Sunday, 9 September 2018

انبیاء کرام علیہم السّلام کو اپنے جیسا بشر کہنا کفار کا طریقہ ہے


انبیاء کرام علیہم السّلام کو اپنے جیسا بشر کہنا کفار کا طریقہ ہے

اگر کوئی شخص اپنی ماں کو باپ کی بیوی یا باپ کو ماں کا شوہر کہے تو اگر چہ یہ بات سچی ہے مگر بے ادب و گستاخ کہا جائے گا ۔اسی طرح آقائے دو جہاںصلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی عظمت والے القاب کے ہوتے ہوئے محض بشر یا بھائی کہنے والوں کو یقینا بے ادب و گستاخ کہا جائے گا اور نبی کو بشر کہنا مومنین کا طریقہ ہر گز نہیں رہا ہے بلکہ کفار کا طریقہ رہا ہے ۔سب سے پہلے شیطان نے نبی کو بشر کہا تھا شیطان کے بعد اور کفار نے اپنے نبی کو بشر کہا ۔قرآن کریم پڑھئےے،
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا ۔مَا نَرَاکَ اِلَّا بَشَرًا مِّث لَنَا ۔”نہیں دیکھتے ہم تم کو مگر اپنی مثل ایک بشر ۔
حضرت صالح علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا :مَا اَن تَ اِلَّا بَشَر مِّثلُنَا ۔”اور تو یہی ایک بشر ہے ہماری مثل ۔
حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم نے ان سے کہا تھا :وَمَا اَن تَ اِلَّا بَشَر مِّثلُنَا۔
اور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی قوم نے آپ کے بارے میں کہا :ھَل ھٰذَا اِلَّا بَشَر مِّث لُکُم ۔” یہ محض تم جیسے ایک معمولی آدمی ہیں ۔
مذکورہ آیات سے یہ حقیقت خوب آشکارا ہو جاتی ہے کہ انبیاء علیہم السّلام کو محض اپنے جیسا بشر کہنا کفار کا طریقہ رہا ہے ۔ تو یہ کتنی بڑی عاقبت نا اندیشی ہو گی کہ کفار کا طریقہ اپنایا جائے اور سرکار کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے اعلیٰ القاب کے ہوتے ہوئے بشر یا بھائی کہا جائے اور قرآن کریم کے ارشاد : اِنَّمَاالمُومِنُونَ اِخوَة ۔ سے دلیل پکڑ کر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو بھائی کہنا اعلیٰ درجہ کی حماقت ہے ۔ اس لیئے کہ آیت کریمہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کی امت کے حق میں ہے نہ کہ ہر قسم کے مومن کے بارے میں ۔ کیونکہ اگر ہر مومن بھائی ہو تو خدا بھی مسلمانوں کا بھائی ہو جائے گا ،کہ وہ بھی مومن ہے تو جب ہر مومن بھائی نہیں ،تو پھر حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم ہمارے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں ؟جبکہ ہم میں اور حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں صرف لفظ مومن میں اشتراک ہے ،حقیقت مومن میں نہیں ۔کہ ہم مومن ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم عین ایمان ۔ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ایمان دیکھی ہوئی چیزوں پر ہے، اور ہمارا ایمان ایسا نہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا کلمہ ہے ”اَنَا رَسُو لُ اللّٰہ “ اگر ہم کہیں تو کافر ہو جائیں ،ہمارے لئے ارکان اسلام پانچ ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کے لئے چار ،کہ آپ پر زکوٰة فرض نہیں ۔معلوم ہوا کہ ہم میں اور حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم میں حقیقت مومن میں اشتراک نہیں تو آپ ”اِنَّمَا المُومِنُو نَ اِخوَة“میں شامل نہیں ہو سکتے ،تو پھر آپ ہمارے بھائی کیسے ہو سکتے ہیں ؟اور جب آپ ہمارے بھائی نہیں تو پھر آپ کو بھائی کہنے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے ؟ کہ جب کوئی اپنے باپ کو بھائی نہیں کہتا کہ اس میں ان کی بے ادبی اور گستاخی ہے تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کو بھائی کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے ؟

قرآن کریم نے کفار کا یہ طریقہ بتایا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو بشر کہتے تھے۔
سورہ یسین آیت 15 : قَالُوا۟ مَآ أَنتُمْ إِلَّا بَشَرٌۭ مِّثْلُنَا وَمَآ أَنزَلَ ٱلرَّحْمَنُ مِن شَىْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا تَكْذِبُونَ ۔ ترجمہ : بولے تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی اور رحمٰن نے کچھ نہیں اتارا تم نِرے جھوٹے ہو ۔

سورہ مومنون آیت 34: ولئن اطعتم بشرا مثلكم انكم اذا لخاسرون ۔ ترجمہ : اور اگر تم کسی اپنے جیسے آدمی کی اطاعت کرو جب تو تم ضرور گھاٹے میں ہو۔

اس قسم کی بہت سی آیات ہیں۔ اسی طرح مساوات بتانا انبیاء کرام علیہم السلام کی شان گھٹانا طریقہ ابلیس ھے کہ اس نے کہا۔

سورہ اعراف آیت 12 : قال مامنعك الا تسجد اذ امرتك قال انا خير منه خلقتني من نار وخلقته من طين ۔ ترجمہ : فرمایا کس چیز نے تجھے روکا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے تجھے حکم دیا تھا۔ بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اسے مٹی سے بنایا۔

شیطان کا مطلب تھا کہ میں ان سے افضل ہوں۔ اسی طرح یہ کہنا کہ ہم میں اور پیغمبروں میں کیا فرق ہے۔ ھم بھی بشر وہ بھی بشر بلکہ ہم زندہ وہ مردے، یہ سب ابلیسی کام ہے۔ اللہ کریم جل شانہ ایسے گمراہ خیالات سے ہم سب مسلمانوں کو اپنی پناہ عطا فرمائے۔ آمین۔

قرآن پاک میں فرمان ہے ۔ سورہ کہف آیت 110 : قل انما انا بشر مثلكم يوحى الي انما الهاكم اله واحدا فمن كان يرجو لقاء ربه فليعمل عملا صالحا ولايشرك بعبادة ربه احدا
ترجمہ : تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں (222) مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے (223) تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے (224)
تفسیر : (222 ) کہ مجھ پر بشری اعراض و امراض طاری ہوتے ہیں اور صورتِ خاصّہ میں کوئی بھی آپ کا مثل نہیں کہ اللہ تعالٰی نے آپ کو حسن و صورت میں بھی سب سے اعلٰی و بالا کیا اور حقیقت و روح و باطن کے اعتبار سے تو تمام انبیاء اوصافِ بشر سے اعلٰی ہیں جیسا کہ شفاءِ قاضی عیاض میں ہے اور شیخ عبدالحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مشکوٰۃ میں فرمایا کہ انبیاء علیہم السلام کے اجسام و ظواہر تو حدِّ بشریت پر چھوڑے گئے اور ان کے ارواح و بواطن بشریت سے بالا اور ملاءِ اعلٰی سے متعلق ہیں ۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے سورۂ والضحٰی کی تفسیر میں فرمایا کہ آپ کی بشریت کا وجود اصلاً نہ رہے اور غلبۂ انوارِحق آپ پر علی الدوام حاصل ہو بہرحال آپ کی ذات و کمالات میں آ پ کا کوئی بھی مثل نہیں ۔ اس آیتِ کریمہ میں آپ کو اپنی ظاہری صورتِ بشریّہ کے بیان کا اظہار تواضع کے لئے حکم فرمایا گیا ، یہی فرمایا ہے کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے ۔ (تفسیر خازن،چشتی)

مسئلہ : کسی کو جائز نہیں کہ حضور کو اپنے مثل بشر کہے کیونکہ جو کلمات اصحابِ عزّت و عظمت بہ طریقِ تواضع فرماتے ہیں ان کا کہنا دوسروں کے لئے روا نہیں ہوتا ، دوئم یہ کہ جس کو اللہ تعالٰی نے فضائلِ جلیلہ و مراتبِ رفیعہ عطا فرمائے ہوں اس کے ان فضائل و مراتب کا ذکر چھوڑ کر ایسے وصفِ عام سے ذکر کرنا جو ہر کہ و مِہ میں پایا جائے ان کمالات کے نہ ماننے کا مُشعِر ہے ، سویم یہ کہ قرآنِ کریم میں جا بجا کُفّار کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ وہ انبیاء کو اپنے مثل بشر کہتے تھے اور اسی سے گمراہی میں مبتلا ہوئے پھر اس کے بعد آیت یُوْحٰۤی اِلَیَّ میں حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مخصوص بالعلم اور مکرّم عنداللہ ہونے کا بیان ہے ۔(223 )اس کا کوئی شریک نہیں ۔ (224 )شرکِ اکبر سے بھی بچے اور ریاء سے بھی جس کو شرکِ اصغر کہتے ہیں ۔ مسلم شریف میں ہے کہ جو شخص سورۂ کہف کی پہلی دس آیتیں حفظ کرے اللہ تعالٰی اس کو فتنۂ دجال سے محفوظ رکھے گا ۔ یہ بھی حدیث شریف میں ہے کہ جو شخص سورۂ کہف کو پڑھے وہ آٹھ روز تک ہر فتنہ سے محفوظ رہے گا۔

ہمارا عقیدہ : ہمارے پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم اللہ کریم جل شانہ کے بندے ہیں ، اللہ کریم جل شانہ کا نور ہیں لیکن اللہ کریم جل شانہ کے نور کا حصہ نہیں ہیں ۔ اللہ کریم جل شانہ وہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں، ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں اور اللہ کریم جل شانہ کے کرم سے اللہ کریم جل شانہ کی تمام مخلوقات میں سب سے بلند مقام نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ و صحبہ وسلّم کا ہے اور کوئی ان جیسا نہیں ہے، ان کی کوئی مثال نہیں ہے۔ ان سے کوئی نہ ہوا نہ ہو گا ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

No comments:

Post a Comment

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط

جاہل قصہ گو واعظین کا رد اور خطباء و مقررین کےلیے شرائط محترم قارئینِ کرام : مقرر کےلیے چار شرائط ہیں ، ان میں ایک بھی نہ پائی جائے تو تقریر...