یزید پلید کی عبرت ناک موت و انجام
یزید وہ بد بخت شخص ہے جس کی پیْشانی پر اہلبیت اطہار رضی اللہ عنہم کے بے گناہ قتل کا سِیاہ داغ ہے اور جس پر ہر زمانے میں دُنیائے اسلام مَلامَت کرتی رہی ہے اور قیامت تک اِس کا نام تحقیرکے ساتھ لیا جائے گا ۔ یہ بَد باطِن ، سِیاہ دل ، ننگِ خاندان (خاندان کی ذلت کا باعث) تھا ۔ نِہایَتْ موٹا ، بَدْنما ، کثیرُالشَّعْر(کثرت سے شعروشاعری کرنے والا) ، بَدْخُلْق(بُری عادتوں والا)، فاسِق، فاجِر، شَرابی، بدکار،ظالم، بے اَدَب، گستاخ تھا۔ اِس کی شَرارتیں اور بےہُودگیاں ایسی ہیں جن سے بَدْمعاشوں کو بھی شَرم آئے۔ حضرت سَیِّدُناعبداللہ بن حنظلہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمانے فرمایا:خداعَزَّ وَجَلَّ کی قسم!ہم نے یزیدپراُس وَقْت خُرُوْج کیا جب ہمیں اندیشہ ہوگیا کہ اِس کی بَدکارِیوں کے سَبَب آسمان سے پَتّھر نہ بَرَسْنے لگیں ۔ مَحۡرَمات کے ساتھ نِکاح اورسُوْد وغیرہ مَنْہِیَّات (حرام کاموں ) کو اس بے دِیْن نے عَلانِیَہ رِواج دیا۔مدینۂ طیّبہ ومکّۂ مکرّمہ زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کی بے حُرْمَتِی کرائی۔ حضرت ابو دَرْداءرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایَت ہے حضو رِ نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا:'' میری سُنَّتْ کا پَہلا بَدَلنے والا بنی اُمَیَّہ کاایک شَخْص ہوگاجس کانام یزید ہوگا۔''59ھ میں حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دُعا کی:"یارَبّ عَزَّ وَجَلَّ! میں تُجھ سے پَناہ مانگتا ہوں 60ھ کے آغاز اور لڑکوں کی حکومت سے ۔ اِس دُعا سے معْلوم ہوتا ہے کہ حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ جوحاملِ اَسْرار تھے، اِنھیں معلوم تھا کہ 60ھ کاآغاز لڑکوں کی حکومت اور فِتْنوں کا وَقْت ہے۔ اِن کی یہ دُعا قبول ہوئی اور انہوں نے 59 ھ میں بمُقامِ مدینہ طیّبہ رِحْلَتْ فرمائی ۔ (البدایہ والنہایہ ، تاریخ ابن خلدون ، کال ابن اثیر ، سوانح کربلا )
واقعہ ٔکربلا کے کچھ ہی دنوں کے بعد یزید ایک ہلاکت خیز اور انتہائی مُوذِی مَرَض میں مبُتلا ہوا، پیٹ کے دَرْد اور آنتوں کے زَخْموں کی ٹِیس (یعنی تکلیف) سے ماہیِ بے آب (یعنی جس طرح مچھلی پانی کے بغیر تڑپتی ہے) کی طرح تڑپتا رہتا تھا، حِمْص میں جب اُسے اپنی مَوت کا یقین ہوگیا تو اپنے بڑے لڑکے مُعاویہ بن یزید کو بِسْترِ مَرْگ پر بُلایا اور اُمورِ سَلْطَنَت کے بارے میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ بی ساخْتہ بیٹے کے مُنہ سے چیخ نکلی اور نہایت ذِلَّت و حقارت کے ساتھ یہ کہتے ہوئے باپ کی پیشکش کو ٹھکرا دِیا کہ : جس تاج و تخت پر آلِ رسول کے خُون کے دَھبّے ہیں، میں اُسے ہرگز قبول نہیں کرسکتا، خُدا اِس منحوس سَلْطَنَت کی وِرَاثَت سے مجھے مَحْرُوم رکھے، جس کی بنیادیں نواسَہ رسول کے خُون پر رکھی گئی ہیں . یزید اپنے بیٹے کے مُنہ سے یہ اَلْفاظ سُن کر تڑپ گیا اور شِدّتِ رَنْج و اَلَم سے بستر پر پاؤں پٹخنے لگا، مَوت سے کچھ دن پہلے یزید کی آنتیں سڑ گئیں اور اُس میں کیڑے پڑ گئے، تکلیف کی شِدّت سے خِنزیر کی طرح چیختا تھا، پانی کا قَطرہ حَلْق سے نیچے اُترنے کے بعد نِشْتَر کی طرح چبھنے لگتا تھا ، عجیب قَہْر ِالٰہی کی مار تھی، پانی کے بغیر بھی تڑپتا تھا اور پانی پاکر بھی چیختا تھا، بالآخر اِسی دَرد کی شِدّت سے تڑپ تڑپ کر اُس کی جان نکلی، لاش میں ایسی ہولناک بدبُو تھی کہ قریب جانا مشکل تھا، جیسے تیسے اُس کو سِپُردِ خاک کِیا گیا ۔ (تاریخ کربلا،ص۳۴۵،چشتی)
