Thursday 13 September 2018

محبتِ اہلبیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین واجب ہے

0 comments

محبتِ اہلبیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین واجب ہے

اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا : قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی.
ترجمہ : تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت اور جو نیک کام کرے ہم اس کے لیئے اس میں اور خوبی بڑھائیں ۔ (الشوری، 42: 23)

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی الله عنهما قَالَ: وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی}[الشوری، 42: 23]، قَالُوْا: يَارَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هَؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِیُّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَهُمَا ۔
ترجمہ : حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب یہ آیت: ’’فرما دیجیے: میں اِس (تبلیغ رسالت) پر تم سے کوئی اُجرت نہیں مانگتا مگر (میری) قرابت (اور اﷲ کی قربت) سے محبت (چاہتا ہوں)‘‘ [الشوری، 42: 23] نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ کے قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ تو آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : علی، فاطمہ اور ان کے دو بیٹے حسن وحسین رضی اللہ عنہم ) ۔ (طبراني، المعجم الکبير، 3: 47، رقم: 2641، الموصل: مکتبة الزهراء)

اللہ رب العزت کا شکر ہے کہ جس نے ہمیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں شامل فرمایا اور اپنی بندگی، عبادت اور طاعت کے ساتھ ساتھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے رشتے میں منسلک کیا۔ آقا علیہ السلام کی محبت کے باب میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے کچھ مظاہر بنائے ہیں اور اہل بیت اطہار اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کی محبت کو اہم ترین مظاہرِ ایمان اور مظاہرِ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں شامل فرمایا ہے ۔

حضور علیہ السلام نے اپنی قرابت اور اپنی اہل بیت کی محبت کو ہمارے اوپر فرض و واجب قرار دیا ہے اور یہ وجوب مذکورہ حکم الہی سے ثابت ہے۔

حضور علیہ السلام نے تبلیغ رسالت کے ذریعے ہم پر جو احسان فرمایا اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم سے کوئی اجر طلب نہیں فرمایا سوائے اِس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت اور قرابت سے محبت کریں۔ یہ امر بھی پیشِ نظر رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرابت سے محبت کا جو حکم دیا، یہ اجر بھی آقا علیہ السلام بدلہ کے طور پر اپنے لئے طلب نہیں فرما رہے بلکہ یہ بھی ہمارے بھلے کے لیے ہے۔ اِس سے ہمیں ایمان و ہدایت کا راستہ بتار ہے ہیں، ہمارے ایمان کو جِلا بخش رہے ہیں اور اہل بیت و قرابت کی محبت کے ذریعے ہمارے ایمان کی حفاظت فرما رہے ہیں۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس فرمان کے ذریعے ہماری ہی بھلائی کی راہ تجویز فرما رہے ہیں ۔

ہر تفسیر اور ہر مفسر امام قرطبی، امام بغوی، امام نسفی، حافظ ابن کثیر، امام ابن العادل الحنبلی، امام بقائی، امام ہیثمی، عسقلانی، زمحشری، امام سیوطی، امام ابو نعیم، ابن المنذر، ابن الحاتم، طبرانی، ابن حجر مکی، امام احمد بن حنبل، امام بزار، امام شوکانی الغرض جملہ محدثین و آئمہ کی کتب میں احادیث سے بے حساب تائیدات اور آئمہ تفسیر کی تصریحات اس معنی پر ملتی ہیں، جس سے اس معنی پر کوئی شک وشبہ نہیں رہ جاتا ۔

اہلِ قرابت کون ہیں ؟

اہل بیت کی عظمت و شان میں بہت سی آیات ہیں، مگر اُن کی محبت کا ہم پر فرض ہونا مذکورہ آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے۔ جملہ آئمہ نے اس آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ اس آیت میں جن کی محبت فرض کی گئی ہے وہ قرابتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔

حضرت سعید ابن جبیر رضی اللہ عنھما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو حضور علیہ السلام سے پوچھا گیا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلاَءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَوَلَدَاهَا ۔
ترجمہ : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ کی قرابت والے وہ کون لوگ ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ، اور اس کے دونوں بیٹے (حسن اور حسین) ۔ (أخرجه ابن أبي حاتم الرازي في تفسيره، 10/ 3276، الرقم/18473،چشتی)

امام احمد بن حنبل روایت فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ : لَمَّا نَزَلَتْ: {قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰی} (الشوریٰ، 42/23)، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اﷲِ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ هٰؤُلَاءِ الَّذِيْنَ وَجَبَتْ عَلَيْنَا مَوَدَّتُهُمْ؟ قَالَ: عَلِيٌّ وَفَاطِمَةُ وَابْنَاهُمَا ۔
ترجمہ : جب مذکورہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل قرابت سے کون لوگ مراد ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی، فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے رضی اللہ عنہم ۔ (احمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 2: 669، رقم: 1141)

یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پوچھنے پر آقا علیہ السلام نے اس آیت مبارکہ کی خود تفسیر کی اور امت پر واضح فرمادیا کہ ان پر کن کن کی مؤدت اور محبت واجب و فرض ہے ۔

یہی معنی حضرت ابوالعالیہ التابعی، سعید بن جبیر، ابو اسحاق، عمرو بن شعیب، امام ترمذی، امام احمد بن حنبل، امام حاکم، امام بزار، امام طبرانی الغرض کتب احادیث اور کتب تفسیر میں کثرت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

آقا علیہ السلام نے فرمایا : أَحِبُّوا اﷲَ لِمَا يَغْذُوْکُمْ مِنْ نِعَمِہ۔ وَأَحِبُّوْنِي بِحُبِّ اﷲ۔وَأَحِبُّوْا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي.
ترجمہ : یعنی اللہ سے محبت کرو اِس وجہ سے کہ اُس نے تمہیں بے شمار نعمتوں سے مالا مال کیا، وہ تم سے محبت کرتا ہے، تم پر شفقت، بے حساب رحمت، کرم اور لطف و عطاء فرماتا ہے۔ صبح و شام تم اُس کی نعمتوں اور رحمتوں کے سمندوں میں غوط زن رہتے ہو، تم پر اللہ کی نعمتوں کی موسلا دھار بارش رہتی ہے، اِس کی وجہ سے اللہ سے محبت کیا کرو ۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب، 5: 664، رقم: 3789،چشتی)
پھر فرمایا : اور مجھ سے محبت کرو اللہ کی محبت کی وجہ سے، اس لئے کہ اللہ کی محبت میری محبت کے بغیر نہیں ملتی۔ میری محبت ہی اللہ کی محبت کا راستہ، واسطہ، ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ لہذامجھے سے محبت کرو، تاکہ تم اللہ سے محبت کر سکو۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی محبت کا راستہ بتایا ہے۔
اور پھر فرمایا : میری اہل بیت سے محبت کرو تاکہ تمہیں میری محبت مل سکے۔ میری محبت کے حصول کے لئے میری اہل بیت سے محبت کرو اور اللہ کی محبت کے حصول کے لئے مجھ سے محبت کرو۔

حسنین کریمین سے محبت میں امت کیلئے پیغام

حسنین کریمین رضی اللہ عنھما سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والہانہ محبت کا اظہار فرماتے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین سے محبت کا والہانہ و بے ساختانہ اظہار بغیر کسی مقصد کے تھا؟ نہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ اس والہانہ اندازِ محبت میں بھی امتِ مسلمہ کے لئے ایک پیغام ہے۔ آیئے سب سے پہلے ایک حدیث مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور پھر اس میں موجود پیغام پر ایک نظر ڈالتے ہیں : حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما روایت کرتے ہیں کہ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم حَامِلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلٰی عَاتِقِهِ فَقَالَ رَجُلٌ: نِعْمَ الْمَرْکَبُ رَکِبْتَ يَا غُـلَامُ. فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : وَنِعْمَ الرَّاکِبُ هُوَ ۔
ترجمہ : آقا علیہ السلام ایک روز سیدنا امام حسین کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر چل رہے تھے تو ایک شخص نے دیکھا تو دیکھتے ہی اُس نے کہا اے بیٹے مبارک ہو، کتنی پیاری سواری تمہیں نصیب ہوئی ہے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سواری کا اچھا ہونا نظر آرہا ہے مگر یہ بھی تو دیکھو کہ سوار کتنا پیارا، خوبصورت اور اعلیٰ ہے ۔ (جامع ترمذی، ابواب المناقب، 5: 661، رقم: 3784،چشتی)
یہاں ایک نکتہ کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ حدیث مبارکہ سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ یہ واقعہ گھر کے اندر کا نہیں ہے۔ یعنی گھر کی چار دیواری کا نہیں بلکہ باہر کا ہے، اسی لئے ایک غیر شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس عملِ مبارک پر اظہار خیال کررہا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو گلی میں لے کر چل رہے تھے ۔ اب ایک طرف آقا علیہ السلام کے مرتبہ، شان، عظمت، جلالت اور قدر بھی ذہن میں رکھیں اور یہ عمل بھی دیکھیں۔ ہم یہ کام نہیں کرتے، اپنا بیٹا ہو، پوتا ہو، نواسا ہو، نواسی ہو، جس سے بہت پیار ہو، اسے کندھے پر اٹھا کر گلی میں نہیں چلتے بلکہ شرماتے ہیں حالانکہ یہ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ آقا علیہ السلام نے یہی پیار اگر فقط اپنی ذات تک رکھنا ہوتا تو یہ عمل گھر کے اندر چار دیواری میں کرتے، کندھوں پر بٹھاکر اس طرح گلی میں نہ چلتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ عمل تمام لوگوں کے سامنے کرنا، آقا علیہ السلام کا امام حسین رضی اللہ عنہ سے پیار کرنے کا یہ طرز عمل، وطیرہ اور ادا کا سبب دراصل یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امت کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دیکھو یہ ہے میرے پیار کا عالم حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ۔۔۔ یہ ہے میرا انداز اُن رضی اللہ عنہ سے محبت کرنے کا۔ لہذا اے امت مسلمہ تم بھی حسنین کریمین رضی اللہ عنھما سے اسی طرح ٹوٹ کر محبت کرنا تاکہ تمہیں اسی واسطہ و وسیلہ سے میری محبت نصیب ہوجائے ۔

حضرت یعلی العامری روایت کرتے ہیں کہ ہم آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک دعوت پر گئے۔ گلی سے گزر رہے تھے، راستے میں بچے کھیل رہے تھے اور وَحُسَيْنٌ مَعَ غِلْمَانٍ يَلْعَب ، اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بھی ان بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آقا علیہ السلام نے جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو کھیلتے دیکھا تو ہر چیز کو نظر انداز کرکے یہ ارادہ کیا کہ دوڑ کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو پکڑیں ۔ فَطَفِقَ الصَّبِيُّ يَفِرُّ هٰهُنَا مَرَّةً، وَهٰهُنَا مَرَّة ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں پکڑنے کے لیے دوڑے، امام حسین رضی اللہ عنہ کبھی دوڑ کر اِدھر چلے جاتے اور کبھی دوڑ کے اُدھر چلے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی انہیں پکڑنے کے لئے کبھی ایک طرف بھاگتے ہیں اور کبھی دوسری طرف بھاگتے ہیں۔ صحابہ کرام اور دیگر لوگ اس منظر کو دیکھ رہے ہیں ۔
آقا علیہ السلام حضرت امام حسین کو ہنساتے جا رہے ہیں اور انہیں پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور انہیں خوش کررہے ہیں۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پکڑ لیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اٹھا لیا، اپنی زبان مبارک اُن تمام صحابہ کے سامنے اُن کے منہ میں ڈال دی۔ پھر انہیں چوما اور چوم کر آقا علیہ السلام نے فرمایا : حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْنٍ۔أَحَبَّ اﷲُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْنًا ۔
ترجمہ : حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اُس سے محبت کرے اور کرتا ہے جو حسین سے محبت کرتا ہے ۔ (احمد بن حنبل، المسند، 4: 172)

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں ایک حقیقت بھی بیان فرمائی اور ایک دعا بھی دی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرتا ہے، اللہ اُس سے محبت کرتا ہے اور اِس میں آقا علیہ السلام نے دعا بھی کی کہ اللہ اُس سے محبت کر جو میرے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرے ۔ امام احمد بن حنبل اور امام ترمذی اور دیگر آئمہ علیہم الرّحمہ نے تو اس حدیث کو حدیث صحیح لکھا ہی ہے مگر سعودی عرب میں سلفی مکتب فکر کے نامور عالم محدث علامہ البانی ہوئے ہیں ۔ اُنہوں نے مختلف کتب حدیث کے اوپر تخریجات اور تحقیقات کی ہیں ۔ وہ بھی لکھتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے ۔ یعنی اِس حدیث کی صحت کا عالم یہ ہے کہ علامہ البانی جیسے شخص بھی اِس حدیث کے صحیح ہونے کا انکار نہیں کرسکے اور اپنے السلسلہ الصحیحہ میں اِسے درج بھی کیا اور صحیح بھی کہا ہے ۔
یاد رکھیں : آقا علیہ السلام کا کوئی عمل غیر ارادی نہیں ہوتا ۔ لہٰذا یہ عمل بھی غیر ارادی نہیں ہے، بغیر کسی مقصد کے نہیں ہے۔ اگر اس طرح کا عمل غیر ارادی صادر ہوتا ہو تو ایسا کام ہم کیوں نہیں کرلیتے۔ ہم باہر نکلیں اور ہمارا پوتا، نواسا، پوتی، نواسی، جس سے ہمیں پیار ہے، وہ بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہو اور ہم اپنے دوست احباب کے ساتھ جارہے ہوں تو کیا ہم اُن کو چھوڑ کر، نظر انداز کرکے اس بچے کے ساتھ گلی میں کھیلنے لگ جائیں گے، انہیں پکڑنے کے لئے پیچھے پیچھے دوڑیں گے؟ نہیں، ہم ایسا نہیں کرتے اس لئے کہ ہمیں اپنے مقام و مرتبہ کا خیال رہتا ہے، اپنے ہونے کا احساس ہوتا ہے کہ ہم کیا ہیں۔۔۔؟ لوگ کیا کہیں گے۔۔۔؟ ہم سوسائٹی کی respectable figure ہیں۔۔۔ honourable figure ہیں۔۔۔ ایک سنجیدہ مزاج شخص ہیں۔۔۔ لوگ ہمارے بارے میں ایک امیج رکھتے ہیں۔ ہم تو اِن چیزوں میںگھرے رہتے ہیں اور یہ کام نہیں کرتے۔ اِس طرح کے کام اگر کرنے ہوں تو گھر کے اندر کریں گے، باہر کوئی نہیں کرتا ۔
لیکن سوال یہ ہے کہ آقا علیہ السلام کیوں کر رہے ہیں؟ کیا معاذا للہ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے غیر ارادی طور پر ایسا فعل صادر ہو جاتا تھا کہ کبھی نماز پڑھا رہے ہیں، صحابہ کرام بھی موجود ہیں، حالتِ نماز میں امام حسین رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں پر چڑھ جاتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سجدہ طویل کر لیتے ہیں، سجدہ سے اٹھتے وقت انہیں اٹھا کر بٹھا لیتے ہیں، پھر چڑھا لیتے ہیں، کیا یہ غیر ارادی فعل ہے۔۔۔؟ کیا اِس عمل سے دین اور ایمان کی کوئی تعلیم اخذ نہیں کی جائے گی ۔۔۔ ؟ کیا اِس سے آقا علیہ السلام کا کوئی پیغام امت کے نام اخذ نہیں کیا جائے گا۔۔۔؟کیا اِس عمل سے آقا علیہ السلام ہم پر کچھ فرض نہیں کرنا چاہ رہے۔۔۔؟ کیا اس عمل مبارکہ سے ہمارے لئے کچھ سنت نہیں بنانا چاہ رہے ۔۔۔ ؟ کیا ہمیں کسی امر کے کرنے کی کوئی نصیحت نہیں فرمانا چاہ رہے ۔۔۔ ؟ کیا اپنا طرز عمل امت کو دکھانا نہیں چاہ رہے ۔۔۔ ؟ اس سوال کا جواب ہمیں اِس فرقہ بندی اور صف بندی سے نکالتا ہے جس نے معاشرے کے لوگوں کے عقائد کو راہ اعتدال سے ہٹا دیا ہے ۔ یاد رکھیں کہ محبت و مؤدت اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین، محبت و مودت حسنین رضی اللہ عنھما، محبت سیدہ فاطمۃ الزھرا رضی اللہ عنہا اور مودت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ صرف شیعوں سے منسوب عقیدہ نہیں ہے بلکہ تمام مسلمانوں، اسلام اور امت مسلمہ کی میراث ہے۔ یہ ایمان ہے، یہ قرآن کا پیغام ہے، اِس کو قرآن نے تمام مسلمانوں پر فرض کیا ہے ۔

امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ اہل بیت سے اتنی شدید محبت کرتے اور آئمہ اطہار اہل بیت رضی اللہ عنہم کی اتنی تکریم کرتے کہ لوگوں نے اُن پر شیعہ ہونے کا طعنہ کیا اور اُن کو شیعہ کہتے ۔ اگر محبت اہل بیت کی وجہ سے امام اعظم ابو حنیفہ شیعہ ہو گئے تو پھر سنی کو ن بچا ہے ؟ (ملا علی القاری، مرقاة المفاتيح، 1/ 67،چشتی)

امام ابن حجر مکی نے ’’الصواعق المحرقہ‘‘، امام الدمیاطی نے ’’اعانۃ الطالبین‘‘ اور بہت سارے محدثین نے اہل بیت کی محبت کے وجوب کے باب میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی یہ ایک رباعی بیان کی ہے۔امام شافعی فرماتے ہیں :

يَا أَهْلَ بَيْتِ رَسُوْلِ اﷲِ حُبُّکُمْ
فَرَضٌ مِنَ اﷲِ فِي الْقُرْآنِ أَنْزَلَهُ

کَفَاکُمْ مِنْ عَظِيْمِ الْقَدْرِ أَنَّکُمْ
مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَهُ
ترجمہ : اے اہلِ بیتِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ سے محبت کرنا اﷲ کی طرف سے فرض ہے، جسے اس نے قرآن مجید میں نازل کیا ہے اور آپ کے لیے یہ عظیم مرتبہ ہی کافی ہے کہ آپ وہ ہستیاں ہیں کہ جو شخص آپ پر درود نہ پڑھے، اس کی نماز مکمل نہیں ہوتی ۔
ان اشعار میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو قرآن مجید کی طرف سے امت مسلمہ پر فرض ہونے کو بیان کیا ہے اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ مَنْ لَمْ يُصَلِّ عَلَيْکُمْ، لَا صَلَاةَ لَهُ کہ جو شخص نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ پڑھے اُس کی نماز نہیںہوتی۔ گویا ہم پر محبتِ اہلِ بیت فرض کردی گئی ہے۔

امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو بھی محبت اہل بیت کی وجہ سے لوگ شیعہ اور رافضی کہتے تھے۔ آپ نے جواب میں فرمایا: اگر محبت اہل بیت کا نام شیعہ ہونا ہے تو مجھے یہ تہمت قبول ہے۔ اگر امام شافعی شیعہ ہیں تو پھر باقی سنی کون بچا ہے؟

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی اہل بیت اطہار کے لیے بڑی تعظیم وتکریم تھی۔ سمجھانا یہ چاہتا ہوں کہ محبت و مؤدتِ اہل بیت کسی مکتبہ فکر کی میراث نہیں ہے۔ خدا کے لیے سنی، شیعہ کی جنگ اور صف بندی کی وجہ سے اِس ایمان کے اثاثے کو اپنے ہاتھ سے نہ جانے دیں ۔

اہلِ بیت سے بغض کا تاریخی پس منظر

جس طرح کی تفریق بد قسمتی سے آج محبتِ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں ہے ، اس کا آغاز یزید کے دورِ حکومت سے ہوا ۔ یزید نے ایک نئی طرز پیدا کر دی ۔ اُس بدبخت اور ملعون کے زمانہ میں ایک کلچر develop ہوگیا ، سارے معاملہ نے سیاسی رنگ اختیار کرلیا، معاملہ Politicize ہوگیا۔ حکومت کے چھوکرے، لونڈے، عمال، انتظامیہ، بیوروکریسی، وزیر، مشیر، سیاسی نمائندگان، جن کو چھوٹی چھوٹی سطح کا اقتدار ملتا ہے، علاقوں میں اُن کے ذمہ داران، یہ تمام اہل بیت اطہار کے خلاف ہر سطح پر ایک ماحول پیدا کرتے اور انہیں گالیاں دیتے تھے ۔ سیدنا مولا علی المرتضی اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کو برا بھلا کہتے ۔ حکمران اور ان کے گماشتے چونکہ جان سے مار دیتے تھے، قتل کر دیتے تھے، داڑھی منڈھوا دیتے تھے، کوڑے مارتے تھے۔ بڑے بڑے جلیل القدر تابعین اس ظلم و ستم اور سب و شتم کو دیکھ کر بڑی احتیاط کے ساتھ اسلامی تعلیمات کو روایت کرتے تاکہ دین امت تک پہنچے ۔

حتی کہ سیدنا عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ جو پانچویں خلیفہ راشد کہلاتے ہیں، جب اُن کا دور آیا، تو انہیں یہ قانون نافذکرنا پڑا کہ جو یزید کو امیرالمومنین کہے گا ، شرعی طور پہ اُس کو بیس کوڑوں کی سزا دی جائے گی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کو اس حوالے سے مزید سخت اقدامات لینے پڑے۔ آپ نے منبروں پر حضرت مولا علی شیرخدا رضی اللہ عنھما اور اہل بیت اطہار کو گالی دینے کا کلچر حکماً بند کردیا۔ الغرض لوگوں کے ذہن اتنے یکطرفہ اور اتنے زہر آلودہ ہو چکے تھے کہ باقاعدہ احکامات صادر کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔
عام نئی نسلیں جس ماحول میں جنم لیتی ہیں، وہ جو کچھ پیدا ہوتے ہی دیکھتے اور سمجھتے ہیں، اسی کو دین سمجھتے ہیں۔ مثلاً روس اور چین کے اندر جب سیکولرازم آیا، تو تین چار نسلیں اس کے اندر گزر گئیں، انہوں نے اسلام نہیں دیکھا تھا۔ جب سے آنکھ کھلی وہ سب کچھ سیکولرازم ہی کو سمجھتے رہے۔ اسی طرح اور بھی دنیا کی کئی جگہیں ایسی ہیں، جہاں ایک عقیدہ مسلط کردیا جاتاہے، تو تین تین چار نسلیں اس میں گزرتی ہیں، اس لئے کہ اُنہوں نے اور کچھ دیکھا ہی نہیں ہے، اصل دین نہیں دیکھا، باپ دادا سے جودیکھا، اسے ہی اصل دین سمجھتے ہیں۔ نتیجتاً اصل تاریخ سے منقطع (cut off) ہو جاتے ہیں۔
اِسی طرح جب حضرت عمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے اہل بیت اطہار کو اور سیدنا مولاعلی المرتضی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے پر پابندی لگادی تو تاریخ کی کتب، اسماء الرجال کی کتب، محدثین کے ہاں یہ درج ہے کہ عامۃ الناس نے شور مچایا کہ عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے سنت بند کردی۔ حالانکہ وہاں سنت سے لغوی معنی مراد ہے کہ وہ ایک طریقہ اور شیوہ جو پرانا چلا آرہا تھا، اس کو ختم کردیا۔ اُنہوں نے فرمایا کہ سنت بند نہیں کی بلکہ جو بند کیا وہ بے ہودگی تھی، دین کے خلاف ایک ماحول تھا، جو بعض لوگوں نے اپنے مفادات کے لئے بنا رکھا تھا تاکہ حکومت سے مراعات لیں لہذا اُس کوبند کیا ہے۔

قاتلینِ حسین رضی اللہ عنہ کی نشاندہی

آقا علیہ السلام نے قاتلین حسین کی نشاندہی خود فرما دی تھی اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ آقا علیہ السلام کا بڑا معجزہ ہے۔ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیگر پیشین گوئیاں فرمائی ہیں اور آنے والے زمانوں کے حالات اور واقعات بتائے ہیں، اُن میں سے یہ چیز بھی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والوں کے نام تک سے امت کو آگاہ فرمادیا تھا ۔

ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : يُقْتَلُ حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ رضی الله عنهما عَلٰی رَأْسِ سِتِّيْنَ مِنْ مُهَاجَرَتِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانيُّ وَالدَّيْلَمِيُّ وَزَادَ فِيْهِ: حِيْنَ يَعْلُو الْقَتِيْرُ، الْقَتِيْرُ: الشَّيْبُ ۔
ترجمہ : حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو میری ہجرت کے ساٹھویں سال کے آغاز پر شہید کر دیا جائے گا ۔ (أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 3/ 105، الرقم/ 2807)
اس حدیث کو امام طبرانی اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔ امام دیلمی نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: جب ایک (اَوباش) نوجوان ان پر چڑھائی کرے گا ۔

حضرت عبیدہ روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا : لَا يَزَالُ أَمْرُ أُمَّتِي قَائِمًا بِالْقِسْطِ. حَتّٰی يَکُوْنَ أَوَّلَ مَنْ يَثْلِمُهُ. رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَةَ۔يُقَالُ لَهُ يَزِيْدُ ۔
ترجمہ : یعنی میری امت کا نظام، اُس میںدین کا نظام، دین کی قدریں، عدل کے ساتھ چلتی رہیں گی، حتی کہ ایک شخص اقتدار پر آئے گا۔ یہ پہلا شخص جو میرے دین کی قدروں کو پامال کردے گا۔ وہ شخص بنو امیہ میں سے ہوگا۔ اُس کا نام یزید ہوگا ۔ (ابو يعلی، المسند، 2: 176، رقم: 871،چشتی)
آقا علیہ السلام نے تو قیامت تک کی نشانیاں بیان کی ہیں اور واقعہ کربلا تو اُسی صدی کا واقعہ ہے، آقا علیہ السلام اس کی نشانیاں کیوں بیان نہ فرمائیں گے۔ یہ نشانیاں تو آقا علیہ السلام کے اُس حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق ہیں جن کو کندھوں پر اٹھا کر چل رہے ہیں اورجن کے لیے کہہ رہے ہیں کہ سواری کی بات نہ کر اے بندے، سوار کی بات کر اور جن کے منہ میں اپنی زبان مبارک دے رہے ہیں، جنہیں فرما رہے ہیں : حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْن.
یہ تو اُن سے متعلق معاملہ ہے، اِس کی نشاندہی میرے آقا علیہ السلام کیوں نہیں کریں گے ؟
شہادت امام حسین علیہ السلام کی یہ تمام احادیث آقا علیہ السلام کی نگاہ پاک میں اس شہادت اور امام حسین رضی اللہ عنہ کی محبت کی اہمیت کو واضح کررہی ہیں کہ آقا علیہ السلام کی آپ رضی اللہ عنہ سے محبت کتنی ہے اور اِس رتبہ شہادت کا عالم کیا ہے؟ دوسری طرف آج اہل سنت و جماعت کا ہر مکتبہ فکر اور محبت اہل بیت کا نام لینے والے بطور خاص اپنے گریبانوں میں جھانکیں کہ وہ محبت اہل بیت کا کتنا دم بھرتے ہیں؟ شہادت امام حسین کی عظمت کا ذکر کتنا کرتے ہیں کہ جس سے آپ رضی اللہ عنہ کی محبت دلوں میں پیدا ہو ؟ جس سے دل امام عالی مقام اور اہل بیت اطہار کی محبت اور مودت کی طرف راغب ہوں؟ یاد رکھیں! ہمارا دین روکھا دین نہیں ہے ۔ اُس میں ہر جگہ جہاں ذات آئی ہے وہاں تعلیمات بھی آئی ہیں اور تعلیمات کے ساتھ ذات کو بھی جوڑا ہے ۔ ذات سے محبت، ادب، تعلق قلبی، تعلق روحی، تعلق عشقی، ادب اور احترام کا رشتہ ہوتا ہے، دل جھکتے ہیں، اُس سے فیض ملتا ہے، ایمان کی تقویت ہوتی ہے جبکہ تعلیمات عمل، اُسوہ اور سیرت کو سنوارتی ہیں۔ پیغام سے زندگی کا اُسوہ اور طریقہ ملتا ہے، باطل سے ٹکرانے کی جرات ملتی ہے۔ ہر چیز کی اپنی اپنی جگہ اہمیت ہے، مگر ہم نے تعلیم اور پیغام پر زور دے کر بڑی عیاری و مکاری یا نادانستگی و نادانی کے ساتھ امام عالی مقام اور شہداء کربلاء معلی اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت اور مودت کے رشتے کو کمزور کر لیا ہے ۔ اُن کا ذکر کرنا، کثرت سے اُن کا بیان کرنا، ہم نے شیعہ حضرات کے کھاتے میں ڈال دیا ہے کہ یہ اُن کا مسلک ہے۔
سوسائٹی میں ایک غلط سوچ پیدا کر دی گئی ہے کہ جو اُن کا بہت ذکر کرے گا وہ شیعہ ہے ۔ چونکہ محرم کو وہ اپنے خاص طریقے کے ساتھ مناتے ہیں، اُن کا اپنا طرز عمل، طرز فکر، طریق اور مسلک و انداز ہے، اس کا اہتمام وہ اپنے طریقے سے کرتے ہیں۔ ہم اُس طریق سے نہیں کرتے، ہمارا اپنا عقیدہ و مسلک ہے، ہمارا اپنا اندازہے، ہم اُس طریق سے بعض چیزیں نہیں کرتے جو اہل تشیع اپنے مسلک کے اندر کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے کہ وہ اپنے انداز اور طریق سے شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کو یاد کرتے اور اہل بیت سے محبت کرتے ہیں لیکن اِس کا مطلب یہ کہاں سے پیدا ہو گیا کہ ہم امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی چھوڑ دیں، شہادت حسین کی عظمت کا بیان ہی چھوڑ دیں، مؤدت و محبت اہل بیت بھی چھوڑ دیں، حسنین کریمین رضی اللہ عنھما کا ذکر اور اُن کی محبت کا تذکرہ ہی چھوڑ دیں کہ کیونکہ یہ شیعہ کرتے ہیں لہذا ہم نہیں کریں گے۔ یہ رویہ کہاں سے آگیا؟ یہ ظلم ہے۔ یہ ایک ایسا عجیب پہلو ہے کہ اِس سے ہم اپنے ایمان اور اُس کی جڑ پر چھری چلا رہے ہیں،اپنے ایمان کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
یاد رکھ لیں اہل بیت کی محبت کسی ایک مسلک کا شعار ہے نہ کسی ایک مسلک کی وارثت ہے ۔ یہ عین ایمان ہے اور عین اسلام ہے ۔ امت مسلمہ کے ساتھ نادانستہ طریقے سے یہ ظلم ہوتا جارہاہے کہ چونکہ شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مجالس اہل تشیع کرتے ہیں، لہذا جو سنی ہیں، وہ امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذکر چھوڑ دیں، وہ محبت و مودت اہل بیت کا نام لینا چھوڑ دیں۔ تو کیا محبت حسنین رضی اللہ عنہما، محبت علی رضی اللہ عنہ، محبت فاطمہ رضی اللہ عنہا، مودت اہل بیت، آپ نے ایک مسلک کا ورثہ بنا دیا ؟
یہ سوچ خارجیت کا اثر ہے، سنیت نہیں ہے۔ میں کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مودت اہل بیت نکل گئی تو آپ ایمان سے محروم ہوگئے ۔ محبت اہل بیت نہ رہی تو آپ کا رشتہ تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کٹ گیا۔ آپ خود ہی ایمان سے محروم ہورہے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب امام حسین رضی اللہ عنہ کو کندھوں پر بٹھا کر گلی میں نکلتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دیکھ رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورپوری گلی میں، مجمع عام، سب کے سامنے زبان مبارک امام حسین رضی اللہ عنہ کے منہ میں ڈالتے ہیں، انہیںچومتے ہیں اور شہر مدینہ کے گلی کوچوں میں اعلان فرماتے کہ حُسَيْنٌ مِنِّي وَأَنَا مِنْ حُسَيْن تو اس سے آقا علیہ السلام ایک سنت قائم کر رہے ہیں، امت کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ دیکھو میری محبت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیسی ہے۔۔۔ دیکھو میں اہل بیت سے کیسی محبت کرتا ہوں۔۔۔ میںنے تبلیغ دین، تبلیغ رسالت پر کوئی اجر نہیں مانگا سوائے اپنی قرابت کی محبت کے۔۔۔ اور وہ بھی اِس لیے نہیں مانگ رہا کہ حسین رضی اللہ عنہ میرا نواسہ ہے تم اِس سے محبت کرو، کوئی بدلے کے طور پر نہیں مانگ رہا،نہیں، بلکہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حسین رضی اللہ عنہ سے محبت کرو گے تو تمہارا ایمان بچ جائے گا۔ اِس میں بھی تمہارے ایمان کی فکر کر رہا ہوں ۔ میری اہل بیت سے محبت کرو گے تمہارا ایمان بچ جائے گا۔ یہ کشتی نوح ہے، جو اِس میں سوار ہوگیا وہ بچ گیا، جو رہ گیا وہ ڈوب گیا۔ میں اپنی قرابت اوراہل بیت کی محبت اور مودت کی تاکید بھی تمہارے بھلے کے لیے کر رہا ہوں، یہ تمہارے بھلے کے لیے ہے،اِس سے تمسک کروگے، اِس سے لپٹ جاؤ گے توتمہارا اسلام اورتمہارا دین بچ جائے گا ۔ اہل بیت کی محبت سے میری محبت نصیب ہوتی ہے اور میری محبت سے اللہ کی محبت نصیب ہوتی ہے ۔ (حاکم، المستدرک، 3: 181،رقم : 4776)

یہ ایک سلسلہ ہے، جو ہمیں محبت الہیٰ تک لے جاتا ہے ۔ اللہ رب العزت ہمیں اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی محبت و تمسک عطا فرمائے ، اُن کے طفیل آقا علیہ السلام کی محبت تک پہنچائے اور آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کے صدقے سے اللہ تعالیٰ اپنی محبت عطا کرے ۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