Sunday 14 December 2014

مسئلہ استمداد : ۔ قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں

0 comments
مسئلہ استمداد : ۔ قرآن و حدیث اور مستند دلائل کی روشنی میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہلسنت والجماعت کے نزدیک استمدادِ اولیا اللہ کا عقیدہ برحق ہے اور اس کی گواہی قرآن وسنت اور اقوالِ آئمہ سے آگے پیش کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے یہ بتاتا چلوں کے اہلسنت والجماعت کے نزدیک اولیا اللہ سے مدد صرف توسل ہے یعنی حقیقی مدد اللہ عزوجل ہی کی جانب سے ہوتی ہے اور چونکہ انبیا واولیا اللہ عزوجل کے فیض کے مظہر ہیں اس لیے انہیں فیضِ الہٰی کا واسطہ سمجھ کر ان سے مدد مانگنا جائز ہے۔ جیسے مثال کے طور پر بھکاری بھی جب آپ سے بھیک مانگتا ہے اور جواب میں کچھ نہیں ملتا تو طرح طرح کے واسطے دیتا ہے کہ اپنے بچوں کے نام پر کچھ دے دو، اپنے اہل وعیال کے نام پر کچھ دے دو۔

اولیاء اللہ اور انبیاء کرام سے مدد مانگنا جائز ہے جبکہ عقیدہ یہ ہو کہ حقیقی امداد تو رب تعالٰی ہی کی ہے یہ حضرات اس کے مظہر ہیں اور مسلمان کا یہ ہی عقیدہ ہوتا ہے۔ ہاں غیراللہ سے اس عقیدہ سے مدد مانگنا کہ بغیر عطائے الہٰی اپنی ذات سے مدد کریں تو یہ عقیدہ بیشک باطل ہے اور اس کی تردید علما و فقہا نے واضح الفاظ میں کی ہے۔ لیکن بغیر دلیل مسلمان کی نیت پر شک کرنا بھی غلط ہی ہے، کوئی جاہل سے جاہل مسلمان بھی کسی ولی کو خدا نہیں سمجھتا۔

قرآنِ کریم میں اس ضمن میں اتنی واضح آیات وارد ہیں۔

وَلَوْ أَنَّهُمْ رَضُوْاْ مَآ آتَاهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ وَقَالُواْ حَسْبُنَا ٱللَّهُ سَيُؤْتِينَا ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَرَسُولُهُ إِنَّآ إِلَى ٱللَّهِ رَاغِبُونَ۔(سورۃ التوبہ آیت 59)۔
اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللّٰہ و رسول نے ان کو دیا اور کہتے ہمیں اللّٰہ کافی ہے اب دیتا ہے ہمیں اللّٰہ اپنے فضل سے اور اللّٰہ کا رسول، ہمیں اللّٰہ ہی کی طرف رغبت ہے۔

أَغْنَاهُمُ ٱللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ۔(سورۃ التوبہ آیت 74)۔
انکو اللہ اور رسول نے اپنے فضل سے غنی کر دیا۔

وَمَآ أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ لِيُطَاعَ بِإِذْنِ ٱللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوۤاْ أَنْفُسَهُمْ جَآءُوكَ فَٱسْتَغْفَرُواْ ٱللَّهَ وَٱسْتَغْفَرَ لَهُمُ ٱلرَّسُولُ لَوَجَدُواْ ٱللَّهَ تَوَّاباً رَّحِيماً۔(سورۃ النسا آیت 64)۔
اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لئے کہ اللّٰہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللّٰہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔

فَلَمَّآ أَحَسَّ عِيسَىٰ مِنْهُمُ ٱلْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنصَارِيۤ إِلَى ٱللَّهِ قَالَ ٱلْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ ٱللَّهِ آمَنَّا بِٱللَّهِ وَٱشْهَدْ بِأَنَّا مُسْلِمُونَ۔(سورۃ آل عمران آیت 52)۔
پھر جب عیسٰی نے اُن سے کفر پایا بولا کون میرے مددگار ہوتے ہیں اللّٰہ کی طرف حواریوں نے کہا- ہم دین خدا کے مدد گار ہیں ہم اللّٰہ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں

وَتَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلْبرِّ وَٱلتَّقْوَىٰ وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَى ٱلإِثْمِ وَٱلْعُدْوَانِ۔(سورۃ المائدہ آیت 2)۔
اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو۔

يٰأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوۤاْ إِن تَنصُرُواْ ٱللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ۔(سورۃ محمد آیت 7)۔
اے ایمان والو اگر تم دینِ خدا کی مدد کرو گے اللّٰہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے۔

وَإِن يُرِيدُوۤاْ أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ ٱللَّهُ هُوَ ٱلَّذِيۤ أَيَّدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِٱلْمُؤْمِنِينَ۔(سورۃ الانفال آیت 62)۔
اور اگر وہ تمہیں فریب دیا چاہیں تو بیشک اللّٰہ تمہیں کافی ہے وہی ہے جس نے تمہیں زوردیا اپنی مدد کا اور مسلمانوں کا۔

فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاَهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلاَئِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ۔(سورۃ التحریم آیت 4)۔
تو بیشک اللّٰہ ان کا مددگار ہے اور جبریل اور نیک ایمان والے اور اس کے بعد فرشتے مدد پر ہیں۔

إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ أَلَنْ يَكْفِيكُمْ أَن يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاَثَةِ ءَالَٰفٍ مِّنَ ٱلْمَلاۤئِكَةِ مُنزَلِينَ۔(سورۃ آعمران آیت 124)۔
جب اے محبوب تم مسلمانوں سے فرماتے تھے کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد کرے تین ہزار فرشتہ اتار کر۔

قَالَ إِنَّمَآ أَنَاْ رَسُولُ رَبِّكِ لأَهَبَ لَكِ غُلاَماً زَكِيّاً۔(سورۃ المریم آیت 19)۔
اے مریم میں تمہارے رب کا قاصد ہوں۔ آیا ہوں تاکہ تم کو پاک فرزند دوں۔

قرآن میں منکرینِ استمدادِ اولیا کا احوال بھی بیان فرمادیا گیا۔

أُوْلَـٰئِكَ ٱلَّذِينَ لَعَنَهُمُ ٱللَّهُ وَمَن يَلْعَنِ ٱللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيراً۔(سورۃ النسا آیت 52)۔
یہ ہیں جن پر اللّٰہ نے لعنت کی اور جسے خدا لعنت کرے تو ہر گز اس کا کوئی یار نہ پائے گا

بستان المحدثین میں شاہ عبدالعزیز صاحب، شیخ ابو العباس احمد زردنی کے یہ اشعار نقل کرتے ہیں۔

انا لمریدی جامع لشتاتہ
اذا مامطی جور الزمان بنکبتہ
وان کنت فی ضیق وکرب وحشتہ
فناد بیاز زوق ات بسرعتہ

میں اپنے مرید کی پراگندگیوں کو جمع کرنے والا ہوں
جبکہ زمانہ کی مصیبتیں اس کو تکلیف دیں
اگر تو تنگی یا مصیبت یا وحشت میں ہو
تو پکار کہ اے زروق ! میں فوراً آؤں گا

قصیدہ نعمانیہ میں امامِ اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ یوں بیان کرتے ہیں

یا اکرم الثقل،ین یا کنز الورٰی
بدلی بجودک وارضنی برضاک
انا طامع بالجود منک لم یکن
لابی حنیفہ فی الانام سواک

اے موجودات سے اکرم اور اور نعمت الٰہی کے خزانے جو اللہ نے آپ کو دیا ہے مجھے بھی دیجئے اور اللہ نے آپ کو راضی کیا ہے مجھے بھی راضی فرما دیجئے۔ میں آپ کی سخاوت کا امیدوار ہوں آپ کے سوا ابو حنیفہ کا خلقت میں کوئی نہیں۔

