۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
11 : . عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَمَّا کَانَ لَيْلَةَ الْغَارِ قَالَ أَبُوْ بَکْرٍ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، دَعْنِي أَدْخُلْ قَبْلَکَ فَإِنْ کَانَ حَيَّةٌ اَوْ شَيئٌ کَانَتْ لِي قَبْلَکَ. قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : ادْخُلْ. فَدَخَلَ أَبُوْ بَکْرٍ، فَجَعَلَ يَلْتَمِسُ بِيَدِه، کُلَّمَا رَأَی جُحْرًا جَائَ بِثَوْبِه فَشَقَّه ثُمَّ أَلْقَمَهُ الْجُحْرَ حَتّٰی فَعَلَ ذَالِکَ بِثَوْبِه أَجْمَعَ. قَالَ : فَبَقِيَ جُحْرٌ فَوَضَعَ عَقِبَه عَلَيْهِ ثُمَّ أَدْخَلَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم. فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَأَيْنَ ثَوْبُکَ يَا أَبَا بَکْرٍ؟ فَأَخْبَرَه بِالَّذِي صَنَعَ، فَرَفَعَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَدَيْهِ وَقَالَ : اَللّٰهُمَّ، اجْعَلْ أَبَا بَکْرٍ مَعِي فِي دَرَجَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ. فَأَوْحَی اﷲُ لإِلَيْهِ أَنَّ اﷲَ تَعَالٰی قَدِ اسْتَجَابَ لَکَ. رَوَاهُ اَبُوْ نُعَيْمٍ.
11 : اخرجه ابو نعيم في حلرواية الاولياء، 1 / 33، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 240، ومحب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1 / 451.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا : (وقتِ ہجرت) جب غار (میں پناہ لینے) کی رات تھی تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! مجھے اجازت عنایت فرمائیے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے غار میں داخل ہوں تاکہ اگر کوئی سانپ یا کوئی اور چیز ہو تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بجائے مُجھے تکلیف پہنچائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جاؤ داخل ہو جاؤ۔ حضرت ابو بکرص داخل ہوئے اور اپنے ہاتھ سے ساری جگہ کی تلاشی لینے لگے۔ جب بھی کوئی سوراخ دیکھتے تو اپنے لباس کو پھاڑ کر سوراخ کو بند کر دیتے۔ یہاں تک کہ اپنے تمام لباس کے ساتھ یہی کچھ کیا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر بھی ایک سوراخ بچ گیاتو انہوں نے اپنی ایڑی کو اُس سوراخ پر رکھ دیا اور پھر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر تشریف لانے کی گزارش کی۔ جب صبح ہوئی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا : ’’اے ابو بکر ! تمھارا لباس کہاں ہے؟ تو انہوں نے جو کچھ کیا تھا اُس کے بارے بتا دیا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دُعا کی : اے اﷲ! ابو بکرص کو قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں رکھنا۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف وحی فرمائی کہ اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دُعا کو قبول فرما لیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
12. عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ اَنَّ نَفَرًا مِنْ قُرَيْشٍ فِيْهِمْ اَبُوْ سُفْيَانَ حَضَرُوْا قَتْلَ زَيْدٍ، فَقَالَ قَائِلٌ مِنْهُمْ : يَا زَيْدُ، اَنْشُدُکَ اﷲَ، اَتُحِبُّ اَنَّکَ الآنَ فِي اَهْلِکَ، وَاَنَّ مُحَمَّدًا عِنْدَنَا مَکَانَکَ نَضْرِبُ عُنُقَه؟ قَالَ : لَا، وَاﷲِ، مَا اُحِبُّ اَنَّ مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم يُشَاکُ فِي مَکَانِه شَوْکَةً تُؤْذِيْهِ، وَاَنِّي جَالِسٌ فِي اَهْلِي، قَالَ : يَقُوْلُ اَبُوْ سُفْيَانَ : وَاﷲِ، مَا رَاَيْتُ مِنْ قَوْمٍ قَطُّ اَشَدَّ حُبًّا لِصَاحِبِهِمْ مِنْ اَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم لَه. وفي روارواية : قَالَ : مَا رَأَيْتُ مِنَ النَّاسِ أَحَدًا يُحِبُّ کَحُبِّ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ مُحَمَّدًا (صلی الله عليه وآله وسلم).