حضرت حسن بَصْری تابعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے’’دُنیا کی مَحَبَّت ہر بُرائی کی جَڑ ہے ۔ (الجامع الصغیر للسیوطی ص ۲۲۳ حدیث ۳۶۶۲)
یزید پلید کادِل چُونکہ دُنیائے نا پائیدار کی مَحَبَّت سے سَرشارتھا اس لیئے وہ شُہرت واِقْتِدار کی ہَوَس میں گرفتارہو گیا ۔ اپنے اَنْجام سے غافل ہو کر اس نے امامِ عالی مقام اورآپ کے رُفَقاء عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے خوْنِ ناحَقْ سے اپنے ہاتھوں کو رَنگ لیا ۔ جس اِقْتِدار کی خاطراس نے کَرْبَلا میں ظُلْمْ وسِتَمْ کی آنْدھیاں چَلائیں وہ اِقْتِدار اس کے لیے کچھ زِیادَہ ہی نا پائِیْدار ثابِت ہوا ۔ بَدْ نَصِیْب یزید صِرْف تین بَرَس چھ ماہ تَخْتِ حکومت پر شَیۡطَنَت (شرارَت وخَباثَت) کر کے ربیع الاوّل ۶۴ھ کو ملکِ شام کے شَہر "حَمْصْ" کے عَلاقے حُوّارَیْن میں ۳۹ سال کی عُمر میں مر گیا ۔ (الکامل فی التاریخ ج۳ ص۴۶۴،چشتی)
یزید پلید کی مَوْت کا ایک سَبَبْ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ ایک رُوْمی النَّسْل لڑکی کے عِشْق میں گرفتار ہو گیا تھا مگر وہ لڑکی انْدرُوْنی طور پر اِس سے نَفرت کرتی تھی۔ ایک دِن رَنگ رَلْیاں مَنانے کے بَہانے اس نے یزید کو دُور ویرانے میں تَنْہا بُلایا، وہاں کی ٹھنڈی ہواؤں نے یزید کو بَد مَسْت کر دیا۔ اس دوْشیْزَہ نے یہ کہتے ہوئے کہ جو بے غیرت ونابکار اپنے نبی کے نَواسے کا غَدَّار ہو وہ میرا کب وفادار ہو سکتا ہے، خَنْجَرِ آبْدار کے پے دَرْ پے وار کر کے چیر پھاڑ کر اس کو وَہیں پھیْنک دِیا۔ چند روز اس کی لاش چیْل کوّوں کی دعوت میں رہی۔ بالآخِر ڈھونڈتے ہوئے اُس کے اَہالی موالی(نوکر چاکر) وَہاں پہنچے اور گڑھا کھود کر اُس کی سَڑی ہوئی لاش کو وہیں داب آئے ۔ (اوراق غم ص۵۵۰)
یزید ملعون کی موت کی ایک روایت یہ ہے کہ بلاذری نے ایک شامی بوڑھے سے یزید کی موت کے سبب کے بارے میں لکھا ہے : ایک دن یزید نے اپنے بندر کو وحشی خچر کی پشت پر بٹھایا اور خود بھی ایسی حالت میں کہ مست اور مدہوش تھا، اس کے پیچھے دوڑنا شروع کر دیا، کہ اچانک زمین پر گرا، گردن ٹوٹ گئی اور پھر کھڑا نہیں ہو پایا . (ابن کثیر / ۴۳۶ /۸ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقو ل ہے کہ انہوں نے کہا : یزید حوارین میں مستی کی حالت میں شکار کی غرض سے گھوڑے پر بیٹھا اور اس کے آگے وہ وحشی خچر دوڑ رہی تھی جس پر بندر بیٹھا ہوا تھا، اس کے پیچھے یزید نے اپنے گھوڑے کو دوڑایا، اور یہ شعر پڑھا :
ابا خلف! احتل لنفسک حیلہ
فلیس علیھا ان ھلکت ضمان
یہ کہتے ہی وہ گھوڑے سے گرا اور گردن ٹوٹ گئی اور پھر اٹھ نہیں پایا ۔
(انساب الاشراف /۴/ق۲/۱)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment