۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مکہ مکرمہ میں انبیاء علیہم السلام کا قیام
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انبیاء علیہم السلام کا ایک گروہ تو ایسا تھا جو یہ جان کر کہ تاجدارِ کائنات نبی آخر الزمان مکہ میں مبعوث ہوں گے سیکڑوں ہزاروں میل کا سفر کرتے کرتے دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شوق میں مکہ مکرمہ آ گیا تھا۔ اُنہوں نے عمریں مکہ میں گزار دی تھیں کہ کبھی رب کے محبوب اور اس کے حسن کے طلوع کا وقت آئے گا ہمیں دیدار کا موقع نصیب ہوگا اور ہم ان کا زمانہ پائیں گے۔ (1) بایں ہمہ تاجدار کائنات کے انتظار میں سینکڑوں انبیاء نے وادی مکہ میں عمریں گزار دیں۔ اور ان کے مزارات صحن کعبہ میں اور بعضوں کے حطیم کعبہ میں ہیں۔ تین سو یا سات سو انبیاء علیہم السلام ایسے ہیں کہ ان کی تو وفات بھی مکہ میں ہوئی اور ان کے مزارات کعبہ شریف کے مطاف میں صحن کعبہ کے اندر ہیں۔ (2) اور کل مخلوق اور اُمت جب کعبے کا حج کرنے جاتی ہے۔ اُنہیں ان انبیاء کے مزارات کی زیارت ہوتی ہے۔ وہ اس خیال سے یہاں قیام پذیر ہو گئے تھے کہ ہماری عمر میں ہماری زندگیوں میں اگر تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آ گئے تو حضور کی غلامی کا شرف ہوجائے گا۔ اور اگر ہماری زندگی میں مبعوث نہ ہوئے تو دفن ہونے کا اعزاز تو نصیب ہو جائے گا۔ جب زائرین اس کعبے کا طواف کریں گے تو ہم ان کے قدموں کے نیچے ہوں گے۔ یوں ان کے تلوں کے بوسے ہوتے رہیں گے۔ ستر کے قریب یا اُس سے زائد انبیاء تو منٰی میں مدفون ہیں۔ (3) ’’مسجد الخیف’’ میں سات سو انبیاء ہیں جہاں تین دن حاجی قیام کرتے ہیں ان کو خبر تھی کہ یہ حج کے راستے اور اس محبوبِ مکرم کے ٹھکانے ہونگے۔ عرفات، مزدلفہ، منی وغیرہ جو آقا کے راستے تھے ان پر یہ ٹھکانے کرتے گئے۔ انبیاء علیہم السلام کا ایک گروہ تو ادھر ہی آ کے آباد ہوگیا۔ اور کثیر تعداد میں انبیاء علیہم السلام ادھر ہی مبعوث ہوئے اور وہیں ان کے مزارات بنے۔ تو اللہ تبارک و تعاليٰ نے چاہا کہ محبوبِ مکرم کو چونکہ تمام انبیاء کا امام بنایا ہے لہٰذا اس کا ظہور بھی عملاً دنیا میں ہونا چاہیے اور آخرت میں بھی ہونا چاہیے، اس لیے آقا علیہ السلام کو مسجد حرام سے معراج کی رات مسجد اقصيٰ لے جایا گیا جہاں تمام انبیاء علیہم السلام کو صف در صف حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں کھڑا کیا گیا اور آقا علیہ السلام نے جمیع انبیاء و رُسل علیہم السلام کی امامت کرائی تو شبِ معراج جب سب انبیاء علیہم السلام حاضر ہوگئے تو ان کی خواہشِ دیدار، اﷲ تعاليٰ نے پوری کر دی۔ ہر نبی جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ڈنکے بجاتا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے تذکرے کرتا، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوصاف کے گُن گاتا تھا اور اپنی اُمت کو حضور تاجدارِ کائنات کی غلامی کی دعوتیں دیتا تھا، وہ منتظر تھا کہ جس کے تذکرے کرتے کرتے عمر بیت گئی کبھی ان کا دیدار بھی ہوگا۔
(1) أزرقی، اخبار مکة، 1 : 67، 68
(2) فاکهی، اخبار مکة، 4 : 191
(3) 1. طبرانی، المعجم الکبير، 12 : 413، رقم : 13525
2. ديلمی، الفردوس بماثور الخطاب، 2 : 28، رقم : 2177
3. فاکهی، أخبار مکة، 7 : 102، رقم : 2525
مراحلِ معراج میں عظمتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پُرشکوہ منظر
