Friday 18 September 2015

عقیدۂ تبرک میں احتیاط کے پہلو

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے دینِ اسلام کو اعتدال پسندی سے نوازا ہے جس کی بدولت اس کے ہر امر میں افراط و تفریط کو نظراندَاز کیا جائے گا اور ان کی ہر طرح سے حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ عقیدۂ تبرک میں بھی شریعت کے اِس اصول کو مدّنظر رکھا گیا ہے، لہٰذا اس میں درج ذیل پہلوؤں کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھنا چاہئیے۔

1۔ تبرک کے ہر اس عمل کو ناپسندیدہ، مکروہ اور بدعتِ ضلالۃ قرار دیا جائے گا جو اصلاً قرآن و حدیث سے ثابت نہیں۔

2۔ جن اعمال پر شریعت میں ممانعت وارد ہوئی ہے یا کراہت کا اظہار کیا گیا ہے، ان کو ہرگز بھی متبرک نہ سمجھا جائے مثلاً اولیاء و صالحین کے مزارات کا عبادت کی نیت سے طواف وغیرہ۔

3۔ آج کل معاشرے میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ شریعت سے نابلد بے عمل جاہل اور جعلی پیروں کو برکت کا ذریعہ بنایا جاتا ہے ان سے بھی حتی الامکان دامن بچانا چاہئیے۔

4۔ عقیدۂ تبرک میں جہاں بعض لوگ جہالت کے باعث افراط کا شکار ہیں، وہیں بعض لوگ تعصب اور عناد کے باعث اولیاء و صالحین اور مقبولانِ بارگاہِ الٰہی سے حصولِ برکت کو شرک اور بدعت قرار دیتے ہیں۔ اس نامناسب رویے پر بھی غور کرنا چاہیے۔

گذشتہ صفحات میں ہم نے تبرک کا لغوی و شرعی مفہوم اوراس کی انواع پر سیر حاصل بحث کی ہے جس سے تبرک کا حقیقی مفہوم نکھر کر سامنے آ جاتاہے۔ اب ہم قرآن کی روشنی میں تبرک کی شرعی حیثیت بیان کریں گے جس سے اس کی اہمیت و فضیلت اجاگر ہو گی۔

قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ برکت اور تبرک متعدد آیاتِ بیّنات سے ثابت شدہ امرِ شرعی ہے۔ تبرک سے متعلق قرآنی تعلیمات کو ہم آنے والی پوسٹوں میں بیان کریں گے ان شاء اللہ

No comments:

Post a Comment

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا امی ہونا محترم قارئینِ کرام : عرب میں  ایک چیز یا شخصیت کے متعدد نام رکھنے کا رواج ہے ا ن کے یہاں یہ بات...