Wednesday 31 December 2014

محبّت رسول اکرم نور مجسّم ﷺ ( حدیث نمبر 1 تا 10 )

0 comments
محبّت رسول اکرم نور مجسّم ﷺ ( حدیث نمبر 1 تا 10 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1 : ۔ عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِه وَوَلَدِه وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الإيمان، باب حبّ الرسول صلی الله عليه وآله وسلم من الإيمان، 1 / 14، الرقم : 15، ومسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب وجوب محبّة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اکثر من الاهل والولد والوالد والناس أجمعين، 1 / 67، الرقم : 44.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اُس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

2. عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ (وَفِي حَدِيْثِ عَبْدِ الْوَارِثِ : الرَّجُلِ) حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ اَهْلِه وَمَالِه وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ.

رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.

2 : اخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الإيمان، باب وجوب محبة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم اکثر من الاهل والولد والوالد والناس اجمعين وإطلاق عدم الإيمان علی من لم يحبه هذه المحبة، 1 / 67، الرقم : 44، واحمد بن حنبل نحوه في المسند، 5 / 162، الرقم : 21480، وابو يعلی في المسند، 7 / 6، الرقم : 3895.

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے گھروالوں، اس کے مال اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘

اس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

3. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ص، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم اَنَّه قَالَ : لَا يُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی يَکُوْنَ اﷲُ وَ رَسُوْلُه اَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَحَتّٰی يُقْذَفَ فِي النَّارِ اَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ اَنْ يَعُوْدَ فِي الْکُفْرِ، (وفي روارواية : اَنْ يَرْجِعَ يَهُوْدِيّا اَوْ نَصْرَانِيّا) بَعْدَ اَنْ نَجَّاهُ اﷲُ مِنْهُ، وَلَا يُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِه، وَوَالِدِه، وَالنَّاسِ اَجْمَعِيْنَ.

رَوَاهُ اَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ مَنْدَه

3 : أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 3 / 207، الرقم : 13174، وأيضًا، 3 / 278، 230، الرقم : 13991-13992، 13431، وابن حبان في الصحيح، 1 / 473، الرقم : 237، وابن منده في الإيمان، 1 / 433، الرقم : 283.

’’حضرت انس بن مالک ص، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اللہ ل اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے باقی ہر ایک سے محبوب تر نہ ہو جائیں، اور جب تک کہ وہ کفر سے نجات پانے کے بعد دوبارہ اس (حالت) کفر (ایک روایت میں ہے کہ یہودیت اور نصرانیت) کی طرف لوٹنے کو اس طرح ناپسند کرتا ہو کہ اس کے بدلے اسے آگ میں پھینکا جانا پسند ہو۔ اور تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اسے اُس کی اولاد اور اس کے والد (یعنی والدین) اور تمام لوگوں سے محبوب تر نہ ہوجاؤں۔‘‘

اس حدیث کو امام اَحمد، ابن حبان اور ابن مندہ نے روایت کیا ہے۔

4. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ هِشَامٍ رضی الله عنه قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيئٍ إِلاَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه، حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْکَ مِنْ نَفْسِکَ. فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : فَإِنَّهُ الآنَ، وَاﷲِ، لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : الآنَ يَا عُمَرُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

4 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأيمان والنذور، باب کيف کانت يمين النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 6 / 2445، الرقم : 6257.

’’حضرت عبد اللہ بن ہِشام رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر ایک چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! (تم اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتے) یہاں تک کہ میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) اللہ (ربّ العزت) کی قسم! اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! اب (تمہاری محبت کامل ہوئی) ہے۔‘‘

اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔

5. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : جَاءَ تْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ، قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا کَانَ عَلٰی ظَهْرِ الْاَرْضِ مِنْ أَهْلِ خِبَاءٍ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَذِلُّوْا مِنْ أَهْلِ خِبَائِکَ، ثُمَّ مَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلٰی ظَهْرِ الْاَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ يَعِزُّوْا مِنْ أَهْلِ خِبَائِکَ... الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

5 : اخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب ذکر هند بنت عتبة بن ربيعة، 3 / 1390، الرقم : 3613، ومسلم في الصحيح، کتاب الأقضرواية، باب قضرواية هند، 3 / 1339، الرقم : 1714.

