Friday, 18 September 2015

نبی کریم ﷺ کے وضو کے بچے ہوئے پانی سے حصولِ برکت

 1۔ حضرت ابوجُحَيْفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :
خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِالْهَاجِرَةِ، فَأُتِيَ بِوَضُوْءٍ فَتَوَضَّأَ، فَجَعَل النَّاسُ يَأْخُذُوْنَ مِنْ فَضْلِ وَضُوئِهِ فَيَتَمَسَّحُوْنَ بِهِ، فَصَلَّي النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم الظُّهْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَالْعَصْرَ رَکْعَتَيْنِ، وَ بَيْنَ يَدَيْهِ عَنَزَةٌ.

وَقَالَ أَبُوْ مُوْسَي : دَعَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم بِقَدْحٍ فِيْهِ مَاءٌ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَ وَجْهَهُ فِيْهِ، وَمَجَّ فِيْهِ، ثُمَّ قَالَ لَهُمَا : اشْرَبَا مِنْهُ، وَأَفْرِغَا عَلَي وُجُوهِکُمَا وَ نُحُوْرِکُمَا.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے۔ پانی لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو کیا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے بچے ہوئے پانی کو لے کر اُسے اپنے اوپر ملنے لگے۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں پڑھیں۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے نیزہ تھا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگایا۔ پس اپنے مبارک ہاتھ اور چہرۂ اقدس کو اُسی میں دھویا اور اُسی میں کلی کی پھر اُن دونوں سے فرمایا : اس میں سے پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الوضوء، باب : اسْتِعْمَالِ فَضْلِ وَضُوْءِ النَّاسِ، 1 : 80، رقم : 185
2. مسلم الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب : من فضائل أبي موسي وأبي عامر الأشعريين رضي اﷲ عنهما، 4 : 1943، رقم : 2497
3. أبو يعلي المسند، 13 : 301، رقم : 301

صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی ایک دوسری روایت میں یہ اضافہ ہے :

فَنَادَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مِنْ وَرَاءِ السِّتْرِ أَنْ أَفْضِلَا لِأُمِّکُمَا فَأَضْلَا لَهَا مِنْهُ طَائِفَةً.

’’ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان دونوں کو پردہ کے پیچھے سے آواز دی کہ اس متبرک پانی میں سے اپنی ماں (یعنی حضرت ام سلمہ) کے لئے بھی چھوڑ دینا) پس انہوں نے ان کے لئے بھی کچھ پانی باقی رکھا۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب : غزوة الطائف، 4 : 1573، رقم : 4073

2۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی مروی ہے :

رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي قُبَّةٍ حَمْرَاءَ مِنْ أَدَمٍ، وَرَأَيْتُ بِلَا لًا أَخَذَ وَضُوْءَ رَسُوْلِ اللّٰهِ صلي الله عليه وآله وسلم ، وَرَأَيْتُ النَّاسَ يَبْتَدِرُوْنَ ذَاکَ الْوَضُوْءَ، فَمَنْ أَصَابَ مِنْهُ شَيْئًا تَمَسَّحَ بِهِ، وَمَنْ لَمْ يُصِبْ مِنْهُ شَيْئًا أَخَذَ مِنْ بَلَلِ يَدِ صَاحِبِهِ. . . الحديث.

’’میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا۔ میں نے دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استعمال شدہ پانی کے حصول کے لئے کوشش کر رہے تھے جسے کچھ مل گیا اُس نے اپنے اُوپر مل لیا اور جسے اس میں سے ذرا بھی نہ ملا اُس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے تری حاصل کی۔‘‘

بخاري، الصحيح، کتاب الصلاة في الثياب، باب : الصلاة في الثَّوبِ الأَحْمَرِ، 1 : 147، رقم : 369

(اس حدیث کو امام بخاری نے کتاب المناقب رقم : 3373 میں بھی بیان کیا ہے۔)

مذکورہ حدیث کے تحت، شارح صحیح بخاری امام ابنِ حجر عسقلانی لکھتے ہیں :

وفي الحديث من الفوائد التماس البرکة مما لامسه الصالحون.

’’اس حدیث مبارکہ میں کئی فوائد ہیں جن میں سے ایک حصولِ برکت کے لئے صالحین کے مس شدہ چیز کو ملنا ہے۔‘‘

ابن حجر عسقلاني، فتح الباري، 1 : 574

3۔ عروہ نے حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے :

وَ إِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم کَادُوا يَقْتَتِلُوْنَ عَلَي وَضُوْئِهِ.

’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب وضو فرماتے تو ایسا لگتا تھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کے پانی کے حصول کے لئے آپس میں لڑ مریں گے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الوضوء، باب : اسْتِعْمالِ فضلِ وَضُوءِ النَّاسِ، 1 : 81، رقم : 186،

(اسے امام بخاری نے کتاب العلم رقم : 77، کتاب الاموات رقم : 3993 میں مختصراً بیان کیا ہے)

2. ابن حبان الصحيح، 11 : 221، رقم : 4872
3. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 329

4۔ حضرت ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ وَ هُوَ بِالْأَبْطَحِ فِيْ قُبَّةٍ لَهُ حَمْرَآءَ مِنْ آدَمٍ قَالَ فَخَرَجَ بِلَالٌ بِوَضُوْئِهِ فَمِنْ نَّآئِلٍ وَ نَاضِحٍ.

’’میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت مقامِ ابطح میں سرخ چمڑے کے ایک خیمہ میں قیام فرما تھے، اس موقع پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر باہر نکلے پس لوگوں نے اس پانی کو مل لیا کسی کو پانی مل گیا اور کسی نے اس پانی کو چھڑک لیا۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الصلاة، باب : سُتْرةِ الْمُصَلّٰي، 1 : 360، رقم : 502
2. ابن حبان، الصحيح، 6 : 153، رقم : 2394
3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 395، رقم : 1718

صحیح مسلم کے شارح امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کی تشریح میں لکھتے ہیں :

ففيه التبرک بآثار الصالحين واستعمال فضل طهورهم وطعامهم وشرابهم ولباسهم.

’’پس اس حدیثِ مبارکہ میں آثارِ صالحین، ان کے وضو سے بچے ہوئے پانی ان کے بچے ہوئے کھانے اور استعمال شدہ ملبوسات سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘

نووي، شرح صحيح مسلم، 4 : 219

No comments:

Post a Comment

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں

مسئلہ رفع یدین مستند دلائل کی رشنی میں محترم قارئینِ کرام : علماء امت کا فیصلہ ہے کہ جن اختلافی مسائل میں ایک سے زائد صورتیں "سنّت&quo...