Friday, 26 December 2014

(7) کیا میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ھے

(7) کیا میلاد النبی ﷺ منانا بدعت ھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عہدِ نبوی میں اِحداث فی الدین سے مراد

گزشتہ صفحات میں ’’بدعت‘‘ اور ’’اِحداث فی الدین‘‘ (دین میں نئے کاموں کے آغاز) پر علمی و قیاسی گفتگو کی گئی کہ ہر وہ نیا کام جس پر دلیل شرعی موجود ہو شرعاً بدعت نہیں اگرچہ لغوی اعتبار سے وہ بدعت ہوگا۔ اب ان کی عملی و اِطلاقی صورت بیان کی جاتی ہے کہ وہ کون سے اُمور یا معاملات ہیں جن پر بدعات و محدثات کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس کے لیے ایک قاعدہ اور ضابطہ متعین ہونا چاہیے کہ قیامت تک کے لیے اِسی قاعدہ اور کلیہ پر کسی بھی معاملہ کو پرکھ کر ہم یہ کہہ سکیں کہ یہ بدعت ضلالہ اور اِحداث فی الدین ہے۔ ذیل میں ہم اِس حوالہ سے چند روایات نقل کریں گے :

1۔ اِحداث فی الدین یعنی کفر و اِرتداد کے فتنوں کا آغاز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوری بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

أنا فرطکم علی الحوض وليرفعن رجال منکم، ثم ليختلجن دونی. فأقول : يا رب! أصحابی؟ فيقال : إنک لا تدری ما أحدثوا بعدک.

1. بخاری، الصحيح، کتاب الرقاق، باب فی الحوض، 5 : 2404، رقم : 6205

2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلی الله عليه وآله وسلم ، 4 : 1796، رقم : 2297

3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 439، رقم : 4180

’’میں حوضِ کوثر پر تمہارا پیش رَو ہوں گا اور تم میں سے کچھ آدمی مجھ پر پیش کیے جائیں گے، پھر وہ مجھ سے جدا کر دیے جائیں گے، تو میں کہوں گا : اے میرے رب! کیا یہ میرے لوگ ہیں؟ تو کہا جائے گا : کیا آپ نہیں جانتے کہ اُنہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئی چیزیں نکالیں (یعنی نئے فتنے بپا کیے)؟‘‘

2۔ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : لا ألْفَيَنَّ ما نوزعْتُ أحداً منکم علي الحوض. فأقول : هذا من أصحابی. فيقال : إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک. قال أبو الدردائ : يا نبي اﷲ! ادع اﷲ أن لا يجعلني منهم. قال : لست منهم.

1. طبرانی، المعجم الأوسط، 1 : 125، رقم : 397

2. طبرانی، مسند الشاميين، 2 : 311، رقم : 1405

3. ابن أبی عاصم، السنة، 2 : 357، رقم : 767

4. ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 1 : 50، رقم : 129

5. هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 9 : 367، 10 : 365

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تم میں سے کسی ایک کو نہ پاؤں جس کو میرے پاس حوض پر آنے سے روک دیا جائے تو میں کہوں : یہ میرے لوگوں میں سے ہیں۔ تو کہا جائے : کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئے فتنے پیدا کیے؟ ابو درداء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ میں ان میں سے نہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ان میں سے نہیں ہو۔‘‘

اِس حدیث مبارکہ میں الفاظ - لست منھم (تم ان میں سے نہیں ہو) - سے پتہ چلا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتنہ پروروں کو جانتے تھے، اِس لیے حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے فرما دیا کہ وہ ان میں سے نہیں ہیں، دین میں بدعات کا آغاز کرنے والے اور لوگ ہیں۔

3۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :

قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : إني ممسک بحجزکم هلمّ عن النار، وأنتم تهافتون فيها أو تقاحمون تقاحم الفراش في النار والجنادب يعني في النار، وأنا ممسک بحجزکم، وأنا فرط لکم علی الحوض، فتردون علي معاً وأشتاتاً، فأعرفکم بسيماکم، وأسمائکم کما يعرف الرجل الفرس. وقال غيره : کما يعرف الرجل الغريبة من الإبل في إبله - فيؤخذ بکم ذات الشمال، فأقول : إلیّ يا رب! أمتي أمتي. فيقول أو يقال : يا محمد! إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک، کانوا يمشون بعدک القهقری.

