۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: بدعت دو طرح کی ہے، بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:"جو کوئي اسلام ميں اچھا طريقه جاري کرے اسے اس کا ثواب ملے گا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گےاور ان کے ثواب میں سے کچھ کم نہ ہوگا ، یونہی جو کوئی اسلام میں برا طریقہ جاری کرے اسے اپنے عمل کا گناہ بھی ہوگا اور ان لوگوں کا بھی جو اس کے بعد اس پر عمل کریں گے اور ان کے گناہ میں کچھ کمی نہ ہوگی۔(صحيح مسلم ، كتاب العلم، باب من سن سنة حسنة)
اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ دین میں کوئی نیا اچھا کام شروع کرنا باعث ثواب جاریہ ہے، اور ایسا کام بدعت حسنہ کہلاتا ہے، اور اگر کوئی ایسا نیا کام جاری کیا جو قرآن وحدیث کے مخالف ہو تو وہ برا ہے اور بدعت سیئہ کہلاتا ہے۔ اگر آپ اس کا انکار کریں اور يه کہیں كه ہر بدعت بري ہے تو صرف اس بات کا جواب دے دیجئے کہ حضرت سيدنا عمر رضی اللہ تعاليٰ عنہ نے باجماعت تراویح کے بارے میں فرمایا: نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ، یہ کیا ہی اچھی بدعت ہے۔(صحيح بخاري، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان)
کیا باجماعت تراویح (جسے حضرت سيدنا عمر رضي الله تعاليٰ عنہ بدعت فرما رہے ہیں)گمراہی اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے؟
No comments:
Post a Comment