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ وَالْقَاضِي عِيَاضُ وَابْنُ هِشَامٍ وَابْنُ جَرِيْرٍ.
12 : أخرجه ابن سعد في الطبقات الکبری، 2 / 56، وابن هشام في السيرة النبورواية، 4 / 125، وابن جرير الطبري في تاريخ الامم و الملوک، 2 / 79، وابن کثير في البدارواية والنها رواية (السيرة)، 4 / 65، وابن الاثير في اسد الغابة، 2 / 108، 155، 358، والقاضي عياض في الشفا، 2 / 19، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 649.
’’حضرت عاصم بن عمر بن قتادہ ث بیان کرتے ہیں کہ قریش کے چند افراد جن میں ابو سفیان بھی تھا حضرت زید رضی اللہ عنہ کے قتل کے وقت آئے اور ان میں سے کسی نے کہا : اے زید! تجھے اللہ کی قسم! (سچ سچ بتا) کیا تو پسند کرتا ہے کہ اس وقت تمہاری جگہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس ہوتے کہ ہم (نعوذ باﷲ) انہیں قتل کرتے اور تم اس وقت اپنے اہل و عیال کے پاس ہوتے؟ تو انہوں نے جواب دیا : نہیں!ک اللہ کی قسم! میں تو یہ بھی گوارا نہیں کرتا کہ میرے آقا و مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس آپ وقت جہاں بھی رونق افروز ہوں، کانٹا بھی چبھے کہ جس سے انہیں تکلیف پہنچے اور میں آرام سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ بیٹھا رہوں۔ راوی کہتے ہیں : ابو سفیان کہنے لگا : اللہ کی قسم! میں نے آج تک ایسی کوئی قوم نہیں دیکھی جو اپنے سردار سے اس طرح ٹوٹ کر محبت کرتی ہو جیسی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب ان سے کرتے ہیں۔‘‘ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہا : میں نے کسی کو کسی سے اتنی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے ہیں۔‘‘
اسے امام ابن سعد، قاضی عیاض، ابن ہشام اور ابن جریر طبری نے بیان کیا ہے۔
13. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ عَامِرِ بْنِ حُذَيْمٍ الْجَمْحِيِّ قَالَ : شَهِدْتُ مَصْرَعَ خُبَيْبٍ الْاَنْصَارِيِّ رضی الله عنه بِمَکَّةَ وَقَدْ بَضَعَتْ قُرَيْشٌ لَحْمَه ثُمَّ حَمَلُوْه عَلٰی جِذْعَةٍ، فَقَالُوْا : اَتُحِبُّ اَنَّ مُحَمَّدًا مَکَانَکَ؟ فَقَالَ : وَاﷲِ، مَا اُحِبُّ اَنِّي فِي اَهْلِي وَوَلَدِي وَاَنَّ مُحَمَّدًا صلی الله عليه وآله وسلم شِيْکَ بِشَوْکَةٍ، ثُمَّ نَادٰی : يَا مُحَمَّدُ (صلّی اﷲ عليک وسلم).
رَوَاهُ اَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالْعَسْقَلَانِيُّ.
13 : أخرجه ابو نعيم في حلرواية الاولياء، 1 / 246، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 21 / 162، والعسقلاني في فتح الباري، 7 / 384، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 622، 666.
’’حضرت سعید بن عامر بن حذیم جمحی روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے مکہ مکرمہ میں حضرت خبیب انصاری رضی اللہ عنہ کے مقام شہادت کی زیارت کی۔ جہاں مشرکینِ قریش ان کا گوشت نشتر سے (ٹکڑوں کی صورت میں) کاٹتے اور پھر اسے کھجور کے درخت پر لٹکا دیتے اور (شہید کرنے سے قبل) مشرکینِ قریش نے حضرت خبیب انصاری رضی اللہ عنہ سے کہا : کیا تم پسند کرتے ہو کہ (اس وقت) تمہاری جگہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہوتے؟ تو حضرت خبیب رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اللہ کی قسم! مجھے تو یہ بھی پسند نہیں کہ میں اپنے اہل و عیال میں (آرام کر رہا) ہوں اور (میرے آقا) محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی کانٹا بھی چبھے پھر آپ نے زور سے پکارا : یا محمد (صلّی اﷲ علیک وسلم)۔‘‘
اسے امام ابو نعیم، ابن عساکر اور عسقلانی نے روایت کیا ہے۔
14. عَنْ جَبَلَةَ بْنِ حَارِثَةَ، اَخِي زَيْدٍ، قَالَ : قَدِمْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، ابْعَثْ مَعِي اَخِي زَيْدًا، قَالَ : هُوَ ذَا، قَالَ : فَإِنِ انْطَلَقَ مَعَکَ لَمْ اَمْنَعْهُ، قَالَ زَيْدٌ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَاﷲِ، لَا اَخْتَارُ عَلَيْکَ اَحَدًا اَبَدًا، قَالَ : فَرَاَيْتُ رَاْيَ اَخِي اَفْضَلَ مِنْ رَاْيِي.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
14 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب زيد بن حارثه ص، 5 / 676، الرقم : 3815، وابن أبي عاصم في الاحاد والمثاني، 5 / 63، الرقم : 2600، وابن حبان في الثقات، 3 / 57، الرقم : 186، والبخاري في التاريخ الکبير، 2 / 217، الرقم : 2251، والحاکم في المستدرک، 3 / 237، الرقم : 4948، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 386، الرقم : 2192، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 132، الرقم : 1384.
’’حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بھائی، حضرت جبلہ بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! میرے ساتھ میرے بھائی حضرت زید رضی اللہ عنہ کو (گھر) بھیج دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ (تمہارا بھائی) یہ (موجود) ہے۔ اگر تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں اسے روکوں گا نہیں، حضرت زید رضی اللہ عنہ نے (فورًا) عرض کیا : یا رسول اللہ، اللہ کی قسم! میں آپ (کی غلامی) پر کسی (آزادی) کو ترجیح نہیں دوں گا۔ (پھر اسلام میں حضرت زید رضی اللہ عنہ کا مقام دیکھ کر) حضرت جبلہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے اپنی رائے سے زیادہ اپنے بھائی کے اس فیصلہ کو بہتر پایا۔‘‘
اسے امام ترمذی، ابن ابی عاصم، ابنِ حبان اور بخاری نے التاریخ الکبیر میں روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث حسن ہے۔ امام حاکم نے فرمایا : اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
15. عَنْ يَحْيَ بْنِ سَعِيْدٍ ... قَالَ سَعْدُ بْنُ رَبِيْعٍ رضی الله عنه لِاُبَيِّ بِنْ کَعْبٍ رضی الله عنه إِذَا جُرِحَ بِاُحُدٍ : فَاذْهَبْ إِلَيْهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاَقْرِئْهُ مِنِّيَ السَّلَامَ، وَاَخْبِرْهُ اَنِّي قَدْ طُعِنْتُ اثْنَتَي عَشْرً طَعْنَةً، وَاَنِّي قَدْ أُنْفِذَتْ مُقَاتِلِي، وَاَخْبِرْ قَوْمَکَ اَنَّه لَا عُذْرَ لَهُمْ عِنْدَ اﷲِ إِنْ قُتِلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَوَاحِدٌ مِنْهُمْ حَيٌّ. رَوَاهُ مَالِکٌ وَابْنُ سَعْدٍ.
15 : اخرجه مالک في الموطا، کتاب الجهاد، باب الترغيب في الجهاد، 2 / 465-466، وابن سعد في الطبقات الکبری، 3 / 524، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 590، وأيضًا في التمييد، 24 / 94.
