اترے گا اسی قسم میں سے ہوگا۔ پس نحو کا علم سیکھنا جس سے قرآن اور سنت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، بدعتِ واجبہ میں سے ہے۔ اور قدریہ جیسے نئے مذہب بنانا بدعتِ محرمہ میں سے ہے۔ اور مدارس بنانا اور نمازِ تراویح جماعت کے ساتھ ادا کرنا بدعتِ مندوبہ میں سے ہے۔ اور نماز کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ میں سے ہے۔ اور سونا اِستعمال کیے بغیر مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ میں سے ہے ۔ (الفتاوی الحديثية : 203) امام ملا علی قاری حنفی (م 1014ھ) ’’مشکوٰۃ المصابیح‘‘ کی شرح ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں لکھتے ہیں : قال الشيخ عز الدين بن عبد السلام فی آخر کتاب القواعد : البدعة : أما واجبة کتعلم النحو لفهم کلام اللہ ورسوله وکتدوين أصول الفقه والکلام فی الجرح والتعديل. وأما محرمة کمذهب الجبرية والقدرية والمرجئة والمجسمة. والرد علی هؤلاء من البدع الواجبة لأن حفظ الشريعة من هذه البدع فرض کفاية. وأما مندوبة کإحداث الربط والمدارس وکل إحسان لم يعهد فی الصدر الأول وکالتراويح أی بالجماعة العامة والکلام فی دقائق الصوفية. وأما مکروهة کزخرفة المساجد وتزوين المصاحف يعنی عند الشافعية، وأما عند الحنفية فمباح. وأما مباحة کالمصافحة عقيب الصبح والعصر أی عند الشافعية أيضًا وإلا فعند الحنفية مکروه، والتوسّع فی لذائذ المأکل والمشارب والمساکن وتوسيع الأکمام ۔ ترجمہ : شیخ عز الدین بن عبد السلام ’’القواعد‘‘ کے آخر میں بدعت کے بارے میں فرماتے ہیں : اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کلام کو سمجھنے کے لیے نحو کا سیکھنا، اُصولِ فقہ کی تدوین کرنا اور علم جرح و تعدیل کا حاصل کرنا بدعتِ واجبہ ہے، جب کہ بدعتِ محرمہ میں نئے مذاہب کا وجود ہے جیسے جبریہ، قدریہ، مرجئہ اور مجسمہ اور ان تمام کا ردّ بدعتِ واجبہ سے کیا جائے گا کیوں کہ اِسی بدعت سے شریعت کی حفاظت کرنا فرضِ کفایہ ہے۔ جب کہ سرائیں اور مدارس کا قیام اور ہر قسم کی نیکی کے فروغ کے کام جو اِسلام کے اِبتدائی دور میں نہ تھے جیسے باجماعت نمازِ تراویح اور تصوف کے پیچیدہ نکات و رموز پر گفتگو کرنا بدعتِ مندوبہ میں شامل ہیں۔ شوافع کے ہاں مساجد اور قرآن کی تزئین و آرائش کرنا بدعتِ مکروہہ ہے، جب کہ اَحناف کے ہاں یہ اَمر مباح ہیں۔ اور شوافع کے ہاں فجر اور عصر کے بعد مصافحہ کرنا بدعتِ مباحہ ہے، جب کہ اَحناف کے نزدیک یہ اَمر مکروہ ہیں؛ اور اِسی طرح لذیذ کھانے، پینے اور گھروں کو و سیع کرنا (جیسے اُمور بھی بدعتِ مباحہ میں شامل) ہیں ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216) امام ملا علی قاری کل بدعۃ ضلالۃ کا صحیح مفہوم واضح کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں : أی کل بدعة سيئة ضلالة، لقوله عليه الصلاة والسلام : من سنّ فی الإسلام سنّة حسنة فله أجرها وأجرمن عمل بها‘‘ وجمع أبوبکر وعمر القرآن وکتبه زيد فی المصحف وجدد فی عهد عثمان رضی الله عنهم ۔ ترجمہ : ہر بری بدعت گمراہی ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اِرشاد ہے : جس نے اِسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اُسے اُس عمل کا اور اُس پر عمل کرنے والے کا اَجر ملے گا ۔ اور یہ کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن کریم جمع کیا اور حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اِسے صحیفہ میں لکھا اور عہد عثمانی میں اِس کی تجدید کی گئی ۔ (مرقاة المفاتيح شرح مشکاة المصابيح، 1 : 216)(شبير احمد ديوبندی، فتح الملهم بشرح صحيح مسلم، 2 : 406) امام ابن حجر مکی بدعت کی اَقسام بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں : وفی الحديث : کل بدعة ضلالة، وکل ضلالة فی النار. وهو محمول علی المحرّمة لا غير ۔ ترجمہ : اور جو حدیث میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی ۔ اس حدیث کو بدعتِ محرّمہ پر محمول کیا گیا ہے، اِس کے علاوہ اور کسی پر نہیں ۔ (الفتاوی الحديثية : 203) بدعت کی اس تقسیم کے بعد معلوم ہوا کہ اگر بدعت شریعت کے مستحسنات کے تحت آجائے تو وہ بدعتِ حسنہ ہے اور اگر مستقبحات کے تحت آجائے (یعنی مخالف دلیل ہو) تو بدعتِ سیئہ ہے اور اگر ان دونوں میں نہ آئے تو وہ بدعت مباحہ ہے ۔ مذکورہ بالا تعریفاتِ بدعت کی روشنی میں ہم ذیل میں خلاصتاً محدثین و اَئمہ کی بیان کردہ بدعت کی تقسیم بیان کریں گے۔ بنیادی طور پر بدعت کی دو اَقسام ہیں : ⬇ بدعتِ حسنہ بدعتِ سیئہ ان میں سے ہر ایک کی پھر مزید اقسام ہیں جن کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے : ⬇ 1 ۔ بدعتِ حسنہ کی اَقسام بدعتِ حسنہ کی مزید تین اَقسام ہیں : ⬇ بدعتِ واجبہ بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ) بدعتِ مباحہ بدعتِ واجبہ وہ کام جو اپنی ہیئت میں توبدعت ہو لیکن اِس کا وجود واجب کی طرح دین کی ضرورت بن جائے اور اِسے ترک کرنے سے دین میں حرج واقع ہو ۔ جیسے قرآنی آیات پر اعراب ، فہمِ دین کےلیے صرف و نحو کی درس و تدریس ، اُصولِ تفسیر ، اُصولِ حدیث ، فقہ و اُصولِ فقہ اور دیگر علومِ عقلیہ وغیرہ کی تعلیم کا اِہتمام ، دینی مدارس کا قیام ، درسِ نظامی کے نصابات اور ان کی اِصطلاحات سب ’’بدعتِ واجبہ‘‘ ہیں ۔ (2) بدعتِ مستحبہ (مستحسنہ) جو کام اپنی ہیئت اور اَصل میں نیا ہو لیکن شرعاً ممنوع ہو نہ واجب کی طرح ضروری ہو بلکہ عام مسلمان اسے مستحسن اَمر سمجھتے ہوئے ثواب کی نیت سے کریں تو اس کے نہ کرنے والا گناہ گار بھی نہیں ہوتا لیکن کرنے والے کو ثواب ملتا ہے ، جیسے مسافر خانوں اور مدارس کی تعمیر وغیرہ۔ ہر وہ اچھی بات جو پہلے نہیں تھی اس کا ایجاد کرنا بھی بدعتِ مستحبہ ہے ، جیسے نمازِ تراویح کی جماعت ، تصوف و طریقت کے باریک مسائل کا بیان ، محافلِ میلاد ، محافلِ عرس وغیرہ جنہیں عام مسلمان ثواب کی خاطر منعقد کرتے ہیں اور ان میں شرکت نہ کرے والا گناہ گار نہیں ہوتا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فما رآه المؤمن حسناً فهو عند اللہ حسن ، وما رآه المؤمنون قبيحاً فهو عند اللہ قبيح ۔ ترجمہ : جس کو (بالعموم) مومن اچھا جانیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھا ہے اور جس کو مومن برا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہے ۔ (بزار، البحر الزخار المسند ، 5 : 212، 213، رقم : 1816)(طيالسی، المسند، 1 : 33، رقم : 246،چشتی)(أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 379، رقم : 3600)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3 : 83، رقم : 4465)(ہیثمی نے ’’مجمع الزوائد و منبع الفوائد 1 : 177، 178 میں کہا ہے کہ اِسے احمد ، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اِس کے رجال موثق (ورجالہ موثقون) ہیں ۔ )(عجلونی نے ’’کشف الخفاء ومزیل الالباس (2 : 245، رقم : 2214)‘‘ میں کہا ہے کہ یہ روایت موقوف حسن ہے) اِس تعریف کی رُو سے جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدعتِ مستحسنہ ہے ، جسے مومن ثواب کی نیت سے کرتے ہیں اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بھی مقبول ہے کیوں کہ اِسے جمہور مسلمان (سوادِ اَعظم) مناتے ہیں ۔ بدعتِ مباحہ وہ نیا کام جو شریعت میںمنع نہ ہو اور جسے مسلمان صرف جائز سمجھ کر ثواب کی نیت کے بغیر اِختیار کرلیں ۔ فقہاء نے فجر اور عصر کی نماز کے بعد مصافحہ کرنے اور عمدہ عمدہ جدید کھانے اور مشروبات کے استعمال کو ’’بدعتِ مباحہ‘‘ کہا ہے ۔ بدعتِ سیئہ کی اقسام بدعتِ سیئہ کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں : ⬇ 1۔ بدعتِ محرّمہ 2 ۔ بدعتِ مکروہہ بدعتِ محرّمہ وہ نیا کام جس سے دین میں تضاد ، اِختلاف اور اِنتشار واقع ہو مثلاً قدریہ ، جبریہ ، مرجئہ اور مرزائی و قادیانی وغیرہ جیسے نئے مذاہب کا وجود میں آنا ۔ اِسے بدعتِ ضلالہ بھی کہتے ہیں ۔ اِن مذاہبِ باطلہ کی مخالفت بدعتِ واجبہ کا درجہ رکھتی ہے ۔ (2) بدعتِ مکروہہ جس نئے کام سے سنت مؤکدہ یا غیر مؤکدہ چھوٹ جائے وہ بدعتِ مکروہہ ہے۔ اِس میں علماء متقدمین نے مساجد کی بلاضرورت فخریہ آرائش و تزئین وغیرہ کو شامل کیا ہے ۔ بدعت کے مذکورہ تصوّر اور تقسیم کی مزید وضاحت کےلیے حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث مبارکہ نہایت اہم ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : من سنّ فی الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده، من غير أن ينقص من أجورهم شیء. ومن سن فی الإسلام سنة سيئة کان عليه وزرها ووزر من عمل بها من بعده، من غير أن ينقص من أوزارهم شیء ۔ ترجمہ : جو شخص اِسلام میں کسی نیک کام کی بنیاد ڈالے تو اس کےلیے اس کے اپنے اَعمال کا بھی ثواب ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا ثواب بھی ہے ، بغیر اِس کے کہ اُن کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے ۔ اور جس نے اِسلام میں کسی بری بات کی اِبتدا کی تو اُس پر اُس کے اپنے عمل کا بھی گناہ ہے اور جو اُس کے بعد اِس پر عمل کریں گے اُن کا بھی گناہ ہے ، بغیر اِس کے کہ اُن کے گناہ میں کچھ کمی ہو ۔ (مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الحث علی الصدقة ولو بشق تمرة أو کلمة طيبة وأنها حجاب من النار، 2 : 704، 705، رقم : 1017)(مسلم، الصحيح، کتاب العلم، باب من سن سنة حسنة أو سيئة ومن دعا إلی هدی أوضلالة، 4 : 2059، رقم : 1017،چشتی)(نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب التحريض علی الصدقة، 5 : 76، رقم : 2554)(ابن ماجة، السنن، المقدمة، باب من سن سنة حسنة أو سيئة، 1 : 74، 75، رقم : 203، 206، 207)(احمد بن حنبل، المسند، 4 : 357.359) اس حدیث میں لفظ ’’سنّ‘‘ لغوی معنی کے اِعتبار سے ’’ابدع‘‘ کے ہم معنیٰ ہے یعنی جس نے اسلام میں کوئی اچھی (نئی) راہ نکالی ۔ یہاں سے ’’بدعتِ حسنہ‘‘ کا تصور ابھرتا ہے ۔ اِسی طرح ’’من سنّ فی الإسلام سنة سيئة‘‘ سے بدعتِ سیئہ کی طرف اشارہ ہے۔ اگر کوئی اعتراض کرے کہ اس سے تو صرف ’’سنت‘‘ ہی مراد ہے بدعت مراد نہیں لی جا سکتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ (معاذ اللہ) اگر اس سے مراد صرف ’’سنت‘‘ ہی ہوتا تو کیا وہاں ’’حسنہ‘‘ کہنے کی ضرورت تھی ؟ کیا کوئی سنت غیر حسنہ بھی ہو سکتی ہے ؟ دوسری بات یہ ہے کہ عمل کرنے کے حوالے سے ’’مَنْ عَمِلَ‘‘ تو کہہ سکتے ہیں مگر ’’من سنَّ‘‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے ایک اُمتی کیا ’’راہ‘‘ نکالے گا ؟ وہ تو صرف عمل اور اِتباع کا پابند ہے ۔ پس ثابت ہوا کہ ’’سَنَّ‘‘ سے مراد معروف معنوں میں سنت نہیں ہے بلکہ یہاں لغوی معنی یعنی راستہ اور نئی راہ نکالنا مراد ہے ۔ بدعت کی مندرجہ بالا اَقسام اور تفصیلات متعدد ائمہ حدیث اور فقہاء علیہم الرحمہ نے اپنے اپنے انداز میں اپنی کتب میں بیان کی ہیں ۔ مندرجہ بالا تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر عمل کو اِس ڈھب پر نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کےلیے عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضروریات اور تقاضوں پر ۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کار فرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا اس کی کوئی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہے یا نہیں ؟ کیا بِلاواسطہ یا بِالواسطہ اس کا کوئی ثبوت قرآن و سنت میں موجود ہے ؟ یا پھر وہ کام اس لیے بھی قابل مذمت ٹھہرتا ہے کہ اس سے کسی واجب ، سنت یا مستحب پر زَد پڑتی ہے ۔ اگر کسی نئے عمل کی اصل قرآن حکیم یا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بہ فرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع درست ہے ۔ البتہ صرف اس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابلِ مذمت ٹھہرے گی جب وہ قرآن و سنت کی کسی نص یا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہو یا دین کے عمومی مزاج اور اُس کی روح کے منافی ہو ۔ قرآن و حدیث میں جشنِ میلاد کی اَصل موجود ہے : اَصلاً نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کو اللہ تعاليٰ کی نعمت اور اُس کا اِحسانِ عظیم تصور کرتے ہوئے اِس کے حصول پر خوشی منانا اور اسے باعث مسرت و فرحت جان کر تحدیثِ نعمت کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے بہ طور عید منانا مستحسن اور قابلِ تقلید عمل ہے ۔ مزید برآں یہ خوشی منانا نہ صرف سنتِ اِلٰہیہ ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی سنت بھی قرار پاتا ہے ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار سے بھی ثابت ہے اور اِس پر مؤید سابقہ امتوں کے عمل کی گواہی بھی قرآن حکیم نے صراحتاً فراہم کر دی ہے ۔ اب بھی اگر کوئی اس کے جواز اور عدم جواز کو بحث و مناظرہ کا موضوع بنائے اور اس کو ناجائز، حرام اور قابلِ مذمت کہے تو اسے ہٹ دھرمی اور لاعلمی کے سوا اور کیا کہا جائے گا ۔ شریعتِ مطہرہ نے بہت سے معاملات کی تہ میں کار فرما اَساسی تصورات اور اُصول بیان کر دیے ہیں لیکن ان کی تفصیل اور ہیئت کا اِنحصار اُمتِ مسلمہ کے علماء اور اَکابر پر چھوڑ دیا کہ اُمت کے علماء حق اور اَئمہ دین کی اکثریت جس اَمر پر متفق ہو جائے ، اوپر دیے گئے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول قول کے مطابق بالکل درست اور قرآن و سنت کے تابع ہے ۔ اِس کی تائید مرفوع صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے ، جن کے مطابق فی الحقیقت اُمت کی اکثریت یعنی سوادِ اَعظم کبھی گمراہ نہیں ہو سکتا ، گمراہ ہمیشہ اَقلیت (سوادِ اَعظم سے الگ ہونے والی جماعت) ہوتی ہے ۔ وقتاً فوقتاً جو چھوٹی چھوٹی تحریکیں اور جماعتیں بنتی رہتی ہیں ، جن کے عقائد و نظریات امت کی بھاری اکثریت کے عقائد و نظریات کے خلاف ہوتے ہیں اور جو اُمت کے سوادِ اَعظم کو گمراہ ، کافر ، مشرک ، جاہل اور بدعتی کہتی ہیں دراصل خود گمراہ ہوتی ہیں ۔ اِسی لیے فتنہ و فساد اور تفرقہ و انتشار کے دور میں اُمت کو سوادِ اَعظم (سب سے بڑی جماعت) کا دامن پکڑنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن أمتی لا تجتمع علی ضلالة، فإذا رأيتم اختلافا، فعليکم بالسواد الأعظم ۔ ترجمہ : بے شک میری اُمت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہوگی ۔ پس اگر تم اِن میں اِختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سب سے بڑی جماعت کو اِختیار کرو ۔ (ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب السواد الأعظم، 2 : 1308، رقم : 3950)(ابن ابی عاصم، السنة : 41، رقم : 84)(طبرانی، المعجم الکبير، 12، 447، رقم : 13623،چشتی)(ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 1 : 411، رقم : 1662) ۔ امام جلال الدین سیوطی نے ’’حاشیۃ سنن ابن ماجہ (ص : 283)‘‘ میں سوادِ اَعظم سے طبقہ اہلِ سنت مراد لیا ہے اور یہی حدیث کا مدّعا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اُمت کی تفرقہ پروری کی پیشین گوئی کرتے ہوئے سوادِ اعظم (اُمت کی اکثریتی جماعت) کے سوا تمام گروہوں اور جماعتوں کے جہنمی ہونے کی وعید بیان فرمائی۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تفرقت بنو إسرائيل علی إحدی وسبعين فرقة، وتفرقت النصاری علی اثنتين وسبعين فرقة، وأمتی تزيد عليهم فرقة، کلها فی النار إلا السواد الأعظم ۔ ترجمہ : بنی اسرائیل اِکہتر (71) فرقوں میں تقسیم ہوئے اور نصاری بہتر (72) فرقوں میں تقسیم ہوئے ، جب کہ میری اُمت ان پر ایک فرقہ کا اضافہ کرے گی ۔ وہ تمام فرقے جہنمی ہوں گے سوائے سوادِ اَعظم (اُمت کے اکثریتی طبقہ) کے ۔ (طبرانی، المعجم الأوسط، 7 : 176، رقم : 7202)(ابن ابی شيبه، المصنف، 7 : 554، رقم : 37892)(حارث، المسند، 2 : 716، رقم : 706،چشتی)(بيهقی، السنن الکبری، 8 : 188)(هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 7 : 258) سوادِ اعظم کی اَہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إثنان خير من واحد، وثلاثة خير من اثنين، وأربعة خير من ثلاثة، فعليکم بالجماعة، فإن اللہ لن يجمع أمتی إلا علی هدی ۔ ترجمہ : دو (شخص) ایک سے بہتر ہیں ، اور تین (اَشخاص) دو سے بہتر ہیں، اور چار (اَشخاص) تین سے بہتر ہیں۔ پس تم پر لازم ہے کہ (اَکثریتی) جماعت کے ساتھ رہو ، یقیناً اللہ تعالیٰ میری امت کو کبھی بھی ہدایت کے سوا کسی شے پر اِکٹھا نہیں کرے گا ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 5 : 145، رقم : 21331)(هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 1 : 177)(هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 5 : 218) مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں بیان کیے گئے لفظ - الجماعۃ - سے مراد اُمت کا اَکثریتی طبقہ ہے ۔ اِس کی وضاحت حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ سے ہوتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود الجماعۃ سے سوادِ اَعظم مراد لیتے ہوئے فرمایا : والذی نفس محمد بيده! لتفترقن أمتی علی ثلاث وسبعين فرقة، واحدة فی الجنة وثنتان وسبعون فی النار. قيل : يارسول اﷲ! من هم؟ قال : الجماعة ۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے! میری اُمت ضرور تہتر (73) فرقوں میں بٹ جائے گی جن میں سے صرف ایک جنت میں جائے گا اور بہتر (72) جہنم میں داخل ہوں گے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : يا رسول اللہ ! من هم ؟ ’’ یارسول اللہ ! وہ جنتی گروہ کون ہے ؟ ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الجماعة ۔ ’’وہ (اُمت میں سب سے بڑی) جماعت ہے ۔ (ابن ماجه، کتاب الفتن، باب افتراق الأمم، 2 : 1322، رقم : 3992)(لالکائی، إعتقاد أهل السنة والجماعة، 1 : 101، رقم : 149) درج ذیل حدیث شریف میں ’’جماعت‘‘ سے مراد اُمت کی سب سے بڑی جماعت اور اُس پر محافظت ہونا صراحتاً بیان کیا گیا ہے ۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لا يجمع اللہ هذه الأمة علی الضلالة أبدا ، يد اللہ علی الجماعة ، فاتبعوا السواد الأعظم ، فإنه من شذ شذ فی النار ۔ ترجمہ : اللہ تعاليٰ اِس اُمت کو کبھی بھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا، اللہ کی حفاظت کا ہاتھ (سب سے بڑی) جماعت پر ہے، پس تم سوادِ اَعظم (سب سے بڑی جماعت) کی اِتباع کرو کیوں کہ جو اِس سے جدا ہوا یقینا وہ جہنم میں ڈالا جائے گا ۔ (حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 199.201، رقم : 391.397)(ابن أبي عاصم، کتاب السنة، 1 : 39، رقم : 80)(لالکائی، إعتقاد أهل السنة، 1 : 106، رقم : 154،چشتی)(ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 5 : 258، رقم : 8116)(حکيم ترمذی، نوادر الأصول فی أحاديث الرسول صلی الله عليه وآله وسلم ، 1 : 422) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ہی مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : إن اللہ لا يجمع أمتی (أو قال : أمة محمد صلی الله عليه وآله وسلم) علی ضلالة، ويد اللہ مع الجماعة ، ومن شذ شذ إلی النار ۔ ترجمہ : اللہ تعاليٰ میری اُمت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا (یا فرمایا : اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا)۔ اور جماعت پر اللہ (تعاليٰ کی حفاظت) کا ہاتھ ہے ، اور جو شخص جماعت سے جدا ہوا وہ آگ کی طرف جدا ہوا ۔ (ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب الفتن، باب ما جاء فی لزوم الجماعة، 4 : 466، رقم : 2167)(حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 200، رقم : 394)(دانی، السنن الوارده فی الفتن، 3 : 748، رقم : 368) اِس تصور کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مسلمانوں کے اَکثریتی طبقہ میں کوئی خرابی یا بگاڑ پیدا نہیں ہو سکتا ۔ یہ اَمرِ واقع ہے کہ بگاڑ اور خرابیاں پیدا ہوتی رہتی ہیں لیکن ہمیشہ پیغمبرانہ تعلیمات کے مطابق اَکثریتی طبقہ کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے یعنی سوادِ اَعظم سے منسلک رہتے ہوئے ہی اُمت کی اصلاح کی جد و جہد کرنی چاہیے ۔ اہلِ ایمان سوادِ اَعظم کو گمراہ قرار دیتے ہوئے اِس سے خارج ہو کر اپنے لیے نئی راہ بنانا ہی دَرحقیقت گمراہی اور منافقت ہے ، اور اسی سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔ یومِ میلادُالنَّبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانا بھی اُن بعض اُمور میں سے ایک ہے جن پر اِس وقت جمہور اُمت جواز کے شرعی دلائل کی روشنی میں عامل ہے۔ آج اگر کوئی اُمت کے اِس اکثریتی طبقہ کو گمراہ کہتا ہے تو درحقیقت وہ خود ہی گمراہ ہے اور دوزخ کی راہ پر گامزن ہے ۔ دین کی اَصل روح کو سمجھنا ضروری ہے ۔ یہ ایک اَلمیہ ہے کہ اِسلام کے حاملین ظاہر بینی سے کام لیتے ہوئے چھوٹی چھوٹی باتوں کو کفر و ایمان کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور دین کی اَصل روح اور کار فرما حکمت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان نسل جن کے سامنے دین کی اصل روح نہیں رکھی جاتی بلکہ فہمِ دین کی بجائے لفظوں کی ہیر پھیر سے دین کو متعارف کرایا جاتا ہے ، روز بروز اسلام سے دور ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ صرف اس لیے کہ (الا ما شاء اﷲ) کہیں تو ذاتی مفادات کے پیشِ نظر اور کہیں نادانی کی بناء پر مذہبی ذمہ داروں نے لفظی موشگافیوں سے دین کو دشوار بنا دیا ہے ، جس سے نوجوان نسل اور بالخصوص نیا تعلیم یافتہ طبقہ جو پہلے ہی مغربی تہذیب و ثقافت اور اِستعماری ذہنیت و فکری یلغار کا نشانہ بنا ہوا ہے ، دور ہوتا جا رہا ہے ۔ اگر ہم صدقِ دل سے دین کے اصول و قوانین اور شریعتِ اِسلامیہ کے دلکش پہلو پیشِ نظر رکھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ پھر سے عظمتِ اِسلام کے سنہری اُصولوں پر عمل پیرا ہو کر شوکت و عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے کمربستہ نہ ہو جائیں ۔ ظاہر پرست منکرین محافلِ میلاد اور جشنِ میلاد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صرف اِس لیے اِسے ناجائز اور (نعوذ باﷲ) حرام قرار دیتے ہیں کہ اِس قسم کی محافل اور جشن کی تقاریب اَوائل دورِ اِسلام میں منعقد نہیں ہوئیں ۔ اِس بحث کے تناظر میں بدعت کی تعریف اور اس کی شرعی حیثیت پر جید اَئمہ حدیث و فقہ کے حوالے سے ہمارا موقف بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ اِسے لغت کی رُو سے بدعت کہنا صحیح ہے لیکن صرف بدعت کہہ کر اِسے ہدفِ تنقید بنانا اور ناپسندیدہ قرار دینا محض تنگ نظری اور ہٹ دھرمی ہے ۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے کہ ہر دور میں ہر چیز کی ہیئت اور صورت حالات کے مطابق بدلتی رہتی ہے ۔ فریضہ حج کی ادائیگی کے انداز اور ذرائع آمد و رفت بہ تدریج بدلتے رہے ہیں ، آج لوگ پیدل یا اونٹ، گھوڑوں پر سوار ہوکر حج کے لیے نہیں جاتے ، پہلے جو فاصلے مہینوں میں طے ہوتے تھے اب جدید ذرائع آمد و رفت سے گھنٹوں میں طے ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح دیگر اَرکانِ اِسلام کی ادائیگی کی صورتِ حال بھی اب پہلے جیسی نہیں۔ اس میں کئی جدتیں اور عصری تقاضے شامل ہو چکے ہیں مگران کی ہیئت اَصلیہ میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ اِسی پس منظر میں اگر جشنِ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودہ صورت دیکھی جائے تو یہ اپنی اَصل کے اِعتبار سے بالکل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے ۔ جس طرح ہم محافلِ میلاد میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےلیے نعت کا اہتمام کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات بیان کرتے اور مختلف انداز میں سیرتِ طیبہ کا ذکر کرتے ہیں ، جو فی الواقعہ ہمارے جشنِ میلاد منانے کا مقصد ہے ، اِسی طرح کی محفلیں جن میں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و کمالات کا ذکر ہوتا تھا ، ظاہری عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھی منعقد ہوتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم محفل میں تشریف فرما ہوتے تھے حتی کہ اپنی محفلِ نعت خود منعقد کرواتے تھے ۔ مذکورہ تفصیلات کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کسی عمل کی اصل قرآنِ حکیم یا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہو جائے تو پھر وہ طعن و تشنیع اور گمراہی یا گناہ وغیرہ کا باعث نہیں رہتا اور اگر بفرضِ محال قرآن و سنت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ ثابت نہ بھی ہو لیکن اس سے قرآن و سنت کی مخالفت نہ ہوتی ہو تو پھر بھی وہ کسی قسم کی قباحت کا باعث نہیں بنتا اور نہ ہی اس پر طعن و تشنیع جائز ہے ہاں صرف اُس صورت میں کوئی بدعت ناجائز اور قبیح کے زمرے میں شامل ہو کر قابل مذمت ٹھہرے گی۔ جب قرآن و سنت پر پرکھنے کے بعد یہ ثابت ہو جائے کہ یہ قرآن و سنت کی فلاں نص کے خلاف ہے یا شریعت کے فلاں حکم کی مخالفت میں ہے ۔ مختصراً یہ کہ کسی بھی عمل کو اِس ڈھب پر اور اس نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جاتا کہ یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانے میں ہوتا تھا یا نہیں اور بعد میں کب شروع ہوا بلکہ اس کو پرکھنے کےلیے ہمیں یہ اَمر ملحوظِ خاطر رکھنا ہوگا کہ کسی عمل کی ہیئت کبھی رسم و رواج پر منحصر ہوتی ہے اور کبھی وقت کی ضرورتوں اور تقاضوں پر مبنی ہوتی ہے۔ کبھی اس کام میں کئی حکمتیں کار فرما ہوتی ہیں اور کبھی کئی مصلحتیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں ۔ لہٰذا کوئی بھی نیا کام صرف اُس وقت ناجائز اور حرام قرار پاتا ہے جب وہ شریعتِ اسلامیہ کے کسی حکم کی مخالفت کر رہا ہو ، اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اسے ہدفِ تنقیدو تنقیص بنانے کا کوئی جواز نہیں ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