Tuesday, 23 December 2014

ایک اھم سوال : ۔ غُصّہ کی کس حالت میں طلاق ھو جاتی ھے اور کس حالت میں نھیں یہ اھم سوال آیا نام جان بوجھ کر حذف کر دیئے ھیں سوال باقی ھے آپ بھی جواب پڑھیں شائید کسی کا بھلا ھو جائے ۔ نوٹ : ۔ اھل علم کہیں غلطی پائیں تو فقیر سے ان بکس میں رابطہ فرما کر فقیر کی اصلاح فرمائیں جزاک اللہ خیرا ۔

ایک اھم سوال : ۔ غُصّہ کی کس حالت میں طلاق ھو جاتی ھے اور کس حالت میں نھیں یہ اھم سوال آیا نام جان بوجھ کر حذف کر دیئے ھیں سوال باقی ھے آپ بھی جواب پڑھیں شائید کسی کا بھلا ھو جائے ۔ نوٹ : ۔ اھل علم کہیں غلطی پائیں تو فقیر سے ان بکس میں رابطہ فرما کر فقیر کی اصلاح فرمائیں جزاک اللہ خیرا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( واقعہ کچھ یوں ہے کہ گھریلو معاملات پر ناچاقی کی صورت میں میرے شوہرِ نامدار جو کہ ڈاکٹروں کے مطابق عرصہ سے ہائی بلڈ پریشر (فشارِ خون) کے مریض ہیں اور اپنے غصہ پر ضبط رکھنا ان کے لیے انتہائی مشکل ہے، غصے کی حالت میں بے قابو ہو کر انہوں نے مجھ پر دست درازی (مار پیٹ) کی جس کے رد عمل میں مجھ سے کوئی گستاخی سرزد ہو گئ، اس صورت حال کے پیش نظر انہوں نے مجھے ایک دفعہ کہا کہ "میں تجھے طلاق دیتا ہوں " اور جواباً میں نے بھی عرض کر دیا کہ "ٹھیک ہے" اور بعد میں انہوں نے یہی الفاظ مزید تین دفعہ دہرا دئیے کہ میں تجھے طلاق دیتا ہوں۔ جس کے بعد ہم نے علیحدگی اختیار کر لی اور گفتگو سے بھی اجتناب کیا، کچھ ہی دنوں کے بعد انہوں نے بذریعہ (اولاد) رجوع کی خواہش کا اظہار کیا، مگر میں نے اس بات کے جواب میں کہہ بھیجا کہ میں ان سے بات کرنا نہیں چاہتی۔ پھر ایک ماہ گزر جانے کے بعد انہوں نے بذات خود مجھے فون کر کے رجوع کی خواہش کا اظہار کیا اور مجھ سے معذرت بھی کی اور کہا کہ انہوں نے قطعاً ارادۃ طلاق نہیں دی اور جو کچھ بھی ہوا وہ انتہائی غصہ کی حالت میں ہوا۔ اس پر وہ انتہائی پشیمان اور شرمندہ ہیں۔ اس پر مجھے بھی اپنی غلطی (گستاخی) پر پشیمانی ہوئی اور میں نے بھی ان سے معذرت کی۔ پھر ایک ماہ کے بعد ہم نے آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے سے معذرت کی اور رجوع کی خواہش کا ایک دورے سے اظہار کیا، اب تقریباً 6 ماہ گزر چکے ہیں خاندانی مسائل بھی در پیش ہیں اور دینی حوالہ سے بھی یہ معاملہ کافی حل طلب ہے، بعض علماء سے گفتگو کے بعد اب آخر میں آپ سے رجوع کر رہی ہوں، تاکہ آپ کے فتویٰ کے بعد آخری فیصلہ کر سکوں۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب:

غصہ کی جو حالت آپ نے بتائی ہے اس میں طلاق ہو یا کوئی اور معاملہ، اس پر قانون لاگو نہیں ہوتا، لہٰذا شرعاً طلاق نہیں ہوئی، توبہ کریں اور آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا۔ اسلام اور دنیا بھر کا قانون شدید غصہ کی حالت کو پاگل پن اور جنون قرار دیتا ہے اور مجنوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا۔ فقہاء غصہ کی تین حالتیں بیان کرتے ہیں :

أحدها أن يحصل له مبادی الغضب بحيث لايتغيرعقله ويعلم مايقول ويقصده وهذالااشکال فيه.

الثانی أن يبلغ النهاية فلا يعلم ما يقول ولا يريده فهذا لاريب أنه لاينفذ شئی من اقواله.

الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر کالمجنون فهذا محل النظر والأدلة تدل علی عدم نفوذ أقواله.

پہلی یہ کہ ابتدائی حال ہو، عقل میں تبدیلی نہ آئے اور آدمی جانتا ہو کہ کیا کہہ رہا ہے اور کس کا ارادہ ہے اس میں اشکال نہیں کہ طلاق ہو جائے گی۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ غصہ انتہا کو پہنچ جائے اسے پتہ نہ چلے کہ کیا کہتا ہے اور کیا ارادہ ہے اس صورت میں بلاشبہ ا س کا کوئی محل نافذ نہ ہو گا۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان ہو کہ انسان پاگل کی طرح نہ ہو جائے یہ قابل غور ہے دلائل کی روشنی میں اس صورت میں بھی اس کی کسی بات کا اعتبار نہ ہوگا۔

(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421)

مايزيل العقل فلايشعرصاحبه بماقال وهذالايقع طلاقه بلانزاع.

مايکون فی مبادية بحيث لايمنع صاحبه من تصورمايقول وقصده فهذايقع طلاقه.

أن يستحکم ويشتد به فلا يزيل عقله بالکلية ولکن يحول بينه و بين نيته بحيث يندم علی ما فرط منه اذا زال فهذا محل نظر و عدم الوقوع فی هذه الحالة قوی متجه.

ایک یہ کہ غصہ اتنا زیادہ ہوکہ عقل انسانی قائم نہ رہے اورپتہ ہی نہ ہوکہ اس نے کیا کہا اس صورت میں بلا اختلاف تمام فقہاء کے نزدیک طلاق واقع نہیں ہوتی۔

دوسراغصہ ابتدائی درجہ کا ہے کہ انسان جو کہہ رہا ہوتا ہے وہ پوری طرح سمجھتا ہے اس میں طلاق ہو جاتی ہے۔

تیسرا درمیانہ درجہ کا غصہ ہے جو سخت ہوتا ہے اور وہ انسان کی عقل پر غالب آ جاتا ہے مگر انسانی عقل قائم رہتی ہے لیکن دل کی نیت و ارادہ کے بغیر محض شدتِ غصہ سے طلاق سرزد ہو جاتی ہے، وہ اپنے آپ پر قابو نہیں پا رہا ہوتا پھر طلاق سرزد ہونے کے بعد نادم ہوتا ہے۔ افسوس کرتا ہے۔ یہ صورت غور طلب ہے۔ اس حالت میں قوی اور معقول بات یہ ہے کہ طلاق نہ ہوگی۔

(ابن قيم، زاد المعاد، 5 : 215، مؤسسة الرسالة، مکتبة المنار، بيروت الکويت، سن اشاعت، 1407ه)

علامہ شامی مزید فرماتے ہیں :

الجنون فنون.

(جنون کئی قسم کاہوتاہے)

(ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دار لفکر للطباعة والنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه)

معلوم ہواجو شدید غصہ میں ہو وہ ایک قسم کے وقتی مرض میں مبتلاہوتا ہے، قرآن کریم میں مریض کے بارے میں ہے :

ولَاعَلَی الْمَرِيْضِ حَرَجٌ.

’’اور نہ بیمار پر کوئی گناہ ہے‘‘۔

النور، 24 : 61

مفسرین کرام اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

فالحرج مرفوع عنهم فی هذا.

’’جو مریض لوگ ہیں مرض کی حالت میں ان سے حرج و تنگی اور گرفت اٹھالی گئی ہے‘‘۔

عبدالرحمن بن محمد، تفسير الثعالبی، 3 : 127، مؤسسه الأعلمی للمطبوعات بيروت
قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دارالشعب، القاهره
أبو محمد عبدالحق بن غالب عطية الأندلسی، المحرر الوجيز فی تفسير الکتاب العزيز، 4 : 195، دار الکتب العلمية، لبنان، سن اشاعت 1413ه

مزید علامہ قرطبی بیان کرتے ہیں :

فبينت هذه الاٰية انّه لا حرج علی المعذورين.

اس آیت مبارکہ نے بیان کر دیا کہ معذور لوگوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔

قرطبی، جامع لاحکام القرآن، 12 : 313، دار الشعب، القاهره

دوسری آیت کریمہ ہے :

وَمَا جَعَلَ عَلَيْکُمْ فِی الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ.