’’امام یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ ۔ ۔ ۔ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے اس وقت جب وہ (حضرت سعد بن ربیع) میدانِ اُحد میں زخمی حالت میں تھے کہا کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم لگے ہیں اور میں نے اپنے مقابل کے جسم سے نیزہ آر پار کر دیا ہے۔ اپنے قبیلہ کے لوگوں سے کہنا کہ اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ ہوا اور تم میں سے ایک فرد بھی زندہ بچا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا کوئی بھی عذر قابلِ قبول نہ ہو گا۔‘‘ اسے امام مالک اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
16. عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها، قَالَتْ : جَائَ رَجُلٌ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّکَ لَأَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، وَإِنَّکَ لَاَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ اَهْلِي وَاَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وَلَدِي، وَإِنِّي لَاَکُوْنُ فِي الْبَيْتِ، فَاَذْکُرُکَ، فَمَا اَصْبِرُ حَتّٰی آتِيَکَ، فَانْظُرُ إِلَيْکَ، وَإِذَا ذَکَرْتُ مَوْتِي وَمَوْتَکَ عَرَفْتُ اَنَّکَ إِذَا دَخَلْتَ الْجَنَّةَ رُفِعْتَ مَعَ النَّبِيّيْنَ، وَاَنِّي إِذَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ حَسِبْتُ اَنْ لَا اَرَاکَ، فَلَمْ يَرُدَّ إِلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم شَيْئًا، حَتّٰی نَزَلَ جِبْرِيْلُ بِهٰذِهِ الْآيَةِ : ﴿وَمَنْ يُطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ . . . ﴾] النساء، 4 : 69، فَدَعَا بِه، فَقَرَاَهَا عَلَيْهِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَاَبُوْ نُعَيْمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ؟
16 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 1 / 152، الرقم : 477، وأيضًا في المعجم الصغير، 1 / 53، الرقم : 52، وابو نعيم في حلرواية الاولياء، 4 / 240، 8 / 125، والايثمي في مجمع الزوائد، 7 / 7، وابن کثير في تفسير القرآن العظیم، 1 / 524، والسيوطي في الدر المنثور، 2 / 182.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض گذار ہوا : یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان، اہل و عیال اور اولاد سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو بھی آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کرلوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام علیھم السلام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو اپنے درجے میں ہوں گا لہٰذا مجھے خدشہ ہے کہ کہیں میں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کی اس بات پر سکوت فرمایا، یہاں تک کہ حضرت جبرائیل ں یہ آیت مبارکہ لے کر اُترے:’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روز قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس شخص کو بلایا اور اسے یہ آیت پڑھ کر سنائی۔‘‘
اسے امام طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا : اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
17. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ : لَقَدْ ضَرَبُوْا رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی غَشِيَ عَلَيْهِ فَقَامَ أَبُوْ بَکْرٍ رضی الله عنه فَجَعَلَ اُنَادِي يَقُوْلُ : وَيْلَکُمْ أَتَقْتُلُوْنَ رَجُلًا أَنْ يَقُوْلَ رَبِّيَ اﷲُ؟ قَالُوْا : مَنْ هٰذَا؟ قَالُوْا : هٰذَا ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ الْمَجْنُوْنُ. رَوَاهُ اَبُوْ يَعْلٰی وَالْحَاکِمُ.
17 : اخرجه ابو يعلی في المسند، 6 / 362، الرقم : 3691، والحاکم في المستدرک، 3 / 70، الرقم : 4424، والمقدسي في الاحاديث المختارة، 6 / 221، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 17، والسيوطي في الدر المنثور، 7 / 285.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کفار و مشرکین نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس قدر جسمانی اذیت پہنچائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر غشی طاری ہو گئی۔ حضرت ابو بکرص (آئے اور) کھڑے ہو گئے اور بلند آواز سے کہنے لگے : تم تباہ و برباد ہو جاؤ، کیا تم ایک (معزز) شخص کو صرف اِس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ فرماتے ہیں کہ میرا رب اﷲ ل ہے؟ اُن ظالموں نے کہا : یہ کون ہے؟ (کفارو مشرکین میں سے کچھ) لوگوں نے کہا : یہ ابو قحافہ کا بیٹا ہے جو (عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) مجنوں بن چکا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔
18. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَمَا أَنَا وَالنَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم خَارِجَانِ مِنَ الْمَسْجِدِ، فَلَقِيَنَا رَجُلٌ عِنْدَ سُدَّةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ فَکَأَنَّّ الرَّجُلَ اسْتَکَانَ، ثُمَّ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَا أَعْدَدْتُ لَهَا کَبِيْرَ صِيَامٍ وَلَا صَلَاةٍ وَلَا صَدَقَةٍ وَلٰکِنِّي أُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه، قَالَ : أَنْتَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
18 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأحکام، باب القضاء والفتيا في الطريق، 6 / 2615، الرقم : 6734، ومسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب المرء مع من أحبّ، 4 / 2032-2033، الرقم : 2639.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معیت میں ایک مرتبہ مسجد سے نکل رہا تھا کہ مسجد کے دروازے پر ایک آدمی ملا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ وہ آدمی کچھ دیر تو خاموش رہا پھر اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں نے اس کے لیے بہت سے روزے، بہت سی نمازیں اور صدقہ وغیرہ (جیسے اَعمال) تو تیار نہیں کیے لیکن (اتنا ہے کہ) میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (قیامت کے روز) تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
19. عَنْ اَنَسٍ رضی الله عنه اَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم عَنِ السَّاعَةِ، فَقَالَ : مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : وَمَاذَا أَعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ : لَا شَيئَ إِلَّا أَنِّي أُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه صلی الله عليه وآله وسلم. فَقَالَ : أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بِشَيئٍ فَرَحَنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ. قَالَ أَنَسٌ : فَأَنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبَابَکْرٍ وَعُمَرَ وَأَرْجُوْ أَنْ أَکُوْنَ مَعَهُمْ بِحُبِّي إِيَاهُمْ، وَإِنْ لَمْ أَعْمَلْ بِمِثْلِ أَعْمَالِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
19 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عمر بن الخطاب أبي حفص القرشي العدوي، 3 / 1349، الرقم : 3485، و مسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب المرء مع من أحب، 4 / 2032، الرقم : 2639.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قیامت کے متعلق سوال کیا کہ (یا رسول اﷲ!) قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) میرے پاس تو کوئی شے نہیں۔ ماسوا اس کے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم (قیامت کے روز) اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت رکھتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں (یعنی تمام صحابہ کو) کبھی کسی خبر سے اتنی خوشی نہیں ہوئی جتنی خوشی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمانِ اَقدس سے ہوئی کہ تم اسی کے ساتھ ہو گے جس سے محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور حضرت ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما سے بھی محبت کرتا ہوں لہٰذا امید کرتا ہوں کہ ان کی محبت کے باعث میں بھی ان حضرات کے ساتھ ہی رہوں گا اگرچہ میرے اَعمال تو ان کے اعمال جیسے نہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
20. عَنْ اَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه اَنَّه قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، الرَّجُلُ يُحِبُّ الْقَوْمَ وَلَا يَسْتَطِيْعُ اَنْ يَعْمَلَ کَعَمَلِهِمْ، قَالَ : اَنْتَ يَا اَبَا ذَرٍّ، مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ. قَالَ : فَإِنِّي اُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَه صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : فَإِنَّکَ مَعَ مَنْ اَحْبَبْتَ. قَالَ : فَاَعَادَهَا اَبُوْ ذَرٍّ فَاَعًادَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم.
رَوَاهُ اَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالدَّارِمِيُّ وَالْبَزَّارُ بِإِسْنَادٍ جَيّدٍ.
20 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب أخبار الرجل الرجل بمحبته إليه، 4 / 333، الرقم : 5126، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 156، الرقم : 61416، 21501، والدارمي في السنن، 2 / 414، الرقم : 2787، والبزار في المسند، 9 / 373، الرقم : 395، وابن حبان في الصحيح، 2 / 315، الرقم : 556، والبخاري في الأدب المفرد / 128، الرقم : 351.
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں) عرض کیا : یا رسول اللہ! ایک آدمی کچھ لوگوں سے محبت کرتا ہے، لیکن ان جیسا عمل نہیں کرسکتا(تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابو ذر! تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تجھے محبت ہے۔ انہوں نے عرض کیا : میں تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ فرمایا : اے ابو ذر! تم یقینا اسی کے ساتھ ہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو۔ راوی کا بیان ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے پھر اپنا سوال دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی دوبارہ وہی جواب عطا فرمایا۔‘‘
اسے امام ابو داود، اَحمد، دارمی اور بزار نے اِسناد جید کے ساتھ روایت کیا ہے۔
No comments:
Post a Comment