Friday 18 September 2015

حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے منسوب کنویں سے تبرک

اللہ رب العزت انبیاء کرام علیہم السلام اور اپنے مقرب بندوں کو عطا کردہ چیزوں میں اتنی برکت اور تاثیر رکھ دیتے ہیں کہ اُن سے نسبت شدہ چیزوں کو بھی بابرکت بنا دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ تاریخ کے اوراق میں احادیث صحیحہ سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی سے منسوب کنوئیں کے بارے میں بھی ملتا ہے۔ حضرت صالح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اونٹنی معجزہ کے طور پر عطا فرمائی تھی لہٰذا اس کے مبارک اور بابرکت ہونے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن بات صرف یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ اونٹنی جس کنوئیں سے پانی پیتی تھی اس کو بھی نبی کی نسبت سے بابرکت بنا دیا گیا۔

واقعہ یوں ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی ایک کنویں سے پانی پیتی تھی۔ ایک پورا دن اس کے لئے خاص تھا قومِ صالح کو یہ ناگوار گزرا اور انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی طرف سے عذابِ الٰہی کی وعید کے باوجود اس اونٹنی کو ذبح کر ڈالا نتیجتاً اللہ رب العزت کا عذاب نازل ہوا اور پوری قوم ہلاک ہو گئی۔

غزوۂ تبوک کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے جانثار صحابہ کے ہمراہ جب اس مقام پر سے گزر ہوا تو اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقام سے آگاہ فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موقع پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس وادی سے تیزی کے ساتھ گزرنے کا حکم دیا اور تباہ شدہ قوم کے کنویں سے پانی پینے سے منع فرمایا اور اس سے آٹا گوندھنے اور برتن دھونے سے بھی منع فرمایا بلکہ گوندھا ہوا آٹا اور جمع کیا ہوا پانی پھینکنے کا حکم دیا۔ اس کی بجائے انہیں اس مبارک کنویں کا پانی استعمال کرنے کی ترغیب دی جس سے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی پیا کرتی تھی۔

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

أَنَّ النَّاسَ نَزَلُوْا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَرْضَ ثَمُوْدَ الْحِجْرَ فَاسْتَقَوْا مِنْ بِئْرِهَا وَاعْتَجْنُوْا بِهِ فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أنْ يُهَرِيقُو مَا اسْتَقَوْا مِنْ بِئرِهَا وَأَنْ يَعْلِفُوْا الإِبِلَ الْعَجِيْنَ وَأمَرَهُمْ أن يَسْتَقُوْا مِنَ البِئْرِ الَّتِي کَانَتْ تَرِدُهَا النَّاقَةُ.

’’لوگ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ثمود کی سر زمین حجر میں اُترے۔ اس کے کنوؤں سے پانی نکالا اور اس سے آٹا گوندھا۔ انہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ اس وادی کے کنویں سے جو پانی نکالا ہے اسے پھینک دو اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام کو حکم دیا وہ اس (مبارک) کنویں سے پانی لیں جس پر حضرت صالح علیہ السلام کی اُونٹنی آتی تھی۔‘‘

1. بخاری، الصحيح، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب : قول اﷲ تعالی : وَ إلٰی ثَمُوْدَ أَخَاهُمْ صَالِحًا، 3 : 1237، رقم : 3199
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزهد والرقائق، باب : لا تدخلوا مساکن الذین ظلموا أنفسهم، 4 : 2286، رقم : 2980

علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر الجامع الاحکام القرآن میں سورۃ الحجر کی مذکورہ آیت کی تفسیر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مندرجہ بالا اِرشاد سے تبرک بالآثار کا استنباط کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

أمره صلي الله عليه وآله وسلم أن يستقوا من بئر الناقة دليل علي التبرک بآثار الأنبياء والصالحين وإن تقادمت أعصارهم وخيفت آثارهم.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد فرمانا کہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کے کنویں سے پانی لو، انبیاء و صالحین کے آثار سے تبرک پر دلیل ہے اگرچہ زمانے گذر چکے ہوں اور ان کے مبارک آثار آنکھوں سے اوجھل ہو چکے ہوں۔‘‘

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 47

اسی حدیث کی تشریح میں شارح صحیح مسلم امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث پاک سے متعدد فوائد کاثبوت ہے۔

و منها مجانبة آبار الظالمين والتبرک بآبار الصالحين.

’’ان میں ظالموں کے منحوس کنووں سے اجتناب اور صالحین کے مبارک کنووں سے برکت حاصل کرنا مراد ہے۔‘‘

نووي، شرح صحيح مسلم، 18 : 112

امام نووی کی یہ تشریح دراصل سلف صالحین کے صحیح عقیدہ کی ترجمان ہے کہ کس طرح ہمارے اسلاف صالحین اور ان کے آثار سے تبرک حاصل کرتے تھے۔ لہٰذا صحیح سلفی عقیدہ یہ ہے کہ بعض مقامات بھی بابرکت ہوتے ہیں اور ان کا مبارک ہونا کسی نیک بندے یا کسی شعائر اﷲ کی نسبت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اب متذکرہ بالا آیتِ کریمہ سے یہ ثابت ہوا کہ جس طرح نیک بندگانِ خدا کی نسبت سے کوئی جگہ مبارک ہوسکتی ہے تو اس کے برعکس ظالم اور نافرمان قوم کی وجہ سے کوئی خطہ منحوس بھی ہوسکتا ہے۔ جس طرح مبارک مقامات سے تبرک حاصل کرنا درست ہے اسی طرح جس مقام پر عذابِ الٰہی کا نزول ہوا ہو وہاں غضبِ الٰہی سے پناہ مانگنا بھی سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے۔

کثیر احادیثِ مبارکہ سے بھی تبرکاتِ صالحین کی اصل ثابت ہے۔ اس پر تفصیلی بحث ہم اگلی پوسٹوں  میں کرینگے  ۔ ان شاء اللہ

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...