۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ایک شخص کا قبرِ انور سے تبرک
حضرت مالک دار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجآء رجل إلي قبر النبي صلي الله عليه وآله وسلم ، فقال : يارسول اﷲ! استسق لأمتک فإنهم قد هلکوا، فأتي الرجل في المنام، فقيل له : ائت عمر فأقرئه السلام وأخبره أنکم مسقيون، و قل له : عليک الکيس! عليک الکيس! فأتي عمر فأخبره فبکي عمر، ثم قال : يا رب! لا آلو إلا ما عجزت عنه.
’’حضرت عمر (بن خطاب) رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہوگئے۔ پھر ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبرِ اطہر پر آئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ (اللہ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لئے سیرابی مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے۔ پھر خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے پاس آئے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جا کر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے۔ اور عمر سے کہہ دو : عقلمندی اختیار کرو، عقلمندی اختیار کرو۔ پھر وہ صحابی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان کو خبر دی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ فرمایا : اے اللہ! میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہوجاؤں۔‘‘
1. ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 356، رقم : 32002
2. بيهقي، دلائل النبوة، 7 : 47
3. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 3 : 1149
4. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 130
5. هندي، کنز العمال، 8 : 431، رقم : 23535
2. بيهقي، دلائل النبوة، 7 : 47
3. ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 3 : 1149
4. سبکي، شفاء السقام في زيارة خير الأنام : 130
5. هندي، کنز العمال، 8 : 431، رقم : 23535
No comments:
Post a Comment