سیرتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کیا ہے ؟
قدماء محدثین وفقہاء علیہم الرّحمہ ''مغازی وسیر''کے عنوان کے تحت میں فقط غزوات اوراس کے متعلقات کو بیان کرتے تھے مگر سیرت نبویہ کے مصنفین نے اس عنوان کو اس قدرو سعت دے دی کہ حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت سے وفات اقدس تک کے تمام مراحل حیات ،آپ کی ذات وصفات، آپ کے دن رات اورتمام وہ چیزیں جن کو آپ کی ذات والا صفات سے تعلقات ہوں خواہ وہ انسانی زندگی کے معاملات ہوں یا نبو ت کے معجزات ہوں ان سب کو ''کتاب سیرت '' ہی کے ابواب وفصول اورمسائل شمار کرنے لگے ۔
چنانچہ اعلان نبوت سے پہلے اور بعد کے تمام واقعات کا شانہ نبوت سے جبل حراء کے غار تک اورجبل حراء کے غار سے جبل ثور کے غار تک اورحرم کعبہ سے طائف کے بازار تک اورمکہ کی چراگاہوں سے ملک شام کی تجارت گاہوں تک اور ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے حجروں کی خلوت گاہوں سے لیکر اسلامی غزوات کی رزم گاہوں تک آپ کی حیات مقدسہ کے ہر ہرلمحہ میں آپ کی مقدس سیرت کاآفتاب عالم تاب جلوہ گر ہے ۔
اسی طرح خلفاء راشدین ہوں یادوسرے صحابۂ کرام ، ازواج مطہرات ہوں یا آپ کی اولاد عظام رضی اللہ عنہم اجمعین ، ان سب کی کتاب زندگی کے اوراق پر سیرت نبوت کے نقش ونگار پھولوں کی طرح مہکتے ، موتیوں کی طرح چمکتے اورستاروں کی طرح جگمگاتے ہیں۔ اور یہ تمام مضامین سیرت نبویہ کے ''شجرۃ الخلد ''ہی کی شاخیں ، پتیاں ، پھول اورپھل ہیں ۔
ملک عرب : یہ براعظم ایشیاء کے جنوب مغرب میں واقع ہے چونکہ اس ملک کے تین طرف سمندر نے اورچوتھی طرف سے دریائے فرات نے جزیرہ کی طرح گھیر رکھا ہے اس لئے اس ملک کو ''جزیرۃ العرب''بھی کہتے ہیں۔ اس کے شمال میں شام وعراق ، مغرب میں بحر احمر(بحیرۂ قلزم)جو مکہ معظمہ سے بجانب مغرب تقریباًستتر(77) کیلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اورجنوب میں بحر ہند اورمشرق میں خلیج عمان وخلیج فارس ہیں۔اس ملک میں قابل زراعت زمینیں کم ہیں اور اس کا کثیر حصہ پہاڑوں اورریگستانی صحراؤں پر مشتمل ہے ۔ (تاریخ دول العرب والاسلام جلد1ص3،چشتی)
علماء جغرافیہ نے زمینوں کی طبعی ساخت کے لحاظ سے اس ملک کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیاہے ۔ (1) حجاز (2) یمن (3) حضرموت (4) مہرہ (5) عمان (6)بحرین (7) نجد (7) احقاف ۔ (تاریخ دول العرب والاسلام جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 3)
حجاز : یہ ملک کے مغربی حصہ میں بحر احمر(بحیرۂ قلزم)کے ساحل کے قریب واقع ہے ۔ حجاز سے ملے ہوئے ساحل سمندر کو جو نشیب میں واقع ہے ''تہامہ''یا ''غور'' (پست زمین)کہتے اور حجاز سے مشرق کی جانب جو ملک کا حصہ ہے وہ ''نجد'' (بلند زمین)
کہلاتا ہے۔ ''حجاز''چونکہ ''تہامہ ''اور''نجد'' کے درمیان حاجز اور حائل ہے ا سی لئے ملک کے اس حصہ کو ''حجاز ''کہنے لگے ۔ (دول العرب والاسلام ج1 ص4)
حجاز کے یہ مقاما ت تاریخ اسلام میں بہت زیادہ مشہور ہیں ۔ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ، بدر ، احد ، خیبر، فدک، حنین، طائف ، تبوک ، غدیر خم، وغیرہ ۔ حضرت شعیب علیہ السلام کا شہر ''مدین ''تبوک کے محاذ میں بحراحمر کے ساحل پر واقع ہے۔ مقام ''حجر ''میں جووادی القریٰ ہے وہاں اب تک عذاب سے قوم ثمود کی الٹ پلٹ کردی جانے والی بستیوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔ ''طائف '' حجاز میں سب سے زیادہ سرد اورسرسبز مقام ہے اوریہاں کے میوے بہت مشہور ہیں ۔
مکہ مکرمہ : حجاز کا یہ مشہور شہر مشرق میں ''جبل ابوقبیس''اورمغرب میں ''جبل قعیقعان'' دوبڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اوراس کے چاروں طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اورر یتلے میدانوں کا سلسلہ دور دور تک چلا گیاہے ۔ اسی شہر میں حضور شہنشاہ کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی ۔ اس شہر اور اس کے اطراف میں مندرجہ ذیل مشہور مقامات واقع ہیں ۔ کعبہ معظمہ، صفامروہ ، منیٰ ، مزدلفہ ، عرفات ، غارِحرا،غارثور،جبل تنعیم ، جعرانہ وغیرہ ۔
مکہ مکرمہ کی بندرگاہ اورہوائی اڈا ''جدہ ''ہے۔ جو تقریباً چون کیلومیٹر سے کچھ زائدکے فاصلہ پر بحیرۂ قلزم کے ساحل پر واقع ہے ۔
مکہ مکرمہ میں ہر سال ذوالحجہ کے مہینے میں تمام دنیا کے لاکھوں مسلمان بحری، ہوائی اورخشکی کے راستوں سے حج کے لیے آتے ہیں ۔
مدینہ منورہ : مکہ مکرمہ سے تقریباً تین سو بیس کیلومیٹر کے فاصلہ پر مدینہ منورہ ہے جہاں مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لائے اوردس برس تک مقیم رہ کر اسلام کی تبلیغ فرماتے رہے اور اسی شہر میں آپ کا مزار مقدس ہے جو مسجد نبوی کےاندر''گنبدخضرا'' کے نام سے مشہورہے ۔ مدینہ منورہ سے تقریبا ساڑھے چارکیلومیٹر جانب شمال کو''احد ''کا پہاڑ ہے جہاں حق وباطل کی مشہورلڑائی ''جنگ احد''لڑی گئی اسی پہاڑ کے دامن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چچا حضرت سید الشہداء حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار مبارک ہے جو جنگ احد میں شہید ہوئے ۔ مدینہ منورہ سے تقریباپانچ کیلومیٹر کی دور ی پر ''مسجد قبا''ہے ۔ یہی وہ مقدس مقام ہے جہاں ہجرت کے بعد حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قیام فرمایا اوراپنے دست مبارک سے اس مسجد کو تعمیر فرمایااس کے بعد مدینہ منورہ میں تشریف لائے اورمسجد نبوی کی تعمیر فرمائی۔ مدینہ منورہ کی بندرگاہ ''ینبع ''ہے جو مدینہ منورہ سے ایک سو سترہ کیلومیٹر کے فاصلہ پر بحیرہ قلزم کے ساحل پر واقع ہے ۔
آخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم عرب میں کیوں ؟
اگر ہم عرب کو کرۂ زمین کے نقشہ پر دیکھیں تو اس کے محل وقوع سے یہی معلوم ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے ملک عرب کو ایشیا، یورپ اورافریقہ تین براعظموں کے وسط میں جگہ دی ہے اس سے بخوبی یہ سمجھ میں آسکتاہے کہ اگر تمام دنیا کی ہدایت کے واسطے ایک واحد مرکز قائم کرنے کے لیے ہم کسی جگہ کا انتخاب کرنا چاہیں تو ملک عرب ہی اس کے لیے سب سے زیادہ موزوں اورمناسب مقام ہے ۔ خصوصاً حضورخاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ پر نظر کر کے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب افریقہ اوریورپ اور ایشیا کی تین بڑی بڑی سلطنتوں کا تعلق ملک عرب سے تھا توظاہر ہے کہ ملک عرب سے اٹھنے والی آواز کو ان براعظموں میں پہنچائے جانے کے ذرائع بخوبی موجود تھے ۔ غالباً یہی وہ حکمت الہٰیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو ملک عرب میں پیدا فرمایا اور ان کوا قوام عالم کی ہدایت کا کام سپرد فرمایا ۔
عرب کی سیاسی پوزیشن : حضور نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے وقت ملک عرب کی سیاسی حالت کا یہ حال تھا کہ جنوبی حصہ پر سلطنت حبشہ کا اورمشرقی حصہ پر سلطنت فارس کا قبضہ تھااورشمالی ٹکڑا سلطنت روم کی مشرقی شاخ سلطنت قسطنطنیہ کے زیر اثر تھا۔ اندرون ملک بزعم خود ملک عرب آزاد تھا لیکن اس پر قبضہ کرنے کے لئے ہر ایک سلطنت کوشش میں لگی ہوئی تھی اوردرحقیقت ان سلطنتوں کی باہمی رقابتوں ہی کے طفیل میں ملک عرب آزادی کی نعمت سے بہرہ ور تھا ۔
عرب کی اخلاقی حالت : عرب کی اخلاقی حالت نہایت ہی ابتر بلکہ بد سے بدتر تھی جہالت نے ان میں بت پرستی کو جنم دیااوربت پرستی کی لعنت نے ان کے انسانی دل ودماغ پر قابض ہو کر ان کو توہم پرست بنادیا تھا وہ مظاہر فطرت کی ہر چیز پتھر ، درخت ، چاند ، سورج ، پہاڑ، دریا وغیرہ کو اپنا معبود سمجھنے لگ گئے تھے اورخود ساختہ مٹی اورپتھر کی مورتوں کی عبادت کرتے تھے۔ عقائد کی خرابی کے ساتھ ساتھ ان کے اعمال وافعال بے حد بگڑے ہوئے تھے ، قتل ، رہزنی ، جوا، شراب نوشی ، حرام کاری ، عورتوں کا اغواء ، لڑکیوں کو زندہ درگور کرنا ، عیاشی ، فحش گوئی ، غرض کون ساایسا گندہ اورگھناؤنا عمل تھا جو ان کی سرشت میں نہ رہا ہو۔ چھوٹے بڑے سب کے سب گناہوں کے پتلے اورپاپ کے پہاڑ بنے ہوئے تھے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد : بانئ کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک فرزند کا نام نامی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہے جو حضرت بی بی ہاجرہ کے شکم مبارک سے پیداہوئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو اوران کی والدہ حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو مکہ مکرمہ میں لاکر آباد کیا اور عرب کی زمین ان کو عطافرمائی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے فرزند کا نام نامی حضرت اسحاق علیہ السلام ہے جو حضر ت بی بی سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مقدس شکم سے تولد ہوئے تھے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کو ملک شام عطافرمایا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تیسری بیوی حضرت قطورہ کے پیٹ سے جو اولاد ''مدین ''وغیرہ ہوئے ان کو آپ نے یمن کا علاقہ عطافرمایا ۔
اولاد حضرت اسمٰعیل علیہ السلام : حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے بارہ بیٹے ہوئے اوران کی اولاد میں خدا وند قدوس نے اس قدر برکت عطافرمائی کہ وہ بہت جلد تمام عرب میں پھیل گئے یہاں تک کہ مغرب میں مصر کے قریب تک ان کی آبادیاں جاپہنچیں اورجنوب کی طرف ان کے خیمے یمن تک پہنچ گئے اورشمال کی طرف ان کی بستیاں ملک شام سے جاملیں۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ایک فرزند جن کا نام ''قیدار''تھا بہت ہی نامور ہوئے اوران کی اولاد خاص مکہ میں آباد رہی اوریہ لوگ اپنے باپ کی طرح ہمیشہ کعبہ معظمہ کی خدمت کرتے رہے جس کو دنیا میں توحید کی سب سے پہلی درسگاہ ہونےکا شرف حاصل ہے ۔ انہی قیدار کی اولاد میں ''عدنان'' نامی نہایت اولوالعزم شخص پیداہوئے اور ''عدنان''کی اولاد میں چند پشتوں کے بعد ''قصی''بہت ہی جاہ وجلال والے شخص پیدا ہوئے جنہوں نے مکہ مکرمہ میں مشترکہ حکومت کی بنیاد پر 440 میں ایک سلطنت قائم کی اورایک قومی مجلس (پارلیمنٹ)بنائی جو ''دارالندوہ''کے نام سے مشہور ہے اور اپنا ایک قومی جھنڈا بنایا جسکو ''لواء ''کہتے تھے اور مندرج ذیل چار عہدے قائم کئے۔ جن کی ذمہ داری چار قبیلوں کو سونپ دی ۔ (1) رفادۃ (2) سقایۃ (3) حجابۃ (4) قیادۃ ۔ ''قصی '' کے بعد ان کے فرزند ''عبد مناف'' اپنے باپ کے جانشین ہوئے پھر ان کے فرزند ''ہاشم ''پھر ان کے فرزند ''عبدالمطلب ''یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کے جانشین ہوتے رہے ۔ انہی عبدالمطلب کے فرزند حضرت عبداللہ ہیں۔ جن کے فرزند ارجمند ہمارے حضور رحمۃللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں ۔ جن کی مقدس سیرت پاک لکھنے کا خداوند عالم نے اپنے فضل سے ہم کو شرف عطافرمایا ہے ۔(چشتی)
سیرۃ النبی پڑھنے کا طریقہ : سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ آپ اس طرح نہ کریں جس طرح عام طور پر لوگ ناولوں یا قصہ کہانیوں ، یا تاریخی کتابوں کو نہایت ہی لاپروائی کے ساتھ پاکی ناپاکی ہر حالت میں پڑھتے رہتے ہیں اورنہایت ہی بے توجہی کے ساتھ پڑھ کر ادھر ادھر ڈال دیا کرتے ہیں بلکہ آپ اس جذبۂ عقیدت اور والہانہ جوش محبت کے ساتھ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کریں کہ یہ شہنشاہ دارین اورمحبوب رب المشرقین والمغربین کی حیات طیبہ اوران کی سیرت مقدسہ کا ذکر جمیل ہے جو ہماری ایمانی عقیدتوں کا مرکز اورہماری اسلامی زندگی کا محور ہے ۔ یہ محبوب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ان قابل احترام اداؤں کا بیان ہے جن پر کائنات عالم کی تمام عظمتیں قربان ہیں ، لہذا اس کے مطالعہ کے وقت آپ کو ادب واحترام کا پیکر بن کر اورتعظیم وتوقیر کے جذبات صادقہ سے اپنے قلب ودماغ کو منور کر کے اس تصور کے ساتھ اس کی ایک ایک سطر کو پڑھنا چاہیے کہ اس کا ایک ایک لفظ میرے لئے حسنات وبرکات کا خزانہ ہے اورگویا میں حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مقدس دربار میں حاضر ہوں اورآپ کی ان پیاری پیاری اداؤں کو دیکھ رہا ہوں اورآپ کے فیض صحبت سے انوار حاصل کر رہا ہوں ۔ حضرت ابو ابراہیم تجیبی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایا ہے کہ : ہر مومن پر واجب ہے کہ جب وہ رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر کرے یا اس کے سامنے آپ کا ذکر کیا جائے تو وہ پر سکون ہوکر نیاز مندی وعاجزی کا اظہار کرے، اوراپنے قلب میں آپ کی عظمت اورہیبت وجلال کاایسا ہی تاثر پیدا کرے جیسا کہ آپ کے روبرو حاضر ہونے کی صورت میں آپ کے جلال وہیبت سے متاثر ہوتا ۔ (کتاب الشفاء جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 32)
اورحضرت علامہ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ حضور انور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات اقدس کے بعد بھی ہرامتی پر آپ کی اتنی ہی تعظیم وتوقیر لازم ہے جتنی کہ آپ کی ظاہری حیات میں تھی ۔ چنانچہ خلیفہ بغداد ابو جعفر منصور عباسی جب مسجد نبوی میں آکر زور زور سے بولنے لگاتو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ا سکو یہ کہہ کر ڈانٹ دیا کہ اے امیر المومنین! یہاں بلند آواز سے گفتگونہ کیجئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وال وسلم کے دربار کا یہ ادب سکھایا کہ : لَا تَرْفَعُوۡۤا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ ۔ (پارہ ۲۶، الحجرات:۲) ۔ ترجمہ : یعنی نبی کے دربار میں اپنی آواز وں کو بلند نہ کرو ۔ ''وان حرمتہ میتا کحرمتہ حیا '' اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی وفات اقدس کے بعد بھی ہر امتی پر آپ کی اتنی ہی تعظیم واجب ہے جتنی کہ آپ کی ظاہری حیات میں تھی ۔ یہ سن کر خلیفہ لرزہ براندام ہوکر نرم پڑگیا ۔ (شفاء شریف ج2ص32وص33) ۔ بہرحال سیرت مقدسہ کی کتابوں کو پڑھتے وقت ادب واحترام لازم ہے اور بہتر یہ ہے کہ جب پڑھنا شروع کرے تو درود شریف پڑھ کر کتاب شروع کرے اور جب تک دلجمعی باقی رہے پڑھتا رہے اورجب ذرا بھی اکتاہٹ محسوس کرے تو پڑھنا بند کردے اور بے توجہی کے ساتھ ہرگز نہ پڑھے ۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment