Sunday, 20 September 2015

اجسادِ اولیاء اورصالحین علیہم الرّحمہ سے منسوب اشیاء سے تبرک

 1۔ (امام شافعی کے تلمیذ) ربیع بن سلیمان کہتے ہیں کہ امام شافعی مصر تشریف لائے تو انہوں نے مجھ سے کہا : میرا یہ خط سلامتی سے ابو عبداﷲ احمد بن حنبل تک پہنچا دو اور مجھے جواب لا کر دو۔ ربیع کہتے ہیں کہ میں وہ خط لے کر بغداد پہنچا تو نمازِ فجر کے وقت امام احمد بن حنبل سے میری ملاقات ہوئی پس جب وہ حجرہ سے باہر تشریف لائے تو میں نے خط اُن کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ یہ خط آپ کے بھائی شافعی نے آپ کو مصر سے بھیجا ہے۔ امام احمد نے مجھ سے کہا : کیا تو نے اسے پڑھا ہے؟ میں نے کہا : نہیں! انہوں نے مہر توڑ کر اسے پڑھا تو ان کی آنکھیں بھر آئیں، میں نے پوچھا : ابو عبداﷲ کیا ہوا، اس میں کیا لکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا : امام شافعی نے مجھے لکھا ہے کہ انہوں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا ہے کہ ابو عبداﷲ کو خط لکھو، اسے سلام لکھ کر کہو کہ تمہیں عنقریب آزمایا جائے گا اور تمہیں خلقِ قرآن (کے باطل عقیدہ) کی دعوت دی جائے گی سو تم اسے قبول نہ کرنا، اﷲ تعالیٰ تمہیں قیامت کے روز باعزت عالم دین کے طور پر اٹھائے گا۔ اس کے بعد ربیع بیان کرتے ہیں :

فقلت له : البشارة يا أبا عبداﷲ، فخلع أحد قميصه الذي يلي جلده فأعطانيه، فأخذت الجواب، فخرجت إلي مصر وسلمته إلي الشافعي. فقال : أيش الذي أعطاک. فقلت : قميصه. فقال الشافعي : ليس نفجعک به، ولکن بلّه وادفع إلي الماء لأ تبرک به.

’’میں نے اُن سے کہا : ابو عبد اﷲ! آپ کو تو خوشخبری ملی ہے۔ انہوں نے اپنے جسم سے مَس کردہ قمیص اتار کر مجھے عنایت کی، میں اُن سے جواب لے کر مصر میں امام شافعی کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا : انہوں نے تمہیں کوئی چیز عطا کی ہے؟ میں نے کہا : اپنی قمیص، امام شافعی نے فرمایا : ہم تمہیں اس کے بارے زیادہ تکلیف میں مبتلا نہیں کرتے، مگر اتنا کردو کہ اسے گیلا کرکے ہمارے حوالے کرو تاکہ ہم اس سے برکت حاصل کریں۔‘‘

تاج الدين سبکي، طبقات الشافعية الکبري، 2 : 36

2۔ امیر المؤمنین فی الحدیث امام سفیان ثوری (متوفی 161ھ) اپنے زمانہ کے اولیاء کے پاس تبرک کے لئے حاضر ہوئے، امام احمد بن عبداﷲ عجلی نے کوفہ کے ایک عبادت گزار محدّث عمرو بن قیس الملائی کوفی کے ترجمہ میں لکھا ہے :

کان سفيان يأتيه يسلّم عليه يتبرک به.

’’سفیان ثوری اُن کے پاس حاضر ہوتے، انہیں سلام کہتے اور ان سے برکت حاصل کرتے۔‘‘

عجلي، معرفة الثقات، 2 : 182

3۔ سلطان محمود غزنوی کو سومنات کی جنگ میں حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کے جبے کی برکت سے اﷲتعالیٰ نے انہیں فتح و نصرت عطا فرمائی تھی۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ تذکرۃ الاولیاء کے صفحہ نمبر 344 پر بیان کرتے ہیں :

’’سلطان محمود غزنوی کے پاس حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کا جبہّ مبارک تھا۔ سومنات کی جنگ میں ایک موقع پر خدشہ ہوا کہ مسلمانوں کو شکست ہو جائے گی، سلطان محمود غزنوی اچانک گھوڑے سے اتر کر ایک گوشے میں چلے گئے اور وہ جبّہ ہاتھ میں لے کر سجدے میں گر گئے اور دعا مانگی :

اللّهم، انصرنا علي هؤلاء الکفّار ببرکة صاحب هذه الخرقة، وکل ما يحصل لي من أموال الغنيمة فهو صدقة علي الفقراء.

’’یا اللہ! اس جبّے والے کی برکت سے ہمیں کافروں پر فتح و نصرت عطا فرما اور جو کچھ مال غنیمت ہاتھ آئے گا وہ سب درویشوں پر صدقہ ہوگا۔‘‘

فريد الدين عطار رحمة الله عليه ، تذکرة الأولياء : 344

اس کے بعد شیخ فرید الدین عطار رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں :

’’اچانک دشمن کی طرف سے شور اُٹھا اور تاریکی چھا گئی اور کافر آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے اور مختلف حصوں میں بٹ گئے۔ لشکرِ اسلام کو فتح حاصل ہو گئی۔ اس رات محمود غزنوی نے حضرت ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ علیہ کو خواب میں فرماتے ہوئے سنا :

يا محمود، لم تعرف مکانة خرقتنا في حضرة اﷲ سبحانه وتعالیٰ، لو سألت اﷲ د في تلک السّاعة إسلام جميع الکفار لأسلموا.

’’اے محمود! تم نے دربار الٰہی میں ہمارے جبّے کی قدر نہ کی۔ اگر تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے اُس لمحے تمام کافروں کے لیے قبولیتِ اسلام کی درخواست کرتے تو (اس کی برکت سے) وہ سب اِسلام قبول کر لیتے۔‘‘

فريد الدين عطار رحمة الله عليه ، تذکرة الأولياء : 345

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...