Friday, 18 September 2015

نبی رحمت ﷺ کے مبارک ملبوسات سے حصولِ برکت


1۔ مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اﷲ عنھما کا وصال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی تجہیز و تکفین کے لئے خصوصی اہتمام فرمایا۔ غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقعہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ انہیں پہنا کر اُوپر کفن لپیٹ دیں.

1. طبراني، المعجم الکبير، 24 : 351، رقم : 871
2. ابن عبدالبر، الاستيعاب، 4 : 1891، رقم : 4052
3. أبونعيم، حلية الاولياء وطبقات الأصفياء، 3 : 121

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے کرتہ عطا فرمانے کا مقصد یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چاہتے تھے کہ وہ اس کے فیوض و برکات سے مستفید ہوجائیں۔

2۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت ام عطیہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ جس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی حضرت زینب رضی اﷲ عنہا وصال فرما گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا :

اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا اَوْ خَمْسًا اَوْ أَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذٰلِکَ بِمَآءٍ وَ سِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْاٰخِرَةِ کَافُوْرًا اَوْ شَيْئًا مِنْ کَافُوْرٍ فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَاٰذِنَّنِي فَلَمَّا فَرَغْنَا اٰذَنَّاهُ فَأَعْطَانَا حِقْوَهُ فَقَالَ أَشْعِرْنَهَا إِيَاهُ تَعْنِي إِزَارَهُ.

’’اس کو تین یا پانچ دفعہ یا اگر مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ بار بیری کے پتوں اور پانی سے غسل دو اور آخر میں کچھ کافور رکھ دینا۔ جب تم فارغ ہو جاؤ تو مجھے خبر دینا۔ (وہ فرماتی ہیں) جب ہم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مبارک چادر عنایت فرمائی اور فرمایا : اس کو کفن کے نیچے پہنانا۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب : غسل الميت و وضوئه بالماء والسدر، 1 : 422، رقم : 1195
2. مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب : نهي النساء عن اتباع الجنائز، 2 : 646، رقم : 939

اس حدیثِ مبارکہ کو بھی ائمہ و محدّثین نے تبرک بالصالحین کی بنیاد قرار دیا ہے۔ چند اکابر ائمہ حدیث کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں :

1۔ امام ابنِ حجر عسقلانی اس حدیث کو تبرکِ صالحین کی بنیاد قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

وهو أصل فی التّبرّک بآثار الصّالحين.

’’یہ حدیثِ پاک آثار صالحین سے تبرک کے ثبوت میں اصل ہے۔‘‘

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 3 : 29، 130

2۔ شارح صحیح مسلم امام نووی نے بھی اس حدیث سے تبرک کا استنباط کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :

ففيه التّبرّک بآثار الصّالحين ولباسهم.

’’اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین اور ان کے استعمال شدہ کپڑوں سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘

نووي، شرح صحيح مسلم، 7 : 3

3۔ علامہ شوکانی نے امام ابنِ حجر عسقلانی کے اِستنباط پر اعتماد کرتے ہوئے انہی کے الفاظ کہ وہو اصل فی التّبرّک بآثار الصّالحین کو نقل کیا ہے۔

شوکاني، نيل الأوطار، 4 : 64

3۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ایک خاتون نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں ایک چادر پیش کی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ زیب تن فرمائی تو ایک شخص نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کتنی حسین چادر ہے، مجھے عنایت فرما دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں عنایت فرمائی۔ حاضرین میں سے بعض نے اس کو اچھا نہیں سمجھا اور چادر مانگنے والے کوملامت کی کہ جب تمہیں معلوم تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی سائل کو واپس نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگی؟ اس شخص نے جواب دیا :

إِنِّی وَاﷲِ مَاسَأَلْتُهُ لِأَلْبَسَهَا، إِنَّمَا سَأَلْتُهُ لِتَکُوْنَ کَفَنِی. قَالَ سَهْلٌ : فَکَانَتْ کَفَنَهُ.

’’خدا کی قسم میں نے یہ چادر اس لئے نہیں مانگی کہ اسے پہنوں۔ میں نے (تو اس کی برکت کی امید سے) اس لئے مانگی ہے کہ یہ مبارک چادر میرا کفن ہو۔ حضرت سہل فرماتے ہیں : کہ یہ مبارک چادر بعد میں ان کا کفن بنی۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب : من استعد الکفن في زمن النبي صلي الله عليه وآله وسلم فلم ينکر عليه، 1 : 429، رقم : 1218

(اسی روایت کو امام بخاری نے کتاب البیوع، رقم : 1987، کتاب اللباس، رقم : 5473 اور کتاب الادب، رقم : 5689 میں بھی بیان کیا ہے۔)

2. ابن ماجه، السنن، کتاب اللباس، باب : لباس رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 2 : 1177، رقم : 3555
3. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 333، رقم : 22876

یعنی اس خوش بخت صحابی رضی اللہ عنہ کو ان کی خواہش کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک چادر میں کفن دے کر دفنایا گیا۔

حافظ ابنِ حجر عسقلانی نے اس حدیث کے فوائد بیان کیے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے :

وفيه التّبرّک بآثار الصّالحين.

’’اور اس حدیث مبارکہ میں آثار صالحین سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘

ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 3 : 144

4۔ حضرت عبداللہ بن سعد بن سفیان غزوہ تبوک میں شہید ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنے مبارک قمیص کا کفن پہنایا۔

1. ابن اثير، أسد الغابة، 3 : 262
2. عسقلاني، الإصابه في تمييز الصّحابة، 4 : 111، رقم : 4715

5۔ حضرت عبداللہ بن حارث بن عبدالمطلب بن ہاشم فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی مبارک قمیص کا کفن پہنا کر دفن کیا، اور فرمایا : ھذا سعید ادرکتہ سعادۃ ’’یہ خوش بخت ہے اور اس نے اس سے سعادت حاصل کی ہے۔‘‘

1. ابن اثير، أسد الغابة، 3 : 207
2. ابن عبدالبر، الإستيعاب، 3 : 884، رقم : 1496
3. عسقلاني، الإصابه في تمييز الصحابة، 4 : 47، رقم : 4605
4. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 4 : 48

6۔ حضرت عبداﷲ بن ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے قمیص مبارک میں دفن کیا۔ امام ابنِ حجر عسقلانی الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ میں بیان کرتے ہیں :

دفنه النبي صلي الله عليه وآله وسلم في قميصه.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنی قمیص مبارک میں دفن کیا۔‘‘

عسقلاني، الإصابة في تمييز الصّحابة، 4 : 29، رقم : 4575

ان روایات سے معلوم ہوا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک لباس میں اللہ تعالیٰ نے برکت رکھی تھی۔ نہ صرف دنیا میں لوگ اس کے اثر سے فیض یاب ہوتے رہے بلکہ بعد از وفات بھی اس کی برکات سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا رہا ہے اور پہنچتا رہے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو لباس زیب تن فرمایا، نسبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے وہ بھی عام کپڑا تھا مگر جسدِ اطہر کے ساتھ منسوب ہونے کی وجہ سے وہ مشرف و متبرک ہوگیا۔ اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خواہش رکھتے تھے کہ انہیں کفن کے لئے کوئی ایسا کپڑا میسر آئے جس کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسدِ اطہر کے ساتھ کچھ نہ کچھ نسبت ہو۔ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کو ایسے با برکت کپڑے عنایت فرما کر خود اپنے عمل سے اُمت کے لیے یہ سنت عطا فرمائی کہ تبرکات صالحین سے برکت حاصل کرنا جائز اور مشروع ہے۔

No comments:

Post a Comment

فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا

فاسق فاجر اور ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق بلند کرنا محترم قارئین کرام : نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو آگاہ فرمایا کہ اللہ کی ...