اللہ رب العزت نے فرمایا : اے ارواحِ انبیاء! تم نے عمر بھر میرے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وفاداری کی ہے۔ آج میں تمہاری دیرینہ خواہش کو پوری کرنے کے لیے محبوب کو ادھر لا رہا ہوں۔ مسجد اقصيٰ میں صف در صف کل انبیاء علیہم السلام جمع ہوگئے۔ جبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا : آقا! یہ کُل انبیاء ہیں جو کائناتِ انسانی میں آپ کی آمد کا ڈنکا بجاتے رہے ہیں، آج ان کو امامت کرا کے اپنا مقتديٰ بنا لیں۔ اِن کی آرزو تھی کہ حضور کے امتی ہو جائیں۔ تو آقا علیہ السلام نے انہیں اپنی اقتداء میں لے لیا۔ جب شبِ معراج سب انبیاء علیہم السلام کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اقتدا میں دے دیا گیا تو ملائکہ بولے : باری تعاليٰ تمام انبیاء علیہم السلام کو تو نے محبوب کی اقتداء اور دیدار عطا کر دیا۔ ہمارا کیا بنے گا؟ کبھی ہمیں بھی دیدار نصیب ہو جائے۔ تو فرمایا : اب معراج کا دوسرا سفر آسمانی کائنات میں اور عرش معلی پر جا کے سدرۃ المنتہی تک ہوگا۔ اے کل آسمانی کائنات کے فرشتو! سدرۃ المنتہيٰ پر جمع ہو جاؤ(1) جیسے کل انبیاء علیہم السلام مسجد اقصيٰ میں جمع ہو کر میرے محبوب کے دیدار سے بہرہ یاب ہو گئے تھے۔ میرے محبوب نے یہاں سے گزرنا ہے۔ میں تھوڑی دیر روک کر ان کو براق سے اُتاروں گا کہ آگے براق نہیں جاسکتا۔ تو یہاں سواری کی بدلی ہونی ہے، جس میں وقت لگے گا، تم سدرۃ المنتہيٰ پر بیٹھ جاؤ جتنی دیر میرے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہاں قیام کریں تم جی بھر کے دیدار کر لینا۔ سورۃ النجم میں ارشاد ہوا :
(1) سيوطی، الدر المنثور، 7 : 651
اِذْ يَغْشَی السِّدْرَةَ مَا يَغْشٰی.
النجم، 53 : 16
’’اور جب سدرۃ المنتہيٰ کے درخت کو ڈھانپ لیا جس نے ڈھانپ لیاo‘‘
کُل کائنات کے ملائکہ اُس رات سدرۃ المنتہيٰ پہ جمع ہوگئے تھے تو ملائکہ کو سدرۃ المنتہيٰ پر دیدار کرا دیا۔ پھر ان کی ایک اور آرزو بھی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر بھر تو زمیں پہ رہیں گے، ہمارا کیا قصور ہے ہم آسمان پر ہیں۔ تو عمر بھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت دیدار بھی کرتی رہے گی اور مدینہ پاک بھی جاتی رہے گی، اور صلوٰۃ و سلام بھی بھیجتی رہے گی۔ ہم کیوں محروم رہیں؟ کعبہ تو تو نے ہمیں بھی دیا؛ ایک کعبہ زمین پر ہے۔ کعبۃ اﷲ، اورعین اس کے اوپر آسمان پر بیت المعمور ہے جہاں ملائکہ طواف کرتے ہیں۔ بیت المعمور اسے کہتے ہی اس لیے ہیں کہ ملائکہ سے معمور سے رہتا ہے۔ جیسے کعبۃ اللہ انسانوں سے بھرا رہتا ہے، بیت المعمور ملائکہ سے بھرا رہتا ہے۔ وہاں تو نے کعبہ تو دے دیا مگر آقا علیہ السلام کا در اقدس کعبے کا کعبہ تو زمین پہ رکھا ہے۔ تو اُن کے لیے بھی اللہ پاک نے حاضری کی سبیل پیدا کر دی کہ ستر ہزار فرشتے اب ہر روز صبح اور ستر ہزار فرشتے شام کو آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں حاضری دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور کو اپنے پر لگاتے ہیں، مس کرتے ہیں، (1) جیسے انسان جالی کو ہاتھ لگاتا ہے (2) ہم تو ادب سے ہاتھ نہیں لگاتے مگر ملائکہ تو نور ہیں وہ اپنے پر مس کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ ستر ہزار ملائکہ دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے صبح آتے ہیں اور ستر ہزار ملائکہ شام کو آتے ہیں۔ (3) ہر روز دستہ تبدیل ہوتا ہے۔ ایک لاکھ چالیس ہزار ملائکہ کا۔ اور ستر ہزار کا ایک گروہ جو ایک بار آتا ہے قیامت تک اسے دوبارہ باری نہیں ملتی۔ اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ جس دن قیامت بپا ہوگی تو یومِ قیامت آقا علیہ السلام جب قبر انور سے باہر تشریف لائیں گے تو اس دن بھی ستر ہزار ملائکہ کے جھرمٹ میں حضور باہر نکلیں گے۔ (4) حضرت کعب رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں :
(1) دارمی، السنن، 1 : 57، رقم : 94
(2) بيهقی، شعب الايمان، 3 : 492، رقم : 4170
(3) عبد اﷲ بن مبارک، الزهد : 558، رقم : 1600
(4) بيهقی، شعب الايمان، 3 : 492، رقم : 4170
إِذَا انْشَقَّتْ عَنْهُ الْأَرْضُ خَرَجَ فِي سَبْعِيْنَ أَلْفًا مِنَ الْمَلَائِکَةِ، يَزِفُّونَهُ.
دارمی، السنن، المقدمة، باب ما أکرم اﷲ تعالی نبيه بعد موته، 1 : 57، رقم : 94
ابن جوزی، الوفا بأحوال المصطفیٰ صلی الله عليه وآله وسلم : 833
سيوطی، الخصائص الکبريٰ، 2 : 217
صالحی، سبل الهديٰ والرشاد، 12 : 452
’’(روزِ محشر) جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے زمین (قبر انور) شق ہوگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ستر ہزار فرشتوں کے جھرمٹ میں باہر تشریف لائیں گے۔‘‘
70 ہزار ملائکہ جن کے جھرمٹ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلیں گے وہ وہی خوش نصیب ہوں گے جن کی اس دن ڈیوٹی ہوگی۔
روزِ قیامت شانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملی مظاہرہ
ایک شرف اﷲ تعاليٰ نے انبیاء علیہم السلام کو دنیا میں عطا کردیا، اور ایک شرف انہیں قیامت کے دن عطا فرما دے گا۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا :
أَنَا سَيِّدُ وَلَدِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرَ، وَأَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأَرْضُ، وَأَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ، بِيَدِيْ لِوَاءُ الْحَمْدِ تَحْتِيْ آدَمُ فَمَنْ دُوْنَهُ.
ابن حبان، الصحيح، 14 : 398، رقم : 6478
أبو يعلی، المسند، 13 : 480، رقم : 7493
ابن أبي عاصم، السنة، 2 : 369، رقم : 793
مقدسی، الأحاديث المختارة، 9 : 455، رقم : 428
هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 523، رقم : 2127
’’میں ساری اولادِ آدم علیہ السلام کا سردار ہوں اور یہ بات فخریہ نہیں کہتا، اور سب سے پہلے میری زمین شق ہو گی، اور میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی، میرے ہاتھ میں (اللہ تعاليٰ کی) حمد کا جھنڈا ہو گا جس کے نیچے حضرت آدم علیہ السلام اور تمام انبیاء علیہم السلام ہوں گے۔‘‘
صحیح بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث (73) ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی بارگاہ میں شفاعت کریں گے۔ قیامت کے دن ہر اُمت ایک دوسرے کو کہے گی کہ مل کے سارے حضرت آدم علیہ السلام کے پاس جائیں۔ وہ کہیں گے : اِذْهَبُوا إلٰی غَيْرِی (آج میرے سوا کسی کے پاس جاو)’’(74) تو لوگ حضرت نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے وہ بھی کہیں گے : نہیں، أِذْهَبُوا إلٰی غَيْرِی (آج کسی اور کے پاس جاؤ)۔ چلتے چلتے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسی علیہ السلام حتی کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آ جائیں گے، آقا علیہ السلام کی بعثت سے پہلے آخری وہی تھے۔ اب یہ بھی تو ہو سکتا تھا کہ حضرت آدم علیہ السلام ہی سیدھا کہہ دیتے کہ ان کے پاس جاؤ۔ مگر حضرت عیسيٰ علیہ السلام کے پاس کُل سابقہ امتیں آئیں گی تو اس وقت وہ فرمائیں گے : إذهبوا إلی محمد (آقا علیہ السلام کے درِ دولت پر جاؤ)۔ آج ان کا دن ہے ان کے سوا کوئی اِس وقت لب نہیں کھول سکتا۔ یہ بات حضرت آدم علیہ السلام نے شروع میں کیوں نہ کہہ دی؟ اگر وہ شروع میں ہی کہہ دیتے تو حضرت آدم علیہ السلام کے بعد وہ براہِ راست آقا علیہ السلام کی بارگاہ میں آ جاتے۔ لیکن ایک ایک دروازے پر قیامت کے دن اللہ بھیج رہا ہے تاکہ یہ بھی پتا چل جائے کہ ہر امت اپنے نبی کے دروازے پر سائل بن کے جائے اور یہ بھی پتہ چل جائے کہ ہر دروازے سے جواب ملے : ’’نہیں! آگے جاؤ، آگے جاؤ۔‘‘ گھومتے گھومتے سب کو خبر ہو جائے اور پورے محشر میں اعلان ہو جائے کہ قیامت کے دن سب امتوں کا ملجا و ماويٰ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ پھر جب آقا علیہ السلام کے پاس لوگ آئیں گے تو آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرمائیں گے :
(73) بخاری، الصحيح، کتاب التفسير، 4 : 1746، رقم : 4435
(74) مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، 1 : 185، رقم : 194
أَنَا لَهَا.
’’ہاں! اس شفاعت کے لیے تو میں ہی مخصوص ہوں۔‘‘
(75) بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، 6 : 2727، رقم : 7072
روزِ محشر عرش پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جلوسِ عظمت
اُس دن شان و شوکتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملی مظاہرہ ہوگا۔ جب اللہ تعاليٰ کی بارگاہ میں حساب و کتاب شروع کرنے کے لیے آقا علیہ السلام لب کشائی فرمائیں گے۔ یہی ثابت کرنے کے لیے کہ آقا علیہ السلام جن کے اوپر سب کے ایمان کا مدارا ہے اس کا مقام و مرتبہ یہ ہے کہ جب حساب و کتاب شروع ہوجائے گا، تو اللہ پاک فرمائے گا : محبوب حساب و کتاب اب شروع ہے، اب عدالت قائم ہوگی تخت لگ جائے گا۔ تو اللہ تبارک و تعاليٰ سرِ عرش اپنی کرسی پر جو اللہ رب العزت کے لیے خاص ہوگی، (1) اپنی شان کے لائق جلوہ افروز ہوگا اور فرشتہ کو حکم دے گا : عرش پر میری کرسی کے دائیں جانب میرے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کرسی بچھا دی جائے۔ تو قیامت کے دن عرش الٰہی پر دو کرسیاں رکھی جائیں گی۔ عرش پر ایک کرسی ہوگی رب کائنات کی وہ جو صدر بزم قیامت ہوگا، صدر یوم قیامت کے ساتھ دوسری کرسی اس دن کے مہمان خصوصی تاجدارِ کائنات کی ہوگی ’’عن يمين الرحمان يمين العرش‘ (2) عرش کی کرسی پر دائیں جانب تشریف فرما ہوں گے۔ یہ پھر demonstration ہوگا کہ جہاں ابتداء میں ہر نبی کو حضور کی متابعت میں دیا گیا تھا وہاں انتہا بھی ساری کائنات، ساری مخلوقات سمیت سب انبیاء علیہم السلام حضور کی متابعت میں ہو علیہ السلام گے۔ اس لیے اب یہ جو ہر پیغمبر کو تلاش تھی اور ہر پیغمبر نے اپنی ہر امت کو بتا دیا تھا کہ آنے والے جن کی خاطر بزم کائنات بنی ہے وہ آرہے ہیں تم ان پر ایمان لانا۔ ہر نبی نے اپنی امت کے اندر آقا علیہ السلام کی تلاش کی پیاس پیدا کردی تھی۔
(1) حاکم، المستدرک، 2 : 396، رقم : 3385
(2) حاکم، المستدرک، 2 : 396، رقم : 3385
No comments:
Post a Comment