۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصورِبدعت آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں
گزشتہ بحث میں ہم نے بدعت کا لغوی مفہوم بیان کرتے ہوئے واضح کیا تھا کہ لغوی اعتبار سے بدعت نئی چیز کو کہتے ہیں اور محدثات الامور و اِحداث فی الدین کا تعلق فتنہ اِرتداد یا خروج عن الاسلام کی سطح کے فتنوں کے ساتھ ہے۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ بدعت کا تصو ر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار میں بھی موجود ہے یا نہیں؟ اس کی وضاحت کے لیے ہم یہاں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عمل مختصراً بیان کریں گے، کیوں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد اُمت کے لیے اِن صحابہ کبار رضی اللہ عنہم کا عمل سب سے زیادہ معتبر ہے، اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کے قلع قمع کے لیے اپنی اور اپنے بعد آنے والے خلفاء راشدین مہدیین کی سنت کی پیروی کو لازمی قرار دیا ہے۔
1۔ جمعِ قرآن اور شیخین رضی اﷲ عنہما کا عمل
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ منصبِ خلافت پر متمکن ہوئے تو اس وقت جھوٹی نبوت کے دعوے دار مسیلمہ کذاب کے خلاف جنگ یمامہ میں تقریباً سات سو (700) حافظِ قرآن صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ قبل ازیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظاہری زمانہ اقدس سے اب تک قرآنِ حکیم کے ایک جلد میں جمع کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہوسکا تھا بلکہ متفرق مقامات پر مختلف صورتوں میں لکھا ہوا موجود تھا۔ سیدنا فاروق اعظمص نے محسوس کیا کہ اگر یہ سلسلہ جہاد و قتال اسی طرح جاری رہا اور وہ صحابہث جن کے سینوںمیں قرآن حکیم محفوظ ہے شہید ہوتے رہے تو عین ممکن ہے کہ حفاظتِ قرآن میں خاصی دشواری پیش آئے۔ اِس خدشہ کے پیش نظر اُنہوں نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو تجویز دی کہ قرآن حکیم ایک کتابی صورت میں جمع کرلیا جائے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
کيف أفعل شيئا ما لم يفعله رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ؟
’’میں ایسا کام کیسے کرسکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں فرمایا۔‘‘
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : اے امیر المومنین! درست ہے کہ یہ کام ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ظاہری حیاتِ مقدسہ میں نہیں کیا لیکن ’’ہو واﷲ خیر‘‘ اللہ کی قسم! بہت اچھا اور بھلائی پر مبنی ہے۔ لہٰذا ہمیں اسے ضرور کرنا چاہیے۔ اس بحث و تمحیص کے دوران سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا سینہ کھل گیا اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اس عظیم کام پر مامور کیے گئے۔ چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے کھجور کی شاخوں، سفید پتھروں اور لوگوں کے سینوں سے قرآن کو جمع کرنا شروع کردیا اور اس طرح تیار کیے گئے قرآن حکیم کے چند نسخے جو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنہا کے پاس محفوظ ہوگئے تھے بعد میں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان سے منگوا کر قرآنِ حکیم کو دوبارہ موجودہ ترتیب میں یک جا کر دیا۔
1. بخاری، الصحيح، کتاب التفسير، باب قوله : لقد جاء کم رسول من أنفسکم عزيز عليه ما عنتم حريص عليکم، 4 : 1720، رقم : 4402
2. ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب تفسير القرآن، باب من سورة توبة، 5 : 283، رقم : 3103
اس طرح تاریخِ اسلام میں پہلی بدعتِ حسنہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں وقوع پذیرہوئی۔
2۔ باجماعت نمازِ تراویح کی اِبتداء
جمع و تدوینِ قرآن کی طرح یہ عمل بھی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کی تعمیل میں باقاعدہ وجود پذیر ہوا۔ احادیثِ مبارکہ میں مذکور ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ میں رمضان المبارک میں تین راتیں نماز تراویح باجماعت پڑھائی۔ اس کے بعد فرض ہوجانے کے خدشہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نمازِ تراویح گھر میں ہی پڑھتے رہے اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اِنفرادی طور پر اپنی اپنی نماز پڑھ لیتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک کے بعد سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اڑھائی سالہ دورِ خلافت میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی معمول رہا۔ جب سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا اور آپ نے دیکھاکہ رمضان المبارک میں لوگ مختلف شکلوں میں نماز تراویح ادا کر رہے ہیں۔ تو اس خیال سے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندر مساجد کو آباد کرنے کا ذوق بھی کم ہوسکتا ہے اور اگر صورت حال یہی رہی تو عین ممکن ہے کسی وقت لوگ نماز تراویح پڑھنا ہی ترک کر دیں، انہوں نے یہ اِجتہاد فرمایا اور سب کو حافظِ قرآن حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازِ تراویح باجماعت پڑھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام کو باجماعت نمازِ تراویح پڑھتے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
نعم البدعة هذه، والتی ينامون عنها أفضل من التی يقومون.
1. بخاری، الصحيح، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، 2 : 707، رقم : 1906
2. مالک، الموطأ، 1 : 114، رقم : 250
3. بيهقی، السنن الکبری، 2 : 493، رقم : 4379
’’یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں اُس حصہ سے بہتر ہے جس میں وہ قیام کرتے ہیں۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِس قول کی وضاحت کرتے ہوئے عبد الرحمان بن عبد القاری تابعی بیان کرتے ہیں :
يريد آخر الليل، وکان الناس يقومون أوّله.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مراد رات کا آخری حصہ تھا جب کہ لوگ پہلے حصہ میں قیام کرتے تھے۔‘‘
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب رات کے آخری حصہ میں کی جانے والی عبادت زیادہ فضیلت رکھتی ہے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِبتدائی حصہ میں قیام کیوں شروع کروایا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی (773۔852ھ) ’’فتح الباری (4 : 253)‘‘ میں اِس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
هذا تصريح منه بأن الصلاة فی آخر الليل أفضل من أوله، لکن ليس فيه أن الصلاة فی قيام الليل فرادی أفضل من التجميع.
’’اِس میں صراحت ہے کہ رات کے پچھلے پہر کی نماز پہلے پہر کی نماز سے اَفضل ہے، تاہم اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ تنہا نماز پڑھنا باجماعت نماز پڑھنے سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔‘‘
پس اِس سے واضح ہوگیا کہ اگرچہ آخرِ شب پڑھی جانے والی نماز فضیلت کی حامل ہے لیکن باجماعت ادا کی جانے والی نمازِ تراویح - جو رات کے اِبتدائی حصہ میں ادا کی جاتی ہیں - زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
اس روایت میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خود نعم البدعۃ ہذہ فرما کر یہ ثابت کر دیا کہ ہر بدعت، بدعتِ سیئہ نہیں ہوتی بلکہ بے شمار بدعات اچھی بھی ہوتی ہیں۔ اور بدعتِ حسنہ اور سیئہ کی تقسیم مبنی بر حدیث ہے، محض قیاسی تقسیم نہیں بلکہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول پر قائم ہے۔
3۔ نمازِ جمعہ سے قبل دوسری اذان
نماز جمعہ سے پہلے مساجد میں دوسری اَذان جو وعظ سے پہلے پڑھی جاتی ہے، اس کا آغاز عہدِ عثمانی میں ہوا۔ امام بخاری (256ھ) نے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
أن التأذين الثانی يوم الجمعة أمر به عثمان بن عفّان حين کثر أهل المسجد.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الجمعه، باب الجلوس علی المنبر،1 : 310، رقم : 873
2. شمس الحق، عون المعبود، 3 : 302
3. وادياشی، تحفة المحتاج، 1 : 506، رقم : 624
4. شوکانی، نيل الاوطار، 3 : 323
’’جمعہ کے دن دوسری اذان (یعنی وہ اَذان جو وعظ سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ یہ ترتیب میں پہلی اَذان ہے۔ )کا حکم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا جب مسجد میں آنے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی۔‘‘
لہٰذا جس طرح خیر القرون میں بھی تدوینِ قرآن حکیم کے موقع پر اَجل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھا تھا کہ جو کام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں کیا وہ کیسے کرسکتے ہیں، اُسی طرح آج کے دور میں بھی جشن میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس جیسے دیگر اُمورِ خیر کے بارے میں لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ جائز ہیں جب کہ اَوائل دورِ اِسلام میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور جس طرح صحابہ کرام کو اِنشراحِ صدر ہوا اور اُنہوں نے بھلائی کے ان نئے کاموں کو اپنایا اُسی طرح ہم نے محافلِ میلاد اور جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اَمرِ خیر اور باعثِ برکت ہونے کے اپنایا ہے۔
تصورِ بدعت اور چند عصری نظائر و واقعات
اِس ضمن میں چند شہادتیں عصری نظائر و واقعات سے پیش کی جاتی ہیں :
No comments:
Post a Comment