’’اس (اﷲ تعالیٰ) نے تم پر دین میں کچھ تنگی نہ رکھی‘‘۔

الحج، 22 : 78

امام ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاصّ الحنفی اس آیت کریمہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں ، ابن عباس رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ’’حرج کا مطلب ہے تنگی۔‘‘

ان کے شاگرد مجاہد فرماتے ہیں :

ويحتجّ به فی کل ما اختلف فيه من الحوادث ان ما ادی الی الضيق فهو منفی وما اوجب التوسعة فهو اولٰی.

’’اس آیت کریمہ سے مختلف حوادث و واقعات میں یہ دلیل پکڑی جا سکتی ہے کہ جو حکم تنگی پیدا کرے اس کا وجود نہیں اور جو فراخی و آسانی پیدا کرے وہی بہتر ہے۔‘‘

آیت کریمہ کا مطلب ہے کہ دین میں کوئی ایسی تنگی نہیں جس سے چھٹکارے کا راستہ نہ ہو۔

جصاصّ، احکام القرآن، 3 : 251، طبع لاهور

امام رازی فرماتے ہیں :

الضيق ’’تنگی‘‘

امام رازی، تفسير الکبير، 23 : 73، طبع طهران

امام قاضی بیضاوی فرماتے ہیں :

ضيق بتکليف مايشتد القيام به عليکم.

’’تنگی، ایسی تکلیف کا حکم دیکر جس پر قائم رہنا تم پر سخت ہو‘‘۔

يضاوی، انوار التنزيل و اسرار التأويل، 2 : 50، طبع مصر
محمود آلوسی، روح المعانی، 17، 190، طبع تهران. ايران

حدیث پاک میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

رفع القلم عن ثلاثة عن المجنون المغلوب علی عقله وعن النائم حتی يستيقظ وعن الصبی حتی يحتلم.

’’تین قسم کے لوگوں پرقانون لاگو نہیں ہوتا مجنوں جس کی عقل پر غصہ غالب ہو، سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے اور بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے۔‘‘

حاکم، المستدرک، 2 : 68، رقم 2351، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه

ابن حبان، الصحيح، 1 : 356، رقم 143، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1414ه

ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 348، رقم 3048، ، المکتب الاسلامی، بيروت، سن اشاعت1390ه

نسائی، السنن الکبری، 4 : 323، رقم 7343، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه

ابو داؤد، السنن، 4 : 140، رقم 4401، دار الفکر

دار قطنی، السنن، 3 : 138، رقم 173، دار المعرفة، بيروت، سن اشاعت 1386ه

هندی، کنز العمال، 4 : 98، رقم 10309، دارالکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1419ه

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی يستيقظ وعن الغلام حتی يحتلم وعن المجنون حتی يفيق.

’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک سمجھدار نہ ہو جائے۔‘‘

ابن حبان، الصحيح، 1 : 355، رقم 142، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1414ه

ابوداؤد، السنن، 4 : 141، رقم 4403، دارالفکر

ييهقی، السنن الکبری، 3 : 83، رقم 4868، مکتبة دار الباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1414ه

امام نسائی اور ابن ماجہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲعنھا کی روایت کو چند الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ بیان کیا ہے :

رفع القلم عن ثلاثة عن النائم حتی يستيقظ وعن الصغيرحتی يکبروعن المجنون حتی يعقل أويفيق.

’’تین قسم کے لوگوں پر قانون لاگو نہیں ہوتا سونے والا جب تک بیدار نہ ہو جائے، چھوٹا (بچہ) جب تک بڑا (بالغ) نہ ہو جائے اور مجنوں جب تک عقل مند یعنی سمجھدار نہ ہو جائے۔‘‘

نسائی، السنن الکبری، 4 : 323، رقم 7343، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه

ابن ماجه، السنن، 1 : 658، رقم 2041، دارالفکر، بيروت

حضر ت عائشہ صدیقہ رضی اﷲتعالیٰ عنہافرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :

لا طلاق و لاعتاق فی اغلاق.

