Monday, 15 December 2014

(3) توسّل ، استغاثہ اور استمداد مستند دلائل کی روشنی میں


گزشتہ مضمون سےہم نے  جب اس بات کو قرآن و  احادیث مبارکہ  سے جان لیا۔ کہ،، حضرات انبیاء کرام  و  اولیائے کاملین   کے وسیلہ کا انکار قرآن و حدیث میں نہیں ملتا۔۔۔  بلکہ قرآن حدیث سے وسیلے  کے جائز  ہو نے کا اثبات ہے ۔توا ب  اگر  دِل میں یہ وہم  پیدا ہو۔ کہ۔۔ ان آیا ت واحادیث سے ظاہری زندگی میں وسیلہ بنانے کا بیان  ہے۔۔۔۔ اگرچہ بعد از وفات وسیلہ کا انکار نہیں ہے ۔مگر کیا دنیا میں تشریف آوری سے قبل اور دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے کے بعد بھی وسیلہ بنانے پر کوئی واضح دلیل ہے۔۔۔ ؟  
تو آئیے اس وہم کا ازالہ فرمایئے 
بعثت سے قبل اور بعد از وفات ظاہری   وسیلہ بنانے کی دلیل 
بعثت سے قبل 
نبی پاک علیہ السلا م کی دنیا میں  تشریف آوری سے قبل پچھلی امتیں آپ ﷺ کے وسیلہ جلیلہ سے دعا کرتے تو رب  تعالی اپنے حبیب  صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے انکی خالی جھولیوں کو مراد سے بھر دیتا۔
دلیل نمبر9
وَلَمَّا جَآءَہُمْ کِتٰبٌ مِّنْ عِنۡدِ اللہِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَہُمْ ۙ وَکَانُوۡا مِنۡ قَبْلُ یَسْتَفْتِحُوۡنَ عَلَی الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مَّا عَرَفُوۡا کَفَرُوۡا بِہٖ ۫ فَلَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الْکٰفِرِیۡنَ﴿۸۹
اور جب ان کے پاس اللّٰہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے ساتھ والی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے  اور اس سے پہلے اسی نبی کے وسیلہ سے کافروں پر فتح مانگتے تھے  تو جب تشریف لایا ان کے پاس وہ جانا پہچانا اس سے منکر ہو بیٹھے  تو اللّٰہ کی لعنت منکروں پر۔
(سورہ البقرۃ آیت 89)
دلیل نمبر10
 سیدنا آدم علیہ السلام نے جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلہ سے دعاء فرمائی تھی اس کا ذکر اشارۃً اور صراحۃً قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں موجود ہے چنانچہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر:37 میں ہے: 
فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ- 
ترجمہ:پھر آدم نے اپنے رب سے چند کلمے سیکھ لئے تو اللہ نے ان کی توبہ قبول کی ،بیشک اللہ وہی بہت توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم فرمانے والا ہے-(سورۃ البقرہ،37)
مذکورہ آیت کریمہ میں جن کلمات کے سیکھنےکا ذکر ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی ان کلمات کے متعلق " مستدرک علی الصحیحین  ، معجم اوسط طبرانی،، دلائل النبوة للبيهقي، مجمع الزوائد،  كنز العمال، تفسير در منثور, تفسیر روح البیان، میں  روایت مذکور ہے : 
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه ، قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :  لما اقترف آدم الخطيئة قال : يا رب أسألك بحق محمد لما غفرت لي ، فقال الله : يا آدم ، وكيف عرفت محمدا ولم أخلقه ؟ قال : يا رب ، لأنك لما خلقتني بيدك ونفخت في من روحك رفعت رأسي فرأيت على قوائم العرش مكتوبا لا إله إلا الله محمد رسول الله فعلمت أنك لم تضف إلى اسمك إلا أحب الخلق إليك ، فقال الله : صدقت يا آدم ، إنه لأحب الخلق إلي ادعني بحقه فقد غفرت لك ولولا محمد ما خلقتك  هذا حديث صحيح الإسناد- 
ترجمہ: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  جب حضرت آدم علیہ السلام سے لغزش ہوئی  تو انہوں نے اللہ کے حضور معروضہ کیا:ائے میرے پروردگار ! میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے دعا کرتا ہوں تو مجھے بخش دے،اللہ تعالی نے فرمایا:ائے آدم !تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے جانتے ہو ابھی تو وہ دنیا میں تشریف نہیں لائے ہیں؟ حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیا:ائے میرے رب!تو نے جب مجھے اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور اپنی روح خاص مجھ میں پھونکی تو میں نے اپنا سر اٹھایا تو دیکھا کہ قوائم عرش پر " لا إله إلا الله محمد رسول الله " لکھا ہوا پایا،تو میں جان گيا کہ تو نے اپنے نام مبارک کے ساتھ انہیں کا نام پاک  ملایا ہے جو ساری مخلوق میں سب سے زیادہ تجھے پسندیدہ ومحبوب ہیں۔اللہ تعالی نے فرمایا:اےآدم ! تم نے سچ کہا ،بیشک وہ ساری مخلوق میں میرے پاس سب سے زیادہ محبوب ترین ہیں،تم ان کے وسیلہ سے دعا کرو میں ضرور تم کو مغفرت عطا کرؤنگا،اور اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا- اس  حدیث کی سندصحیح  ہے۔
 مستدرک علی الصحیحین، كتاب تواريخ المتقدمين من الأنبياء والمرسلين، حدیث نمبر: 4194- معجم اوسط طبراني حديث نمبر:6690-
 دلائل النبوة للبيهقي، حدیث نمبر: 2243 –
 مجمع الزوائد، ج،8ص،198 ،حديث نمبر:13917 دار الفکر بیروت 
 كنز العمال، كتاب الفضائل حديث نمبر: 32138 -
تفسير در منثور, سورة البقرة:37مکتبۃ الرشد
 تشریح
 جب نبی کریم ﷺ کی بعثت(دنیا میں تشریف آوری) سے قبل آپ کے وسیلے سے دعا کرنا جائز تھا تو آپ علیہ السلام کی وفات ظاہری کے بعد ممانعت کیونکر بغیر کسی دلیل کے مانی جائے۔
سبحان اللہ ذرا غور فرمائیے کہ  انسان کوجب زمین پر بھیجا گیا تو رب تعالی نے انسان کی سب سے پہلی دعا جو قبول فرمائی وہ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ تھی  اور وہ دعا بھی ہمارے نبی علیہ السلام کےوسیلہ سے قبول فرمائی گئی  ۔
اور کل بروز قیامت میدان حشر میں بھی  سب سے پہلی دعا جو قبول کی جائے گی وہ بھی نبی علیہ السلام کے وسیلے سے کی جائے گی تمام لوگ انبیاء کرام علیھم السلام کی  خدمت میں حاضر ہونگے مگر لوگوں کی مراد  پوری  ہمارے نبی علیہ السلام فر مائیں گے آپ ﷺ رب تعالی سے جلد حساب شروع فرمانے کی دعا فرمائیں گے اور رب تعالی  دعا قبول فرمائے گا  اور یہ نعمت بھی اپنے محبوب علیہ السلام کے وسیلہ سے عطا فرمائے گا ۔
