۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال نمبر 2: اگر آپﷺ رب ذوالجلال کی طرف سے عطا کردہ ماکان و مایکون کا علم رکھتے ہوتے تو قافلے کو کوچ کرنے سے پہلے آپﷺ کو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہاکے قضائے حاجت کا علم ہوتا‘ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کو علم بھی تھا اور آپ اپنی بیوی کو وہیں چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپﷺ کو معلوم بھی تھا اور خالی کجاوہ اونٹ پر سوار کرکے روانہ ہوگئے؟
الجواب: لگتا ہے کہ جناب کی طبع نازک پر ماکان و مایکون کا علم بہت گراں گزر رہا ہے۔ مختصرا اتنا عرض ہے کہ بفضلہ تعالیٰ ہمارا دعویٰ بھی صحیح احادیث سے ماخوذ ہے۔ مفصل بحث ہم ان جوابات کے بعد لمحہ فکریہ کے عنوان کے تحت نقل کریں گے۔ محترم آپ کے خود ساختہ ممکن یا غیر ممکن سے فی الواقع وہ چیز ممکن نہیں بن جاتی۔ جب حکمت الٰہی اور حکم خداوندی ہو‘ علم کے باوجود بھی ایسا ممکن تو کیا اشد ضروری ہوجاتا ہے اور آپ کے خود ساختہ ناممکن کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ شاید آپ نے کسی عالم سے سنا ہو کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام حضرت سیدہ حاجرہ رضی اﷲ عنہا کو بھی اکیلے جنگل میں تنہا چھوڑ آئے تھے کیا آپ بھی اس کو ناممکن کہیں گے۔ جناب! حضرات انبیاء علیہم السلام کی آزمائش و صبر کا تحمل عامی بشر میں کہاں ہے؟ حضرت سیدہ کائنات صدیقہ بنت الصدیق ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا وہیں رہ جانا حکمت الٰہیہ سے تھا‘ ورنہ یہ بتلائیں کہ کیا کسی روایت میں یہ ملتا ہے کہ آقا کریمﷺ نے اس صحابی رضی اﷲ عنہ پر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہو‘ جن کی ڈیوٹی ہی حضرت سیدہ کائنات رضی اﷲ عنہا کے اونٹ کے لئے لگائی گئی تھی؟ ایسا کیوں ہوا؟ اس صحابی کو اس واقعہ کا ذمہ دار کیوں نہ ٹھہرایا گیا؟ قرآن مجید نے جہاں منافقین کی تردید فرمائی اور اپنوں کی توبہ کا حکم دیا حتی کہ بروایت صحیح بخاری ان اصحاب کو سزا بھی دی گئی۔ ان صحابی کو کسی نے کچھ نہ کہا کہ بلا تحقیق تم نے کجاوہ اونٹ پر سوار کردیا اور تمہیں یہ احساس بھی نہ ہوا کہ کجاوے میں سواری موجود ہی نہیں۔ کیا حضرت سیدہ کائنات رضی اﷲ عنہا کا وزن مبارک چھٹانک بھر کا تھا‘ کہ احساس تک نہ ہوسکا۔ اونٹ کی کوہان اوپر کی طرف ہوتی ہے اور کجاوہ درمیان سے خالی اور دونوں طرف سے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ کیا کجاوے کو ایک طرف سے اٹھاتے وقت یہ احساس بھی نہ ہوسکا کہ کجاوہ دونوں طرف سے برابر نہیں اٹھا رہا اور اس میں سواری نہیں ہے اور پھر آپ نے اتنا بھی نہ سوچا کہ عصمت نبویﷺ کا نگہبان و کارساز اﷲ تعالیٰ عزوجل ہے اور اﷲ جل شانہ کو تو اس کا علم تھا اور یہ علم بھی تھا کہ اس واقعہ سے منافقین کتنا طوفان بدتمیزی برپا کریں گے۔ عظمت نبویﷺ کو معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ محو کرنے کا کوئی دقیقہ نہ چھوڑیں گے لہذا اسی وقت ہی وحی مبارک نازل فرمادیتا کہ عصمت نبویﷺ کا مذاق اڑانے والوں کو موقع ہی نہ دیا جاتا۔ آپ یہ فرمایئے کہ نعوذ باﷲ من ذالک کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ جان بوجھ کر نبیﷺ کو بدنام کروانے کا موقع دیا یا اس میں حکمت الٰہیہ تھی؟ فیصلہ آپ پر ہے۔
سوال نمبر 3: یہ واقعہ سید کائناتﷺ کے ساتھ ایک طرف اولیائے کرام کے عالم الغیب ہونے کی نفی کرتا ہے۔ اگر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو ہار ڈھونڈتے ڈھونڈتے قافلے چلے جانے کا علم ہوتا تو کبھی لیٹ نہ ہوتیں۔ اگر وہ عالم الغیب ہوتیں جوکہ ام المومنین بھی ہیں اور اولیائے اﷲ میں سے بھی ہیں تو ان کا ہار گم بھی نہ ہوتا اور ڈھونڈنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی اس سے معلوم ہوا کہ برگزیدہ شخصیات جو آپ کا کجاوہ اٹھا کر اونٹ پر رکھنے والے تھے‘ وہ بھی اپنے عطائی علم کی وجہ سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا پنگوڑے میں ہونا اور نہ ہونا معلوم نہ کرسکے۔
الجواب: ہم پہلے ہی اپنے عقائد میں لکھ آئے ہیں کہ ہم لفظ علم الغیب کا اطلاق مخلوق پر نہیں کرتے لہذا اپنا یہ سوال اپنی ہی پٹاری میں سنبھال کر رکھیں‘ جب آپ کو اس عقیدے کا کوئی مل جائے تو اس سے یہ سوال کرنا ہم اس چیز کے قائل ہی نہیں۔ ہم رسول اﷲًﷺ کے علوم مبارکہ پر علم غیب کا اطلاق کرتے ہیں جوکہ منجانب الوحی میں اولیائے کرام پر وحی نہیں آتی لہذا علوم اولیاء کو کشف والہام کہا جاتا ہے نہ کہ عالم الغیب ہاں البتہ آپ کی جماعت کے اکابر اور آپ کے ہی پیارے شہید اسماعیل دہلوی اولیاء کرام پر وحی کے نزول کو مانتے ہیں بلکہ اولیائے کرام کو علم کے اعتبار سے انبیاء علیہم السلام کے برابر ہم استاد سمجھتے ہیں۔ ملاحظہ ہو صراط مستقیم
سوال نمبر4: اگر آپﷺ اورصحابہ کو عطائی علم کے تحت ماکان و مایکون کا علم ہوتا اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا ان کلمات کے ساتھ نفی نہ کرتیں فظننت ان القوم سیفقدوتنی فیرجعون الی میں نے خیال کیا کہ قوم مجھے گم پائے گی اور میری طرف لوٹ کے آئے گی۔ آپ بھی نبیﷺ اور صحابہ کرام کو عالم الغیب سمجھتی ہوتیں تو آپﷺ اور پوری قوم کی طرف گم پانے کی نسبت نہ کرتیں۔
الجواب: جناب بدگمانی گناہ کبیرہ ہے جس کا ارتکاب آپ بار بار کررہے ہیں۔ بتایئے کہ ہمارے اکابر کی کون سی تحریر سے یہ ثابت ہے کہ ہر صحابی رضی اﷲ عنہ اور ولی اﷲ رحمتہ اﷲ علیہ بھی بمثل نبیﷺ غیب اور ماکان و مایکون کا علم رکھتے ہیں۔ ہاتو برہانکم ان کنتم صادقین۔ لہذا یہ سوال بھی اپنی پٹاری میں بند رکھیں نہ ہمارا یہ عقیدہ ہے اور نہ ہی ہم اس کے جوابدہ ہیں۔ آپ کو کھلا چیلنج ہے کہ آپ یہ الفاظ ہمارے اکابر کی تحریر سے ثابت کردیں ورنہ لایعنی سوالات لکھ کر اپنے سوالات کا حجم بڑھانے کی کوشش نہ کریں۔
سوال 5: اگر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رضی اﷲ عنہا) خود کسی قسم کا عطائی علم رکھتی ہوتیں تو ان کو یہ کہنے کی ضرورت نہ پیش آتی کہ لوگ اہل افک کے بارے میں باتیں کررہے ہیں اور اس سلسلے میں مجھے شعور تک نہیں ہے۔
الجواب: یہ بھی آپ کا لایعنی اور بھونڈا سوال ہے۔ جس چیز کے ہم قائل ہی نہیں تو اس کا جواب ہمارے ذمہ ہی کیسے ہوسکتا ہے۔
سوال 6: اگر ام المومنین رضی اﷲ عنہا کے پاس علم غیب ہوتا جوکہ زوجیت نبیﷺ اور صحابیت کے درجے پر فائز تھیں تو وہ ام مسطح کے مسطح کو بر ابھلا کہنے پر بئس ماقلت کے کلمات نہ فرماتیں اور ام مسطح کی خبر دینے سے پہلے اہل افک کی طرف سے پھیلائی گئی باتوں کا علم ہوتا۔
الجواب: یہ سوال بھی ہمارے خلاف نہیں ہم آپ کو کھلا چیلنج کرچکے ہیں کہ جو عقائد آپ ہماری طرف منسوب کررہے ہیں۔ ان کا ثبوت فراہم کریں ورنہ آپ کی حیثیت محض ایک کذب سے زیادہ نہیں اور یہ سوالات ہمارے لئے حجت نہیں۔ مولوی صاحب ایک مولوی ہوتے ہوئے آپ کو اتنا علم بھی نہیں کہ فریق مخالف کا عقیدہ کیا ہے اور پھر اس پر گرفت کیسے کی جاتی ہے؟ یہ عجیب بات ہے کہ اتہامات تو لگائیں آپ اور جواب دیں ہم اور ہم پہلے بھی لکھ آئے ہیں کہ جب تک آپ ہمارے اکابر کی تحریر سے غیر نبی علیہ السلام حتی کہ صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے لے کر اولیائے کرام تک لفظ عالم الغیب کا اطلاق اور ماکان ومایکون کا اطلاق ثابت نہیں کرتے اس وقت تک آپ ہمارے نزدیک محض کاذب ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ آپ اس لقب سے کیسے گلوخلاصی کرواتے ہیں۔
