Friday 18 September 2015

مقامات مقدسہ کے بابرکت ہونے کا بیان قرآن حکیم کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بعض خصوصی اماکن اور زمین کے قطعات کا بابرکت ہونا بیان فرمایا ہے۔

1۔ اللہ رب العزت نے خانہ کعبہ کو برکت والا گھر قرار دیا، فرمایا :

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَO

’’بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں (کی عبادت) کے لئے بنایا گیا وہی ہے جو مکہّ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے (مرکزِ) ہدایت ہےo‘‘

ال عمران، 3 : 96

امام ابوبکر جصاص نے احکام القرآن میں اس آیت کی تشریح میں برکت اور تبرک کے تصور کو یوں واضح کیا ہے :

وقوله مبارکًا يعني أنه ثابت الخير والبرکة، لأن البرکة هي ثبوت الخير ونموه وتزيده والبرک هو الثبوت يقال برک برکًا وبروکا إذا ثبت علي حاله.

’’اور اللہ عزوجل کا مبارکاً فرمانا اس معنی میں ہے کہ وہ گھر خیر و برکت والا ہے، کیونکہ کسی چیز میں خیر و بھلائی کا پایا جانا اور اس کا نشوو نما اور اس میں اضافہ ہو جانے کا نام برکت ہے۔ برکت سے مراد جم کر بیٹھنا ہے برک، برکاً اور بروکا اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اپنی جگہ جم کر بیٹھے۔‘‘

جصاص، أحکام القرآن، 2 : 303

2۔ مسجدِ اقصیٰ کے گرد و نواح کو انبیاء کرام کا مسکن ہونے کی وجہ سے بابرکت بنا دیا۔ ارشاد فرمایا گیا :

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ البَصِيرُO

’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂِ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہےo‘‘

بنی اسرائيل، 17 : 1

اﷲ تعالیٰ نے سفرِ معراج کے ضمن میں مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصیٰ کا ذکر فرمایا تو مسجدِ اقصیٰ کے ساتھ اس کی وجہ فضیلت بھی بتائی کہ اس کے اردگرد ہم نے برکتیں رکھ دی ہیں۔ ائمہِ تفسیر نے بابرکت ماحول کی وجہ بیت المقدس کے اردگرد پھلدار درخت اور جاری نہروں کے علاوہ زمانہ موسوی سے اس مسجد کو مہبطِ وحی اور مسکن انبیاء علیہم السلام کے طور پر بیان کیا ہے۔ علاوہ ازیں ایک بڑی و جہ انبیاء علیہم السلامکے مزارات ہیں جو فلسطین اور بالخصوص القدس شریف کی سرزمین میں موجود ہیں۔

علامہ قرطبی لکھتے ہیں :

قيل بالثّمار وبمجاري الأنهار وقيل بمن دُفن حوله من الأنبياء والصالحين.

’’یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے ارد گرد کو پھلوں اور نہروں کی وجہ سے بابرکت بنایا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے اردگرد انبیاء کرام علیہم السلام اور صالحین دفن ہیں اس وجہ سے یہ بابرکت ہے۔‘‘

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 10 : 212

علامہ شوکانی لکھتے ہیں :

بالثّمار والأنهار والأنبياء و الصالحين فقد بارک اﷲ سبحانه حول المسجد الأقصي ببرکات الدّنيا والآخرة.

’’یعنی پھلوں، نہروں انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی وجہ سے۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسجد اقصیٰ کے اردگرد کے ماحول کو دنیا و آخرت کی برکتوں سے مالا مال فرمایا۔‘‘

شوکاني، فتح القدير، 3 : 206

آیتِ کریمہ کی مذکورہ تفسیر سے ثابت ہوا کہ ائمہ تفسیر نے مسجد اقصیٰ کے اردگرد کے ماحول کو درج ذیل وجوہات کی بنا پر بابرکت قرار دیا ہے۔

    پھلدار درختوں اور نہروں کا پایا جانا۔
    مسکنِ انبیاء علیہم السلام اور مسجدِ اقصیٰ کاکثیر انبیاء علیہم السلام کی عبادت گاہ ہونا۔
    مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد مزاراتِ انبیاء علیہم السلام کی موجودگی۔

علامہ قرطبی اور علامہ شوکانی کے قول کے مطابق بابرکت ہونے کی بڑی وجہ مزاراتِ انبیاء ہیں۔ یہی درست بات ہے کیونکہ لذیذ پھلوں اور خوش ذائقہ پانی کی نہروں کا وجود بھی انبیاء علیہم السلام کے وجودِ مسعود کے باعث ہے۔

