جشن میلاد النبیﷺ پر سولہ اعتراضات کے قرآن و حدیث سے جوابات دیئے جاتے ہیں
سوال نمبر 1: رسول اﷲﷺ کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے محققین میں زبردست
اختلاف پایا جاتا رہا۔ صحیح روایت سے صرف اتنا ثابت ہے کہ آپﷺ کی پیدائش
پیر کے دن ہوئی۔ ماضی میں محققین کا جھکائو نو ربیع الاول کی طرف رہا ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ دور جدید میں مصری ماہر فلکیات کی تحقیق کے مطابق
پیر کا دن بارہ ربیع الاول کو نہیں‘ نوربیع الاول کو ثابت ہوا ہے؟
جواب نمبر 1: صحابہ کرام علیہم الرضوان اور محققین کے اقوال ے ثابت ہے۔
دلیل نمبر 1: حضرت جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
دونوں سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اﷲﷺ عام الفیل روز دوشنبہ بارہ
ربیع الاول کو پیدا ہوئے اور اسی روز آپﷺ کی بعثت ہوئی۔ اسی روز معراج ہوئی
اور اسی روز ہجرت کی اور جمہور اہل اسلام کے نزدیک یہی تاریخ بارہ ربیع
الاول مشہور ہے۔ (بحوالہ: سیرت ابن کثیر جلد اول صفحہ نمبر 199)
دلیل نمبر 2: امام ابن جریر طبری علیہ الرحمتہ جوکہ مورخ ہیں‘ اپنی کتاب
تاریخ طبری جلد دوم ص 125 پر فرماتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کی ولادت پیر کے دن
ربیع الاول شریف کی بارہویں تاریخ کو عام الفیل میں ہوئی۔
اہلحدیث کے مشہور عالم کے دلیل: اہلحدیث کے مشہور عالم نواب سید محمد صدیق
حسن خان لکھتے ہیں کہ ولادت شریف مکہ مکرمہ میں وقت طلوع فجر روز شنبہ شب
دراز دہم ربیع الاول عام الفیل کو ہوئی۔ جمہور علماء کا یہی قول ہے ابن
جوزی علیہ الرحمہ نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے۔
(بحوالہ: الشامتہ العنبریہ مولد خیر البریہ ص 7)
دلیل نمبر 4: مصری ماہر فلکیات کے نزدیک بھی ولادت کی تاریخ بارہ ہے۔ مصر کے علماء بھی بارہ ربیع الاول کو جشن ولادت مناتے ہیں۔
دلیل نمبر 5: برصغیر کے مشہور محدث شاہ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ
اپنی کتاب مدارج النبوت دوسری جلد کے صفحہ نمبر 15 پر میلاد کا دن پیر کا
اور تاریخ بارہ لکھتے ہیں۔
سوال نمبر 2: رحمت کائناتﷺ کی عمر مبارک میں ربیع الاول کا مہینہ کم و بیش
63 مرتبہ آیا۔ کس حدیث سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنی پیدائش کے دن جشن منانے کا
اعلان کیا ہو اور مروجہ طریقے کے مطابق جلوس نکالا ہو اور چراغاں کیا ہو؟
جواب نمبر 2: سب سے پہلے میلاد کا لغوی اور اصلاحی معنی ملاحظہ ہو۔
میلاد کے لغوی معنی: میلاد اصل مولادتھا ماقبل مکسور کی وجہ سے یاء سے
تبدیل ہوئی ہمچوں میعاد مصدر ہے۔ یعنی بچہ جننا حضورﷺ کی ولادت کی نسبت سے
اصطلاح میں یہی لفظ استعمال ہونے لگا۔
میلاد کے اصطلاحی معنی: میلاد کے اصطلاحی معنی حضورﷺ کی ولادت کی خوشی میں
آپ کے معجزات اور مجالس صوری (معنی مجلس میں خوبصورت جلسہ) بیان کرنا۔
سرکار اعظمﷺ نے خود میلاد منایا
حدیث حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالتﷺ میں
عرض کی گئی یا رسول اﷲﷺ آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا۔ اسی
دن میں پیدا ہوا‘ اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی (بحوالہ: صحیح مسلم)