سوال 7: اگرآپ ﷺ ماکان و مایکون کے عطائی علم کے ساتھ اس واقعہ کی حقیقت کو جانتے ہوتے تو پھر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اس خبر کا یقینی علم جاننے کے لئے اپنے والدین کے پاس جانے کی اجازت طلب نہ فرماتیں اور نہ ہی رسول اﷲﷺ ان کو والدین کے پاس جانے دیتے بلکہ اپنے عطائی علم کے ساتھ وہیں بیٹھے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی تسلی کروا دیتے۔
الجواب: یہ بھی آپ نے خوب بڑھانکی کہ حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا گویا معاذ اﷲ یہ عقیدہ رکھتی تھیں کہ یقینی علم حضورﷺ کے پاس نہیں بلکہ ان کے والدین کے پاس ہے۔ کیا حضرت ابوبکر الصدیق رضی اﷲ عنہ اور ان کی زوجہ محترمہ کے پاس وحی آتی تھی کہ سیدہ کائنات یقینی علم کے حصول کے لئے والدین کے پاس جانا چاہتی تھیں۔ کیا حضرت سیدہ کائنات حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے کہیں فرمایا کہ مجھے اجازت دیں کہ میںواقعہ کی تحقیق کے لئے اور یقینی علم حاصل کرنے کے لئے ہی والدین کے پاس جانا چاہتی ہوں؟ کیا اس واقعہ سے قبل سیدہ کائنات کبھی اپنے والدین کے گھر نہیں گئی تھی کہ سیدہ کائنات کی اجازت طلب کرنے کو بھی نفی علم پر محمول کیا جارہا ہے؟ نبی کریم رئوف رحیمﷺ سے تو آپ علم غیب کی نفی کررہے ہیں پھر آپ کے پاس علم غیب کہاں سے آگیا کہ آپ کو معلوم ہوگیا کہ سیدہ کائنات رضی اﷲ عنہا اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت اس لئے طلب کررہی تھیں کہ وہاں جاکر یقینی علم حاصل ہوجائے گا۔ آپ کے پاس اس لایعنی اعتراض سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے رسول اﷲﷺ سے اجازت ہی یہی کہہ کر مانگی کہ میں اپنے والدین کے پاس جاکر یقینی علم حاصل کروں جبکہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو لے کر آنے والے حضرت صفوان رضی اﷲ عنہ تھے نہ کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ۔ تو ان سے یقینی علم حاصل کرنے کے لئے آپﷺ نے بھیج دیا۔ مولوی صاحب یاد رکھیں علم نبویﷺ کے منکروں کا یہی حشر ہوتا ہے؟ جو آپ کا ہورہا ہے کہ کبھی تو آپ امام الانبیائﷺ پر معاذ اﷲ اتہام باندھ رہے ہیں‘ کبھی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی طرف غلط باتیں منسوب کررہے ہیں اور کبھی اہلسنت کی طرف غلط اور خودساختہ عقائد کی نسبت کررہے ہیں۔ مولوی صاحب حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا تو اپنے والدین سے اس بات کی تصدیق چاہتی تھیں کہ کیا واقعی لوگ اس قسم کی بکواسات کررہے ہیں؟ آپ نے اس کو یقینی علم بنادیا۔ یہ بات آپ رضی اﷲ عنہا رسول اکرمﷺ سے بھی پوچھ سکتی تھیں مگر آپ فرماتے ہیں ’’میرے اوپر رسول اﷲﷺ داخل ہوتے مجھے سلام کہا اور فرمایا۔ تمہارا کیا حال ہے۔ میں نے کہا آپ مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت دیتے ہیں؟ آپ کہتی ہیں میں اس وقت اپنے والدین سے اس خبر کی تصدیق کرنا چاہتی تھی‘ اﷲ کے رسولﷺ نے مجھے اجازت دے دی‘‘ یہ ترجمہ خود آپ کا اپنا کیا ہوا ہے کہ سیدہ کائنات رضی اﷲ عنہا نے حضورﷺ سے اجازت لیتے وقت اس قسم کی کوئی بات نہیں کی بلکہ روایت فرماتے وقت اپنے دل کا حال بیان فرمایا کہ میری اجازت مانگنے کا مقصد یہ تھا۔
No comments:
Post a Comment