قسطوں پر کاروبار کرنے کی شرعی حیثیت
قسطوں پر خرید و فرخت جائز ہے ۔ یہ تجارت کی ایک جائز قسم ہے جس کے ناجائز ہونے کی کوئی شرعی وجہ نہیں۔ اصل میں ایک ہی سودا ہے جو نقد کی صورت میں کم قیمت پر اور قسط کی صورت میں قدرے زائد قیمت پر فروخت کنندہ اور خریدار کے ایجاب و قبول سے طے پاتا ہے۔ دونوں صورتیں چونکہ الگ الگ ہیں اور ایک میں دوسری صورت بطور شرط یا جزء شامل نہیں، لہٰذا یہ اُسی طرح جائز ہے جیسے ایک ہی منڈی کی مختلف دکانوں پر کسی شے کی قیمت میں فرق ہو سکتا ہے۔ یونہی منڈی، بازار اور پرچون کی دکان پر قیمت میں فرق ہوتا ہے ، لیکن کوئی ایک سودا دوسرے سے منسلک نہیں ہوتا ہے بلکہ ہر سودا مستقل اور الگ الگ ہے تو گویا یہ جائز ہے ۔
ایک اشکال حدیث پاک ہے : عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ رضی اﷲ عنه قَالَ نَهَی رَسُولُ اﷲِ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ ۔ ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو سودے کرنے سے منع فرمایا۔‘‘
(احمد بن حنبل، المسند، 2: 174، رقم: 6628، موسسة قرطبة مصر)(ابوداود، السنن، 3: 274، رقم: 3461، دار الفکر)(ترمذي، السنن، 3: 533، رقم: 1231، دار احياء التراث العربي بيروت)(مالک، الموطا، 2: 663، رقم: 1342، دار احياء التراث العربي مصر)(نسائي، السنن الکبری، 4: 43، رقم: 6228، دار الکتب العلمية بيروت،چشتی)
اس ارشاد مبارکہ میں ’ایک بیع میں دو سودے‘ کرنے سے مراد بسا اوقات یہ لیا جاتا ہے کہ نقد فروخت پر ایک قیمت اور اُدھار فروخت پر دوسری قیمت لینا ہے اور اس کو جواز بنا کر قسطوں پر خرید و فروخت کا عدمِ جواز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، مگر امام ترمذی رحمہ اﷲ علیہ نے اس فرمان کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے : حَدِيثُ اَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَالْعَمَلُ عَلَی هَذَا عِنْدَ اَهْلِ الْعِلْمِ وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ اَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ اَنْ يَقُولَ اَبِيعُکَ هَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ وَلَا يُفَارِقُهُ عَلَی اَحَدِ الْبَيْعَيْنِ فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَی اَحَدِهِمَا فَلَا بَاْسَ إِذَا کَانَتِ الْعُقْدَهُ عَلَی اَحَدٍ مِنْهُمَا.
قَالَ الشَّافِعِيُّ وَمِنْ مَعْنَی نَهْيِ النَّبِيِّ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ اَنْ يَقُولَ اَبِيعُکَ دَارِي هَذِهِ بِکَذَا عَلَی اَنْ تَبِيعَنِي غُلَامَکَ بِکَذَا فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلَامُکَ وَجَبَت لَکَ دَارِي وَهَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ وَلَا يَدْرِي کُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَی مَا وَقَعَتْ عَلَيْهِ صَفْقَتُهُ.
ترجمہ : حدیث ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ حسن صحیح ہے، علماء کا اس پر عمل ہے۔ بعض علماء نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ کوئی شخص کہے میں آپ کے ہاتھ پہ یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور کسی ایک سودے کو متعین کر کے جدا نہ ہو۔ اگر ایک سودے کا فیصلہ کر کے جدا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
امام شافعی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو سودوں سے جو منع فرمایا اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کہے میں اپنا یہ مکان تیرے ہاتھ پر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچتا ہوں کہ تو مجھے اپنا غلام اتنی قیمت میں فروخت کرے۔ جب تیرا غلام مجھے مل جائے گا، میرا مکان تیرا ہو جائے گا۔ یہ ایسی بیع پر علیحدگی ہے جس کی قیمت معلوم نہیں اور دو میں سے کسی کو بھی معلوم نہیں میرا سودا کتنے پر طے ہوا ہے ۔ (ترمذی، السنن، 3: 533،چشتی)
امام کاسانی اس ارشاد نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر فقہی مؤقف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ان رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم نهی عن بيعين في بيع وکذا إذا قال بعتک هٰذا العبد بالف درهم إلی سنة او بالف وخمس مائة إلی سنتين لان الثمن مجهول وقيل هو الشرطان في بيع.