حدیث: بیہقی اور طبرانی شریف میں ہے کہ سرکار اعظمﷺ نے اعلان نبوت کے بعد
ایک موقع پر بکرے ذبح کرکے دعوت کی۔ اس حدیث کے معنی لوگ یہ لینے لگے کہ
سرکارﷺ نے اپنا عقیقہ فرمایا۔ اس کا جواب امام جلال الدین سیوطی علیہ
الرحمہ دیتے ہیں۔ سرکارﷺ کا عقیقہ آپ کے دادا عبدالمطلب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے ساتویں دن کردیا تھا۔ سرکارﷺ کا بکرے ذبح کرکے دعوت کرنا حقیقت میں اپنا
میلاد منانا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ میلاد منانا سنت رسولﷺ ہے۔
جہاں تک مروجہ طریقے کا سوال ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جیسے جیسے زمانہ
ترقی کرتا رہا لوگ ہر چیز احسن سے احسن طریقے سے کرتے رہے۔ پہلے مسجدیں
بالکل سادہ ہوتی تھیں۔ اب اس میں فانوس اور دیگر چراغاں کرکے اس کو مزین
کرکے بنایا جاتا ہے۔ پہلے قرآن مجید سادہ طباعت میں ہوتے تھے۔ اب خوبصورت
سے خوبصورت طباعت میں آتے ہیں وغیرہ اسی طرح پہلے میلاد سادہ انداز میں
ہوتا تھا۔ صحابہ کرام اور تابعین اپنے گھروں پر محافلیں منعقد کرتے تھے اور
صدقہ و خیرات کرتے تھے۔
سوال نمبر 3: اگر انبیاء کی تاریخ پیدائش پر ہر سال جشن منانا جائز تھا تو
کیا آپﷺ نے اپنے جد امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام یا کسی دوسرے نبی کا یوم
پیدائش منایا؟
جواب نمبر 3: جی ہاں! سرکار اعظمﷺ نے انبیاء کرام علیہم السلام کا یوم ولادت خود بھی منایا اور صحابہ کرام کو بھی تعلیم دی۔
حدیث: بخاری و مسلم شریف میں حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی
ہے کہ جب سرکارﷺ مدینہ شریف تشریف لائے۔ یہود کو آپﷺ نے عاشورہ کا روزہ
رکھتے ہوئے پایا‘ ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ
دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر
غلبہ عطا فرمایا تھا ہم اس دن کی تعظیم کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں (غور
فرمائیں! حضورﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ میرے صحابہ گواہ ہوجائو! ہم کبھی
عاشورہ کا روزہ نہیں رکھیں گے کیونکہ یہ روزہ یہودیوں کا شعار بن گیا ہے
بلکہ اس پر سرکارﷺ نے فرمایا)
’’ہم تم سے موسیٰ کے زیادہ چاہنے والے ہیں‘‘ پھر آپﷺ نے روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
سرکارﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خوشی منائی۔
حدیث: حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارﷺ نے فضیلت
جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے۔ اس
میں حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا (ابو
دائود‘ نسائی‘ ابن ماجہ‘ دارمی)
ہم ہر جمعہ حضرت آدم علیہ السلام کا میلاد مناتے ہیں کیونکہ سرکارﷺ نے فرمایا ہے۔
حدیث: سرکارﷺ شب معراج جب براق پر تشریف رکھ کر جانے لگے تو حضرت جبرئیل
علیہ السلام بیت اللحم پر آپ سے عرض کرتے ہیں کہ یہاں اتر کر دو رکعت نماز
پڑھیئے کیونکہ یہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت گاہ ہے (بحوالہ نسائی‘
طبرانی)
جب مقام ولادت انبیاء کی زیارت اور نماز پڑھنا سنت ہے تو پھر یوم ولادت منانا کتنا افضل ہوگا۔
سوال نمبر 4: صحابہ کرام علیہم الرضوان جو آپﷺ سے مثالی اور بے لوث محبت کرتے تھے‘ صحابہ کرام نے کبھی جشن عید میلاد النبیﷺ منایا؟
جواب نمبر 4: جی ہاں (صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی سرکارﷺ کا میلاد
منایا اور سرکارﷺ کے سامنے منعقد کیا۔ میرے رسولﷺ نے منع کرنے کے بجائے
خوشی کا اظہار فرمایا۔
جلیل القدر صحابی حضرت حسان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالتﷺ میں قصیدہ پڑھ کر جشن ولادت منایا کرتے تھے۔
حدیث: سرکارﷺ خود حضرت حسان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے منبر رکھا کرتے تھے
تاکہ وہ اس پر کھڑے ہوکر سرکارﷺ کی تعریف میں فخریہ اشعار پڑھے۔ سرکارﷺ
حضرت حسان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے لئے فرماتے۔ اﷲ تعالیٰ روح القدس (حضرت
جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعہ حسان کی مدد فرمائے (بحوالہ: بخاری شریف جلد
اول ص65)
حدیث: حضرت ابو درداء رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں سرکارﷺ کے ساتھ
حضرت عامر انصاری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے گھر گیا وہ اپنی اولاد کو حضورﷺ کی
ولادت کے واقعات سکھا رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ آج کا دن ہے۔ سرکارﷺ نے
اس وقت فرمایا۔ اﷲ تعالیٰ نے تم لوگوں کے واسطے رحمت کا دروازہ کھول دیا
اور سب فرشتے تم لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہیں جو شخص تمہاری طرح
واقعہ میلاد بیان کرے‘ اس کو نجات ملے گی۔ (بحوالہ رضیہ التنویر فی مولد
سراج المنیر)
میلاد کے لغوی اور اصطلاحی معنی محافل منعقد کرکے میلاد کا تذکرہ کرنا ہے
جو ہم نے دو حدیثوں سے ثابت کیا ہے۔ آپ لوگ میلاد کی نفی میں ایک حدیث لاکر
دکھا دو جس میںواضح طور پر یہ لکھا ہو کہ میلاد نہ منایا جائے۔ حالانکہ
کئی ایسے کام ہیں جو صحابہ کرام نے نہیں کئے مگر ہم اسے کرتے ہیں کیونکہ اس
کام کے کرنے سے منع نہیں کیا گیا ہے لہذا وہ کام جائز ہیں۔
سوال نمبر 5: رسول اﷲﷺ کے فرامین میں جس طرح عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کا
ذکر ملتا ہے‘ ان سے متعلق احکامات احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ کیا عید میلاد
النبیﷺ کا تذکرہ اور اس سے متعلق احکامات احادیث میں موجود ہیں؟
جواب نمبر 5: عید میلاد النبیﷺ اہل محبت کا تہوار ہے جو نہ فرض ہے نہ واجب۔
محبت والے کاموں کو واضح بیان نہیں کیا جاتا بلکہ اس کی جانب اشارہ کیا
جاتا ہے۔
القرآن ترجمہ: عیسٰی ابن مریم نے عرض کی اے اﷲ! اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے
ایک خوان نعمت اتار کہ وہ ہمارے لئے عید ہو‘ ہمارے اگلوں پچھلوں کی اور
تیری طرف سے نشانی۔
دلیل: حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ذریعے ہم تک یہ سوچ منتقل ہوئی کہ جس دن
خوان نعمت اترے‘ اس دن عید منائی جائے تو جس دن رحمتہ اللعالمینﷺ کی ولادت
ہو‘ وہ دن عید کیوں نہ ہو۔
حدیث شریف: حضرت ابو الباب بن عبدالمنذر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے کہ
سرکارﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور اﷲ کے ہاں تمام
سے عظیم ہے اور یہ اﷲ تعالیٰ کے ہاں یوم الاضحیٰ اور یوم الفطر دونوں سے
افضل ہے (مشکوٰۃ المصابیح باب الجمعہ)
حدیث شریف: حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکارﷺ نے
فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن
ہے۔ اس میں حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا گیا اور اسی میں ان کا وصال
ہوا (ابو دائود‘ ابن ماجہ‘ نسائی)
سرکارﷺ اشارتاً فرما گئے کہ اے میرے غلامو! اب تم خود سمجھ لو کہ جس دن
حضرت آدم علیہ السلام کی ولادت ہو‘ وہ دن عید کا دن ہو تو پھر وہ دن کتنا
مقدس ہوگا۔ جس دن میری اس دنیا میں ولادت ہوئی۔
اب ہمیں جان لینا چاہئے کہ جس دن سرکارﷺ کی ولادت ہوئی۔ وہ دن عیدالفطر‘
عیدالاضحیٰ جمعہ اور شب قدر سے بھی افضل ہے کیونکہ اسی رسولﷺ کے طفیل ہمیں
تمام تہوار نصیب ہوئے۔ سرکارﷺ نے اپنا میلاد خود منایا‘ پیچھے تفصیل گزر
چکی ہے۔
سوال نمبر 6: کیا رسول اﷲﷺ کی وفات کا دن تمام اہل سنت کے نزدیک متفقہ طور پر بارہ ربیع الاول نہیں ہے؟
جواب نمبر 6: یوں لگتا ہے کہ آپ نے اہل سنت کی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ اسی
لئے ایسا سوال کیا ہے۔ اہل سنت و جماعت کے نزدیک سرکار اعظمﷺ کا یوم وصال
دو ربیع الاول ہے۔ اگر آپ کے پاس کوئی مستند حوالے ہیں تو آپ ثابت کریں۔
جمہور علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ سرکارﷺ کا وصال دو ربیع الاول کوہوا‘
اس لئے اکثریت کی بات مانی جائے گی۔
سوال نمبر 7: کیا بارہ ربیع الاول کو رسول اﷲﷺ کی وفات کے دن صحابہ کرام غم سے نڈھال نہیں ہوگئے تھے؟
جواب نمبر 7: یہ بات پہلے بھی بیان کی گئی کہ سرکارﷺ کے وصال کی تاریخ دو
ربیع الاول ہے پھر آپ یہ سوال کریں گے کہ مہینہ تو ربیع الاول کا ہی تھا
پھر کیوں سوگ نہیں مناتے‘ جشن مناتے ہو۔ اسلام میں سوگ یا غم صرف تین روز
کا ہے۔
حدیث: ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم کسی وفات یافتہ پر تین روز کے بعد غم نہ
منائیں مگر شوہر پر چار ماہ دس دن تک بیوی غم منائے گی (بحوالہ: بخاری جلد
اول ص ۸۰۴‘ مسلم جلد اول ۴۸۶)
سرکار اعظمﷺ کے وصال کا غم صحابہ کرام نے تین دن منالیا۔ اب چودہ سو سال کے
بعد کون سا غم اور یہ بھی بتا دیجئے کہ کون سی حدیث سے ثابت ہے میلاد تو
حدیث سے ثابت ہے۔ نبی کے وصال کا غم منانے کا حکم ہوتا تو سرکارﷺ ہر جمعہ
حضرت آدم علیہ السلام یوم ولادت منانے کے بجائے یوم سوگ منانے کا حکم دیتے۔
الحمدﷲ! قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کرام‘ شہداء
اور صالحین اپنی قبور میں زندہ ہیں ۔جب سرکارﷺ حیات ہیں تو پھر غم کیسا؟
صحابہ کرام علیہم الرضوان غم سے اس لئے نڈھال ہوئے تھے کہ سرکارﷺ سے جدائی
ہوئی تھی نہ کہ وصال کی وجہ سے‘ کیونکہ میرے سرکارﷺ نے خود ارشاد فرمایا ہے
کہ
حدیث: سرکار اعظمﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری حیات میں بھی تمہارے لئے
بھلائی اور میرے وصال میں بھی تمہارے لئے بھلائی اور میں تم میں موجود ہوں۔
تمہاری رہنمائی کرتا ہوں۔ یہ تمہارے لئے بھلائی ہے اور میں وصال کے بعد
تمہارے لئے بخشش مانگتا رہوں گا‘ یہ بھی تمہارے لئے بھلائی ہے۔
سوال نمبر 8: کیا تیس‘ پینتیس سال پہلے ہمارے بھائی بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی کے بجائے بارہ وفات قرار نہیں دیتے تھے؟
جواب نمبر 8: ہم نے تو صرف چند بوڑھے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ بارہ وفات
ہے‘ جہاں تک احادیث کا تعلق ہے اس میں صاحب مشکوٰۃ نے مشکوٰۃ میں باب
باندھا اور اس باب کا نام میلاد النبیﷺ رکھا اور اس میں حضورﷺ کی ولادت کا
تذکرہ کیا۔
سعودی عرب کے کلینڈر میں ربیع الاول کے مہینے کی جگہ میلادی لکھا ہوا ہے۔
سینکڑوں محدثین نے کتابیں تحریر کیں‘ سب نے میلاد النبیﷺ کے حوالے سے لکھا۔
آشاس تعلیمی نصاب میں کوئی بارہ وفات کا باب نہیں ہے بلکہ جشن عید میلاد النبیﷺ کا باب ہے۔
اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ چند بوڑھے لوگوں کی بات مانی جائے گی یا محدثین کی بات مانی جائے گی۔
سوال نمبر 9: کیا ایسا کوئی عمل جو رسول اﷲﷺ اور صحابہ کرام علیہم الرضوان
کے اسوہ سے ثابت نہیں ہے‘ کرنا دین میں اضافہ اور بدعت نہیں ہے؟
جواب نمبر9: ہم نے میلاد کو سنت سے ثابت کردیا ہے کہ اب بدعت سے متعلق جواب دیتے ہیں۔
بدعت کی تعریف
بدعت کے لغوی معنی ہر وہ چیز جس کی پہلے سے مثال نہ ہو اور شریعت مطہرہ میں
جس کو کل بدعتہ ضلالتہ کہا گیا ہے۔ اس سے مراد ہر وہ کام جو قرآن و حدیث
کے مخالف ہو اور جو فعل قرآن و حدیث کے مخالف نہ ہو‘ اس کے متعلق حضورﷺ نے
اچھے ہونے کے خبر دی ہے۔
مثلا حضورﷺ کے ظاہری زمانے میں مسجدیں مکان کی مانند تھیں۔ مسجدوں میں
محرابیں بلند نہیں ہوتی تھیں‘ گنبد ومینار نہ ہوتے تھے‘ قرآن پر زیر‘زبر‘
پیش نہ ہوتے تھے۔ ان تمام باتوں کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام
حضورﷺ کے ظاہری زمانے میں نہ تھے‘ صحابہ کرام کے دور میں نہ تھے پھر کیسے
جائز ہوگئے؟ تو یہی جواب آئے گا کہ یہ دین کے کام ہیں اسی لئے جائز ہیں۔
اسی طرح یوم ولادت میں کیا ہوتا ہے۔ تلاوت ہوتی ہے‘ نعتیں پڑھی جاتی ہیں‘
سیرت بیان کی جاتی ہے‘ صدقہ و خیرات کئے جاتے ہیں‘ چراغاں کیا جاتا ہے پھر
دین کی بات کیسے بدعت ہوسکتی ہے۔ اب حدیث سنیئے۔
حدیث: سرکار اعظمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے دین میں کوئی اچھا طریقہ نکالا
اس کے لئے ثواب ہے اور اس پر عمل کرنے والوں کا ثواب بھی (بحوالہ : مسلم
شریف تیسری جلد ص ۷۱۸)
اگر آپ اب بھی نہ مانیں گے تو خود بھی پھنس جائیں گے کیونکہ سرکارﷺ اور
صحابہ کرام کے دور میں وہ کام بھی نہیں ہوتے تھے جو آپ کررہے ہیں۔
مثلا قرآن و حدیث کانفرنس‘ اہلحدیث کانفرنس‘ جہاد فی سبیل اﷲ کانفرنس‘ ان
جلسوں کی تاریخ اور دن مقرر کرنا‘ درس نظامی میں کتابیں اوراستادوں کی
تنخواہیں مقرر کرنا یہ سب اس دور میں نہ تھا۔
سوال نمبر 10: کیا رحمت کائناتﷺ کی صورت میں اﷲ تعالیٰ نے ہمیں جو عظیم
نعمت عطا فرمائی ہے اس نعمت پر اﷲ کی شکر گزاری کرنے کا طریقہ اس رسول کے
اسوہ کو اور اس کی لائی ہوئی شریعت کو اختیار کرنا نہیں ہے؟
جواب نمبر 10: میلاد منانا ہی اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا ہے۔ عید میلاد
النبیﷺ میں اﷲ تعالیٰ کی نعمت رسول اﷲﷺ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ذکر رسولﷺ
کرکے محفلیں منعقد کرکے اﷲ تعالیٰ کی نعمت کا چرچہ کرتے ہیں‘ رسول اﷲﷺ تمام
نعمتوں کے سردار ہیں۔ ان کا ذکر کرتے ہیں‘ نئے کپڑے پہن کر چراغاں کرکے
صدقہ و خیرات کرکے اﷲ تعالیٰ کی نعمت پر خوشی مناتے ہیں‘ اس کا حکم قرآن
مجید میں خود اﷲ تعالیٰ دیتا ہے۔
ترجمہ: تم فرمائو اﷲ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں۔ (سورہ یونس آیت ۵۸ پارہ ۱۱)
سوال نمبر 11: کیا رحمت عالمﷺ سے محبت کا سب سے بڑا ثبوت زندگی گزارنے کیلئے آپ کے طریقوں پر چلنا نہیں ہے؟
جواب نمبر 11: سرکارﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا واقعی میں محبت کی بنیاد ہے۔
مگر یاد رہے کہ جس سے محبت ہو‘ اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے محبت کرنی
چاہئے‘ میلاد سے عداوت رکھ کر سنتوں پر عمل کرنا یہ سچی محبت نہیں ہے‘ عیب
والی محبت ہے۔
سوال نمبر12: جو رسول ہمیں راستے میں کانٹوں یا پتھروں کی صورت میں پڑی
رکاوٹوں کو ہٹانے کی تعلیم دے کر گئے ہوں‘ آپ کا نام لے کر جلوس نکال کر
روڈ بلاک کرنا یہ ان کی تعلیم کے خلاف نہیں ہے؟
جواب نمبر 12: میلاد کے جلوس کو آپ تکلیف دینے کا باعث کہتے ہو‘ میلاد کا
جلوس سال میں ایک دن نکالا جاتا ہے وہ بھی چھٹی کا دن ہوتا ہے۔ آمد رسولﷺ
کا جلوس تو صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جب
سرکارﷺ کی مدینہ میں آمد ہوئی تو صحابہ کرام نے جلوس نکالا اور مرحبا کی
صدائیں لگائیں۔
جہاں تک بدمذہبوں کی بات ہے تو ہزاروں لوگ ہر دوسرے تیسرے ہفتے شہیدوں کی
غائبانہ نماز جنازہ میں روڈ بلاک کرتے ہیں‘ چودہ اگست کے دن ملک بھر سے
استحکام پاکستان کے نام سے ریلیاں نکالتے ہیں کیا اس وقت تعلیمات رسالت کا
خیال نہیں آتا۔ ملین مارچ اور صحابہ کرام کے ایام پر جلوس کہاں سے ثابت
ہیں؟
سوال نمبر 13: جونبی بہتے دریا سے وضو کرنے والوں کوبھی پانی کے اسراف سے
بچنے کی تعلیم دے کر گئے۔ آپ کا نام لے کر وسائل کا اسراف کہ اگر اس خرچ کو
جمع کیا جائے تو ہزاروں بے روزگاروں کو کاروبار کرایا جاسکتا ہے؟
جواب نمبر 13: سرکارﷺ کی ذات اور آپ کا مرتبہ اتنا بلند ہے کہ جس قدر
چراغاں کیا جائے‘ کم ہے۔ جہاں تک اسراف کا تعلق ہے تو یاد رکھئے جو کام کسی
نیک مقصد کے لئے کیا جائے وہ اسراف نہیں ہوتا۔
مثلا آپ لوگ اپنے جلسوں میں سینکڑوں ٹیوب لائٹیں لگاتے ہو صرف 5 یا دس ٹیوب
لائٹوں سے بھی کام ہوسکتا ہے۔ چار کروڑ کی مسجدیں بناتے ہو ‘ مسجد تو دو
کروڑ‘ ایک کروڑ میں بھی بن سکتی ہے مگر جواب یہی آئے گا کہ نیک مقصد ہے۔ جب
آپ لوگوں کا نیک مقصد ہے تو ہمارا بھی نیک مقصد ہے۔
پوری دنیا کے یتیم‘ مسکین‘ بے روزگار اور ناداروں کا خیال کیا صرف ربیع
الاول میں ہی آتا ہے؟ اپنی اولاد کی سالگرہ اور ان کی شادیوں پر لاکھوں
روپے خرچ کرنے سے پہلے یتیموں کا خیال کیوں نہیں آتا؟
سوال نمبر 14: کیا سالگرہ منانا یہود و نصاریٰ کی رسم نہیں ہے جن کی مخالفت کا اﷲ کے رسولﷺ نے حکم دیا ہے؟
جواب نمبر 14: ہم یوم ولادت مناتے ہیں۔ یوم ولادت منانا یہود ونصاریٰ کی
رسم نہیں ہے بلکہ خود حضورﷺ ہر پیر کو اپنا یوم ولادت مناتے تھے۔ ابو دائود
کی حدیث جو پیچھے گزری اس میں خود حضورﷺ نے حضرت آدم علیہ السلام کا یوم
ولادت منایا اور اسے دو عیدوں سے افضل قرارد یا‘ اس پر دلائل پیچھے گزر چکے
ہیں۔
سوال نمبر 15: کیا چراغاں کرنا اور جلوس نکالنا ہندو دھرم کی عبادتیں نہیں ہیں؟
جواب نمبر 15: چراغاں کرنا اگر ہندو دھرم کی عبادت ہے تو پھر بدمذہب اپنے
گھروں کو نہ بچاسکیں گے کیونکہ ان کے جلسوں‘ کانفرنسوں‘ افطار پارٹیوں‘
سالانہ اجتماع اور جہاد کانفرنسوں میں بھرپور چراغاں ہوتاہے پھر تو یہ بھی
ہندو دھرم کا حصہ کہلائے گا۔
جلوس نکالنا بھی اگر ہندو دھرم کی عبادت ہے تو پھرآپ لوگ لشکر طیبہ کے زیر
اہتمام چودہ اگست کے دن جلوس نکالتے ہو‘ ملک بھر میں ملین مارچ کا جلوس
نکالتے ہو‘ کیا اس پر بھی ہندو دھرم کا فتویٰ لگائو گے؟
بخاری شریف کی حدیث کے مطابق جب حضورﷺ مکے سے مدینے تشریف لائے تو صحابہ
کرام نے جلوس نکالا۔ چنانچہ آمد رسولﷺ کا جلوس تو صحابہ کرام سے ثابت ہے۔
بدمذہب اپنے جلوس کہاں سے ثابت کریں گے؟
سوال نمبر 16: کیا چراغاں اور پھر چوری کی بجلی سے کرنا جائز ہے؟
جواب نمبر 16: الحمدﷲ! پاکستان کے قانون میں چودہ اگست اور بارہ ربیع الاول دونوں تہواروں میں چراغاں کرنے کی مکمل اجازت ہے۔
دلیل نمبر 2: چوری وہ ہوتی ہے جو چھپ کر کی جائے‘ یہاں تو کھلے عام لائٹیں لگائی جاتی ہیں۔
دلیل نمبر 3: میلاد کے چراغاں پر فتویٰ لگانے والے اپنے گریبان میں جھانکیں
کیونکہ آپ خود اپنے جلسوں‘ کانفرنسوں اور اجتماعات میں جو چراغاں کرتے ہیں
اس بجلی کا بل کیا آپ اپنی جیب سے بھرتے ہیں۔ میلاد پر چراغاں کی حکومت
پاکستان کی طرف سے اجازت ہے۔ بدمذہبوں کو اجتماعات میں چراغاں کی اجازت کس
نے دی کیونکہ حکومت ان لوگوں کو جلسہ کرنے کی اجازت دیتی ہے چراغاں کی
نہیں۔ میلاد سے عداوت میں اپنے گھر کی خبر لینا بھول گئے۔
یاد رکھئے! زندہ قومیں اپنے رہنما کا دن نہیں بھولتی۔ کیا ہم اس کا یوم
منانا چھوڑ دیں جس کے صدقے ہر نعمت ملی‘ نماز‘ روزہ‘ حج‘ کلمہ‘ قرآن یہاں
تک کہ رحمن جل جلالہ‘ کی معرفت بھی ہمیں اپنے سرکارﷺ سے ملی۔
مجھے معلوم ہے کہ جنہوں نے نہ ماننے کی قسم کھا رکھی ہے وہ ان جوابات میں
سے بھی کیڑے نکالیں گے مگر مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے مسلک اہل سنت سے تعلق
رکھنے والے بھائی اپنا ایمان مضبوط رکھیں اور اپنے مسلک کی حقانیت پر ناز
کریں۔
اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی جان ومال‘ عزت و آبرو بالخصوص عقیدے اور ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں
مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...
-
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے اعضاء تناسلیہ کا بوسہ لینا اور مرد کو اپنا آلۂ مردمی اپنی بیوی کے منہ میں ڈالنا اور ہمبستری سے قبل شوہر اور...
-
شانِ حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ قرآن و حدیث کی روشنی میں محترم قارئینِ کرام : قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ یُطْعِمُوْ...
-
درس قرآن موضوع آیت : قُلۡ ہَلۡ یَسۡتَوِی الَّذِیۡنَ یَعۡلَمُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَ...
No comments:
Post a Comment