1. بزار، البحر الزخار (المسند)، 1 : 314، 315، رقم : 204

2. قضاعی، مسند الشهاب، 2 : 175، رقم : 1130

3. سدوسی، مسند عمر بن الخطاب ص، 1 : 84

4. منذری، الترغيب و الترهيب من الحديث الشريف، 1 : 318، رقم : 1169

5. هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 3 : 85

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے روکنے والا ہوں اور تم اس میں ایک دوسرے سے بڑھ کر گرتے ہو۔ یا (فرمایا : ) تم پروانوں اور ٹڈیوں کی طرح آگ میں گرتے ہو اور میں تمہیں کمر سے پکڑنے والا ہوں اور میںحوضِ کوثر پر تمہارا پیش رَو ہوں گا، پس تم میرے پاس اکیلے اور گروہ در گروہ آؤ گے تو میں تمہاری نشانیوں اور ناموں سے تمہیں ایسے پہچانتا ہوں گا جیسے آدمی اپنے گھوڑے کو پہچانتا ہے۔ (اور اس راوی کے علاوہ نے کہا : ) جیسے ایک آدمی اجنبی اونٹ کو اپنے اونٹوں میں پہچان لیتا ہے۔ پس تمہیں بائیں طرف سے لے جایا جائے گا تو میں کہوں گا : اے میرے رب! میری امت! میری امت! تو وہ فرمائے گا یا کہا جائے گا : اے محمد! آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا نئے فتنے پیدا کیے؟ وہ آپ کے بعد الٹے پاؤں پھر گئے تھے یعنی مرتد ہوگئے تھے۔‘‘

اِسی مضمون کی اور بھی بہت سی اَحادیث وارد ہوئی ہیں جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد قریبی زمانہ میں ’’اِحداث‘‘ کا ذکر ہے اور اِحداث سے مراد دین میں ایسے بڑے فتنوں کا اِجراء لیا گیا ہے جو دین کو ہی بدل دیں۔ علاوہ ازیں احادیث مبارکہ سے اس امر کی نشان دہی بھی ہوتی ہے کہ خلفائے راشدین کے دور میں محدثات الامور اِرتداد کے فتنوں کی شکل میں ظاہر ہوئے، ان کا ارتکاب کرنے والے وہ تھے جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں اِسلام قبول کر لیا اور بعد میں مرتدین، منکرینِ زکوٰۃ، جھوٹے مدعیانِ نبوت اور خوارج میں شامل ہوگئے۔ ہمارے اس موقف کی تائید حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متعدد احادیث مبارکہ سے ہوتی ہے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

4۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں :

قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : تحشرون حفاة عراة غرلاً، ثم قرأ {کَمَا بَدَأنَا اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِيْدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلِيْنَo}فأول من يکسی إبراهيم، ثم يؤخذ برجال من أصحابي ذات اليمين وذات الشمال. فأقول : أصحابي. فيقال : إنهم لم يزالوا مرتدّين علی أعقابهم منذ فارقتهم. فأقول : کما قال العبد الصالح عيسی بن مريم : {وَکُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا َتوَفَّيْتَنِيْ کُنْتَ أَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَاَنْتَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ شَهِيْدٌo اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمُo}.(2)

قال محمد بن يوسف : ذُکر عن أبي عبد اﷲ، عن قبيصة، قال : هم المرتدون الذين ارتدّوا علی عهد أبي بکر، فقاتلهم أبوبکر رضی الله عنه .(3)

الأنبيائ، 21 : 104

(2) المائدة، 5 : 117، 118

(3) 1. بخاری، الصحيح، کتاب الأنبيائ، باب قول اﷲ : واذکر في الکتاب مريم إذ انتبذت من أهلها، 3 : 1271، 1272، رقم : 3263

2. بخاری، الصحيح، کتاب الأنبيائ، باب قول اﷲ : واتخذ اﷲ إبراهيم خليلا، 3 : 1222، رقم : 3171

3. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب صفة القيامة، باب ما جاء فی شأن الحشر، 4 : 615، رقم : 2423

