فضائل و مناقب امیر المومنین حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ
خلیفۂ دوم ، ناطق حق وصواب ابو حفص سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ جنت کی اس عمومی بشارت کے باوصف خصوصی بشارت سے بھی سرفراز فرمائے گئے ۔ اللہ تعالی نے آپ کے ذریعہ پیام اسلام کو عام کیا ،آپ کی زبان مبارک پر حق کو جاری فرمایااور آپ کوحق وباطل کے درمیان وجہ امتیاز بنادیا۔
ولادت مبارک : سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی ولادت باسعادت سے متعلق امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے رقم فرمایا کہ آپ کی ولادت شریف عام الفیل کے تیرہ سال بعد ہوئی ۔ وَقَالَ النَّوَوِیُ وُلِدَ عُمَرُ بَعْدَ الْفِیْلِ بِثَلَاثَ عَشَرَةَ سَنَةً ۔ (تاریخ الخلفاء :ج1،ص43)
نام مبارک وکنیت شریفہ : آپ کا نام مبارک "عمر" اور کنیت شریفہ "ابو حفص" اور لقب مبارک "فاروق " ہے ۔
آپ کا نسب مبارک اس طرح ہے:سیدناعمر بن خطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لؤی ۔
قبولیت اسلام : سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اسلام لا نے کے بعد6 نبوی میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے اسلام قبول کیا ،اس وقت آپ کی عمر مبارک ستائیس (27) سال تھی ۔
عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبد العزی بن ریاح بن قرط بن رزاح بن عدی ابن کعب بن لؤی أمیر المؤمنین أبو حفص القرشی العدوی الفاروق اسلم فی السنة السادسة من النبوة وله سبع وعشرون سنة قاله الذهبی.(تاریخ الخلفاء :ج1،ص:43۔ الاکمال فی اسماء الرجال)
جامع ترمذی شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلاَمَ بِأَحَبِّ هَذَیْنِ الرَّجُلَیْنِ إِلَیْکَ بِأَبِی جهْلٍ أَوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.
ترجمہ : سیدنا عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : ائے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب ، دونوں میں جو تیرے محبوب ہیں ان کے ذریعہ اسلام کوغلبہ عطا فرما۔
(جامع الترمذی ، باب فی مناقب عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ ،حدیث نمبر4045)
البتہ سنن ابن ماجہ شریف کی روایت میں آپ ہی کے حق میں خصوصیت کے ساتھ یہ دعا مذکور ہے : عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ أَعِزَّ الإِسْلاَمَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً.
ترجمہ : ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے دعاء فرمائی:ائے اللہ تو بطور خاص عمر بن خطاب کو اسلام کی توفیق عطاکرکے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔
( سنن ابن ماجہ ، باب فضل عمر رضی اللہ عنہ۔ حدیث نمبر110)
آپ کے مشرف باسلام ہونے پر اہل آسمان نے خوشیاں منائیں
سنن ابن ماجہ شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ نَزَلَ جِبْرِیلُ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ لَقَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلاَمِ عُمَرَ.
ترجمہ : سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے ،آپ نے فرمایا :جس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مشرف باسلام ہوئے ،حضرت جبریل امین علیہ السلام حاضر خدمت ہوئے ،اور عرض کیا :ائے پیکر حمد وثنا صلی اللہ علیہ والہ وسلم !یقینا حضرت عمر کے اسلام قبول کرنے پر اہل آسمان نے خوشیاں منائیں ۔ (سنن ابن ماجہ ، باب فضل عمر رضی اللہ عنہ.حدیث نمبر 108،چشتی)
مشرف باسلام ہونے کا واقعہ : آپ کے مشرف باسلام ہونے کا واقعہ اس طرح ہے کہ آپ ایک دن ننگی تلوار لئے غصہ میں جارہے تھے راستہ میں حضرت نعیم بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، آپ کے اسلام کی حضرت عمر کو خبر نہیں تھی، پوچھا :ائے عمر!ننگی تلوار لئے کہاں جارہے ہو ؟ آپ نے کہا:آج بانئ اسلام کا فیصلہ کردینا چاہتا ہوں ۔ انہوں نے کہا:پہلے اپنے گھر کی خبر لو!تمہاری بہن فاطمہ بنت الخطاب رضی اللہ عنہا اور بہنوئی سعید بن زید رضی اللہ عنہ مسلمان ہوگئے ہیں ۔ آپ رخ بدل کر بہن کے گھر پہنچے اور دروازہ کھٹکھٹایا ، دونوں آیات قرآنی کی تلاوت کررہے تھے فوراً تلاوت موقوف کرکے بہن نے دروازہ کھولا ، حضرت عمر نے غصہ میں کہا: کیاتم نے بھی اسلام قبول کرلیا ؟پھر بہنوئی کی طرف جاکر انہیں زمین پر پٹخ دیا اور سینہ پرسوار ہوکر مارنے لگے، جب بہن روکنے کے لئے قریب آئیں تو انہیں ایسا طمانچہ مارا کہ چہرہ زخمی ہوکر خون سے لت پت ہوگیا، بہن نے بآواز بلند کہا: عمر! چاہے کچھ بھی کرلواسلام دل سے نہیں نکل سکتا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پربہن کے چہرہ کو دیکھ کر اور ایمانی جذبات سے لبریز یہ گفتگو سن کر رقت طاری ہوئی اور کچھ دیر خاموش رہے، پھر کہا: جو کچھ تم پڑھ رہے تھے وہ دکھاؤ تو بہن نے انہیں مصحف شریف عنایت فرمایا، پھر جب آیات قرآنی کے مبارک اوراق لئے تونظر سورۂ طٰہٰ کی ابتدائی آیات کریمہ پر پڑی ، آیات کریمہ پڑھ کر جسم کے رونگٹے کھڑے ہوگئے، بے اختیار پکار اٹھے : یہی معبود برحق ہے اس کے سوا حقیقت میں کوئی بندگی کے لائق نہیں ۔
اس وقت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دارِ ارقم میں تشریف فرماتھے، حضرت عمررضی اللہ عنہ بہن کے گھر سے ننگی تلوار لئے جب وہاں پہنچے تو دروازہ بند تھا، مسلمانوں کواس امر کی اطلاع مل چکی تھی ، دروازہ کھولنے میں تاخیر کررہے تھے، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :دروازہ کھول دو! اگر نیک نیتی سے آئے ہیں تو استقبال کیا جائے گا ورنہ اسی تلوار سے ان کا سر اڑا دیا جائے گا ۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے ،حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ائے عمر!کیا ابھی وقت نہیں آیا ہے، کیا ابھی باز نہیں آؤگے؟ اسلام میں داخل ہوجاؤ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بآواز بلند توحید و رسالت کی گواہی دی اور مشرف باسلام ہوگئے ، تمام مسلمانوں نے خوشی کے مارے نعرۂ تکبیر بلند کیا، اس موقع پر حضرت جبریل علیہ السلام خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! عمررضی اللہ عنہ کے مشرف باسلام ہونے پر تمام آسمان والوں نے ایک دوسرے کو مبارک باد پیش کی اور خوشیاں منائی ۔ پھر حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی گزارش پر علی الاعلان حرم کعبہ میں مسلمانوں نے نماز ادا کی ۔ (المواھب اللدنیہ مع حاشیہ الزرقانی ۔ ج 2 ۔ ص 4 ۔ زرقانی۔ج2 ۔ ص 5 ۔ سبل الھدی والرشاد ، ج2 ۔ ص 372)
قبولیت اسلام کے بعد بھی آپ کا تیور جلال ہمیشہ باقی رہا،سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کمال وارفتگی اور دین اسلام سے اٹوٹ وابستگی آپ کے دل میں ایسی گھر کرگئی تھی کہ ہر وقت آپ دین متین اور رسول امین کی شان اقدس کے دفاع کے لئے کمر بستہ رہتے،غزوۂ بدرکے موقع پر آپ نے جاں نثاری کا ایسا نمونہ پیش کیا ،جو تادم شمس وقمر تازہ رہے گا،چنانچہ آپ کا ماموں عاص بن ہشام میدان بدر میں مقابلہ کے لئے آیا،حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے خود آگے بڑھ کر اس سے مقابلہ کیا اور ایسی ضرب لگائی کہ وہ اسی دم جہنم رسید ہوگیا۔
(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر ،ج 2،ص 446)
فاروق اعظم کی شان عدالت : خلیفۂ دوم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی ذات والا صفات میں اللہ تعالی نے بے شمار کمالات ودیعت فرمائے ،آپ کی حیات طیبہ حقانیت وصداقت کی آئینہ دار اور عدل وانصاف کا معیار ہے،آپ کی صدق بیانی،حق پسندی اور عدل وانصاف کے اغیار بھی معترف ہیں،اور عدل وانصاف کے قیام کے لئے آپ کے دور خلافت کو ایک بہترین نمونہ سمجھتے ہیں،آپ کا دور خلافت سورۂ مائدہ کی اس آیت کریمہ کا سراسر مصداق ہے ، ارشاد الہی ہے : یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آَمَنُوا کُونُوا قَوَّامِینَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآَنُ قَوْمٍ عَلَی أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِیرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ۔ (سورۃ المائدۃ8)
ترجمہ : اے ایمان والو!اللہ کے لئے مضبوطی سے قائم رہنے والے اور انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ،اور ہرگزکسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر نہ اکسائے کہ تم عدل نہ کرو،عدل کیا کرو،یہی زیادہ تقوی کے نزدیک ہے،اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو،بے شک اللہ تعالی تمہارے اعمال سے خوب خبردار ہے۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ نے حق وانصاف کے قیام،حدود شریعت اور قوانین اسلام کے نفاذ کے لئے اپنوں اورغیروں میں کوئی امتیاز روا نہیں رکھا،غیر مسلموں کو بھی جان ومال کا تحفظ فراہم کیا ۔ مصنف ابن ابی شیبہ،شرح بخاری لابن بطال میں ہے : عن عبد الله بن عمر قال حدثنی من سمع سالما قال کان عمر إذا نهی الناس عن شیء جمع أهل بیته فقال إنی نهیت الناس کذا وکذا و ان الناس لینظرون إلیکم نظر الطیر إلی اللحم وأیم الله لا أجد أحدا منکم فعله إلا أضعفت له العقوبة ضعفین .
جب آپ کوئی فیصلہ فرماتے تو اپنے اہل خانہ کو جمع کرکے فرماتے:میں نے فلاں شیٔ سے لوگوں کو منع کیا ہے،اور لوگ تم پر اس طرح نظر رکھینگے جس طرح پرندہ گوشت پر رکھتا ہے،اگر اس ممنوع عمل کے تم مرتکب ہوگئے تو وہ بھی مرتکب ہوجائینگے،اگر تم اس سے دور رہوگے تو وہ بھی دور رہینگے،قسم بخدا!اگر تم میں سے کوئی وہ کام کر بیٹھے جس سے میں نے لوگوں کو منع کیا ہے تو میںاسے دوہری سزا دونگا ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الأمراء ، ما ذکر من حدیث الأمراء والدخول علیھم، حدیث نمبر: 30643۔شرح البخاری لابن بطال۔ الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاگزر ایک مکان کے پاس سے ہوا جہاں ایک مانگنے والا مانگ رہاتھا، بہت بوڑھا ، نابینا شخص ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا بازوپکڑا اور فرمایا ‘ جیسا کہ کتاب الخراج ص150‘ میں مذکور ہے:فماالجأک الی مااری قال اسال الجزیة والحاجة والسن فاخذ عمر بیده وذهب به الی منزله فرضخ له بشیء من المنزل ثم ارسل الی خازن بیت المال فقال انظر هذا وضربائه فوالله ما انصفنا ان اکلنا شبیبته ثم نخذله عند الهرم .