وقد روي ان رسول اﷲ صلیٰ الله عليه وآله وسلم نهی عن شرطين في بيع ولو باع شيئا بربح ده باز ده ولم يعلم المشتري راس ماله فالبيع فاسد حتی يعلم فيختار او يدع هکذا روي ابن رستم عن محمد لانه لم يعلم راس ماله کان ثمنه مجهولا وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فاذا علم ورضي به جاز البيع لان المانع من الجواز وهو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس.
ترجمہ : بے شک رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سودے میں دو سودے منع فرمائے۔ یونہی جب یہ کہا میں نے تیرے ہاتھ یہ غلام سال تک ایک ہزار یا دو سال کے لئے ڈیڑھ ہزار میں بیچا کیونکہ قیمت نامعلوم ہے۔ اور کہا گیا ہے کہ اس کا مطلب ہے ایک سودے میں دو شرطیں لگانا۔
اور روایت ہے کہ رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سودے میں دو شرطوں سے منع فرمایا ہے۔ اور اگر کوئی چیز یہ کہہ کر فروخت کی کہ دس پھر دس کے منافع کے ساتھ اور خریدار کو اصل قیمت کا پتہ ہی نہیں تو یہ بیع فاسد ہے۔ جب تک قیمت معلوم کر کے اسے اختیار نہ کرے یا چھوڑ دے۔ ابن رستم نے امام محمد رحمہ اﷲ سے یہی مفہوم روایت کیا ہے۔ کیونکہ اصل قیمت کا علم ہی نہیں تو مال کی مقدار معلوم نہ قیمت اور قیمت کی جہالت سودا جائز ہونے میں رکاوٹ ہے۔ جب خریدار کو مال اور قیمت دونوں کا علم ہو گیا اور وہ اس پر راضی ہو گیا تو بیع جائز ہے۔ کیونکہ اس سودے کے جواز میں سودا کرتے وقت یہی جہالت تھی جو اسی مجلس میں ختم ہو گئی ۔ (علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 158، بيروت، لبنان: دار الکتاب العربي،چشتی)
اس تفصیل سے یہ حقیقت پوری طرح واضح ہو گئی کہ نقد اور اُدھار کے لیے دو علیحدہ علیحدہ قیمتیں مقرر کرنے سے اس حدیث کی مخالفت نہیں ہوتی جس میں نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع سے منع فرمایا ہے۔ جب خریدار اور فروخت کنندہ، نقد اور ادھار کی وضاحت کر کے جدا ہو جائیں اور کسی ایک صورت کا تعین نہ کریں تو اس صورت میں سودا کرنا جائز نہیں، کیونکہ اس میں نہ قیمت کا تعین ہوا نہ مبیع کا، تو دونوں کی لاعلمی جھگڑے کا سبب بنے گی۔ قسطوں کی تجارت میں ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں بیع، قیمت اور مدت، ہر ایک کا تعین بروقت ہو جاتا ہے۔ کسی قسم کی جہالت باقی نہیں رہتی۔ اس طرح جب قیمت کا تعین ہو گیا، قسطیں اور ان کی شرح بھی متعین ہو گئی تو بیع ایک ہی ہے، دو نہ ہوئے اور ممانعت ایک بیع میں دو سودے کی ہے ایک کی نہیں ۔
نقد اور ادھار میں فرق کے بارے میں علامہ علاؤ الدین کاسانی فرماتے ہیں : لامساواة بين النقد والنسيئة لان العين خير من الدين والمعجّل اکثر قيمة من الموجل.