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، غیر مختون حالت میں جمع کیے جاؤ گے۔ پھر آیت مبارکہ تلاوت کی : {جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا، ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اُسی عمل تخلیق کو دہرائیں گے۔ یہ وعدہ پورا کرنا ہم نے لازم کر لیا ہے۔ ہم (یہ اِعادہ) ضرور کرنے والے ہیںo} پس سب سے پہلے اِبراہیم کو (خلعت) پہنائی جائے گی، پھر میرے لوگوں کو دائیں اور بائیں سے پکڑا جائے گا تو میں کہوں گا : کیا یہ میرے لوگ ہیں؟ تو کہا جائے گا : جب سے آپ ان سے جدا ہوئے ہیں، بے شک وہ الٹے پاؤں دین سے پھر کر مرتد ہوگئے ہیں۔ تومیں کہوں گا : جیسا اللہ کے صالح بندہ عیسيٰ بن مریم نے کہا : {اور میں اُن (کے عقائد و اَعمال) پر (اُس وقت تک) خبردار رہا جب تک میں ان لوگوں میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان (کے حالات) پر نگہبان تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہےo اگر توانہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں، اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی بڑا غالب حکمت والا ہےo}

’’محمد بن یوسف کہتے ہیں کہ ابو عبد اللہ سے ذکر کیا گیا، وہ قبیصہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا : یہ وہی مرتدین ہیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں دین سے پھر گئے تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا تھا۔‘‘

5۔ حضرت اَسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اﷲ عنہما روایت کرتی ہیں :

قال النّبيّ صلی الله عليه وآله وسلم : إني علی الحوض حتی أنظر من يرد علي منکم، وسيؤخذ ناس دوني. فأقول : يارب! مني ومن أمتي؟ فيقال : هل شعرت ما عملوا بعدک؟ واﷲ! ما برحوا يرجعون علی أعقابهم.

فکان بن أبي مليکة يقول : اللّهم! إنا نعوذ بک أن نرجع علی أعقابنا أو نفتن عن ديننا.

1. بخاري، الصحيح، کتاب الرقاق، باب في الحوض، 5 : 2409، رقم : 6220

2. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات حوض نبينا صلی الله عليه وآله وسلم وصفاته، 4 : 1794، رقم : 2293

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں حوض پر ہوں گا یہاں تک کہ تم میں سے اپنے پاس آنے والوں کو دیکھوں گا، اور عنقریب کچھ لوگوں کو میرے پاس آنے سے روک دیا جائے گا۔ پس میں کہوں گا : اے میرے رب! کیا یہ مجھ سے اور میری امت سے ہیں؟ تو کہا جائے گا : آپ یقینًا جانتے تو ہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ اللہ کی قسم! وہ (دین سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔

’’ابن ابی ملیکہ کہا کرتے تھے : اے اللہ! بے شک ہم (دین سے) الٹے پاؤں پھرنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں یا اس سے کہ ہم اپنے دین کے بارے آزمائش میں ڈالے جائیں۔‘‘

6۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں :

قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : أنا علی الحوض أنظر من يرد علي، فيؤخذ ناس دوني. فأقول : يارب! مني ومن أمتي؟ فيقال : وما يدريک ما عملوا بعدک؟ ما برحوا بعدک يرجعون علی أعقابهم.

1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 384، رقم : 15161

2. هيثمی، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، 10 : 364

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں حوضِ کوثر پر اپنے پاس آنے والوں کو دیکھوں گا، تو کچھ لوگوں کو مجھ سے دور کر دیا جائے گا۔ پس میں کہوں گا : اے میرے رب! کیا یہ مجھ سے ہیں اور میرے امتی ہیں؟ تو کہا جائے گا : کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا؟ وہ آپ کے بعد (دین سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے۔‘‘

مذکورہ بالا اَحادیث مبارکہ سے ہمارا موقف - کہ محدثات الامور سے مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد نمودار ہونے والے فتنے ہیں جو کہ ارتداد کی شکل میں ظاہر ہوئے - درج ذیل نکات سے مزید واضح ہوتا ہے :
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث مبارکہ کے اگلے حصہ میں ہمارے موقف پر مرفوع متصل روایت موجود ہے کہ

’’إنهم لم يزالوا مرتدين علی أعقابهم منذ فارقتهم

(جونہی آپ ان سے جدا ہوئے وہ اپنی ایڑیوں کے بل دین سے پھر رہے ہیں)۔‘‘ پس اِحداث کے مرتکب لوگوں کو حدیث میں صراحتًا مرتدین کہا گیا ہے۔
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی حدیث کے آخر میں امام بخاری نے محدث قَبِیصہ بن عقبہ کا درج ذیل قول نقل کیا ہے جو ہمارے موقف کا مؤید ہے :

هم المرتدّون الذين ارتدّوا علی عهد أبي بکر، فقاتلهم أبوبکر رضی الله عنه .