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ہند بنت عتبہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ کی قسم! (قبولِ اسلام سے قبل) مجھے روئے زمین پر آپ کے اہلِ خانہ سے زیادہ کسی کی ذلت اور خواری محبوب نہیں تھی اور اب روئے زمین پر کوئی گھر ایسا نہیں جس میں رہنے والوں کی عزت مجھے آپ کے گھر والوں کی عزت سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘

یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَحِبُّوْا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِه، وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲِ لوَأَحِبُّوْا اَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدَيْثٌ حَسَنٌ غَرِيْبٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

6 : أخرجه الترمذی في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب اهل البيت النبي صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 / 664، الرقم : 3789، والحاکم في المستدرک، 3 / 162، الرقم : 4716، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 46، الرقم : 2639، وأيضًا، 10 / 281، الرقم : 10664، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 / 366، الرقم : 408.

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے بیان فرمایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ سے محبت کرو ان نعمتوں کی وجہ سے جو اس نے تمہیں عطا فرمائیں اور مجھ سے اﷲ تعالیٰ کی محبت کے سبب محبت کرو اور میرے اہلِ بیت سے میری محبت کی خاطر محبت کرو۔‘‘

اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

7. عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ عُتْبَةَ رضي اﷲ عنها، قَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا کَانَتْ قُبَّةٌ اَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ قُبَّتِکَ وَلَا اَحَبَّ اَنْ يُبِيْحَهَا اﷲُ وَمَا فِيْهَا، وَوَاﷲِ، مَا مِنْ قُبَّةٍ اَحَبُّ إِلَيَّ اَنْ يُعَمِّرَهَا اﷲُ وَيُبَارِکَ فِيْهَا مِنْ قُبَّتِکَ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَاَيْضًا وَاﷲِ، لَا يُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِه وَوَالِدِه.

رَوَاهُ الْحَاکِمُ، وَقَالَ : هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.

7 : اخرجه الحاکم في المستدرک، کتاب التفسير، تفسير سورة الممتحنة، 2 / 528، الرقم : 3805، والعسقلاني مختصرًا في فتح الباري، 9 / 511، وأيضًا في تلخيص الحبير، 4 / 53.

’’حضرت فاطمہ بنت عتبہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے (قبولِ اسلام کے بعد) عرض کیا : یا رسول اﷲ! (مسلمان ہونے سے قبل) آپ کے خیمہ سے زیادہ ناپسندیدہ خیمہ میرے لیے کوئی نہ تھا، اور میں پسند نہ کرتی تھی کہ خدا اس خیمہ کو اور اس خیمہ میں رہنے والے کو باقی رکھے، اور اب خدا کی قسم! مجھے آپ کے خیمہ سے زیادہ کوئی خیمہ محبوب نہیں، اﷲ تعالیٰ اسے (ہمیشہ) قائم رکھے، اور اس میں برکت نازل فرمائے۔تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور اسی طرح اﷲ کی قسم! تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اسے اس کی اولاد اور اس کے (ماں) باپ سے بھی محبوب تر نہ ہو جاؤں۔‘‘ اسے امام حاکم نے روایت کیا نیز فرمایا : اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔

8. عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا کَانَ يَوْمُ اُحُدٍ حَاصَ اَهْلُ الْمَدِيْنَةِ حَيْصَةً، قَالُوْا : قُتِلَ مُحَمَّدٌ (صلی الله عليه وآله وسلم) حَتّٰی کَثُرَتِ الصَّوَارِخُ فِي نَاحِيَةِ الْمَدِيْنَةِ، فَخَرَجَتِ امْرَاَةٌ مِنَ الْاَنْصَارِ مُتَحَزِّمَةً فَاسْتَقْبَلَتْ بِابْنِهَا وَاَبِيْهَا وَزَوْجِهَا وَاَخِيْهَا لَا اَدْرِي اَيَهُمُ اسْتَقْبَلَتْ بِه اَوَّلًا فَلَمَّا مَرَّتْ عَلٰی آخِرِهِمْ قَالَتْ : مَنْ هٰذَا؟ قَالُوْا : اَبُوْکِ، اَخُوْکِ، زَوْجُکِ، ابْنُکِ، تَقُوْلُ : مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ يَقُوْلُوْنَ : اَمَامَکِ حَتّٰی دُفِعَتْ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاَخَذَتْ بِنَاحِيَةِ ثَوْبِه، ثُمَّ قَالَتْ : بِاَبِي اَنْتَ وَاُمِّي يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَا اُبَالِي إِذْ سَلِمْتَ مِنْ عَطَبٍ.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ عَنْ شَيْخِه مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبٍ وَلَمْ أَعْرِفْهُ وَبَقِيَةُ رِجَالِه ثِقَاتٌ.

8 : اخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 7 / 280، الرقم : 7499، وأبو نعيم في حلرواية الأولياء، 2 / 72، 332، والقاضي عياض في الشفا / 497، الرقم : 1215، وابن جرير الطبري في تاريخ الامم والملوک، 2 / 74، وابن هشام في السيرة النبورواية، 4 / 50، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 115، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 190، 2 / 74.

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب غزوہ اُحد کا دن تھا تو اہل مدینہ سخت تنگی و پریشانی میں مبتلا ہوگئے (کیونکہ)، انہوں نے (غلط فہمی اور منافقین کی افواہیں سن کر) سمجھا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (العیاذ باﷲ) شہید کر دیا گیا ہے، یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں چیخ و پکار کرنے والی عورتوں کی کثیر تعداد (جمع) ہو گئی، یہاں تک کہ انصار کی ایک عورت پیٹی باندھے ہوئے باہر نکلی اور اپنے بیٹے، باپ، خاوند اور بھائی (کی لاشوں کے پاس) سے گذری، (راوی کہتے ہیں:) مجھے یاد نہیں کہ اس نے سب سے پہلے کس کی لاش دیکھی۔ پس جب وہ ان میں سے سب سے آخری لاش کے پاس سے گزری تو پوچھنے لگی : یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا : تمہارا باپ، بھائی، خاوند اور تمہارا بیٹا ہے۔ (جوکہ شہید ہو چکے ہیں) وہ کہنے لگی : (مجھے صرف یہ بتاؤ کہ) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس حال میں ہیں؟ لوگ کہنے لگے:آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے سامنے موجودہیںیہاں تک کہ اس عورت کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دیا گیا تو اس عورت نے (شدتِ جذبات سے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کرتہ مبارک کا پلو پکڑ لیا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ سلامت ہیں تو مجھے اور کوئی دکھ نہیں (یعنی یا رسول اﷲ! آپ پر میرا باپ،بھائی، خاوند اوربیٹاسب کچھ قربان ہیں)۔‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔امام ہیثمی نے فرمایا : اسے امام طبرانی نے اپنے جس شیخ محمد بن شعیب سے روایت کیا ہے انہیں میں نہیں جانتا اور باقی تمام رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔

9. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مُغَفَّلٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَاﷲِ، إِنِّي لَاُحِبُّکَ. فَقَالَ : انْظُرْ مَاذَا تَقُوْلُ. قَالَ : وَاﷲِ، إِنِّي لَاُحِبُّکَ. فَقَالَ : انْظُرْ مَاذَا تَقُوْلُ. قَالَ : وَاﷲِ، إِنِّي لَاُحِبُّکَ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. فَقَالَ : إِنْ کُنْتَ تُحِبُّنِي فَاَعِدَّ لِلْفَقْرِ تِجْفَافًا، فَإِنَّ الْفَقْرَ اَسْرَعُ إِلٰی مَنْ يُحِبُّنِي مِنَ السَّيْلِ إِلٰی مُنْتَهَاهُ.

رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

9 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب الزهد، باب ما جاء في فضل الفقر، 4 / 576، الرقم:2350، وابن حبان في الصحيح، 7 / 185، الرقم : 2922، والروياني في المسند، 2 / 88، الرقم : 872، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 173، الرقم : 1471، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 620، الرقم : 2505.

’’حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا : یا رسول اللہ، اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سوچ لو! کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے پھر عرض کیا : اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (پھر) سوچ لو! کیا کہہ رہے ہو؟ اس نے پھر عرض کیا : اللہ کی قسم! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اس نے تین مرتبہ یہ بات دہرائی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تو مجھ سے محبت کرتا ہے تو فقر (کا سامنا کرنے) کے لیے تیار ہوجاکیوں کہ مجھ سے محبت کرنے والوں کی طرف فقر اس سے بھی زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے جتنی تیزی سے سیلاب اپنی منزل کی طرف بڑھتا ہے۔‘‘

اسے امام ترمذی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔

10. عَنْ عَتْمَةَ الْجُهَنِيِّ رضی الله عنه، عَنْ اَبِيْهِ، قَالَ : خَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ فَلَقِيَه رَجُلٌ مِنَ الْاَنْصَارِ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، بِاَبِي وَاُمِّي اَنْتَ، إِنَّه لَيَسُوْؤُنِيَ الَّذِي اَرٰی بِوَجْهِکَ وَعَمَّا هُوَ قَالَ : فَنَظَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی وَجْهِ الرَّجُلِ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ : الْجُوْعُ، فَخَرَجَ الرَّجُلُ يَعْدُوْ اَوْ شَبِيْهٌ بِالْعَدْوِ حَتّٰی اَتٰی بَيْتَه، فَالْتَمَسَ فِيْهِ الطَّعَامَ، فَلَمْ يَجِدْ شَيْئًا، فَخَرَجَ إِلٰی بَنِي قُرَيْظَةَ وَفَآجَرَ نَفْسَه بِکُلِّ دَلْوٍ يَنْزَعُهَا تَمْرَةً حَتّٰی جَمَعَ حَضْنَةً اَوْ کَفًّا مِنْ تَمْرٍ ثُمَّ رَجَعَ بِالتَّمْرِ حَتّٰی وَجَدَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَجْلِسٍ لَمْ يَرِمْ، فَوَضَعَه بَيْنَ يَدَيْهِ وَقَالَ : کُلْ اَي رَسُوْلَ اﷲِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مِنْ اَيْنَ لَکَ هٰذَا التَّمْرُ؟ فَاَخْبَرَهُ الْخَبْرَ، فَقَالَ لَه رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَاَظُنُّکَ تُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه قَالَ : اَجَلْ، وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَاَنْتَ اَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي وَوَلَدِي وَاَهْلِي وَمَالِي، فَقَالَ : اَمَّا لَا فَاصْطَبِرْ لِلْفَاقَةِ وَاَعِدَّ لِلْبَلَاءِ تِجْفَافًا فَوَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، لَهُمَا إِلٰی مَنْ يُحِبُّنِي اَسْرَعُ مِنْ هُبُوْطِ الْمَاءِ مِنْ رَاْسِ الْجَبَلِ إِلٰی اَسْفَلِه. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.

10 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 18 / 83، الرقم : 155، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 313، والعسقلاني في الإصابة، 4 / 736، الرقم : 6086.

’’حضرت عتمہ جہنی رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے بیان کیا : ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو انصار میں سے ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! آپ کے چہرۂ اقدس کی اس حالت نے مجھے پریشان کردیا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک لمحہ اس شخص کی طرف دیکھا پھر فرمایا : فاقہ، تو وہ شخص دوڑتا ہوا یا تیز تیز چلتا ہوا وہاں سے نکلا یہاں تک کہ اپنے گھر میں آیا اور وہاں کھانا تلاش کیا لیکن کوئی چیز نہ پائی، پھر وہ بنی قریظہ (قبیلہ یہود) کی طرف آیا اور فی ڈول پانی نکالنے کے بدلے ایک کھجور پر مزدوری کرلی، یہاں تک کہ گود بھر یا مٹھی بھر کھجوریں جمع کر لیں، پھر کھجوریں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں لوٹا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی جگہ موجود پایا۔ سو اس نے وہ کھجوریں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے رکھ دیں اور عرض کیا : یا رسول اللہ! تناول فرمائیے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہارے پاس یہ کھجوریں کہاں سے آئی ہیں؟ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں سارا واقعہ عرض کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اس نے عرض کیا : جی ہاں (یا رسول اﷲ!) اور قسم ہے اس ذات کی جس نے حق کے ساتھ آپ کو مبعوث فرمایا! بلاشبہ آپ مجھے میری جان، میری اولاد، میرے اہل و عیال اور میرے مال سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اگر ایسا ہے) تو فاقہ کشی کا انتظار کر اور مصائب (کا سامنا کرنے) کے لیے کمربستہ ہو جا۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا! یہ (فقر و مصائب) دونوں میرے ساتھ محبت کرنے والے (کی آزمائش کے لیے اس) کی طرف پہاڑ کی چوٹی سے پستی کی طرف گرنے والے سیلاب سے بھی زیادہ تیزی سے آتے ہیں۔‘‘ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