ترجمہ : نقد اور ادھار برابر نہیں، کیونکہ معین و مقرر چیز قرض سے بہتر ہے اور قیمت کی فوری ادائیگی میعادی قرض والی سے بہتر ہے ۔ (علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 187،چشتی)
اُدھار بیچنے کی وجہ صورت میں اصل قیمت میں زیادتی کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : لوشتری شيئا نسيئة لم يبعه مرابحة حتی يبيّن لان للاجل شبهة المبيع وإن لم يکن مبيعا حقيقة لانه مرغوب فيه الاتری ان الثمن قد يزاد لمکان الاجل . ترجمہ : اگر ایک چیز قرض پر خریدی، اسے فائدہ لے کر، اس وقت تک آگے نہ بیچے جب تک اس کی وضاحت نہ کر دے کیونکہ مدت، مبیع (بکاؤ مال) کے مشابہ ہے، گو حقیقت میں مبیع نہیں، اس لئے مدت کی رعایت بھی رغبت کا باعث ہوتی ہے، دیکھتے نہیں کہ مدت مقررہ کی وجہ سے کبھی قیمت بڑھ جاتی ہے ۔ (علاء الدين الکاساني، بدائع الصنائع، 5: 224)
یعنی اُدھار بیچنے کی صورت میں شے کی اصل قیمت میں زیادتی کرنا جائز ہے، یہ سود نہیں، تاہم ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ عائد کرنا سود کے زمرے میں آتا ہے۔ بیع التقسیط (قسطوں پر خرید و فروخت) کے لیے ضروری ہے کہ ایک ہی مجلس میں یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ خریدار نقد لے گا یا اُدھار قسطوں پر، تاکہ اسی کے حساب سے قیمت مقرّر کی جائے۔ اس شرط کے ساتھ قسطوں پر اشیاء کی تجارت کرنا اور اس تجارت میں کسی کی معاونت کرنا شرعاً جائز ہے ۔
قسطوں پر گاڑی خریدنے کے متعلق ایک سوال کا جواب
سوال : کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ: ہمارے معاشرے میں بعض چیزیں دکاندار اگر نقد دیتے ہیں تو کم ریٹ لگاتے ہیں اور اگر قسطوں پر دیتے ہیں تو زیادہ ریٹ لگاتے ہیں، مثلاً رکشہ نقد بیچتے ہیں تو (1,80,000) ایک لاکھ اسّی ہزار روپے ریٹ لگاتے ہیں اور جب یہی رکشہ قسطوں پر بیچتے ہیں تو (2,40,000) دو لاکھ چالیس ہزار روپے ریٹ وصول کرتے ہیں۔ ماہانہ آٹھ سے دس ہزار روپے قسط ہوتی ہے اور کسی مجبوری کی وجہ سے وہ خریدنے والا قسط ادا نہ کرسکے تو دکاندار مطلوبہ رقم سے زیادہ وصولی نہیں کرتا ، بلکہ رکشے کے کاغذات ضبط کرلیتا ہے اور قسط ادا کرنے کی صورت میں کاغذات واپس کردیتا ہے۔ کیا یہ صورت شریعت کی روسے جائز ہے یا ناجائز ہے؟ کیا یہ سود تو نہیں ہے ؟ وضاحت : دوسری قسط میں تاخیر ہوجانے پر گاڑی ضبط کرلیتے ہیں ، پھر اگر وہ دوماہ قسطیں نہ دے سکا تو گاڑی بھی ضبط اورجو قسطیں اس نے بھری ہیں وہ بھی ضبط ہوجاتی ہیں ؟
جواب باسمہٖ تعالٰی صورتِ مسؤلہ میں قسطوں پر خرید وفروخت کی پہلی صورت جس میں مقررہ قسط کی متعینہ وقت پر ادائیگی نہ ہونے کی صورت میں اضافی رقم وصول نہیں کی جاتی، صرف کاغذات ضبط کرلیے جاتے ہیں، جو کہ قسط کی ادائیگی پر واپس بھی کردیئے جاتے ہیں، یہ معاملہ جائز ہے، بشرطیکہ نقد واُدھار کی دونوں قیمتیں خرید وفروخت کی مجلس میں ذکر ہوکر ادھار پر معاملہ کرنا طے ہوچکا ہو۔ جبکہ مؤخر الذکر صورت جس میں قسط ادا نہ کرسکنے کی نوبت آنے پر گاڑی اور ادا شدہ رقم ضبط کرلی جاتی ہے،یہ شرعاً ناجائز ہے۔ اگر کوئی شخص مجبوری کی بنا پر قسطیں ادا نہ کرسکے تو ادائیگی میں مہلت دے دینا کارِ ثواب ہے۔ اگر کسی مجبور شخص کو مہلت دینا کسی وجہ سے مفید نہ ہو تو بیع کالعدم قرار دی جائے اور اداشدہ رقم واپس کردی جائے۔ اگر خریدار شخص محض ٹال مٹول سے کام لے رہا ہو تو ایسے شخص پر دباؤ ڈالنے کے لیے اس پر فروخت شدہ گاڑی یا اس کی کوئی اور قیمتی چیز اپنی قیمت کی وصولی کے لیے محض قبضہ میں لی جاسکتی ہے، مگر اس چیز کو مالک(خریدار) شخص کی مرضی یا عدالت کی مداخلت کے بغیر بیچنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر جائز طریقہ سے بیچنے کی نوبت آجائے تو ایسی صورت میں خریدار کے ذمہ واجب الاداء رقم وصول کرکے بلاکم وکاست بقیہ رقم خریدار کے حوالہ کرنا شرعاً لازم ہوگا۔ المبسوط للسرخسی میں ہے: ’’وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل بکذا وبالنقد بکذا أو (قال) إلی شہر بکذا وإلی شہرین بکذا فہو فاسد لأنہ لم یعاملہ علی ثمن معلوم ولنہی النبی a یوجب شرطین فی بیع وہذا ہو تفسیر الشرطین فی البیع ومطلق النہی یوجب الفساد فی العقد الشرعیۃ وہذا إذا افترقا علی ہذا ۔۔۔۔۔۔ فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرقا حتی قاطعہٗ علی ثمن معلوم وأتما العقدَ فہو جائز لأنہما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحۃ العقد الخ۔‘‘ (المبسوط للسرخسی،ج:۸،ص:۱۳) بدائع الصنائع میں ہے: ’’وکذا إذا قال: بعتک ہذا العبد بألف درہم إلی سنۃ أو بألف وخمسمأۃ إلی سنتین لأن الثمن مجہول ۔۔۔۔۔۔ فإذا علم ورضی بہ جاز البیع لأن المانع من الجواز ہو الجہالۃ عند العقد وقد زالت فی المجلس ولہٗ حکم حالۃ العقد، فصار کأنہ کان معلوما عند العقد وإن لم یعلم بہٖ حتی إذا افترقا تقرر الفساد۔‘‘ (بدائع الصنائع ،ج:۵،ص:۱۵۸) فتاویٰ شامی میں ہے: ’’ وفی شرح الآثار التعزیر بأخذ المال کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ۔ والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال‘‘۔ (فتاویٰ شامی، ج:۳، ص:۶۱-۶۲،ط:سعید) ’’ والقاضی یحبس الحر المدیون لیبیع مالہ لدینہ وقضی دراہم دینہ من دراہمہ یعنی بلاأمرہ ، وکذا لوکان دنانیر وباع دنانیرہ بدراہم دینہ وبالعکس استحسانًا لاتحادہما فی الثمنیۃ لایبیع القاضی عرضہ ولاعقارہ للدین خلافًا لہما وبہ أی بقولہما ببیعہما للدین یفتی اختیار۔ وصححہ فی تصحیح القدوری ویبیع کل مالایحتاجہ فی الحال‘‘۔ قال العلامۃ الشامی رحمہ اللّٰہ: ’’أقول: رأیت فی الحظر والإباحۃ من المجتبٰی رامزًا مانصہٗ وجد دنانیر مدیونہ ولہ علیہ درہم لہ أن یأخذ لاتحادہما جنسًا فی الثمنیۃ ۔۔۔۔۔ تنبیہ:قال الحموی فی شرح الکنز نقلاً عن العلامۃ المقدسی عن جدہٖ الأشقر عن شرح القدوری للأخصب: إن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس کان فی زمانہم لمطاوعتہم فی الحقوق والفتوی الیوم علٰی جواز الأخذ عند القدرۃ من أی مال کان لاسیما فی دیارنا لمداومتہم العقوق ‘‘۔ (فتاویٰ شامی، ج:۶، ص:۱۵۰-۱۵۱،ط:سعید)
قرآرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’وَإِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ إِلٰی مَیْسَرَۃٍ الخ ‘‘۔ (البقرۃ:۲۸۰) ۔ ترجمہ : اور اگر قرضدار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک، اور قرض اس پر بالکل چھوڑ دینا تمہارے لئے اور بھلا ہے اگر جانو ۔ (طالب دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)
No comments:
Post a Comment