’’شدید غصہ میں نہ طلاق ہے نہ ہی غلام آزاد کرنا‘‘۔

حاکم، المستدرک، 2 : 216، رقم 2802، دار الکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت 1411ه

ابوداؤد، السنن، 1 : 258، رقم 2193، دار الفکر

ابن ماجه، السنن، 1 : 660، رقم 2046، دار الفکر، بيروت

بيهقی، السنن، 7 : 357، رقم 14874، مکتبة دار الباز مکة المکرمة، سن اشاعت 1414ه

دار قطنی، السنن، 4 : 36، رقم 99، دار المعرفة، بيروت، سن اشاعت 1386ه

ابن ابی شيبه، المصنف، 4 : 73، رقم 18038، مکتبة الرشد الرياض، سن اشاعت 1409ه

أبو يعلی، المسند، 7 : 421، رقم 4444، دار المأمون للتراث دمشق، سن اشاعت 1404ه

احمد بن حنبل، المسند، 6 : 276، رقم 26403، مؤسسة قرطبه، مصر

شاميين، المسند، 1 : 287، رقم 500، مؤسسة الرسالة، بيروت، سن اشاعت 1405ه

علامہ عینی’’عمدۃ القاری‘‘میں اور عبداﷲ بن یوسف الزیلعی’’نصب الرایہ (شرح ھدایہ)‘‘میں لکھتے ہیں :

قال أبوداؤد’’الغلاق أظنّه الغضب‘‘

امام ابوداؤد نے کہا’’میرے خیال میں اغلاق کا معنی غصہ ہے۔‘‘

عينی، عمدة القاری، 20 : 250، دار احياء التراث العربي، بيروت

عبداﷲ بن يوسف، نصب الراية، 3 : 223، دارالحديث، مصر، سن اشاعت 1357ه

محمدبن ابی بکرایوب الزرعی المعروف بابن القیم الجوزی الدمشقی متوفی 157ھ بھی اغلاق کامعنی’’غصہ‘‘ہی بیان کرتے ہیں ۔

محمدبن ابی بکر، زادالمعاد، 5 : 214، مؤسسةالرسالة مکتبةالمنار، بيروت الکويت، سن اشاعت1407ه

ایک اورحدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

کل طلاق جائزالاطلاق المعتوه.

’’ہرطلاق نافذہوتی ہے سوائے مدہوش کی(دی ہوئی)طلاق کے۔‘‘

ابن انی شيبه، المصنف، 4 : 72، رقم17912، 17914، مکتبة الرشدالرياض، سن اشاعت1409ه

عبدالرزاق، المصنف، 6 : 409، رقم11415، المکتب الاسلامی، بيروت

علی بن جعد، المسند، 1 : 120، رقم742، مؤسسةنادر، بيروت، سن اشاعت1410ه

کل طلاق جائزالاطلاق المعتوه والمغلوب علی عقله.

’’ہرطلاق نافذہوتی ہے سوائے مدہوش کی(دی ہوئی)طلاق کے جس کی عقل پرغصہ غالب ہو۔‘‘

ترمذی، السنن، 3 : 496، رقم1191، داراحياء التراث العربي، بيروت

هندی، کنزالعمال، 9 : 278، 27771، دارالکتب العلمية، بيروت، سن اشاعت1419ه

فقہائے کرام کے نزدیک شدیدغصہ میں دی جانے والی طلاق کی حیثیت درج ذیل ہے۔

أرادبالجنون من فی عقله اختلال، فيدخل المعتوه وأحسن الأقوال فی الفرق بينهماأن المعتوه هوالقليل الفهم المختلط الکلام الفاسدالتدبيرلکن لايضرب ولايشتم بخلاف الجنون ويدخل المبرسم والمغمی عليه والمدهوش.

جنون(پاگل پن)کامطلب ہے کسی کی عقل میں خرابی وخلل آنا، اس میں معتوہ شامل ہے، دونوں میں فرق کرنے میں بہترین قول یہ ہے کہ معتوہ کامطلب ہے کم فہم، جس کی گفتگومیں غلط اورصحیح خلط ملط ہولیکن معتوہ(مغلوب الغضب)نہ مارتاہے نہ گالی گلوچ بکتاہے، بخلاف مجنوں (پاگل)کے اس میں سرسام والا، بیہوش اور مدہوش داخل ہیں ۔

ابن نجيم الحنفی، البحرالرائق، 3 : 268، دارالمعرفة، بيروت

فالذی ينبغی التعويل عليه فی المدهوش ونحوه اناطةالحکم بغلبةالخلل فی أقواله وأفعاله الخارجةعن عادته، وکذايقال فيمن اختلّ عقله لکبرأولمريض أولمصيبةفاجأ ته فمادام فی حال غلبةالخلل فی الاقوال والافعال لاتعتبراقواله وان کان يعلمهاويريدهالأن هذه المعرفةوالارادةغيرمعتبرةلعدم حصولهاعن ادراک صحيح کمالاتعتبرمن الصبی العاقل.

مدہوش وغیرہ کی قابل اعتمادبات یہ ہے کہ اس صورت میں حکم شرعی کا مدار اس کے اقوال وافعال میں عادت سے ہٹ کر اور اس کے خلاف بیہودگی و خرابی پائی جانے سے ہے یوں جس کی عقل میں بڑھاپے، بیماری اور کسی اچانک مصیبت کی بنا پر خلل آجائے تو اس کے اقوال و افعال جب تک یہ کیفیت غالب رہے گی، اس کی باتوں کا اعتبار نہ ہو گا ۔اگرچہ ان کو جانتا ہو اور ان کا ارادہ کرے کہ یہ جاننااور ارادہ کرنا معتبر نہیں اس لیے کہ ادراک صحیح سے حاصل نہیں ہوا جیسے عقلمند بچے کی بات کا اعتبار نہیں ۔

ابن عابدين، ردالمحتار، 3 : 244، دارلفکرللطباعةوالنشر، بيروت، سن اشاعت 1421ه

عالمگيری 1 : 353، طبع کوئته

الکاسانی، بدائع الصنائع، 3 : 100

هدايه مع فتح القدير، 3 : 343، طبع سکهر

عبدالرحمن الجزری ’’الفقه علی المذاهب الاربعة‘‘

ميں لکھتے ہيں

والتحقيق عندالحنفيةأن الغضبان الذی يخرجه غضبه عن طبيعته و عادته بحيث يغلب الهذيان علی أقواله وأفعاله فان طلاقه لايقع، وان کان يعلم مايقول ويقصده لأنه يکون فی حالةيتغيرفيهاادراکه، فلايکون قصده مبنياعلی ادراک صحيح، فيکون کالمجنون، لان المجنون لايلزم أن يکون دائمافی حالةلايعلم معهامايقول : فقديتکلم فی کثيرمن الأحيان بکلام معقول، ثم لم يلبث أن يهذی.

’’حنفیہ کے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ وہ غصہ والاشخص جسے اس کاغصہ اس کی طبیعت اورعادت سے اس طرح باہرکردے کہ اس کی باتوں اوراس کے کاموں پربے مقصدیت غالب آجائے اس کی طلاق واقع نہ ہوگی، اگرچہ وہ جانتاہوکہ وہ کیاکہہ رہاہے اورارادہ سے ہی کہتاہوکیونکہ وہ ایسی حالت میں ہوتاہے کہ جس میں اس کاادراک یعنی سوجھ بوجھ میں تغیراورتبدیلی آجاتی ہے لہٰذا اس کا قصد و ارادہ صحیح شعور و صحیح ادراک پر مبنی نہیں ہوتا، پس وہ (مجنوں و دیوانہ تو نہیں ہوتا لیکن وقتی طور پر) مجنوں کی طرح ہو جاتا ہے، کیونکہ ضروری نہیں کہ مجنوں ہمیشہ ویسی حالت میں رہے کہ جو کہے اسے اس کاپتہ نہ ہو بلکہ بعض اوقات میں وہ معقول (عقل مندوں کی طرح) باتیں کرتا ہے، پھر اوٹ پٹانگ مارنا شروع کر دیتا ہے۔

عبد الرحمن الجزيری، کتاب الفقه علی المذاهب الأربعة، 4 : 294-295، دار احياء التراث العربی، بيروت. لبنان

شیخ الاسلام امام احمد رضا قادری بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ بھی فرماتے ہیں : ـ غضب اگر واقعی اس درجہء شدّت پر ہو کہ حدِّ جنون تک پہنچا دے تو طلاق نہ ہو گی۔

امام احمد رضا، فتاوٰی رضويه، 12 : 378، مسئله : 146

امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرّہ کے خلیفہ و تلمیذ خاص علامہ امجد علی اعظمی مرحوم اپنی شہرہ آفاق کتاب میں لکھتے ہیں :

’’یونہی اگرغصہ اس حدکاہوکہ عقل جاتی رہے تو(طلاق)واقع نہ ہوگی۔‘‘

امجد علی، بهار شريعت، 8 : 7، طبع لاهور

صورت مسئولہ میں آپ کے بقول طلاق کے وقت آپ غصہ کی ایسی کیفیت میں تھے جس میں انسان کو اپنے اوپر کنٹرول نہیں رہتا، لہٰذا ایسی کیفیت میں طلاق نہیں ہوتی، آپ پہلے کی طرح اپنی ازدواجی زندگی گزار سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ

حضرت فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی تاریخِ ولادت و وصال اور جنازہ محترم قارئینِ کرام : کچھ حضرات حضرت سیدہ فاطمة الزہرا رضی اللہ عنہا کے یو...