’’(ان سے مراد) وہ مرتدین ہیں جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں دین سے پھر گئے تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے قتال کیا تھا۔‘‘
امام بخاری نے ہی حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اﷲ عنہما سے مروی روایت بیان کرنے کے بعد ابن ابی ملیکہ تابعی کا قول نقل کیا ہے۔ ابن ابی ملیکہ فرمایا کرتے تھے :

اللّهم! إنا نعوذ بک أن نرجع علی أعقابنا أو نفتن عن ديننا.

’’اے اللہ! بے شک ہم (دین سے) الٹے پاؤں پھرنے سے تیری پناہ چاہتے ہیں یا اس سے کہ ہم اپنے دین کے بارے آزمائش میں ڈالے جائیں۔‘‘
مذکورہ حدیث مبارکہ میں ما برحوا يرجعون علی أعقابهم (وہ (دین سے) اُلٹے پاؤں پھر گئے تھے)، يا ما برحوا بعدک يرجعون علی أعقابهم (وہ آپ کے بعد (دین سے) الٹے پاؤں پھر گئے تھے) سے بھی ہمارے بیان کردہ معنی کی تائید ہوتی ہے۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تو ابو درداء رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا نبی اللہ! آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ میں ان میں سے نہ ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ان میں سے نہیں ہو۔

امام طبرانی اپنی کتاب ’’مسند الشامیین (2 : 311، رقم : 1405)‘‘ میں اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

فمات قبل عثمان بسنتين.

’’وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وصال سے دو سال قبل وفات پاگئے۔‘‘

اِس سے معلوم ہوا کہ اِحداث فی الدین سے مراد خلفائے راشدین کے دور میں وقوع پذیر ہونے والا فتنہ اِرتداد تھا۔

6۔ زیرِ نظر موقف کی وضاحت کرنے کے لیے ایک اور روایت نہایت ہی اہم ہے جسے امام حاکم نے ’’المستدرک علی الصحیحین‘‘ میں کبیر تابعین میں سے ایک تابعی حسین بن خارجہ سے روایت کیا ہے۔ انہوں نے فتنہ اولی کے بعد اپنا ایک خواب بیان کیا ہے جس میں وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابراہیم ں کا مکالمہ ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے اپنی امت کے لیے دعائے مغفرت کے لیے کہا تو انہوں نے فرمایا :

إنک لا تدري ما أحدثوا بعدک، أراقوا دماء هم وقتلوا إمامهم.

حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 4 : 499، رقم : 8394

’’کیا آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد (دین میں) کیا کیا محدثات (یعنی فتنے) بپا کیے؟ انہوں نے اپنوں کا خون بہایا ہے اور اپنے امام کو قتل کیا ہے۔‘‘

حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (2 : 172، رقم : 1979)‘‘ اور ابن عبد البر نے ’’التمہید لما فی الموطا من المعانی والاسانید (19 : 222)‘‘ میں اِمام حاکم کی بیان کردہ روایت میں مذکور ’’الفتنۃ الاولی‘‘ کے الفاظ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے موقع پر اُمتِ مسلمہ میں پیدا ہونے والا فتنہ مراد لیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے فتنہ پرور لوگ ہی دین میں بدعت کے مرتکب ہوئے اور یہی لوگ بدعتی کہلائے۔ یہی وہ فتنہ پرور، متعصب اور انتہاء پسند لوگ تھے جو جنگِ صفین کے بعد خارجی گروہ پیدا کرنے کی بنیاد بنے۔
عہدِ خلفائے راشدین میں رُونما ہونے والے محدثات الامور

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے فوراً بعد عہدِ خلفائے راشدین کے زمانہ میں جو بڑے بڑے ’’محدثات‘‘ (دین میں نئے فتنے) پیدا ہوئے - جن کو بدعات کہا گیا اور جن کے خلاف جہاد بالسیف کیا گیا - درج ذیل ہیں :

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...