( حصّہ دوم )“بریلوی ” دور حاضر میں اہلسنت کا علامتی نشان ھے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا شعبہ : ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوبندی اور وھابی فرقے کے وہ مخصوص عقائد جنہیں وہ تقریر و تحریر کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں پھیلا رہے تھے اور آج بھی ان کی تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ جاری ہے اور ازراہ فریب سادہ لوح عوام سے کہتے ہیں کہ یہ وہ اسلامی عقائد ہیں جو قرآن و حدیث سے اخذ کئے گئے ہیں ایک سچے مسلمان کو انہی عقائد پر چلنا چاہئے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے امت مسلمہ کو عقیدے کے فساد سے بچانے کے لئے جس پامردی اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنی مہم کا آغاز کیا وہ ایک مجدد ہی کی شان ہوسکتی ہے۔ وقت کی ساری باطل قوتوں کو اپنا حریف بنالینے کے باوجود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور سلف صالحین کی بوجھل شہادتوں سے ان مصنوعی عقائد کی دھجیاں اڑادیں اور ہر کہہ و مہ پر آفتاب نیمروز کی طرح واضح کردیا کہ یہ عقائد سرتاسر باطل اور ایمان و اسلام کے لئے مہلک ہیں۔ مسلمانوں کو ان فاسد عقائد سے سخت اجتناب کرنا چاہئے اور کھلے بندوں ان کی مذمت کرنی چاہئے تاکہ معاشرہ میں انہیں اعتماد کی جگہ نہ مل سکے۔
اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل دیوبندی عقائد بطور مثال ملاحظہ فرمائیں۔
(1) امتی عمل میں انبیاء سے بڑھ جاتے ہیں۔
(2) صریح جھوٹ سے انبیاء کا محفوظ رہنا ضروری نہیں (تصفیۃ العقائد)
(3) کذب کو شان نبوت کے منافی سمجھنا غلط ہے (تصفیۃ العقائد)
(4) انبیاء کو معاصی سے معصوم سمجھنا غلط ہے
(5) نماز میں حضور اکرمﷺ کا خیال کرنا ڈوب جانے سے بھی بدتر ہے (صراط مستقیم)
(6) نماز میں حضورﷺ کا خیال لانے سے نمازی مشرک ہوجاتا ہے اور اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے (صراط مستقیم) خدا کے لئے جھوٹ بولنا ممکن ہے (براہین قاطعہ، یکروزی وغیرہ) خدا کو زمان و مکان اور جہت سے پاک و منزہ سمجھنا گمراہی ہے (ایضاح الحق)
(7) جادوگروں کے شعبدے انبیاء کے معجزات سے بڑھ کر ہوتے ہیں (منصب امامت)
(8) صحابہ کرام کو کافر کہنے والا سنت جماعت سے خارج نہیں ہے (فتاویٰ رشیدیہ)
(9) محمد یا علی جس کا نام ہے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں (تقویۃ الایمان)
(10) ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا، وہ اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے (تقویۃ الایمان)
(11) رسول بخش، نبی بخش، پیر بخش، عبدالنبی، عبدالمصطفی، غلام معین الدین، غلام محی الدین نام رکھنا یا اسے پسند کرنا شرک ہے (تقویۃ الایمان)
(12) یہ کہنا کہ خدا اور رسول چاہے گا تو فلاں کام ہوجائے گا شرک ہے
(13) رحمتہ للعالمین ہونا حضورﷺ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے امتی بھی رحمتہ للعالمین ہوسکتے ہیں (فتاویٰ رشیدیہ)
(14) بزرگان دین کی فاتحہ کا تبرک کھانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے(فتاویٰ رشیدیہ)
(15) حضورﷺ ہمارے بڑے بھائی ہیں اور ہم ان کے چھوٹے بھائی ہیں (تقویۃ الایمان)
(16) جو حضورﷺ کو قیامت کے دن اپنا وکیل اور سفارشی سمجھتا ہے وہ ابوجہل کے برابر مشرک ہے (تقویۃ الایمان)
(17) کسی نبی یا ولی کے مزار پر روشنی کرنا، فرش بچھانا، جھاڑو دینا، پانی پلانا اور لوگوں کے لئے غسل اور وضو کرنا شرک ہے (تقویۃ الایمان) وغیرہ
انصاف اور دیانت کے ساتھ دیوبندی مکتبہ فکر کے ان عقائد پر غور فرمایئے… ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے وہ عقیدہ توحید و تقدس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور کچھ وہ ہیں جو شان رسالت کو مجروح کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہیں اگر صحیح مان لیا جائے تو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ایمان و اسلام کی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے اور بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ صدیوں پر مشتمل ماضی کے وہ اسلاف کرام بھی زد میں آجاتے ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا عقائد و اعمال کی توثیق فرمائی ہے۔
اب ایک طرف ہمارے معتقدات و روایات پر جارحانہ حملہ نظر میں رکھئے اور دوسری طرف اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا یہ دفاعی کردار ملاحظہ فرمایئے کہ انہوں نے ایک پرجوش وکیل اور ایک پرخلوص محافظ کی طرح امت کے سر سے کفر و شرک کے الزامات کا دفاع کیا ہے اور نہایت اخلاص و دیانت کے ساتھ قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور سلف صالحین کے اقوال سے یہ ثابت کردیا ہے کہ امت کے جن عقائد و اعمال کو اہل دیوبند کفر و شرک کہتے ہیں وہ ایمان و اسلام کے بہترین مظاہر ہیں۔
اب جمہور اسلام کے افراد ہی اس کا فیصلہ کریں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا یہ عظیم کارنامہ ان کے حق میں ہے یا ان کے خلاف ہے۔ اپنی ان گراں قدر خدمات کے ذریعہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے امت میں تفرقہ ڈالا ہے یا انہیں ٹوٹنے سے بچالیا ہے… عین شورش اور طوفان کی زد میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جن عقائد و اعمال کی حمایت کی ہے اور جن روحانی احساسات کو مٹنے سے بچایا ہے اگر آج بھی روئے زمین کے جمہور مسلمین کا وہی مذہب ہے تو یہ فیصلہ جمہور ہی کو کرنا ہوگا کہ اپنے ایک جاں نثار وکیل اور ایک بے غرض محسن کو جذبہ محبت کے ساتھ یاد کیا جائے یا دشمن کے ناپاک پروپیگنڈوں کا شکار ہوکر احسان فراموشوں کا رویہ اختیار کرلیا جائے۔ ان سوالوں کے جواب کے لئے آپ سے آپ ہی کے ضمیر کا انصاف چاہتا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسرا شعبہ : ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیوبندی اور وھابی فرقے کے وہ مخصوص عقائد جنہیں وہ تقریر و تحریر کے ذریعہ مسلم معاشرہ میں پھیلا رہے تھے اور آج بھی ان کی تبلیغ و اشاعت کا سلسلہ جاری ہے اور ازراہ فریب سادہ لوح عوام سے کہتے ہیں کہ یہ وہ اسلامی عقائد ہیں جو قرآن و حدیث سے اخذ کئے گئے ہیں ایک سچے مسلمان کو انہی عقائد پر چلنا چاہئے۔
اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے امت مسلمہ کو عقیدے کے فساد سے بچانے کے لئے جس پامردی اور صبر و استقامت کے ساتھ اپنی مہم کا آغاز کیا وہ ایک مجدد ہی کی شان ہوسکتی ہے۔ وقت کی ساری باطل قوتوں کو اپنا حریف بنالینے کے باوجود اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور سلف صالحین کی بوجھل شہادتوں سے ان مصنوعی عقائد کی دھجیاں اڑادیں اور ہر کہہ و مہ پر آفتاب نیمروز کی طرح واضح کردیا کہ یہ عقائد سرتاسر باطل اور ایمان و اسلام کے لئے مہلک ہیں۔ مسلمانوں کو ان فاسد عقائد سے سخت اجتناب کرنا چاہئے اور کھلے بندوں ان کی مذمت کرنی چاہئے تاکہ معاشرہ میں انہیں اعتماد کی جگہ نہ مل سکے۔
اس شعبے کے ضمن میں مندرجہ ذیل دیوبندی عقائد بطور مثال ملاحظہ فرمائیں۔
(1) امتی عمل میں انبیاء سے بڑھ جاتے ہیں۔
(2) صریح جھوٹ سے انبیاء کا محفوظ رہنا ضروری نہیں (تصفیۃ العقائد)
(3) کذب کو شان نبوت کے منافی سمجھنا غلط ہے (تصفیۃ العقائد)
(4) انبیاء کو معاصی سے معصوم سمجھنا غلط ہے
(5) نماز میں حضور اکرمﷺ کا خیال کرنا ڈوب جانے سے بھی بدتر ہے (صراط مستقیم)
(6) نماز میں حضورﷺ کا خیال لانے سے نمازی مشرک ہوجاتا ہے اور اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے (صراط مستقیم) خدا کے لئے جھوٹ بولنا ممکن ہے (براہین قاطعہ، یکروزی وغیرہ) خدا کو زمان و مکان اور جہت سے پاک و منزہ سمجھنا گمراہی ہے (ایضاح الحق)
(7) جادوگروں کے شعبدے انبیاء کے معجزات سے بڑھ کر ہوتے ہیں (منصب امامت)
(8) صحابہ کرام کو کافر کہنے والا سنت جماعت سے خارج نہیں ہے (فتاویٰ رشیدیہ)
(9) محمد یا علی جس کا نام ہے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں (تقویۃ الایمان)
(10) ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا، وہ اﷲ کی شان کے آگے چمار سے بھی زیادہ ذلیل ہے (تقویۃ الایمان)
(11) رسول بخش، نبی بخش، پیر بخش، عبدالنبی، عبدالمصطفی، غلام معین الدین، غلام محی الدین نام رکھنا یا اسے پسند کرنا شرک ہے (تقویۃ الایمان)
(12) یہ کہنا کہ خدا اور رسول چاہے گا تو فلاں کام ہوجائے گا شرک ہے
(13) رحمتہ للعالمین ہونا حضورﷺ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے امتی بھی رحمتہ للعالمین ہوسکتے ہیں (فتاویٰ رشیدیہ)
(14) بزرگان دین کی فاتحہ کا تبرک کھانے سے دل مردہ ہوجاتا ہے(فتاویٰ رشیدیہ)
(15) حضورﷺ ہمارے بڑے بھائی ہیں اور ہم ان کے چھوٹے بھائی ہیں (تقویۃ الایمان)
(16) جو حضورﷺ کو قیامت کے دن اپنا وکیل اور سفارشی سمجھتا ہے وہ ابوجہل کے برابر مشرک ہے (تقویۃ الایمان)
(17) کسی نبی یا ولی کے مزار پر روشنی کرنا، فرش بچھانا، جھاڑو دینا، پانی پلانا اور لوگوں کے لئے غسل اور وضو کرنا شرک ہے (تقویۃ الایمان) وغیرہ
انصاف اور دیانت کے ساتھ دیوبندی مکتبہ فکر کے ان عقائد پر غور فرمایئے… ان میں سے کچھ تو وہ ہیں جن سے وہ عقیدہ توحید و تقدس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور کچھ وہ ہیں جو شان رسالت کو مجروح کرتے ہیں اور کچھ وہ ہیں جنہیں اگر صحیح مان لیا جائے تو دنیا کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے ایمان و اسلام کی سلامتی خطرے میں پڑجاتی ہے اور بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ صدیوں پر مشتمل ماضی کے وہ اسلاف کرام بھی زد میں آجاتے ہیں جنہوں نے مذکورہ بالا عقائد و اعمال کی توثیق فرمائی ہے۔
اب ایک طرف ہمارے معتقدات و روایات پر جارحانہ حملہ نظر میں رکھئے اور دوسری طرف اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کا یہ دفاعی کردار ملاحظہ فرمایئے کہ انہوں نے ایک پرجوش وکیل اور ایک پرخلوص محافظ کی طرح امت کے سر سے کفر و شرک کے الزامات کا دفاع کیا ہے اور نہایت اخلاص و دیانت کے ساتھ قرآن و حدیث، فقہ حنفی اور سلف صالحین کے اقوال سے یہ ثابت کردیا ہے کہ امت کے جن عقائد و اعمال کو اہل دیوبند کفر و شرک کہتے ہیں وہ ایمان و اسلام کے بہترین مظاہر ہیں۔
اب جمہور اسلام کے افراد ہی اس کا فیصلہ کریں کہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا یہ عظیم کارنامہ ان کے حق میں ہے یا ان کے خلاف ہے۔ اپنی ان گراں قدر خدمات کے ذریعہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے امت میں تفرقہ ڈالا ہے یا انہیں ٹوٹنے سے بچالیا ہے… عین شورش اور طوفان کی زد میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے جن عقائد و اعمال کی حمایت کی ہے اور جن روحانی احساسات کو مٹنے سے بچایا ہے اگر آج بھی روئے زمین کے جمہور مسلمین کا وہی مذہب ہے تو یہ فیصلہ جمہور ہی کو کرنا ہوگا کہ اپنے ایک جاں نثار وکیل اور ایک بے غرض محسن کو جذبہ محبت کے ساتھ یاد کیا جائے یا دشمن کے ناپاک پروپیگنڈوں کا شکار ہوکر احسان فراموشوں کا رویہ اختیار کرلیا جائے۔ ان سوالوں کے جواب کے لئے آپ سے آپ ہی کے ضمیر کا انصاف چاہتا ہوں۔
No comments:
Post a Comment