درحقیقت بات یہ ہے کہ رب تعالی اپنے حبیب ﷺ  کو اس قدر پسند فرماتا ہے کہ  آپ علیہ السلام کو وجہ تخلیق کائنات بتلایا  اور جب انسان کو زمین پر اتارا تو نبی علیہ السلام کی شان دیکھائی جب انسان کوقبر میں  اتارا جاتا ہے تو وہاں بھی اپنے نبی کی شان دیکھاتا ہے اور جب حشر کا میدان ہوگا وہاں بھی اپنے نبی علیہ السلام کی دعا سےحسا ب شروع  فرماکر ان کی شان دیکھائے گا کوثر عطا  و مقام محمود عطافرماکر اپنے حبیب علیہ السلام کی شان دیکھائے گایہ نبی علیہ السلام کو رب نے ایسے اوصاف عطا فرمائے ہیں کہ ایسی شان کسی اور نبی علیہ السلام کو رب کائنات جل جلالہ نے  عطا نہ فرمائی ۔
بعد از وفات ظاہری   
دلیل نمبر11
امام طبرانی ایک طویل حدیث نقل فرماتے ہیں کہ،،
حضرت عثمان بن حنیف بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص اپنے کسی کام سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس جاتا تھا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور نہ اس کے کام کی طرف دھیان دیتے تھے ایک دن اس شخص کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی اس نے ان سے اس بات کی شکایت کی حضرت عثمان بن حنیف نے اس سے کہا کہ تم وضو خانہ جاکر وضو کرو اور پھر مسجد میں جاو اوردو رکعت نماز اد اکرو پھر یہ کہو کہ اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں آپ کے واسطے سے آپ کے رب عزوجل کی طرف متوجہ ہوا ہوں تاکہ وہ میری حاجت روائی کرے اور اپنی حاجت کا ذکر کرنا پھر میرے پاس آنا حتی کہ میں تمہارے ساتھ جاوں وہ شخص گیا اور اس نے اس پر عمل کیا پھر وہ حضرت عثمان بن عفان کے پاس گیا دربان نے ان کےلئے دروازہ کھولا اور انہیں حضرت عثمان بن عفان کے پاس لے گیا حضرت عثمان نے انہیں اپنے ساتھ مسند پر بٹھالیا اور پوچھا کہ تمہارا کیا کام ہے اس نے اپناکام ذکر کردیا حضرت عثمان نے اس کا کام کردیا اور فرمایا کہ تم نے اس سے پہلے اپنے کام کا ذکر نہیں کیا تھا اور فرمایا کہ جب بھی تمہیں کوئی کام ہو تو تم ہمارے پاس آجانا پھر وہ حضرت عثمان کے پاس سے چلاگیا اور جب اس کی حضرت عثمان بن حنیف سے ملاقات ہوئی تو کہا کہ اللہ تعالی آپ کو جزائے خير عطا فرمائے حضرت عمارن میری طرف متوجہ نہیں ہوتے تھے اور میرے معاملہ میں غور نہیں کرتے تھے حتی کہ آپ نے ان سے میری سفارش کی حضرت عثمان بن حنیف نے کہا بخدا میں نے ان سے کوئی سفارش نہیں کی لیکن ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نےاپنی نابینائی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس پر صبر کرو گے اس نےکہا یا رسول اللہ مجھے راستہ دیکھا نے والا کوئی نہیں ہے اور مجھے بڑی مشکل ہوتی ہے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ تم وضو خانے جاؤ اوروضو کرو پھر دورکعت نماز پڑھو پھر ان کلمات سے دعا کرو حضرت عثمان بن حنیف فرماتے ہیں کہ ہم الگ نہیں ہوئے تھے اور نہ ابھی زیادہ باتیں ہوئی تھیں کہ وہ نابینا شخص اس حال میں آیا کہ اس میں بالکل نابینائی نہیں تھی ۔
حوالہ۔۔
المعجم الکبیر للطبرانی حدیث نمبر 8311
شفاء السقام فی زیارۃ خیر الانام     الباب الثامن فی التوسل صفحہ 371، دار الکتب العلمیۃ
احمد بن حسين البيهقي نے دلائل النبوۃ للبہیقی  میں اور
امام جلال الدین سیوطی نے  الخصائص الکبری میں اس حدیث کو نقل فرمایا ہے 
حافظ زکی الدین عبد العظیم نے الترغیب والترہیب میں او رحافظ الہیثیمی نے مجمع الزوائد میں
اس حدیث کو بیان کرکے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے 
بلکہ ابن تیمیہ نےکہ جو غیر مقلدین کے امام ہیں اس حدیث کی سند کوفتاوی ابن تیمیہ جلد ۱ صفحہ ۲۷۳ مطبوعہ با مر فہد بن عبد العزیز آل السعود میں صحيح فرمایا ہے
تشریح
اس سے معلو م ہوا کہ  صحابی رسول   حضرت عثمان بن حنیف نے  نبی کریم ﷺ  سے توسل  کو فقط  آپ ﷺ کی حیات طیبہ کے ساتھ خاص نہ کیا بلکہ صحابی  رسول  ﷺ نے اس توسل کے طریقہ کو نبی علیہ السلام کی وفات ظاہری کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی جاری رکھا تو  جب صحابی رسول  ﷺ کا خود کا عمل یہ واضح کررہا ہے کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام  کا  وسیلہ بعد آپ ﷺ کی و فات ظاہری کے بعد بھی اسی طرح جائز ہے جس طرح آپ ﷺ کی حیاتی میں جائز امر تھااگر بعد وفات ناجائز ہوتا تو نبی پاک علیہ السلام کے صحابی ہرگز اس طرح کےعمل کی تعلیم  کسی دوسرے  کو نہ دیتے  اور و ہ صاحب قرون ثلاثہ  بھی اس عمل کو نہ اپناتے بلکہ ناجائز ہی بتلاتے لہذا صحابہ کا بعد وفات ظاہری بھی اس عمل کو جاری رکھنا اس کے جائز ہونے پرواضح  دلیل ہے۔
نیز اگر  بعد از وفات  یہ ناجائز ہوتا تونبی پاک علیہ السلام  بھی جب اپنے   صحابہ کو اپنے  وسیلہ  سے دعا کی تعلیم ارشاد فرمارہے تھے ضرور اس بات پر بھی متنبہ فرماتے  کہ اے میر ے صحابی میرے وسیلہ  سے دعا تم میری  حیاتی تک کرنا  اس کے بعد نہ کرنا کیو نکہ یہ ایک لازمی امر ہے جب نبی پاک ﷺ نے اپنے وسیلہ  سے دعا کی   مطلق تعلیم دی تو اس سے یہی سمجھا جائے گا کہ   آپ ﷺ کے وسیلہ  سے دعا کرنا  آپ ﷺ کی حیاتی  میں ا ورظاہری وفات کے بعد بھی جائز  ہے اسی لئے حضرت عثمان بن حنیف نے نبی پاک علیہ السلام کے پردہ فرماجانے کے بعد بھی اس عمل کو جاری رکھاکیونکہ کوئی ایسا  قرینہ تھا ہی نہیں  جس سے یہ واضح ہو کہ یہ حکم فقط نبی پاک علیہ السلام کی  حیات مبارکہ تک  ہے۔
دلیل نمبر12
امام بخاری علیہ رحمۃ الباری  کے استاد  امام ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ  اپنی کتا ب مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح اسناد کے ساتھ یہ روایت  بیان فرماتے ہیں
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الأَعْمَشِ عَنْ أَبِي صَالِحٍ عَنْ مَالِكِ الدَّارِ , قَالَ : وَكَانَ خَازِنَ عُمَرَ عَلَى الطَّعَامِ , قَالَ : أَصَابَ النَّاسَ قَحْطٌ فِي زَمَنِ عُمَرَ , فَجَاءَ رَجُلٌ إِلَى قَبْرِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم , فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللهِ , اسْتَسْقِ لأُمَّتِكَ فَإِنَّهُمْ قَدْ هَلَكُوا , فَأَتَى الرَّجُلَ فِي الْمَنَامِ فَقِيلَ لَهُ : ائْتِ عُمَرَ فَأَقْرِئْهُ السَّلامَ , وَأَخْبِرْهُ أَنَّكُمْ مُسْتَقِيمُونَ وَقُلْ لَهُ : عَلَيْك الْكَيْسُ , عَلَيْك الْكَيْسُ , فَأَتَى عُمَرَ فَأَخْبَرَهُ فَبَكَى عُمَرُ , ثُمَّ قَالَ : يَا رَبِّ لاَ آلُو إلاَّ مَا عَجَزْت عَنْهُ. 
مالک بن دینار جو کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وزیر خوراک تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک بار لوگوں پر قحط آگیا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ اپنی امت کے لئے بارش کی دعا کیجیے کیونکہ وہ ہلاک ہورہے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کے خواب میں تشریف لائے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاؤ ان کو سلام کہو اور یہ خبر دو کہ تم پر یقینا بارش ہوگی اور ان سے کہو کہ تم پر سوجھ بوجھ لازم ہے پھر وہ حضرت عمر کے پاس گئے اور ان کو خبر دی حضر ت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور کہا کہ اے اللہ میں صرف اسی چیز کو ترک کرتا ہوں کہ جس سے میں عاجز ہوں۔
 مصنف بن ابی شیبہ حدیث نمبر 32665
اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے بھی روایت کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ روایت صحيح ہے
 البدایہ والنہایہ ج۷صفحہ۹۱ دار الفکر بیروت
اسی طرح اما م المحدثین حافظ ابن حجر عسقلانی نے بھی اس روایت کو صحیح فرمایا ہے اور فرمایا کہ وہ خواب دیکھنے والے صحابی  حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ تھے۔ 
فتح الباری جلد ۲ صفحہ۴۹۵نشر الکتب اسلامیہ 
سنن بیہقی، وفاء الوفاء ، انجاح الحاجہ ، ابن عبدالبر
تشریح
اللہ اکبر صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی کا عقیدہ دیکھے  معلوم تھا کہ جس  بارگاہ  میں حاضر ہوا ہوں وہ حیات میں وہ میری فریاد کو سنیں  گے بھی اور اپنی امت کی مدد بھی فرمائیں گے  اور رب کے حضور رحمت کی بارش کی دعا کریں گے پھر رب تعالی اپنے  بندوں پر اپنی نبی علیہ السلام کے صدقے میں رحمت  بھری بارش نازل فرمائے گا۔
 چنانچہ ایسا ہی ہواحضور علیہ السلام نے اپنے غلام  صادق پر  کرم فرمایا اور خواب میں تشریف لا کر  یہ بتلادیا کہ  اے میرے غلاموں مایوس نہ ہو میں اپنے غلاموں کی رب تعالی کے عطا سے فریاد سنتا ہوں اور پھر رب ہی کے اذن و عطا سے ان کی مدد بھی کرتا ہوں۔
اگر اسطرح نبی علیہ السلام سے  بارش وغیرہ کے لئے مدد مانگنا شرک یا حرام ہوتا تو صحابہ یہ عمل ہرگز نہ اپناتے اور پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یہ سارا واقعہ بیان کیا اگر یہ ناجائز ہوتا  تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس آنے والے صحابی کو اس عمل کے ناجائز   ہو نے کا جواب ارشاد فرماتے بلکہ آپ  کا  اس کی تصدیق فرمانا اس  کے جائز ہونے پر دلیل ہے ۔
نیز  یہ بھی غور طلب امر ہے کہ  بڑے بڑے محدثین نے اس حدیث کے صحیح ہونے پر جزم فرمایا اگر یہ ناجائز یا شرک ہوتا معاذا للہ تو اس قدر بلند پایہ کے علماء و فقہاء و محدثین اس حدیث کے صحیح ہونے  کا حکم لگانا توکجا وہ اس کے موضوع ہونے کا حکم بیان فرماتے اور وسیلے کے ناجائز وشرک ہونے کو ضرور بیان فرماتے ۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...