Friday, 18 September 2015

حضور نبی اکرم نور مجسّم ﷺ کی قمیص مبارک سے تبرک

صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی فوت ہوگیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ جو جانثار صحابی رسول تھے، نے عرض کیا :

أَعْطِيْنِي قَمِيْصَکَ أُکَفِّنُهُ فِيْهِ وَصَلِّ عَلَيْهِ وَاسْتَغْفِرْلَهُ فَأَعْطَاهُ النَّبِيُ صلي الله عليه وآله وسلم قَمِيْصَهُ. . .

’’مجھے اپنی قیمص مبارک عطا فرمائیے تاکہ اُسے میں کفناؤں اور ان پر نماز پڑھیں اور دعائے مغفرت فرمائیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے اپنی قمیص عطا فرما دی۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الجنائز، باب الکفن في القميص، 1 : 427، رقم : 1210

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کا عرض کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے اس سچے صحابی کی دلجوئی کے لئے ان کے منافق باپ کو اپنی قیمص عطا فرمانا، تبرک کے ثبوت کے لئے اصل ہے، علامہ اسماعیلی نے اس روایت سے یہی استنباط کیا ہے اور امام ابنِ حجر عسقلانی نے ان پر اعتماد کرتے ہوئے شرح بخاری میں اسے نقل کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں :

واستنبط منه الإسماعيلی جواز طلب آثار أهل الخير منهم للتبرک بها وإن کان السائل غنياً.

’’علامہ اسماعیلی نے اس روایت سے صالحین سے ان کے آثار کو برائے تبرک طلب کرنے کا جواز اخذ کیا ہے خواہ مانگنے والا مالدار کیوں نہ ہو۔‘‘

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 3 : 139

No comments:

Post a Comment

جو انسان زندہ ہیں ان کا سہارا بنیں

اپنے کندھوں کا استعمال صرف جنازے اٹھانے کےلیے مخصوص نہ کریں بلکہ جو انسان زندہ ہیں ان کا سہارا بنیں ۔ ⏬