Friday 18 September 2015

حضرت موسیٰ اور ہارون علیہما السّلام کے آثار سے تبرک

حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے تبرکات کا ذکر قرآن حکیم میں اﷲ تبارک و تعالیٰ نے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ ایک خاص تاریخی پسِ منظر میں فرمایا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلآئِكَةُ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَO

’’اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا اس کی سلطنت (کے مِنْ جانبِ اﷲ ہونے) کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس صندوق آئے گا اس میں تمہارے رب کی طرف سے سکونِ قلب کا سامان ہوگا اور کچھ آلِ موسیٰ اور آلِ ہارون کے چھوڑے ہوئے تبرکات ہوں گے اسے فرشتوں نے اٹھایا ہوا ہو گا، اگر تم ایمان والے ہو تو بے شک اس میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہےo‘‘

البقرة، 2 : 248

یہ امر واضح رہے کہ ہم نے مندرجہ بالا آیت کے ترجمہ میں تبرکات کا لفظ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث رحمۃ اللہ علیہ دہلوی سے لیا ہے۔ اس کی تفصیل کم و بیش تفسیر کی ہر کتاب مثلاً تفسیر بغوی، قرطبی، جلالین، کبیر، بیضاوی، روح البیان، جمل، روح المعانی، خازن، مدارک، کشاف اور المظہری وغیرہ میں ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ائمہِ تفسیر نے وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ سے مراد تبرکات لیے ہیں۔ ذیل میں چند تفاسیر کے حوالہ جات دیئے جارہے ہیں۔

1۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

قال أصحاب الأخبار : إن اﷲ تعالیٰ أنزل علي آدم عليه السلام تابوت فيه صور الأنبياء من أولاده فتوارثه أولاد آدم إلي أن وصل إلي يعقوب ثم بقي في أيدي بني إسرائيل فکانوا إذا اختلفوا في شيء تکلم وحکم بينهم وإذا حضروا القتال قدموه بين أيديهم يستفتحون به علي عدوهم. . . .

’’مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر ایک تابوت نازل فرمایا جس میں سیدنا آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے انبیاء علیہم السلام کی تصاویر تھیں۔ وہ تابوت اولادِ آدم میں وراثتاً منتقل ہوتے ہوئے حضرت یعقوب علیہ السلام تک پہنچا، پھر یہ بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا۔ اور جب ان کے درمیان کسی مسئلے پر اختلاف ہوتا تو یہ تابوت کلام کرتا اور فیصلہ سناتا اور جب وہ کسی جنگ کے لئے جاتے تو اپنے آگے اس تابوت کو رکھتے جس کے ذریعے وہ اپنے دشمنوں پر فتح پاتے۔‘‘

رازي، التفسير الکبير، 6 : 149

2۔ امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ معالم التنزیل میں آیت وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے تبرکات لیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں :

(وَبَقِيَةٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ هٰرُوْنَ) يعني موسيٰ وهارون نفسهما. کان فيه لوحان من التوراة ورضاض الألواح التي تکسرت وکان فيه عصا موسي ونعلاه وعمامة هارون وعصاه وقفيز من المن الذي کان ينزل علي بني اسرائيل.

(وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ) آل سے مراد خود حضرت موسیٰ و ہارون علیہا السلام کے تبرکات ہیں اس میں تورات کی دو مکمل تختیاں اور کچھ ان تختیوں کے کوٹے ہوئے ٹکڑے تھے۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور نعلین اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ اورعصا اور (جنت کا کھانا) مَنْ جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا تھا اس کا ٹکڑا بھی اس میں شامل تھا۔‘‘

1. بغوي، معالم التنزيل، 1 : 229
2. سيوطي، تفسير الجلالين، 1؛ 54
3. أبو الليث سمرقندي، تفسير سمرقندي، 1 : 188

علاوہ ازیں تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس (1 : 5)میں، امام طبری نے جامع البیان فی تفسیر القرآن (2 : 3614) میں، علامہ زمخشری نے الکشاف (1 : 321) میں، علامہ ابنِ کثیرنے تفسیر القرآن العظیم (1 : 302) میں، امام سیوطی نے الدرالمنثور (1 : 2758)میں، امام آلوسی نے روح المعانی (2 : 169) میں، علامہ شوکانی نے فتح القدیر (1 : 267) میں، علامہ محمد العمادی نے تفسیر ابی سعود ( 1 : 241) میں اور قاضی ثناء اﷲ پانی پتی نے تفسیر المظہری (1 : 249) میں زیرِبحث آیت کی تفسیر کرتے ہوئے وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَى وَآلُ هَارُونَ سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے تبرکات لئے ہیں جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور نعلین مبارک، حضرت ہارون علیہ السلام کا عصا اور عمامہ، ان کا لباس، تورات کے بعض اجزاء اور مَنْ کے ٹکڑے جو بنی اسرائیل پر (آسمان سے) نازل ہوتا تھا، شامل تھے۔

3۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی تفسیر ماجدی میں سورۃ البقرۃ، 2 : 248 کی آیت کے تحت لکھتے ہیں :

’’اَلتَّابُوْتُ۔ اس خاص صندوق کا اصطلاحی نام تابوتِ سکینہ ہے۔ یہ بنی اسرائیل کا اہم ترین ملی اور قومی ورثہ تھا۔ اس میں تورات کا اصل نسخہ مع تبرکاتِ انبیاء محفوظ تھا۔ بنی اسرائیلی اس کو انتہائی برکت و مقدس سمجھتے تھے۔ سفر و حضر، جنگ و امن ہر حال میں اسے بڑی حفاظت سے اپنے ساتھ رکھتے تھے۔ یہ کچھ ایسا بڑا نہ تھا۔ موجودہ علماءِ یہود کی تحقیق کے مطابق اس کی پیمائش حسبِ ذیل تھی :

طول۔ ۔ ۔ دو فٹ چھ انچ
عرض۔ ۔ ۔ ایک فٹ چھ انچ
بلندی۔ ۔ ۔ ایک فٹ چھ انچ

بنی اسرائیل اپنی ساری خوش بختی اسی سے وابستہ سمجھتے تھے، مدت ہوئی فلسطینی اسے ان سے چھین کر لے گئے تھے، اسرائیلی اسے اپنے حق میں انتہائی نحوست و بد طالعی سمجھ کر اس کی واپسی کے لیے نہایت درجہ بیتاب و مُضطرب تھے۔ ۔ ۔ ۔

طالوت کے وقت میں یہ تابوت واپس آجانے کے بعد تاریخ کا بیان ہے کہ بنی اسرائیل کے قبضہ میں حضرت سلیمان علیہ السلام (متوفی 933 ق، م) تک رہا، اور آپ نے بیت المقدس میں ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کے بعد اسی میں اُسے بھی رکھ دیا تھا، اس کے بعد سے اس کا پتہ نہیں چلتا، یہود کاعام خیال یہ ہے کہ یہ تابوت اب بھی ہیکلِ سلیمانی کی بنیادوں کے اندر دفن ہے۔‘‘

عبدالماجد دريا آبادي، تفسير ماجدي، 1 : 459

4۔ مولانا اشرف علی تھانوی اپنی تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں :

’’ (اور جب اُن لوگوں نے پیغمبر سے یہ درخواست کی کہ اگر کوئی ظاہری حجت بھی ان کی من جانب اﷲ بادشاہ ہونے کی ہم مشاہدہ کرلیں تو اور زیادہ اطمینان ہو جاوے اُس وقت) اُن سے اُن کے پیغمبر نے فرمایا کہ اُن کے (من جانب اﷲ) بادشاہ ہونے کی یہ علامت ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق (بدوں تمہارے لائے ہوئے) آ جاوے گا جس میں تسکین (اور برکت) کی چیز ہے۔ تمہارے رب کی طرف سے (یعنی تورات اور تورات کا من جانب اﷲ ہونا ظاہر ہے) اور کچھ بچی ہوئی چیزیں ہیں جن کو حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام چھوڑ گئے ہیں (یعنی ان حضرات کے کچھ ملبوسات وغیرہ غرض) اُس صندوق کو فرشتے لے آویں گے۔ اس (طرح سے صندوق کے آ جانے) میں تم لوگوں کے واسطے پوری نشانی ہے۔ اگر تم یقین لانے والے ہو۔ اس صندوق میں تبرکات تھے۔‘‘

مزید حاشیے میں لکھتے ہیں : قولہ تعالیٰ :

’’يَأْتِيْکُمُ التَّابُوْتُ فِيْهِ سَکِيْنَةٌ ‘‘

’’اس میں اصل ہے آثارِ صالحین سے برکت حاصل کرنے کی۔‘‘

اشرف علی تهانوی، بيان القرآن، 1 : 145

اس تفصیل کا مقصود یہ امر واضح کرنا ہے کہ جب بنی اسرائیل کو انپے انبیاء علیہم السلام کے تبرکات کے ذریعے اﷲ تعالیٰ نے طرح طرح کے دنیوی و اخروی اور ظاہری و باطنی فوائد عطا فرمائے تھے جس پر قرآن مجید خود شاہدہے تو کیا امتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی نسبت و تعلق اور سچی محبت و ادب کے ذریعے ظاہری و باطنی تبرکات و فیوضات نصیب نہیں ہوں گے؟ یقینا پہلی امتوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر نصیب ہوں گے۔ ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فقط ذہنی اور فکری تعلق استوار کیا ہے مگر قلبی اور باطنی تعلق کمزور کر لیا ہے۔ جو لوگ آج بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایسا قلبی و روحانی رشتہ قائم کر لیتے ہیں وہ اپنی زندگی میں اب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الطافِ کریمانہ اور فیضان کے نظارے کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...