گنج بخش فیضِ عالم مظہرِ نورِ خدا
ناقصاں را پیرِ کامل کاملاں راہ رہنما

یہ شعر کسی "بریلوی" کا نہیں بلکہ خواجہ خواجگان حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رضی اللہ عنہ کا ہے۔ کسی میں دم ہے تو لگائے فتوٰی حضرت خواجہ صاحب پر۔ تاکہ ہم بھی ان مفتیوں کے فتاوٰی کا معیار دیکھیں۔

شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں؛
آج اگر کسی شخص کو کسی خاص روح سے مناسبت پیدا ہوجائے اور وہ اکثر اوقات اس سے فیضان حاصل کرے تو در حقیقت وہ فیضان حاصل کرتا ہے اس بزرگ کے ذریعے نبیِ کریمﷺ سے یا حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یا حضرت غوث اعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے۔ بس یہی مناسبت تمام ارواح میں ہے۔(حیات الموات، ص 55)۔

یہی شاہ ولی اللہ دہلوی فرماتے ہیں؛
اس فقیر نے شیخ ابو طاہرکردی سے خرقہ ولایت پہنا اور انہوں نے جواہرِ خمسہ کے اعمال کی اجازت دی۔ اسی جواہرِ خمسہ میں ہے کہ یہ دعا پانچ سوبار پڑھے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کہ وہ عجائبات کے مظہر ہیں، تو انہیں مصیبتوں میں اپنا مددگار پائے گا۔ ہر پریشانی اور غم، یا نبیﷺ آپ کی نبوت، اور یا علی رضی اللہ عنہ آپ کی ولایت کے صدقے میں فوراً دور ہوجاتا ہے۔ یاعلی یاعلی یاعلی۔(الانتباہ فی سلاسل اولیا، ص 157)۔

مولوی اسماعیل دہلوی جو کہ دیوبندیوں اور غیرمقلدین میں یکساں معتبر ہیں اپنی کتاب صراط مستقیم میں لکھتے ہیں؛
حضرت علی المرتضیٰ کے لئے شیخین پر بھی ایک گونہ فضیلت ثابت ہے اور وہ فضیلت آپکے فرمانبرداروں کا زیادہ ہونا اور مقامِ ولایت بلکہ قطبیت اور غوثیت اور ابدالیت اور ان ہی جیسے باقی خدمات آپ کے زمانے سے لیکر دنیا کے ختم ہونے تک آپ ہی کی وساطت سے ہونا ہے۔ اور بادشاہوں کی بادشاہت اور امیروں کی امارت میں آپ کو وہ دخل ہے جو عالمِ ملکوت کی سیر کرنے والوں پر مخفی نہیں۔(صراط مستقیم، ص 98۔

یہی اسماعیل دہلوی اپنے پیر سید احمد بریلوی کے بارے میں لکھتے ہیں؛
جناب حضرت غوث الثقلین اور جناب حضرت خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی روحِ مقدس آپکے حال پر متوجہ حال ہوئیں۔(صراط مستقیم، ص 242۔

اشرف تھانوی بھی شجرہ چشتیہ صابریہ امدادیہ میں کہتے ہیں کہ؛

کھولدے دل میں درِ علم حقیقت میرے اب
ہادئ عالم علی مشکل کشا کے واسطے

یہی تھانوی صاحب لاہور میں حضور داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پر حاضری دینے کے بعد کہتے ہیں؛
بہت بڑے شخص ہیں۔ عجیب رعب ہے، وفات کے بعد بھی سلطنت کررہے ہیں۔(سفرنامہ لاہور و لکھنؤ، ص 50)۔

ہماری گذارش ہے کہ خدارا کچھ خوف کریں۔ اگر آپ سے ان نفوسِ قدسیہ کی شان برداشت نہیں ہوتی تو نہ کریں بیان لیکن اس طرح دشنام طرازیاں کرکے کیوں عذابِ الہٰی کو دعوت دیتے ہیں۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