نصِ قرآنی سے ثابت ہوا کہ انبیاء و صالحین کی وجہ سے کسی جگہ کا بابرکت ہونا اور لوگوں کا تبرکاً اس مقدس مقام کی زیارت کے لئے جانا نہ صرف جائز بلکہ امرمستحسن ہے۔ پس حضور تاجدارِ کائنات سیدنا محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدفن ہونے کا اعزاز جس خطۂ زمین کو نصیب ہوا وہ پوری کائنات سے بڑھ کر بابرکت و باسعادت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرون اولیٰ سے لے کر آج تک جمہور اُمت روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کو دنیا و مافیھا سے بڑھ کر عزیز سمجھتی ہے۔

انبیاء علیہم السلام کے وجودِ مسعود کی وجہ سے مسجدِ اقصیٰ کا اردگرد بابرکت ہونے کی مزید تائید حضرت مجاہد کے اس قول سے ہوتی ہے :

سماه مبارکًا لأنه مقر الأنبياء ومهبط الملائکة والوحي.

’’مسجدِ اقصیٰ کے اردگرد کو بابرکت اس لئے کہا گیا کہ یہ انبیاء علیہم السلام کی قرار گاہ اور نزولِ ملائکہ و وحی کا مقام ہے۔‘‘

1. بغوي، معالم التنزيل، 3 : 92
2. ثناء اﷲ، تفسير المظهري، 5 : 399
3. ابن جوزي، زاد المسير، 5 : 5

اس امر میں تو کوئی شک و شبہ نہیں کہ نصِ قرآنی کے مطابق بیت المقدس کا گردونواح بابرکت ہے۔ رہی یہ بات کہ وہ بابرکت کیوں ہے؟ اس بارے میں ائمہ تفسیر نے جو بھی وجہ بیان کی اس میں نمایاں چیز نسبتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔ اگر وہاں نزولِ ملائکہ ہے تو وہ بھی نبیوں کی وجہ سے ہے۔ اگر مزاراتِ انبیاء و صالحین ہیں تو ان کی نسبت بھی ان سے ہے حتی کہ اگر عبادت گاہ مبارک ہے تو وہ بھی نبیوں کی نسبت کی وجہ سے ہے۔

امام نسفی لکھتے ہیں :

يريد برکات الدين والدنيا لأنه متعبد الأنبياء عليهم السلام ومهبط الوحي.

’’اس سے مراد دین و دنیا کی برکتیں ہیں اس لئے مسجد اقصیٰ انبیاء علیہم السلام کی عبادت گاہ اور مقامِ نزولِ وحی الٰہی ہے۔‘‘

1. نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 2 : 278
2. آلوسي، روح المعاني، 15 : 11
3. زمخشري، الکشاف، 2 : 606

3۔ خطۂ شام کے بابرکت ہونے کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُواْ يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا.

’’اور ہم نے اس قوم (بنی اسرائیل) کو جو کمزور اور استحصال زدہ تھی اس سر زمین کے مشرق و مغرب (مصر اور شام) کا وارث بنا دیا جس میں ہم نے برکت رکھی تھی۔‘‘

الأعراف، 7 : 137

4۔ اللہ تعالیٰ نے ایک اور مقام پر خطۂ شام کو برکت سے نوازے جانے کے بارے فرمایا :

وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَO

’’اور ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کو اور لوط (علیہ السلام) کو (جو آپ کے بھتیجے یعنی آپ کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے) بچا کر (عراق سے) اس سر زمین (شام) کی طرف لے گئے جس میں ہم نے جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں۔‘‘

الأنبياء، 21 : 71

خطۂ شام کو سرزمینِ انبیاء و صالحین کہا جاتا ہے۔ ائمہِ تفسیر نے اس امر کی صراحت کی ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں جس خطہ زمین کو برکت سے نوازنے کا بیان ہے وہ شام ہے۔

1۔ اِمام فخر الدین رازی نے لکھا ہے :

وحقّت أن تکون کذلک فهي مبعث الأنبياء صلاة اﷲ عليهم ومهبط الوحي.

’’اور درست بات یہ ہے کہ ایسا ہی ہے کیونکہ یہ سرزمین انبیاء علیہم السلام کی بعثت اور نزول وحی کا خطہ ہے۔‘‘

رازي، التفسير الکبير، 24 : 157

2۔ اِمام زمخشری نے لکھا ہے :

وبرکاته الواصلة إلي العالمين أنّ أکثر الأنبياء عليهم السلام بعثوا فيه فانتشرت في العالمين شرائعهم و آثارهم الدينية و هي البرکات الحقيقيّة.

’’اس سرزمینِ شام کی برکتیں تمام جہاں کو پہنچی۔ اس طرح کہ اکثر انبیاء علیہم السلام یہیں مبعوث ہوئے اور پوری دنیا میں ان کی شریعت اور دینی آثار پھیل گئے۔ یہی حقیقی برکات ہیں۔‘‘

زمخشري، تفسير الکشاف، 3 : 127

3۔ اِمام نسفی نے لکھا ہے :

أي أرض الشام برکتها أن أکثر الأنبياء منها فانتشرت في العالمين آثارهم الدينية.

’’یعنی سرزمینِ شام کی طرف اور اس سرزمین کی برکتوں میں سے یہ بھی ہے کہ اکثر انبیاء علیہم السلام کی بعثت یہاں ہوئی اور پھر ان کے دینی آثار دنیا میں پھیلے۔‘‘

نسفي، مدارک التنزيل و حقائق التأويل، 3 : 86

خطۂ شام کے مبارک ہونے کی ایک وجہ مفسرین نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ خطہ انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مرکز رہا ہے۔ لہٰذا ان کے مبارک قدموں کی وجہ سے یہ خطۂ زمین برکت والا ہوگیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی شام کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔ احادیث مبارک سے ثابت ہے کہ سرزمین شام اﷲ تعالیٰ کے منتخب بندوں انبیاء و صالحین کی سرزمین ہے اس لئے مبارک ہے۔

حضرت ابنِ حوالہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

سَيَصِيْرُ الْأَمْرُ إِلَي أَنْ تَکُوْنُوْا جُنُوْدًا مُجَنَّدَةً. جُنْدٌ بِالشَّامِ وَجُنْدٌ بِالْيًمَنِ وَجُنْدٌ بِالْعِرَاقِ. قَالَ ابْنُ حَوَالَةَ : خِرْ لِي يَارَسُوْلَ اﷲِ! إِنْ أَدْرَکْتُ ذٰلِکَ، فَقَالَ : عَلَيْکَ بِالشَّامِ فإِنَّهَا خيْرَةُ اﷲِ مِنْ أَرْضِهِ يَجْتَبِي إلَيْهَا خِيْرَتَهُ مِنْ عِبَادِهِ فَأَمَّا إِذْ أَبَيْتُمْ فَعَلَيْکُمْ بِيَمَنِکُمْ وَاسْقُوْا مِنْ غُدُرِکُمْ فَإِنَّ اﷲَ تَوَکَّلَ لِي بِالشَّامِ وَأَهْلِهِ.

’’عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب تمہارے لشکر الگ الگ ہوجائیں گے۔ ایک لشکر شام میں ہوگا تو ایک یمن میں اور ایک عراق میں۔ ابن حوالہ نے کہا : یارسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر میں اس وقت کو پاؤں تو فرمائیے میں کس لشکر میں جاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم سرزمین شام کو (سکونت کے لئے) اختیار کرنا کیونکہ سرزمین شام اﷲتعالیٰ کی زمین میں بہترین زمین ہے۔ اﷲتعالیٰ اس قطعہ ارضی میں اپنے بہترین بندوں کو چن کر اکٹھا فرمائے گا‘‘ اگر تجھے یہ منظور نہ ہو تو پھر یمن کو اختیار کرنا اور اپنے حوضوں سے پانی پلاتے رہنا۔ اﷲتعالیٰ نے میری خاطر ملک شام کی اور اہل شام کی کفالت فرمائی ہے۔‘‘

أبوداود، السنن، کتاب الجهاد، باب : فی سکنی الشام، 3 : 4، رقم : 2483

فضیلتِ شام کے بارے میں کتبِ احادیث میں متعدد احادیثِ مبارکہ موجود ہیں۔ فضیلتِ شام کے حوالے سے متذکرہ بالا نصِ قرآنی حدیثِ مبارکہ اور ائمہِ تفسیر کی آراء سے یہ ثابت ہوا کہ اﷲ رب العزت نے خود ابوالانبیاء سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے مقامِ ہجرت ملکِ شام کو بابرکت بنایا اور پھر امت کو فتنوں کے دور میں اس مبارک سرزمین میں حسبِ استطاعت تبرکاً سکونت اختیار کرنے کی ترغیب بھی فرمائی۔

غور طلب بات یہ ہے کہ زمین تو ساری اﷲتعالیٰ کی ہے، وہی پوری دنیا کا خالق و مالک حقیقی ہے، پھر اس قادر و قیوم ذاتِ وحدہ لا شریک نے زمین کے ایک ٹکڑے کو مبارک قراردیا۔ اس سے یہی بات مستنبط ہوتی ہے کہ اگر قرآن و سنت کی تعلیمات کے مطابق کوئی مقام یا ہستی مبارک ہو اور اگر ایک بندہ مؤمن خالق کائنات کی طرف سے عطا کردہ برکت کی وجہ سے اس سے تبرک اختیار کرے تو یہ صحیح اور درست امر ہے اسے خلاف شرع اور منافی توحید قرار نہیں دیا جاسکتا۔

5۔ یمن کے بارے میں اللہ رب العزت نے فرمایا :

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً.

’’اور ہم نے ان باشندوں کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی، (یمن سے شام تک) نمایاں (اور) متصل بستیاں آباد کر دی تھیں۔‘‘

سبا، 34 : 18

6۔ عام زمین کو خیر کے اعتبار سے کئی صورتوں میں متبرک بنایا گیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ.

’’اور اُس کے اندر (سے) بھاری پہاڑ (نکال کر) اس کے اوپر رکھ دیئے اور اس کے اندر (معدنیات، آبی ذخائر، قدرتی وسائل اور دیگر قوتوں کی) برکت رکھی، اور اس میں (جملہ مخلوق کے لئے) غذائیں ( اور سامانِ معیشت) مقرر فرمائے (یہ سب کچھ اس نے) چار دنوں (یعنی چار ارتقائی زمانوں) میں مکمل کیا۔‘‘

حم السجدة، 41 : 10
4۔ زمان کے بابرکت ہونے کا بیان

قرآن مجید میں بعض زمانوں کے بابرکت ہونے کو بھی بیان کیا گیا ہے، شبِ قدر کے بارے میں فرمایا :

إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُّبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنذِرِينَO

’’بیشک ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے بیشک ہم ڈر سنانے والے ہیںo‘‘

الدخان، 44 : 3
5۔ بعض اشیاء کے بابرکت ہونے کا بیان

قرآن مجید میں بعض اشیاء کے بابرکت ہونے کو بھی بیان کیا گیا ہے۔

1۔ اللہ تعالیٰ نے زیتون کے درخت کو بابرکت قرار دیا ہے، ارشادِ ربانی ہے :

اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ.

’’اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال (جو نورِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں دنیا میں روشن ہے) اس طاق (نما سینۂ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغِ (نبوت روشن) ہے، (وہ) چراغ، فانوس (قلبِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں رکھا ہے۔ (یہ) فانوس (نورِ الٰہی کے پَر تَو سے اس قدر منور ہے) گویا ایک درخشندہ ستارہ ہے (یہ چراغِ نبوت) جو زیتون کے مبارک درخت سے (یعنی عالمِ قدس کے بابرکت رابطہ وحی سے یا انبیاء و رسل ہی کے مبارک شجرۂ نبوت سے) روشن ہوا ہے نہ (فقط) شرقی ہے اور نہ غربی (بلکہ اپنے فیضِ نور کی وسعت میں عالمگیر ہے)۔‘‘

النور، 24 : 35

2۔ بارش کے پانی کو بھی مبارک قرار دیا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

وَنَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً مُّبَارَكًا.

’’اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی برسایا۔‘‘

ق، 50 : 9
6۔ نام کی نسبت سے حصولِ برکت

قرآن مجید میں ایک مقام پر سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ محترمہ سیدہ مریم علیہا السلام کا ذکر ہارون کی بہن کہہ کر ہوا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

يَا أُخْتَ هَارُونَ.

’’اے ہارون کی بہن!‘‘

مريم، 19 : 28

ائمہِ تفسیر نے لکھا ہے کہ یہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں اور ان کے ایک بھائی کا نام حضرت ہارون علیہ السلام کی نسبت سے ’’ہارون‘‘ تھا اس لئے ان کو ہارون کی بہن کہا گیا :

کان لها أخ من أبيها اسمه هارون لأن هذا الاسم کان کثيراً في بني إسرائيل تبرکاً باسم هارون أخي موسي.

’’حضرت مریم علیہا السلام کے علاتی بھائی کا نام ہارون تھا کیونکہ بنی اسرائیل میں یہ نام رکھنے کا بہت رواج تھا۔ لوگ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کے نام کی نسبت سے تبرکاً اسے رکھتے تھے۔‘‘

قرطبي، الجامع لأحکام القرآن، 11 : 100

قرآن مجید میں بیان کردہ مبارک یا متبرک انبیاء علیہم السلام، خود قرآن حکیم، اماکنِ مقدسہ، اشیاء اور زمان کی اِن اقسام سے معلوم ہوا کہ مخلوق میں سے بعض کو خالقِ کائنات کی طرف سے بابرکت ہونے کا رتبہ ملا ہے۔ یہ مقام ملنے کی وجہ سے اُن کا مقام باقی تمام مخلوق سے جدا اور ممتاز ہو جاتا ہے۔

اس تفصیل سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ خود آثارِ صالحین انبیاء و رسل کے مزارات اور مقدس مقامات کو بابرکت Declare کرتا ہے اور اس برکت سے تبرک حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...