ترجمہ : تمہیں کس چیز نے اس حالت پر مجبور کیا ہے جو میں دیکھ رہاہوں؟ کہنے لگا جزیہ میرے ذمہ ہے، ضرورتمند ہوں اور بوڑھا ہوچکا ہوں ، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا، اپنے گھر لے گئے اور گھر سے کچھ سرفرازفرمایا پھر بیت المال کے خازن کے پاس پیغام بھیجا کہ اس کا اور اس جیسے بوڑھے غیرمسلموں کا خیال رکھو ، اگر ہم نے اس کی جوانی میں اس سے جزیہ وصول کیا پھر بڑھاپے میں اسے بے مدد چھوڑ دیں تواللہ کی قسم! ہم نے انصاف نہیں کیا۔ پھر آپ نے اس شخص کے اور اس جیسے بوڑھے غیر مسلم افراد کے ذمہ سے جزیہ ساقط کردیا ۔
فضائل وکمالات حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
جامع ترمذی شریف، اورابن ماجہ شریف،میں حدیث مبارک ہے : عَنْ حُذَیْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: اقْتَدُوا بِاللَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِی أَبِی بَکْرٍ وَعُمَرَ.
ترجمہ : سیدنا حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:میرے بعد جو دو(خلفاء )ہیں، ان کی اقتداء کرو یعنی ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما ۔ (جامع الترمذی ،ابواب المناقب،باب فی مناقب ابی بکر و عمر رضی اللہ عنہما،حدیث نمبر: 4023۔ سنن ابن ماجہ شریف،مقدمہ،باب فضل ابی بکرالصدیق رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر 102)
اس حکم کی وجہ یہ تھی کہ رب قدیر نے ان کی زبان ودل سے حقیقت کے چشموں کو جاری کردیا تھا ،اور راہ حق سے ان کے انحراف کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کی فضیلت میں یہ ارشاد فرمایا : عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : إِنَّ اللَّهَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلَی لِسَانِ عُمَرَ وَقَلْبِهِ.
ترجمہ : بے شک اللہ تعالی نے عمررضی اللہ عنہ کی زبان اور قلب پر حق کو جاری فرمادیا ہے ۔ (جامع الترمذی،حدیث نمبر:4046،چشتی)
یہی وجہ تھی کہ ابلیس لعین بھی آپ کی شخصیت کا سامنا نہیں کرسکتاتھا،اور جہاں کہیں آپ تشریف فرماہوتے وہاں سے راہ فرار اختیار کرجاتا تھا ۔ چنانچہ صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ أَبِیهِ قَالَ ۔۔۔۔۔ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِیهٍ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ ،وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِهِ مَا لَقِیَکَ الشَّیْطَانُ سَالِکًا فَجًّا إِلاَّ سَلَکَ فَجًّا غَیْرَ فَجِّکَ. ترجمہ:سیدنا محمد بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ائے ابن خطاب!مبارک ہو،اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے!شیطان تم سے کسی راستہ میں نہیں ملتا مگر وہ تمہارا راستہ چھوڑ کردوسرے راستہ پر چلاجاتاہے ۔ (صحیح البخاری،کتاب الادب،باب التبسم والضحک،حدیث نمبر6085)
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے خصوصی نسبت اور آپ کے عدل وصداقت کی برکت کی وجہ آپ کے دور خلافت میں مسلمان جہاں کہیں پہنچتے فتح ونصرت سے ہمکنار ہوتے ۔
وروی أن عمر بعث جنداً إلی مدائن کسری وأمر علیهم سعد بن أبی وقاص وجعل قائد الجیش خالد بن الولید، فلما بلغوا شط الدجلة ولم یجدوا سفینة تقدم سعد وخالد فقالا:یا بحر إنک تجری بأمر الله فبحرمة محمد صلی الله علیه وسلم وبعدل عمر خلیفة رسول الله إلا خلیتنا والعبور،فعبر الجیش بخیله وجماله إلی المدائن ولم تبتل حوافرها.
ایک مرتبہ آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کی سرکردگی میں ایک لشکر مدائن کی طرف روانہ فرمایا،جس کی قیادت حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ فرمارہے تھے،جب لشکر اسلام دریائے دجلہ کنارہ پہنچا اور کوئی کشتی نہ پائی تو حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور حضرت خالدبن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے آگے بڑھ کر دریائے دجلہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اے دریا!بے شک تو اللہ تعالی کے حکم سے جاری ہے،تجھے محمد عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا واسطہ،اور آپ کے خلیفۂ راشد حضرت فاروق اعظم کی عدالت کا واسطہ 'ہمیں راستہ فراہم کردے!تمام لشکربشمول گھوڑوںاور اونٹوں کے ہمراہ دریا میں اتر گیا،اورسارے لوگ سلامتی کے ساتھ دریاپارکرتے ہوئے مدائن تک پہنچ گئے حال یہ تھا کہ سواریوں کے کُھر تک تَر نہ ہوئے۔(الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہادت عظمی کی بشارت
صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے : عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ صَعِدَ النَّبِیُّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ إِلَی أُحُدٍ وَمَعَهُ أَبُو بَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ،فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ،قَالَ:اثْبُتْ أُحُدُ فَمَا عَلَیْکَ إِلاَّ نَبِیٌّ أَوْ صِدِّیقٌ أَوْ شَهِیدَانِ .
ترجمہ : سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ احد پہاڑ پر تشریف فرما ہوئے تو وہ اپنے مقدر پر ناز کرتے ہوئے فرط مسرت سے جھومنے لگا، حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قدم مبارک مار کر اس سے فرمایا :اے احد! تھم جا تجھ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایک صدیق اور دوشہید ہیں ۔ (صحیح البخاری شریف،حدیث نمبر3686،چشتی)
اکثر آپ مدینۂ طیبہ میں وفات پانے اور جام شہادت نوش کرنے کی دعا کیا کرتے جیساکہ صحیح بخاری شریف میں حدیث پاک ہے :
عَنْ زَیْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِیهِ عَنْ عُمَرَ رَضِیَ اللهُ عَنْهُ قَالَ اللَّهُمَّ ارْزُقْنِی شَهَادَةً فِی سَبِیلِکَ،وَاجْعَلْ مَوْتِی فِی بَلَدِ رَسُولِکَ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ .
ترجمہ : حضرت زید بن اسلم رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں :آپ دعاء فرماتے :اے اللہ ! تو مجھے اپنی راہ میں شہادت نصیب فرما،اور اپنے حبیب کے شہر مقدس میں مجھے وفات عطا فرما ۔ (صحیح بخاری،کتاب فضائل المدینۃ،باب کراہیۃ النبی ۔ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ أن تعری المدینۃ،حدیث نمبر1890)
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 63 سال کی عمر مبارک میں وصال ، قرب مصطفوی کی دلیل ہے
صحیح مسلم شریف میں روایت ہے : فَقَالَ مُعَاوِیَةُ قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ سَنَةً وَمَاتَ أَبُو بَکْرٍ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ وَقُتِلَ عُمَرُ وَهُوَ ابْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّینَ . ترجمہ:سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا ، اس وقت آپ کی عمر مبارک ترسٹھ (63) برس تھی، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی تو آپ کی عمر ترسٹھ (63) برس تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو آپ کی عمر مبارک بھی ترسٹھ( 63) برس تھی ۔ (صحیح مسلم ،باب کم أقام النبی ۔صلی اللہ علیہ وسلم۔ بمکۃ والمدینۃ.حدیث نمبر: 6244)۔(طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment