Friday 18 September 2015

قرآن حکیم کے بابرکت ہونے کا بیان

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی بے شمار صفات اور خوبیاں بیان فرمائی ہے۔ قرآن کی ایک صفت اس کا بابرکت ہونا بھی ہے۔

1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ مُّصَدِّقُ الَّذِي بَيْنَ يَدَيْهِ.

’’اور یہ (وہ) کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے، بابرکت ہے، جو کتابیں اس سے پہلے تھیں ان کی (اصلاً) تصدیق کرنے والی ہے۔‘‘

الأنعام، 6 : 92

2۔ سورۃ الانعام میں ہی دوسری جگہ ارشاد فرمایا :

وَهَـذَا كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ وَاتَّقُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَO

’’اور یہ (قرآن) برکت والی کتاب ہے جسے ہم نے نازل فرمایا ہے سو (اب) تم اس کی پیروی کیا کرو اور (اﷲ سے) ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائےo‘‘

الأنعام، 6 : 155

3۔ قرآن حکیم کو خوبیوں والی اور بابرکت کتاب کہا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

كِتَابٌ أَنزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوا آيَاتِهِ وَلِيَتَذَكَّرَ أُوْلُوا الْأَلْبَابِO

’’یہ کتاب برکت والی ہے۔ جسے ہم نے آپ کی طرف نازل فرمایا ہے تاکہ دانشمند لوگ اس کی آیتوں میں غور و فکر کریں اور نصیحت حاصل کریں‘‘

ص، 38 : 29

4۔ سورۃ الدخان میں ارشاد فرمایا :

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَO

’’بیشک ہم نے اسے ایک با برکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیں‘‘

الدخان، 44 : 3

اس آیت کے تحت شیخ ابنِ عربی لکھتے ہیں :

البرکة : هی النماء و الزيادة و سماها مبارکة لما يعطي اﷲ فيها من المنازل و يغفر من الخطايا و يقسم من الحظوظ و يبث من الرحمة و ينيل من الخير و هي حقيقة ذلک وتفسيره.

’’برکت کا معنی کسی چیز میں بڑھوتری اور اِضافہ ہے۔ نزولِ قرآن کی رات کو اس لئے مبارک قرار دیا کہ اس میں اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو بلند درجات عطا فرماتا ہے، گناہوں کی بخشش فرماتا ہے، سعادت و خوش قسمتی اور خیر و فضل تقسیم فرماتا ہے، اپنی رحمت کو پھیلاتا ہے اور خیر و بھلائی عطا فرماتا ہے۔ یہی اس رات کے بابرکت ہونے کا حقیقی معنی اور اس کی تفسیر ہے۔‘‘

ابن عربی، أحکام القرآن، 4 : 117

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...