Wednesday, 10 December 2014

سوال: کیا تیس، پینتیس سال پہلے ہمارے بھائی بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی کے بجائے بارہ وفات قرار نہیں دیتے تھے؟

سوال: کیا تیس، پینتیس سال پہلے ہمارے بھائی بارہ ربیع الاول کو عید میلاد النبی کے بجائے بارہ وفات قرار نہیں دیتے تھے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب: ہم نے تو صرف چند بوڑھے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ وہ بارہ ربیع الاول کو بارہ وفات کہتے ہیں۔ چند بوڑھوں کی بات سند نہیں ہے اور نہ ہی شریعت ہے، علماء کیا کہتے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔

نبی کریمﷺ کی ولادت مبارکہ کے سلسلہ میں لفظ میلاد و مولد کا اولین استعمال

1۔ دلیل: نبی کریمﷺ کی ولادت مبارکہ کے احوال کے اظہار و برکات کے سلسلہ میں لفظ میلاد کا اولین استعمال جامع ترمذی میں ہے۔ جامع ترمذی صحاح ستہ میں سے ہے۔ اس میں ایک باب بعنوان ’’ماجاء فی میلاد النبیﷺ‘‘ ہے۔ اس بات سے لفظ میلاد کے اولین استعمال کی نشاندہی ہوجاتی ہے۔ اس باب میں بیان ہے کہ قیس بن محزمہ صحابی رضی اﷲ عنہ نے میلاد النبیﷺ کا ذکر بیان فرمایا ’’پیدا ہوا میں اور رسول اﷲﷺ اس سال میں قصہ اصحاب فیل کا واقع ہوا‘‘ اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ نے قباث بن اثیم صحابی رضی اﷲ عنہ سے پوچھا (تم بڑے ہو یا رسول اﷲﷺ، سو انہوں نے کہا کہ حضرت محمدﷺ مجھ سے بڑے ہیں لیکن پیدائش میں میں مقدم ہوں (جامع ترمذی شریف جلد دوم ص 637)

2۔ صاحب مشکوٰۃ نے مشکوٰۃ شریف میں باب باندھا اور اس باب کا نام ’’میلاد النبیﷺ‘‘ رکھا۔

3 سعودی عرب کا موجودہ اسلامی کلینڈر آپ ملاحظہ فرمائیں اس کلینڈر میں ربیع الاول کے مہینے کی جگہ ’’میلادی‘‘ لکھا ہوا ہے یعنی یہ میلاد کا مہینہ ہے۔

4۔ پوری دنیا کے تعلیمی نصاب دیکھ لیں، تمام نصاب میں اسلامیات کے باب میں ’’میلاد النبیﷺ‘‘ کے نام سے باب ملے گا، بارہ وفات کے نام سے نہیں ملے گا۔

اب آپ خود فیصلہ کرلیں کہ چند بوڑھوں کی بات مانی جائے یا اکابر محدثین کی بات مانی جائے۔

سوال: کتنے افسوس کی بات ہے کہ آپ کی عقلوں پر ماتم کرنا چاہئے کہ اپنے نبیﷺ کے وصال کے دن یعنی بارہ ربیع الاول کو جشن مناتے ہو؟

جواب: یہ بات پچھلے سوال کے جواب میں بھی عرض کی کہ بارہ ربیع الاول حضورﷺ کی تاریخ وصال نہیں ہے۔

اگر بالفرض اس بات کو تسلیم کربھی لیا جائے کہ بارہ ربیع الاول شریف کو ہی آپﷺ کا وصال شریف ہوا تھا تو وفات کا غم وفات سے تین دن کے بعد منانا قطعا جائز نہیں۔ اسلام میں سوگ صرف تین دن ہے چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو۔

حدیث شریف: ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم کسی وفات یافتہ پر تین روز کے بعد غم نہ منائیں مگر شوہر پرچار ماہ دس دن تک بیوی غم منائے گی (بحوالہ: بخاری جلد اول ص 804، مسلم جلد اول ص 486)

فائدہ: ثابت ہوا کہ تین دن کے بعد وفات کا سوگ منانا ناجائز ہے۔ نبی کے وصال کا غم منانے کا حکم ہوتا تو تاجدار کائناتﷺ ہر جمعہ (یوم ولادت حضرت آدم علیہ السلام) منانے کے بجائے یوم سوگ منانے کا حکم دیتے چنانچہ حدیث ملاحظہ ہو۔

حدیث شریف: حضرت اوس بن اوس رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالمﷺ نے فضیلت جمعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ تمہارے دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے اس میں حضرت آدم علیہ السلا کو پیدا کیا اور اسی میں ان کا وصال ہوا (بحوالہ: ابو داؤد شریف، ابن ماجہ، نسائی شریف)

الحمدﷲ! قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء کرام، شہداء اور صالحین اپنی قبور میں جسم و جسمانیت کے ساتھ حیات ہیں۔ جب حضورﷺ حیات ہیں تو پھر سوگ اور غم کیسا؟ خود حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں چنانچہ حدیث شریف ملاحظہ ہو۔

حدیث شریف: حضرت عبداﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ تاجدار کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا:

حیاتی خیرلکم و مماتی خیر لکم

میری ظاہری حیات اور وصال دونوں تمہارے لئے باعث خیر ہے (بحوالہ کتاب الشفاء از: امام قاضی عیاض علیہ الرحمہ)

الزام لگانے والو! ذرا سوچو اور یاد کرو بخاری شریف کی پہلی حدیث ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ لہذا ہم جشن ولادت کی خوشی کی نیت سے میلاد مناتے ہیں نہ کہ وصال کی خوشی پر جشن مناتے ہیں۔

سوال: کیا تاجدار کائناتﷺ کے وصال کا دن تمام اہلسنت کے نزدیک متفقہ طور پر بارہ ربیع الاول نہیں ہے؟

جواب: یوں لگتا ہے کہ آپ نے اہلسنت کی کوئی کتاب نہیں پڑھی، اس لئے ایسا سوال کیا ہے۔ علمائے اہلسنت کا تاریخ وصال میں اختلاف ہے کسی کے نزدیک یکم ربیع الاول، دو ربیع الاول، پانچ ربیع الاول ہے۔

دلیل: علامہ ابوالقاسم السھیلی علیہ الرحمہ نے الروض الانف یہی استدلال فرمایا کہ نو ذوالحجہ جو جمعتہ المبارک کا دن تھا (جس میں آپﷺ نے حجتہ الوداع کا خطبہ دیا تھا) اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اس حساب سے ذوالحجہ، صفر المظفر کے ایام کی تعداد انتیس اور تیس تصور کرکے ممکنہ آٹھ صورتوں میں حساب کیا تاہم کسی صورت میں بھی ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو پیر کا دن نہیں آتا۔ (بحوالہ: البدایہ والنہایہ جلد پنجم ص 296)

اسی دلیل کو تسلیم کرتے ہوئے دیوبندی فرقے کے پیشوا مولوی اشرف علی تھانوی اپنی کتاب ’’نشر الطیب‘‘ میں لکھتے ہیں تاریخ وصال کی تحقیق نہیں ہوئی اور بارہ ربیع الاول جو مشہور ہے وہ حساب درست نہیں ہوتا،

1 comment:

  1. سیدی براہ کرم نشر الطیب کا صفحہ نمبر بتا دیں ۔
    کوشش کےباوجود مجھے نہیں مل سکا۔۔۔

    ReplyDelete

ماہِ رمضانُ المبارک کے فضائل و برکات

ماہِ رمضانُ المبارک کے فضائل و برکات محترم قارئینِ کرام ارشادِ باری تعالیٰ ہے : شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی...