موئے مبارک کی کرامات و برکات کے حوالے سے ائمہ و صالحین کے بعض ذاتی مشاہدات کا ذکر بھی کتب سیر و تواریخ میں ملتا ہے۔ ائمہ متاخرین میں سے حضرت شاہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ جیسی عظیم علمی و فکری شخصیت سے کون متعارف نہ ہوگا۔ انہوں نے اپنی کتاب الدر الثمین فی مبشرات النبی الامین اور انفاس العارفین میں اپنے والدِ گرامی حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی قدس سرہ العزیزکی بیماری کا واقعہ ان کی زبانی خود بیان کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ مجھے ایک مرتبہ اتنا سخت بخار ہوا کہ زندہ بچنے کی امید نہ رہی۔ اسی دوران مجھ پر غنودگی سی طاری ہوئی، اندریں حال میں نے حضرت شیخ عبدالعزیز کو خواب میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بیٹے عبدالرحیم (مبارک ہو)! حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہاری عیادت کے لئے تشریف لانے والے ہیں اور سمت کا تعین کرتے ہوئے فرمایا کہ جس طرف تمہاری پائنتی ہے اس طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں گے۔ سو تمہارے پاؤں اس رخ پر نہیں ہونے چاہئیں۔ مجھے غنودگی کے عالم سے کچھ افاقہ ہوا مگر بولنے کی طاقت نہ تھی چنانچہ حاضرین کو اشارے سے سمجھایا کہ میری چار پائی کا رخ تبدیل کر دیں بس اسی لمحے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیف حالک یا ابنی؟ بیٹے عبدالرحیم! تمہارا کیا حال ہے؟ بس پھر کیا تھا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شیریں گفتار اور رس بھرے بول نے میری دنیا ہی بدل دی جس سے مجھ پہ وجد و بکاء اور اضطراب کی عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے سرہانے تشریف فرما تھے اور مجھے اپنی آغوش میں لئے ہوئے تھے۔ فرطِ جذبات سے مجھ پر گریہ و زاری کی وہ کیفیت طاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قمیص مبارک میرے آنسوؤں سے تر ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس رقت و گداز سے مجھے قرار و سکون نصیب ہوا۔ اچانک میرے دل میں خیال گزرا کہ میں تو مدت سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موئے مبارک کا آرزو مند ہوں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کتنا بڑا کرم ہوگا اگر اس وقت میری یہ آرزو پوری فرمادیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے اس خیال سے آگاہ ہوئے اوراپنی ریش مبارک پر ہاتھ پھیر کر (ایک کی بجائے) دو موئے مبارک میرے ہاتھ میں تھما دئے۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میں تو شاید خواب دیکھ رہا ہوں جب بیدار ہوں گا تو خدا جانے یہ بال محفوظ رہیں یا نہ رہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس خیال کو بھی جان گئے اور فرمایا (فکر نہ کر) یہ عالم بیداری میں بھی تیرے پاس محفوظ رہیں گے۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے صحتِ کلی اور درازیء عمر کی بشارت عطا فرمائی۔ مجھے اسی لمحے افاقہ ہوا اور میں نے چراغ منگوا کر دیکھا تو وہ موئے مبارک میرے ہاتھ سے غائب تھے، اس پر مجھے سخت اندیشہ اور پریشانی لاحق ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے آگاہ فرمایا کہ بیٹے میں نے دونوں بالوں کو تیرے تکیہ کے نیچے رکھ دیا ہے وہاں سے تجھے ملیں گے۔ جب مجھے افاقہ ہوا تو میں اٹھا اور انہیں اسی جگہ پایا۔ میں نے تعظیم و اکرام کے ساتھ انہیں ایک جگہ محفوظ کر لیا۔ اس کے بعد بخار ختم ہوا، تمام کمزوری دور ہو گئی اور مجھے صحتِ کلی نصیب ہوئی۔ انہی موئے مبارک کے خواص میں سے ذیل میں تین کا ذکر کیا جاتاہے۔
1۔ یہ آپس میں جڑے ہوئے رہتے تھے جوں ہی درود شریف پڑھا جاتا یہ دونوں الگ الگ سیدھے کھڑے ہوجاتے تھے اور درود شریف ختم ہوتے ہی پھر اصلی حالت اختیار کرلیتے تھے۔
2۔ ایک مرتبہ تین منکرین نے امتحان لینا چاہا اور ان موئے مبارک کو دھوپ میں لے گئے۔ غیب سے فوراً بادل کا ایک ٹکڑا ظاہر ہوا جس نے ان موئے مبارک پر سایہ کر لیا حالانکہ اس وقت چلچلاتی دھوپ پڑ رہی تھی۔ ان میں سے ایک تائب ہوگیا۔ جب دوسری اور تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا تو باقی دونوں بھی تائب ہوگئے۔
3۔ ایک مرتبہ کئی لوگ موئے مبارک کی زیارت کے لئے جمع ہوگئے۔ شاہ صاحب نے ہر چند کوشش کی مگر تالا نہ کھلا۔ اس پر شاہ صاحب نے مراقبہ کیا تو پتہ چلا کہ ان میں ایک شخص جنابت کی حالت میں ہے۔ شاہ صاحب نے پردہ پوشی کرتے ہوئے سب کو تجدید طہارت کا حکم دیا، جنبی کے دل میں چور تھا، جوں ہی وہ مجمع میں سے نکلا فوراً قفل کھل گیا اور سب نے موئے مبارک کی زیارت کر لی پھر والد بزرگوار نے عمر کے آخری حصے میں ان کو بانٹ دیا جن میں ایک مجھے بھی مرحمت فرمایا جو اب تک میرے پاس موجود ہے۔
شاه ولي الله، أنفاس العارفين : 40 - 41
No comments:
Post a Comment